Bismillah
Assalam o Alaikum,صحابۂ کرام کے حقوق
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه .( صحيح البخاري : 3673 ، الفضائل / صحيح مسلم : 2541 ، الفضائل )
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اسلئے کہ اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔
تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب [ نبیوں کے دلوں کے بعد اور ] بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دلحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دل کو پایا تو اپنے نبی کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اسکے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان [ یعنی صحابہ ] جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔{مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379 / شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214 **
صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اسکا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت وجماعت کے یہاں صحابہ کرام کی بڑی اہمیت اور انکے کچھ خاص حقوق ہیں جنکا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ
اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں ،
ثانیا :ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ،
ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ ہیں ،
رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی ،
خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔
صحابہء کرام کے حقوق
[ 1]
محبت :
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ(سورة المائدة : 55)
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں
اس آیت میں اہل ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ تبارک وتعالی کا ولی قرار دیا گیا ہے اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہل ایمان صرف صحابہءکرام تھے۔
ارشاد نبوی ہے : آیۃ الایمان حب الانصار و آیۃ النفاق بغض الانصار
صحیح البخاری و صحیح مسلم عن ابن انس ]
انصار سے محبت ایمان کی علامت اور انصار سے بغض و نفرت نفاق کی علامت ہے ۔
[ 2 ]
دعا و استغفار :
وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ( سورة الحشر : 10 )
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے
اس لئے اہل سنت و جماعت کے نزدیک " رضی اللہ عنہ " صحابہء کرام کیلئے شعار ہے ۔
[ 3 ]
صحیح دلیل سے ثابت انکے فضائل کا اقرار :
جیسے عشرہ و مبشرہ ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت عمرو بن عاص وغیرہ کے فضائل میں وارد حدیثیں ۔
[ 4 ]
انکی عدالت کا اعتراف :
یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پرہیز کرتے تھے تقوی کا التزام کرتے تھے ، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جان بناتے تھے ، اگر ان میں کسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقاضائے بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے:
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ( سورة الحجرات : 7 )
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ، اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں ، تو تم مشکل میں پڑ جاو لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے ، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔
[ 5 ]
انکی تعظیم و توقیر کی جائے :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اکرموا اصحابی فانہم خیارکم{النسائی الکبری ، مصنف عبد الرزاق عن عمر **
میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں ۔
[ 6 ]
انکی عیب جوئی نہ کی جائے اورانہیں برا بھلا نہ کہا جائے :
ارشاد نبوی ہے :
لا تسبوا اصحابی ، لعن اللہ من سب اصحابی ۔{ الطبرانی الاوسط عن عائشۃ **
میرے صحابہ کو بر بھلا نہ کہو ، اس شخص پر اللہ تعالی کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے ۔
[ 7 ]
انکی غلطیوں کو اچھالا نہ جائے اور انکے اختلافات کو حدیث مجالس نہ بنایا جائے :
ارشاد نبوی ہے :
اذا ذکر اصحابی فامسکو{ الطبرانی الکبیر ، عن ابن مسعود **
جب میرے صحابہ { کے آپسی اختلاف** کا ذکر ہو تو خاموشی اختیار کرو ۔
[ 8 ]
انکی علمیت اور دینی خدمات کا اعتراف کیا جائے :
کیونکہ انہی لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ دین کو اخذ کیا ہے ۔
بشکریہ : شیخ ابو کلیم فیضی (مرکز دعوت و ارشاد ، الغاط ، سعودی عرب
http://www.ahlehaq.org/hq/index.php/2012-03-23-10-36-30/22-2012-05-20-13-42-58/131-2012-05-20-15-14-02
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اسلئے کہ اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔
تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب [ نبیوں کے دلوں کے بعد اور ] بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دلحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دل کو پایا تو اپنے نبی کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اسکے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان [ یعنی صحابہ ] جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔{مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379 / شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214 **
صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اسکا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت وجماعت کے یہاں صحابہ کرام کی بڑی اہمیت اور انکے کچھ خاص حقوق ہیں جنکا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ
اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں ،
ثانیا :ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ،
ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ ہیں ،
رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی ،
خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔
صحابہء کرام کے حقوق
[ 1]
محبت :
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ(سورة المائدة : 55)
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں
اس آیت میں اہل ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ تبارک وتعالی کا ولی قرار دیا گیا ہے اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہل ایمان صرف صحابہءکرام تھے۔
ارشاد نبوی ہے : آیۃ الایمان حب الانصار و آیۃ النفاق بغض الانصار
صحیح البخاری و صحیح مسلم عن ابن انس ]
انصار سے محبت ایمان کی علامت اور انصار سے بغض و نفرت نفاق کی علامت ہے ۔
[ 2 ]
دعا و استغفار :
وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ( سورة الحشر : 10 )
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے
اس لئے اہل سنت و جماعت کے نزدیک " رضی اللہ عنہ " صحابہء کرام کیلئے شعار ہے ۔
[ 3 ]
صحیح دلیل سے ثابت انکے فضائل کا اقرار :
جیسے عشرہ و مبشرہ ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت عمرو بن عاص وغیرہ کے فضائل میں وارد حدیثیں ۔
[ 4 ]
انکی عدالت کا اعتراف :
یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پرہیز کرتے تھے تقوی کا التزام کرتے تھے ، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جان بناتے تھے ، اگر ان میں کسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقاضائے بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے:
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ( سورة الحجرات : 7 )
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ، اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں ، تو تم مشکل میں پڑ جاو لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے ، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔
[ 5 ]
انکی تعظیم و توقیر کی جائے :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اکرموا اصحابی فانہم خیارکم{النسائی الکبری ، مصنف عبد الرزاق عن عمر **
میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں ۔
[ 6 ]
انکی عیب جوئی نہ کی جائے اورانہیں برا بھلا نہ کہا جائے :
ارشاد نبوی ہے :
لا تسبوا اصحابی ، لعن اللہ من سب اصحابی ۔{ الطبرانی الاوسط عن عائشۃ **
میرے صحابہ کو بر بھلا نہ کہو ، اس شخص پر اللہ تعالی کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے ۔
[ 7 ]
انکی غلطیوں کو اچھالا نہ جائے اور انکے اختلافات کو حدیث مجالس نہ بنایا جائے :
ارشاد نبوی ہے :
اذا ذکر اصحابی فامسکو{ الطبرانی الکبیر ، عن ابن مسعود **
جب میرے صحابہ { کے آپسی اختلاف** کا ذکر ہو تو خاموشی اختیار کرو ۔
[ 8 ]
انکی علمیت اور دینی خدمات کا اعتراف کیا جائے :
کیونکہ انہی لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ دین کو اخذ کیا ہے ۔
بشکریہ : شیخ ابو کلیم فیضی (مرکز دعوت و ارشاد ، الغاط ، سعودی عرب
http://www.ahlehaq.org/hq/index.php/2012-03-23-10-36-30/22-2012-05-20-13-42-58/131-2012-05-20-15-14-02