اور دو بھائیوں کی لڑائی میں اُمت کے جو ہزاروں فرزند شہید (مارے گئے) ہوئے اُن کا خون کِس کے سر ہے؟
قاتل بھی رضی اللہ اور مقتول بھی؟
علی بھی حق اور معاویہ بھی سچ؟
!ایک سائیڈ پکڑو یار
لغت میں بغاوت کا مطلب ہے طلب کرنا جبکہ عرف میں بغاوت کا مطلب ہے اس شئے کو طلب کرنا جو حلال نہ ہو۔ شرعی طور پر باغی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائیں
مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے تفہیم القرآن، ج 5 ص 80 میں لکھا:
ابن ھمام نے فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھا ہے کہ علماء کا اجماع ہے کہ باغی وہ ہے جو امام ِحق کی نافرمانی کرے۔ امام شافعی نے کتاب الام میں لکھا ہے کہ باغی وہ ہے جو عادل امام سے جنگ کرے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ یہ فرض ہے کہ جو کوئی عادل امام کی مخالفت کرے اس سے جنگ کی جائے۔
باغی کی نماز ِجنازہ پڑھنے کی ممانعت
امام نووی کتاب المنہاج، ج 7 ص 47 میں رقمطراز ہیں:
وقال أبو حنيفة لا يصلى على محارب ولا على قتيل الفئة الباغية وقال قتادة لا يصلى على ولد الزنى
امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر باغی یا ڈکیت گروہ کا کوئی رکن مرجائے تو اس کی نماز ِجنازہ ادا نہیں کرنی چاہیے جبکہ قتادہ کا کہنا ہے کہ زنا سے پیدا ہوئے شخص کی بھی نماز ِجنازہ نہیں پڑھنی چاہئے۔
تو معلوم ہوا کہ معاویہ کی نماز ِجنازہ تو اہل ِسنت کے کسی اصول کے مطابق بھی ادا نہیں ہوسکتی!
در المختار، ج 2 ص 282 میں ہم پڑھتے ہیں:
وهي فرض على كل مسلم مات، خلا) أربعة: (بغاة، وقطاع طريق) فلا يغسلوا، ولا يصلى عليهم
یہ فرض ہے کہ ہر مسلمان کے مرنے کے بعد اس کی نمازِجنازہ پڑھی جائے سوائے چار کے، یعنی باغی اور چور کے، نہ تو ان کو غسل دیا جانا چاہیئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ ادا کرنی چاہیئے۔
امام ِوقت کے خلاف بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے
قاضی شوکانی نیل الاوطار، ج 7 ص 198 میں لکھتے ہیں:
واعلم أن قتال البغاة جائز إجماعا كما حكي ذلك في البحر ولا يبعد أن يكون واجبا لقوله تعالى { فقاتلوا التي تبغي ** وقد حكي في البحر أيضا عن العترة جميعا أن جهادهم أفضل من جهاد الكفار إلى ديارهم إذ فعلهم في دار الإسلام كفعل الفاحشة في المسجد
یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ باغی کے خلاف لڑنا جائز ہے جیسا کہ البحر میں درج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو ایسا کرنا واجب ہے: "فقاتلوا التي تبغي" اور البحر میں یہ بھی درج ہے کہ تمام عترت کا کہنا ہے کہ باغیوں سے لڑنا کفار سے ان کی زمین پر لڑنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ باغیوں کا مسلمانوں کی زمین پر بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے۔
یعنی معاویہ نے مسجد میں زنا کا ارتکاب کیا ہے!
معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے جنگ کی جو کہ امام و خلیفہ ِحق تھے
ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 7 ص 253 میں لکھتے ہیں:
وخرج علي إلى المسجد فصعد المنبر وعليه إزار وعمامة خز ونعلاه في يده، توكأ على قوسه، فبايعه عامة الناس
بوقت ِبیعت حضرت علی مسجد کی طرف گئے اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے اور عام لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کرلی۔
اہل ِسنت کی کتابوں سے باغی کی تعریف پیش کرنے کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) اک جائز امام و خلیفہ ِوقت تھے، عرض ہے کہ معاویہ کا شمار بھی باغیوں میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دور کے امام اور خلیفہ ِحق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کی ۔ پیش ِخدمت ہے اہل ِاسنت کی معتبر کتاب الاستیعاب، ج 3 ص 267 میں ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
ابن اثیر نے اپنی کتاب اسدالغابہ فی معرفت الصحابہ، ج 1 ص 1027 میں تحریر کیا ہے:
ولم يبايع عليا وأظهر الطلب بدم عثمان فكان وقعة صفين بينه وبين علي
معاویہ نے علی کی بیعت نہ کی، پھر معاویہ نے قتل ِعثمان کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد معاویہ اور علی میں جنگ ِصفین ہوئی۔
امام النواصب ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 23 میں تحریر کیا ہے:
فلما امتنع معاوية من البيعة لعلي حتى يسلمه القتلة، كان من صفين ما قدمنا ذكره
معاویہ نے اس وقت تک علی کی بیعت سے انکار کردیا جب تک وہ قاتل ِعثمان ان کے حوالہ نا کردیں لہٰذا دونوں کے درمیان صفین کی جنگ ہوئی
امام جلال الدین سیوطی کتاب تاریخ خلفاء، ص 173 میں کہتے ہیں:
خرج معاوية على علي كما تقدم و تسمى بالخلافة ثم خرج على الحسن
معاویہ نے علی کے خلاف بغاوت کی اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزر کردیا اور پھر حسن کے خلاف بھی بغاوت کی۔
علمائے اہل ِسنت کا اقرار کہ معاویہ باغی و ظالم ہے
محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب تحفہءاثنا عشریہ، ص 181 میں بیان کرتے ہیں:
یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمام قطب ِاہل ِسنت کا اس پر اجماع ہے کہ معاویہ بن ابی صفیان، حضرت امیر کی امامت کے شروع سے ہی اور امام حسن سے صلح تک باغی رہا اور اپنے وقت کے امام کی اطاعت نہ کی۔
اصل فرقہ اہل ِسنت والجماعت کا تھا جو کہ صحابہ و تابعین کا تھا۔ وہ مہاجرین و انصار تھے جو کہ علی کے غلام تھے اور خلافت کے مددگار تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عثمان کی شہادت کے بعد مرتضیٰ امام برحق تھے اور تمام انسانوں پر ان کی اطاعت فرض تھی۔ علی اپنے دور میں سب سے زیادہ افضل تھے، جس کسی نے بھی خلافت کے معاملہ پر ان سے اختلاف کیا یا ان کی خلافت کو رد کیا وہ گناہگار اور باغی ہے۔
امام سعد الدین تفتازانی نے اپنی کتاب شرح المقاصد، ج 2 ص 306 میں تحریر کیا ہے کہ:
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ معاویہ اسلام کا پہلا باغی تھا
آئیے اب ہم اہل ِسنت میں فقہ کی چند بلند درجہ کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں معاویہ کا حوالہ واضح طریقے سے ایک ناجائز اور غاصب عامر کے طور پر کیا گیا ہے۔ اہل ِسنت کی فقہ کی مایہ ناز کتاب الہدایہ، ج 3 ص 133 اور اسی طرح الہدیہ کی مختلف شروح میں بھی جن میں فتح القدیر شرح ہدیہ، ج 16 ص 333 اور عنایہ شرح ہدایہ، ج 10 ص 217 شامل ہیں، ہم پڑھتے ہیں:
قوله ويجوز التقلد من السلطان الجائر كما يجوز من العادل لأن الصحابة رضي الله عنهم تقلدوه من معاوية رضي الله عنه والحق كان بيد علي رضي الله عنه في نوبته ، والتابعين تقلدوا من الحجاج
ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور میں صحابہ حالانکہ حق تو علی کے ساتھ تھا۔ اسی طرح حالانکہ حجاج حق پر نہ تھا لیکن پھر بھی تابعین اس کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے۔
اس کے بعد ایک جملہ لکھا ہے:
هذا تصريح بجور معاوية
یہ معاویہ کے ظالم ہونے کا ثبوت ہے
اسی طرح امام علاوالدین ابی الحسن علی بن خلال الطارابلسی (متوفی 844 ھ) اپنی کتاب معین الاحکام، ص 3 پر لکھتے ہیں:
ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ، وأما العادل فلأن النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن قاضياً وولى عثمان بن أسد على مكة أميرا ، وأما الجائر فلأن الصحابة رضي الله عنهم تقلدوا الأعمال من معاوية بعد أن أظهر الخلاف مع علي رضي الله عنه وكان الحق مع علي
ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے۔ جائز حکمراں (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ رسول اللہ نے معاذ کو قاضی کی حیثیت سے یمن بھیجا اور عثمان بن اساد کو مکہ کا گورنر مقرر کیا تھا جبکہ ناجائز حکمران (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ معاویہ کے علی سے اختلاف کے بعد صحابہ (رض) نے معاویہ سے عہدے تسلیم کیے۔
اسی طرح اہل ِسنت مسلک کی فقہ کی ایک اور بلند پایہ کتاب تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ج 4 ص 177 میں ہم پڑھتے ہیں:
ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ومن أهل البغي ) لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم تقلدوه من معاوية في نوبة علي ، وكان الحق بيد علي يومئذ ، وقد قال علي رضي الله تعالى عنه أخواننا بغوا علينا
ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض) نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا اور علی نے کہا کہ ہمارے بھائی ہمارے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔
اہل ِسنت میں فقہ کی چند نامور کتابوں میں سے ایک بحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج 6 ص 274 میں ہم پڑھتے ہیں:
(قوله ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر وأهل البغي) لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم تقلدوه من معاوية والحق كان بيد علي رضي الله تعالى عنه
ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض) نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا۔
آئیے اب اسی طرح ہم مسلک ِاہل ِسنت کے امام محمد بن حسن الشیبانی (متوفی 189 ھ) کے خیالات سے بھی آگاہ کردیں۔ علامہ عبدالقادر القرشی الحنفی نے اپنی کتاب الجواھر المضیہ، ج 2 ص 26 میں امام محمد بن حسن الشیبانی کا بیان یوں نقل کیا ہے:
"محمد" بن أحمد بن موسى بن داود الرازي البرزالي الفقيه القاضي الخازن. سمع عمه علي بن موسى العمي ومحمد بن أيوب الرازي. وولي القضاء بسمرقند. وسمع أهلها عليه. مات سنة إحدى وستين وثلاثمائة. قال السمعاني كان ثقة فاضلا وقال الحاكم كان فقيه أصحاب أبي حنيفة قال سمعت عمي سمعنا أبا سليمان الجوزجاني سمعت محمد بن الحسن يقول لو لم يقاتل معاوية عليا ظالما لهو متعديا باغيا كنا لا نهتدي لقتال أهل البغي
محمد بن احمد بن موسی بن داؤد الرازی البرذالی الفقیہ القاضی الخازن۔ انہوں نے اپنے چچا علی بن موسی اور محمد بن ایوب الرازی سے احادیث سنیں۔ وہ سمرقند کے قاضی مقرر کیے گئے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں سے احادیث سنیں۔ ان کی وفات 361 ہجری میں ہوئی۔ السمعانی کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ اور فاضل تھے۔ حاکم کا کہنا ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے ایک فقیہ تھے، انہوں نے کہا تھا کہ میں نے چچا ابو سلیمان الجوزجانی سے سنا ک انہوں نے محمد بن الحسن سے یہ کہتے سنا کہ اگر معاویہ جو کہ ظالم، جارح اور باغی تھا، علی کے خلاف جنگ نہ کرتا تو ہمیں ظالمین کے خلاف جنگ کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
سلفی و اہل حدیث مسلک کے قاضی شوکانی کتاب نیل الاوطار، ج 7 ص 348 میں لکھتے ہیں:
قوله: أولاهما بالحق فيه دليل على أن عليا ومن معه هم المحقون ، ومعاوية ومن معه هم المبطلون ، وهذا أمر لا يمتري فيه منصف ، ولا يأباه إلا مكابر متعسف
حدیث "حق کا مستحق" میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ علی اور جو لوگ علی کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے جبکہ معاویہ اور جو لوگ معاویہ کے ساتھ تھے وہ باطل راہ پر تھے اور اس بات میں کوئی عادل شخص شک نہیں کرسکتا جبکہ صرف ہٹ دھرم لوگ ہی اس بات کا انکار کرینگے۔
اور اب پیش ِخدمت ہے اہل ِسنت کے نامور عالم ِدین علامہ عبدالکریم شہرستانی کو اپنی کتاب ملل و النحل، ج 1 ص 103 میں لکھتے ہیں:
ولا نقول في حق معاوية وعمرو بن العاص الا أنهما بغيا على الامام الحق فقاتلهم مقاتلة أهل البغي وأما أهل النهروان فهم الشراة المارقون عن الدين بخبر النبي صلى الله عليه وسلم ولقد كان رضي الله عنه على الحق في جميع أحواله يدور الحق معه حيث دار
