Sayyadna Ali Mua'viah Dono Bhai Bhai They Aur Hub e Sahaba (R.A.) Zindabad

Status
Not open for further replies.

BuTurabi

Chief Minister (5k+ posts)

اور دو بھائیوں کی لڑائی میں اُمت کے جو ہزاروں فرزند شہید (مارے گئے) ہوئے اُن کا خون کِس کے سر ہے؟

قاتل بھی رضی اللہ اور مقتول بھی؟


علی بھی حق اور معاویہ بھی سچ؟


!ایک سائیڈ پکڑو یار

 

hazbullah

Politcal Worker (100+ posts)
معاویہ باغی تھا


باغی کی تعریف



اہل ِسنت کی فقہ کی مشہور کتاب درالمختار، ص 113:

quote_start.gif
لغت میں بغاوت کا مطلب ہے طلب کرنا جبکہ عرف میں بغاوت کا مطلب ہے اس شئے کو طلب کرنا جو حلال نہ ہو۔ شرعی طور پر باغی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائیں
quote_end.gif


مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے تفہیم القرآن، ج 5 ص 80 میں لکھا:

quote_start.gif
ابن ھمام نے فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھا ہے کہ علماء کا اجماع ہے کہ باغی وہ ہے جو امام ِحق کی نافرمانی کرے۔ امام شافعی نے کتاب الام میں لکھا ہے کہ باغی وہ ہے جو عادل امام سے جنگ کرے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ یہ فرض ہے کہ جو کوئی عادل امام کی مخالفت کرے اس سے جنگ کی جائے۔
quote_end.gif



باغی کی نماز ِجنازہ پڑھنے کی ممانعت


امام نووی کتاب المنہاج، ج 7 ص 47 میں رقمطراز ہیں:

quote_start.gif
وقال أبو حنيفة لا يصلى على محارب ولا على قتيل الفئة الباغية وقال قتادة لا يصلى على ولد الزنى

امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر باغی یا ڈکیت گروہ کا کوئی رکن مرجائے تو اس کی نماز ِجنازہ ادا نہیں کرنی چاہیے جبکہ قتادہ کا کہنا ہے کہ زنا سے پیدا ہوئے شخص کی بھی نماز ِجنازہ نہیں پڑھنی چاہئے۔
quote_end.gif


تو معلوم ہوا کہ معاویہ کی نماز ِجنازہ تو اہل ِسنت کے کسی اصول کے مطابق بھی ادا نہیں ہوسکتی!

در المختار، ج 2 ص 282 میں ہم پڑھتے ہیں:

quote_start.gif
وهي فرض على كل مسلم مات، خلا) أربعة: (بغاة، وقطاع طريق) فلا يغسلوا، ولا يصلى عليهم

یہ فرض ہے کہ ہر مسلمان کے مرنے کے بعد اس کی نمازِجنازہ پڑھی جائے سوائے چار کے، یعنی باغی اور چور کے، نہ تو ان کو غسل دیا جانا چاہیئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ ادا کرنی چاہیئے۔
quote_end.gif



امام ِوقت کے خلاف بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے


قاضی شوکانی نیل الاوطار، ج 7 ص 198 میں لکھتے ہیں:

quote_start.gif
واعلم أن قتال البغاة جائز إجماعا كما حكي ذلك في البحر ولا يبعد أن يكون واجبا لقوله تعالى { فقاتلوا التي تبغي ** وقد حكي في البحر أيضا عن العترة جميعا أن جهادهم أفضل من جهاد الكفار إلى ديارهم إذ فعلهم في دار الإسلام كفعل الفاحشة في المسجد

یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ باغی کے خلاف لڑنا جائز ہے جیسا کہ البحر میں درج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو ایسا کرنا واجب ہے: "فقاتلوا التي تبغي" اور البحر میں یہ بھی درج ہے کہ تمام عترت کا کہنا ہے کہ باغیوں سے لڑنا کفار سے ان کی زمین پر لڑنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ باغیوں کا مسلمانوں کی زمین پر بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے۔
quote_end.gif


یعنی معاویہ نے مسجد میں زنا کا ارتکاب کیا ہے!


معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے جنگ کی جو کہ امام و خلیفہ ِحق تھے


ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 7 ص 253 میں لکھتے ہیں:

quote_start.gif
وخرج علي إلى المسجد فصعد المنبر وعليه إزار وعمامة خز ونعلاه في يده، توكأ على قوسه، فبايعه عامة الناس

بوقت ِبیعت حضرت علی مسجد کی طرف گئے اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے اور عام لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کرلی۔
quote_end.gif


اہل ِسنت کی کتابوں سے باغی کی تعریف پیش کرنے کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) اک جائز امام و خلیفہ ِوقت تھے، عرض ہے کہ معاویہ کا شمار بھی باغیوں میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دور کے امام اور خلیفہ ِحق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کی ۔ پیش ِخدمت ہے اہل ِاسنت کی معتبر کتاب الاستیعاب، ج 3 ص 267 میں ابن عبدالبر لکھتے ہیں:

quote_start.gif
فحارب معاوية علياً خمس سنين

معاویہ نے علی سے پانچ سال تک جنگ کی
quote_end.gif


 

hazbullah

Politcal Worker (100+ posts)
ابن اثیر نے اپنی کتاب اسدالغابہ فی معرفت الصحابہ، ج 1 ص 1027 میں تحریر کیا ہے:

quote_start.gif
ولم يبايع عليا وأظهر الطلب بدم عثمان فكان وقعة صفين بينه وبين علي

معاویہ نے علی کی بیعت نہ کی، پھر معاویہ نے قتل ِعثمان کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد معاویہ اور علی میں جنگ ِصفین ہوئی۔
quote_end.gif


امام النواصب ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 23 میں تحریر کیا ہے:

quote_start.gif
فلما امتنع معاوية من البيعة لعلي حتى يسلمه القتلة، كان من صفين ما قدمنا ذكره

معاویہ نے اس وقت تک علی کی بیعت سے انکار کردیا جب تک وہ قاتل ِعثمان ان کے حوالہ نا کردیں لہٰذا دونوں کے درمیان صفین کی جنگ ہوئی
quote_end.gif


امام جلال الدین سیوطی کتاب تاریخ خلفاء، ص 173 میں کہتے ہیں:

quote_start.gif
خرج معاوية على علي كما تقدم و تسمى بالخلافة ثم خرج على الحسن

معاویہ نے علی کے خلاف بغاوت کی اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزر کردیا اور پھر حسن کے خلاف بھی بغاوت کی۔
quote_end.gif


علمائے اہل ِسنت کا اقرار کہ معاویہ باغی و ظالم ہے


محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب تحفہءاثنا عشریہ، ص 181 میں بیان کرتے ہیں:

quote_start.gif
یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمام قطب ِاہل ِسنت کا اس پر اجماع ہے کہ معاویہ بن ابی صفیان، حضرت امیر کی امامت کے شروع سے ہی اور امام حسن سے صلح تک باغی رہا اور اپنے وقت کے امام کی اطاعت نہ کی۔
quote_end.gif

تحفہءاثنا عشریہ، ص 181

اسی طرح کتاب کے صفحہ 11 پر ہم پڑھتے ہیں:

quote_start.gif
اصل فرقہ اہل ِسنت والجماعت کا تھا جو کہ صحابہ و تابعین کا تھا۔ وہ مہاجرین و انصار تھے جو کہ علی کے غلام تھے اور خلافت کے مددگار تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عثمان کی شہادت کے بعد مرتضیٰ امام برحق تھے اور تمام انسانوں پر ان کی اطاعت فرض تھی۔ علی اپنے دور میں سب سے زیادہ افضل تھے، جس کسی نے بھی خلافت کے معاملہ پر ان سے اختلاف کیا یا ان کی خلافت کو رد کیا وہ گناہگار اور باغی ہے۔
quote_end.gif

تحفہءاثنا عشریہ، ص 11

امام سعد الدین تفتازانی نے اپنی کتاب شرح المقاصد، ج 2 ص 306 میں تحریر کیا ہے کہ:

quote_start.gif
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ معاویہ اسلام کا پہلا باغی تھا
quote_end.gif


