نیب میں اعلیٰ تعیناتیاں غیر قانونی ہیں
نیب آرڈیننس میں یا تو نیب کا چیئرمین ہوتا ہے یا ڈپٹی چیئرمین: عدالت
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قائم مقام چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ایک ماہ کے اندر اندر ان عہدوں پر نئی تعیناتیاں کرنے کا حکم دیا ہے۔
بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ پڑھ کر سُنایا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں نیب کے پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر کو فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا حکم بھی دیا۔
یہ فیصلہ بینچ میں شامل جسٹس غلام ربانی نے لکھا ہے اور انہوں نے ہی یہ فیصلہ پڑھ کر سُنایا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ نیب آرڈیننس میں یا تو نیب کا چیئرمین ہوتا ہے اور یا ڈپٹی چیئرمین۔ عدالت کا کہنا تھا کہ نیب میں قائمقام چیئرمین کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کا کہنا ہے کہ ان افراد کی تعیناتی سے متعلق مختلف درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں جن میں سے ایک درخواست بینک آف پنجاب کی طرف سے بھی دائر کی گئی تھی۔
اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر حارث سٹیل ملز کے ڈائریکٹروں کے وکیل بھی رہے ہیں جنہوں نے بینک آف پنجاب سے نو ارب روپے سے زائد کا قرضہ لیا تھا۔
بینک آف پنجاب کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عرفان قادر پر بینک آف پنجاب کے ملزمان سے پیسے لینے کا الزام ہے اور مزکورہ شخص کے نیب کے پراسکیوٹر جنرل کے عہدے پر موجود ہونے کی وجہ سے اس مقدمے کی تحقیقات غیر جانبدارانہ نہیں ہوسکتی۔
واضح رہے کہ عرفان قادر پہلے بھی نیب کے پراسکیوٹر جنرل رہ چکے ہیں جبکہ نیب آرڈیننس کے تحت اس عہدے پر کسی شخص کو دوسری مرتبہ تعینات نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے سولہ دسمبر سنہ دوہزار نو کو قومی مصالتی آرڈیننس یعنی این آر او کے خلاف اپنے فیصلے میں عدالت کو حقائق سے گمراہ کرنے پر اُس وقت کے نیب کے چیئرمین نوید احسن اور پراسکیوٹر جنرل ڈاکٹر دانشور ملک کو اپنے عہدوں سے ہٹانے کے بارے میں احکامات جاری کیے تھے۔
نوید احسن تو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے جبکہ حکومت نے پراسیکیوٹر جنرل ڈاکٹر دانشور ملک کو عہدے سے ہٹا دیا۔ حکومت نے جاوید قاضی کو نیب کے قائم مقام چیئرمین کےعہدے پر تعینات کردیا تھا۔
عدالت نے نیب کے چیئرمین کو صدر آصف علی زردرای کے خلاف سوئس عدالتوں میں مقدمات دوبارہ کھولنے کا بھی حکم دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔
حارث سٹیل ملز کے ڈائریکٹر شیخ افضل نے الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے مقدمہ ختم کروانے کے لیے اُس وقت کے اُن کے وکیل اور موجودہ وزیر قانون بابر اعوان کو چار کروڑ روپے کے علاوہ سپریم کورٹ کے سنیئر قانون دان شریف الدین پیزادہ کو ڈھائی کروڑ روپے، سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کو دو کروڑ اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور سنئیر قانون دان وسیم سجاد کو ایک کروڑ بیس لاکھ روپے دیے تھے۔
اس کے علاوہ انھوں نے نیب کے موجودہ پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر کو بھی مقدمہ ختم کروانے کے لیے پیسے دینے کا الزام لگایا تھا۔
عرفان قادر اُن ججوں میں شامل تھے جنہوں نے سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اُٹھایا تھا تاہم اکتیس جولائی سنہ دوہزار نو کو پرویز مشرف کے اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے میں پی سی او ججوں کی تعیناتی غیر آئینی قرار دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قائم مقام چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ایک ماہ کے اندر اندر ان عہدوں پر نئی تعیناتیاں کرنے کا حکم دیا ہے۔
بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ پڑھ کر سُنایا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں نیب کے پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر کو فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا حکم بھی دیا۔
یہ فیصلہ بینچ میں شامل جسٹس غلام ربانی نے لکھا ہے اور انہوں نے ہی یہ فیصلہ پڑھ کر سُنایا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ نیب آرڈیننس میں یا تو نیب کا چیئرمین ہوتا ہے اور یا ڈپٹی چیئرمین۔ عدالت کا کہنا تھا کہ نیب میں قائمقام چیئرمین کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کا کہنا ہے کہ ان افراد کی تعیناتی سے متعلق مختلف درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں جن میں سے ایک درخواست بینک آف پنجاب کی طرف سے بھی دائر کی گئی تھی۔
اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر حارث سٹیل ملز کے ڈائریکٹروں کے وکیل بھی رہے ہیں جنہوں نے بینک آف پنجاب سے نو ارب روپے سے زائد کا قرضہ لیا تھا۔
عرفان قادر پر بینک آف پنجاب کے ملزمان سے پیسے لینے کا الزام ہے اور مزکورہ شخص کے نیب کے پراسکیوٹر جنرل کے عہدے پر موجود ہونے کی وجہ سے اس مقدمے کی تحقیقات غیر جانبدارانہ نہیں ہوسکتی
خواجہ حارث
بینک آف پنجاب کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عرفان قادر پر بینک آف پنجاب کے ملزمان سے پیسے لینے کا الزام ہے اور مزکورہ شخص کے نیب کے پراسکیوٹر جنرل کے عہدے پر موجود ہونے کی وجہ سے اس مقدمے کی تحقیقات غیر جانبدارانہ نہیں ہوسکتی۔
واضح رہے کہ عرفان قادر پہلے بھی نیب کے پراسکیوٹر جنرل رہ چکے ہیں جبکہ نیب آرڈیننس کے تحت اس عہدے پر کسی شخص کو دوسری مرتبہ تعینات نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے سولہ دسمبر سنہ دوہزار نو کو قومی مصالتی آرڈیننس یعنی این آر او کے خلاف اپنے فیصلے میں عدالت کو حقائق سے گمراہ کرنے پر اُس وقت کے نیب کے چیئرمین نوید احسن اور پراسکیوٹر جنرل ڈاکٹر دانشور ملک کو اپنے عہدوں سے ہٹانے کے بارے میں احکامات جاری کیے تھے۔
نوید احسن تو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے جبکہ حکومت نے پراسیکیوٹر جنرل ڈاکٹر دانشور ملک کو عہدے سے ہٹا دیا۔ حکومت نے جاوید قاضی کو نیب کے قائم مقام چیئرمین کےعہدے پر تعینات کردیا تھا۔
عدالت نے نیب کے چیئرمین کو صدر آصف علی زردرای کے خلاف سوئس عدالتوں میں مقدمات دوبارہ کھولنے کا بھی حکم دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔
حارث سٹیل ملز کے ڈائریکٹر شیخ افضل نے الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے مقدمہ ختم کروانے کے لیے اُس وقت کے اُن کے وکیل اور موجودہ وزیر قانون بابر اعوان کو چار کروڑ روپے کے علاوہ سپریم کورٹ کے سنیئر قانون دان شریف الدین پیزادہ کو ڈھائی کروڑ روپے، سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کو دو کروڑ اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور سنئیر قانون دان وسیم سجاد کو ایک کروڑ بیس لاکھ روپے دیے تھے۔
اس کے علاوہ انھوں نے نیب کے موجودہ پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر کو بھی مقدمہ ختم کروانے کے لیے پیسے دینے کا الزام لگایا تھا۔
عرفان قادر اُن ججوں میں شامل تھے جنہوں نے سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اُٹھایا تھا تاہم اکتیس جولائی سنہ دوہزار نو کو پرویز مشرف کے اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے میں پی سی او ججوں کی تعیناتی غیر آئینی قرار دی گئی تھی۔