ہم معاویہ اور عمروبن العاص کے متعلق کچھ نہیں کہتے سوائے اس کے کہ انہوں نے امام برحق کے خلاف جنگ کی لہٰذا علی نے ان لوگوں کو باغی تصور کرتے ہوئے ان سے جنگ کی۔ جبکہ نہروان والے لوگ شرانگیز اور مرتد تھے جیسا کہ رسول اللہ نے بتادیا تھا اور علی (رض) اپنے ان تمام مسائل میں حق پر تھے اور حق وہیں رخ کر رہا تھا جہاں جہاں علی رخ کرتے۔
لغت میں بغاوت کا مطلب ہے طلب کرنا جبکہ عرف میں بغاوت کا مطلب ہے اس شئے کو طلب کرنا جو حلال نہ ہو۔ شرعی طور پر باغی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائیں
مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے تفہیم القرآن، ج 5 ص 80 میں لکھا:
ابن ھمام نے فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھا ہے کہ علماء کا اجماع ہے کہ باغی وہ ہے جو امام ِحق کی نافرمانی کرے۔ امام شافعی نے کتاب الام میں لکھا ہے کہ باغی وہ ہے جو عادل امام سے جنگ کرے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ یہ فرض ہے کہ جو کوئی عادل امام کی مخالفت کرے اس سے جنگ کی جائے۔
باغی کی نماز ِجنازہ پڑھنے کی ممانعت
امام نووی کتاب المنہاج، ج 7 ص 47 میں رقمطراز ہیں:
وقال أبو حنيفة لا يصلى على محارب ولا على قتيل الفئة الباغية وقال قتادة لا يصلى على ولد الزنى
امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر باغی یا ڈکیت گروہ کا کوئی رکن مرجائے تو اس کی نماز ِجنازہ ادا نہیں کرنی چاہیے جبکہ قتادہ کا کہنا ہے کہ زنا سے پیدا ہوئے شخص کی بھی نماز ِجنازہ نہیں پڑھنی چاہئے۔
تو معلوم ہوا کہ معاویہ کی نماز ِجنازہ تو اہل ِسنت کے کسی اصول کے مطابق بھی ادا نہیں ہوسکتی!
در المختار، ج 2 ص 282 میں ہم پڑھتے ہیں:
وهي فرض على كل مسلم مات، خلا) أربعة: (بغاة، وقطاع طريق) فلا يغسلوا، ولا يصلى عليهم
یہ فرض ہے کہ ہر مسلمان کے مرنے کے بعد اس کی نمازِجنازہ پڑھی جائے سوائے چار کے، یعنی باغی اور چور کے، نہ تو ان کو غسل دیا جانا چاہیئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ ادا کرنی چاہیئے۔
امام ِوقت کے خلاف بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے
قاضی شوکانی نیل الاوطار، ج 7 ص 198 میں لکھتے ہیں:
واعلم أن قتال البغاة جائز إجماعا كما حكي ذلك في البحر ولا يبعد أن يكون واجبا لقوله تعالى { فقاتلوا التي تبغي ** وقد حكي في البحر أيضا عن العترة جميعا أن جهادهم أفضل من جهاد الكفار إلى ديارهم إذ فعلهم في دار الإسلام كفعل الفاحشة في المسجد
یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ باغی کے خلاف لڑنا جائز ہے جیسا کہ البحر میں درج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو ایسا کرنا واجب ہے: "فقاتلوا التي تبغي" اور البحر میں یہ بھی درج ہے کہ تمام عترت کا کہنا ہے کہ باغیوں سے لڑنا کفار سے ان کی زمین پر لڑنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ باغیوں کا مسلمانوں کی زمین پر بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے۔
یعنی معاویہ نے مسجد میں زنا کا ارتکاب کیا ہے!
معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے جنگ کی جو کہ امام و خلیفہ ِحق تھے
ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 7 ص 253 میں لکھتے ہیں:
وخرج علي إلى المسجد فصعد المنبر وعليه إزار وعمامة خز ونعلاه في يده، توكأ على قوسه، فبايعه عامة الناس
بوقت ِبیعت حضرت علی مسجد کی طرف گئے اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے اور عام لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کرلی۔
اہل ِسنت کی کتابوں سے باغی کی تعریف پیش کرنے کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) اک جائز امام و خلیفہ ِوقت تھے، عرض ہے کہ معاویہ کا شمار بھی باغیوں میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دور کے امام اور خلیفہ ِحق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کی ۔ پیش ِخدمت ہے اہل ِاسنت کی معتبر کتاب الاستیعاب، ج 3 ص 267 میں ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
اوئے کائنات کے بدترین کافر ان دونوں حضرات میں لڑائی منافقین یعنی سبائیوں کی شر انگیزی اور اپنے اپنےاجتہاد کے اختلاف کی وجہ سے ہوئی ۔ اور اسوجہ سے ان دونوں میں سے کوئی بھی نہ تو کافر ہوا اور نہ ہی صحابیت سے محروم ۔ اور حوالاجات کو سمجھنے میں اگر تجھے کوئی مسئلہ ہے تو پوچھ لے ۔ حوالاجات سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنا سیکھ ۔ جاہل ۔