آئیے اب ہم اہل ِسنت میں فقہ کی چند بلند درجہ کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں معاویہ کا حوالہ واضح طریقے سے ایک ناجائز اور غاصب عامر کے طور پر کیا گیا ہے۔ اہل ِسنت کی فقہ کی مایہ ناز کتاب الہدایہ، ج 3 ص 133 اور اسی طرح الہدیہ کی مختلف شروح میں بھی جن میں فتح القدیر شرح ہدیہ، ج 16 ص 333 اور عنایہ شرح ہدایہ، ج 10 ص 217 شامل ہیں، ہم پڑھتے ہیں:

quote_start.gif
قوله ويجوز التقلد من السلطان الجائر كما يجوز من العادل لأن الصحابة رضي الله عنهم تقلدوه من معاوية رضي الله عنه والحق كان بيد علي رضي الله عنه في نوبته ، والتابعين تقلدوا من الحجاج

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور میں صحابہ حالانکہ حق تو علی کے ساتھ تھا۔ اسی طرح حالانکہ حجاج حق پر نہ تھا لیکن پھر بھی تابعین اس کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے۔
quote_end.gif


اس کے بعد ایک جملہ لکھا ہے:

quote_start.gif
هذا تصريح بجور معاوية

یہ معاویہ کے ظالم ہونے کا ثبوت ہے
quote_end.gif


اسی طرح امام علاوالدین ابی الحسن علی بن خلال الطارابلسی (متوفی 844 ھ) اپنی کتاب معین الاحکام، ص 3 پر لکھتے ہیں:

quote_start.gif
ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ، وأما العادل فلأن النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن قاضياً وولى عثمان بن أسد على مكة أميرا ، وأما الجائر فلأن الصحابة رضي الله عنهم تقلدوا الأعمال من معاوية بعد أن أظهر الخلاف مع علي رضي الله عنه وكان الحق مع علي

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے۔ جائز حکمراں (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ رسول اللہ نے معاذ کو قاضی کی حیثیت سے یمن بھیجا اور عثمان بن اساد کو مکہ کا گورنر مقرر کیا تھا جبکہ ناجائز حکمران (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ معاویہ کے علی سے اختلاف کے بعد صحابہ (رض) نے معاویہ سے عہدے تسلیم کیے۔
quote_end.gif


اسی طرح اہل ِسنت مسلک کی فقہ کی ایک اور بلند پایہ کتاب تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ج 4 ص 177 میں ہم پڑھتے ہیں:

quote_start.gif
ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ومن أهل البغي ) لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم تقلدوه من معاوية في نوبة علي ، وكان الحق بيد علي يومئذ ، وقد قال علي رضي الله تعالى عنه أخواننا بغوا علينا

ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض) نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا اور علی نے کہا کہ ہمارے بھائی ہمارے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔
quote_end.gif


اہل ِسنت میں فقہ کی چند نامور کتابوں میں سے ایک بحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج 6 ص 274 میں ہم پڑھتے ہیں:

quote_start.gif
(قوله ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر وأهل البغي) لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم تقلدوه من معاوية والحق كان بيد علي رضي الله تعالى عنه

ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض) نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا۔
quote_end.gif


آئیے اب اسی طرح ہم مسلک ِاہل ِسنت کے امام محمد بن حسن الشیبانی (متوفی 189 ھ) کے خیالات سے بھی آگاہ کردیں۔ علامہ عبدالقادر القرشی الحنفی نے اپنی کتاب الجواھر المضیہ، ج 2 ص 26 میں امام محمد بن حسن الشیبانی کا بیان یوں نقل کیا ہے:

quote_start.gif
"محمد" بن أحمد بن موسى بن داود الرازي البرزالي الفقيه القاضي الخازن. سمع عمه علي بن موسى العمي ومحمد بن أيوب الرازي. وولي القضاء بسمرقند. وسمع أهلها عليه. مات سنة إحدى وستين وثلاثمائة. قال السمعاني كان ثقة فاضلا وقال الحاكم كان فقيه أصحاب أبي حنيفة قال سمعت عمي سمعنا أبا سليمان الجوزجاني سمعت محمد بن الحسن يقول لو لم يقاتل معاوية عليا ظالما لهو متعديا باغيا كنا لا نهتدي لقتال أهل البغي

محمد بن احمد بن موسی بن داؤد الرازی البرذالی الفقیہ القاضی الخازن۔ انہوں نے اپنے چچا علی بن موسی اور محمد بن ایوب الرازی سے احادیث سنیں۔ وہ سمرقند کے قاضی مقرر کیے گئے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں سے احادیث سنیں۔ ان کی وفات 361 ہجری میں ہوئی۔ السمعانی کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ اور فاضل تھے۔ حاکم کا کہنا ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے ایک فقیہ تھے، انہوں نے کہا تھا کہ میں نے چچا ابو سلیمان الجوزجانی سے سنا ک انہوں نے محمد بن الحسن سے یہ کہتے سنا کہ اگر معاویہ جو کہ ظالم، جارح اور باغی تھا، علی کے خلاف جنگ نہ کرتا تو ہمیں ظالمین کے خلاف جنگ کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔
quote_end.gif

الجواھر المضیہ، ج 2 ص 26

سلفی و اہل حدیث مسلک کے قاضی شوکانی کتاب نیل الاوطار، ج 7 ص 348 میں لکھتے ہیں:

quote_start.gif
قوله: أولاهما بالحق فيه دليل على أن عليا ومن معه هم المحقون ، ومعاوية ومن معه هم المبطلون ، وهذا أمر لا يمتري فيه منصف ، ولا يأباه إلا مكابر متعسف

حدیث "حق کا مستحق" میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ علی اور جو لوگ علی کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے جبکہ معاویہ اور جو لوگ معاویہ کے ساتھ تھے وہ باطل راہ پر تھے اور اس بات میں کوئی عادل شخص شک نہیں کرسکتا جبکہ صرف ہٹ دھرم لوگ ہی اس بات کا انکار کرینگے۔
quote_end.gif

نیل الاوطار، ج 7 ص 348

اور اب پیش ِخدمت ہے اہل ِسنت کے نامور عالم ِدین علامہ عبدالکریم شہرستانی کو اپنی کتاب ملل و النحل، ج 1 ص 103 میں لکھتے ہیں:

quote_start.gif
ولا نقول في حق معاوية وعمرو بن العاص الا أنهما بغيا على الامام الحق فقاتلهم مقاتلة أهل البغي وأما أهل النهروان فهم الشراة المارقون عن الدين بخبر النبي صلى الله عليه وسلم ولقد كان رضي الله عنه على الحق في جميع أحواله يدور الحق معه حيث دار

ہم معاویہ اور عمروبن العاص کے متعلق کچھ نہیں کہتے سوائے اس کے کہ انہوں نے امام برحق کے خلاف جنگ کی لہٰذا علی نے ان لوگوں کو باغی تصور کرتے ہوئے ان سے جنگ کی۔ جبکہ نہروان والے لوگ شرانگیز اور مرتد تھے جیسا کہ رسول اللہ نے بتادیا تھا اور علی (رض) اپنے ان تمام مسائل میں حق پر تھے اور حق وہیں رخ کر رہا تھا جہاں جہاں علی رخ کرتے۔
quote_end.gif

ملل و النحل، ج 1 ص 103


 

sdmuashr

Senator (1k+ posts)
معاویہ باغی تھا


باغی کی تعریف



اہل ِسنت کی فقہ کی مشہور کتاب درالمختار، ص 113:

quote_start.gif
لغت میں بغاوت کا مطلب ہے طلب کرنا جبکہ عرف میں بغاوت کا مطلب ہے اس شئے کو طلب کرنا جو حلال نہ ہو۔ شرعی طور پر باغی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائیں
quote_end.gif


مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے تفہیم القرآن، ج 5 ص 80 میں لکھا:

quote_start.gif
ابن ھمام نے فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھا ہے کہ علماء کا اجماع ہے کہ باغی وہ ہے جو امام ِحق کی نافرمانی کرے۔ امام شافعی نے کتاب الام میں لکھا ہے کہ باغی وہ ہے جو عادل امام سے جنگ کرے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ یہ فرض ہے کہ جو کوئی عادل امام کی مخالفت کرے اس سے جنگ کی جائے۔
quote_end.gif



باغی کی نماز ِجنازہ پڑھنے کی ممانعت


امام نووی کتاب المنہاج، ج 7 ص 47 میں رقمطراز ہیں:

quote_start.gif
وقال أبو حنيفة لا يصلى على محارب ولا على قتيل الفئة الباغية وقال قتادة لا يصلى على ولد الزنى

امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر باغی یا ڈکیت گروہ کا کوئی رکن مرجائے تو اس کی نماز ِجنازہ ادا نہیں کرنی چاہیے جبکہ قتادہ کا کہنا ہے کہ زنا سے پیدا ہوئے شخص کی بھی نماز ِجنازہ نہیں پڑھنی چاہئے۔
quote_end.gif


تو معلوم ہوا کہ معاویہ کی نماز ِجنازہ تو اہل ِسنت کے کسی اصول کے مطابق بھی ادا نہیں ہوسکتی!

در المختار، ج 2 ص 282 میں ہم پڑھتے ہیں:

quote_start.gif
وهي فرض على كل مسلم مات، خلا) أربعة: (بغاة، وقطاع طريق) فلا يغسلوا، ولا يصلى عليهم

یہ فرض ہے کہ ہر مسلمان کے مرنے کے بعد اس کی نمازِجنازہ پڑھی جائے سوائے چار کے، یعنی باغی اور چور کے، نہ تو ان کو غسل دیا جانا چاہیئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ ادا کرنی چاہیئے۔
quote_end.gif



امام ِوقت کے خلاف بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے


قاضی شوکانی نیل الاوطار، ج 7 ص 198 میں لکھتے ہیں:

quote_start.gif
واعلم أن قتال البغاة جائز إجماعا كما حكي ذلك في البحر ولا يبعد أن يكون واجبا لقوله تعالى { فقاتلوا التي تبغي ** وقد حكي في البحر أيضا عن العترة جميعا أن جهادهم أفضل من جهاد الكفار إلى ديارهم إذ فعلهم في دار الإسلام كفعل الفاحشة في المسجد

یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ باغی کے خلاف لڑنا جائز ہے جیسا کہ البحر میں درج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو ایسا کرنا واجب ہے: "فقاتلوا التي تبغي" اور البحر میں یہ بھی درج ہے کہ تمام عترت کا کہنا ہے کہ باغیوں سے لڑنا کفار سے ان کی زمین پر لڑنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ باغیوں کا مسلمانوں کی زمین پر بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے۔
quote_end.gif


یعنی معاویہ نے مسجد میں زنا کا ارتکاب کیا ہے!


معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے جنگ کی جو کہ امام و خلیفہ ِحق تھے


ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 7 ص 253 میں لکھتے ہیں:

quote_start.gif
وخرج علي إلى المسجد فصعد المنبر وعليه إزار وعمامة خز ونعلاه في يده، توكأ على قوسه، فبايعه عامة الناس

بوقت ِبیعت حضرت علی مسجد کی طرف گئے اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے اور عام لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کرلی۔
quote_end.gif


اہل ِسنت کی کتابوں سے باغی کی تعریف پیش کرنے کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) اک جائز امام و خلیفہ ِوقت تھے، عرض ہے کہ معاویہ کا شمار بھی باغیوں میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دور کے امام اور خلیفہ ِحق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کی ۔ پیش ِخدمت ہے اہل ِاسنت کی معتبر کتاب الاستیعاب، ج 3 ص 267 میں ابن عبدالبر لکھتے ہیں:

quote_start.gif
فحارب معاوية علياً خمس سنين

معاویہ نے علی سے پانچ سال تک جنگ کی
quote_end.gif



اوئے کائنات کے بدترین کافر ان دونوں حضرات میں لڑائی منافقین یعنی سبائیوں کی شر انگیزی اور اپنے اپنےاجتہاد کے اختلاف کی وجہ سے ہوئی ۔ اور اسوجہ سے ان دونوں میں سے کوئی بھی نہ تو کافر ہوا اور نہ ہی صحابیت سے محروم ۔ اور حوالاجات کو سمجھنے میں اگر تجھے کوئی مسئلہ ہے تو پوچھ لے ۔ حوالاجات سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنا سیکھ ۔ جاہل ۔
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top