Reporter - 6th June 2011 - US Pressurising Pakistan For Operation In North Waziristan?

klosedstreet

Councller (250+ posts)
پاکستان پر اب اس علاقے میں آپریشن کے لیے امریکی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جہاں کارروائی سے اب تک وہ گزیر کرتا آیا ہے اور وہ علاقہ ہے شمالی وزیرستان کی قبائلی ایجنسی جسے ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کی کمین گاہ سمجھا جاتا ہے۔
ان شدت پسندوں میں القاعدہ، پاکستانی طالبان اور حقانی گروپ کے افغان مزاحمت کار شامل ہیں جن پر افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوج پر حملوں کے الزامات ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ’عالمی دہشتگردی کا مرکز‘ ہے جبکہ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’پرامن اور پرسکون‘ علاقہ ہے اور اس کے سینیئر کمانڈرز کو یہاں بڑی فوجی کارروائی کرنے کی کوئی جلدی نہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقے میں فوجی سرگرمیوں کے نگران لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ ’میرا ابھی ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے‘۔

انہوں نے مہمند ایجنسی میں صحافیوں کو بریفنگ کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ایسا کچھ نہیں دیکھ رہا کہ وہاں بمباری کی جائے گی یا کارروائی ہوگی۔ میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا‘۔
مہمند ایجنسی میں اس وقت ’آپریشن لائٹننگ‘ جاری ہے جو کہ حالیہ برسوں میں طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کی مہم کا حصہ ہے۔
اس مہم کے دوران پاکستانی فوج نے شمال سے جنوب کی جانب کارروائی کرتے ہوئے قبائلی علاقے کی سات میں سے چھ ایجنسیوں کو ہدف بنایا ہے۔ اگرچہ شمالی وزیرستان میں باقاعدہ کارروائی نہیں کی گئی ہے لیکن وہاں چونتیس ہزار پاکستانی فوجی تعینات ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک کے مطابق ’ہم جب چاہیں گے اور جب ملکی مفاد میں ہو گا تبھی آپریشن کریں گے‘۔
لیکن پاکستان کا قومی مفاد امریکہ کے قومی مفاد سے کہیں مختلف ہے۔ امریکہ کے لیے القاعدہ کا ساتھی حقانی نیٹ ورک افغانستان میں اس کے فوجیوں کے لیے بڑا خطرہ اور وہاں مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

امریکہ کا یہ بھی سمجھتا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس گروپ کے بانی جلال الدین حقانی کو پناہ دے رہی ہے۔ امریکی ایڈمرل مائیک مولن کھلے عام حقانی نیٹ ورک اور آئی ایس آئی کے ’دیرینہ تعلقات‘ کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔
پاکستانی فوج ان الزامات کو رد کرتی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ حقانی گروپ کو ایک ایسا سٹریٹجک اثاثہ سمجھتی ہے جو غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کی صورت میں وہاں ان کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل آصف ملک کا یہ بھی کہنا ہے کہ بطور فوجی کمانڈر ’میں ان علاقوں کو مستحکم بنانا چاہتا ہوں جو عدم استحکام کا شکار ہیں اور اس کے بعد ہی شمالی وزیرستان یا کسی اور علاقے کا رخ کرنے کی حالت میں ہوں گا۔ میں بیک وقت کئی آپریشن نہیں کر سکتا‘۔
تاہم شمالی وزیرستان میں کارروائی کے لیے تیار نہ ہونے کے باوجود فوج پچاس ملین ڈالر مالیت کے تجارتی راستے جیسے ترقیاتی منصوبوں پر کام کے لیے’تیار‘ ہے۔
تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر فوج اس علاقے میں آپریشن بھی کرے گی تو وہ محدود اور چنندہ ہوگا جس میں القاعدہ اور پاکستانی طالبان کو تو نشانہ بنایا جائے گا لیکن حقانی نیٹ ورک کم و بیش محفوظ ہی رہے گا۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے نجم رفیق کا کہنا ہے کہ ’سرسری کارروائی تو ہو سکتی ہے لیکن فوج کسی بڑی کارروائی کے لیے تیار نہیں ہوگی‘۔ ان کے مطابق ’وہ وہاں فضائی کارروائی کر رہے ہیں لیکن یہ امریکیوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں‘۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان امریکہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ’یہ اب تک کا سب سے خطرناک آپریشن ہوگا اور ہم شدت پسندوں کی جانب سے بڑے ردعمل کے امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتے‘۔
ایسا ہی کچھ سنہ 2009 میں جنوبی وزیرستان آپریشن کے بعد ہوا تھا جب آپریشن کے بعد طالبان کی کارروائیوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے تھے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ آپریشن بھی چنندہ تھا جس میں ایجنسی کے مشرقی حصہ میں موجود پاکستانی طالبان کو ہدف بنایا گیا جبکہ جنوبی حصے میں موجود حقانی نیٹ ورک کو چھوڑ دیا گیا۔
اب جبکہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی قیاس آرائیاں سامنے آ رہی ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ حقانی گروپ نے علاقے سے منتقل ہونے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ایک مصدقہ ذریعہ کے مطابق وہ علاقہ چھوڑ کر جا بھی چکے ہیں اور اب ان کا رخ کرّم ایجنسی اور افغان صوبے خوست کی جانب ہے۔

شمالی وزیرستان سے باہر نکلنا آج کل آسان ہوگیا ہے کیونکہ نہ صرف علاقے میں سکیورٹی میں نرمی کی گئی ہے بلکہ کھجوری سے بکا خیل تک علاقے سے باہر جانے والی ہرگاڑی کی تلاشی کا سلسلہ بھی موقوف کر دیا گیا ہے۔
فوجی ترجمان کے مطابق اس کی وجہ ’علاقے میں سکیورٹی کی بہتر صورتحال ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر ضروری شناختی چوکیاں ختم کی گئی ہیں تاکہ لوگ باآسانی آ جا سکیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ علاقہ اب محفوظ ہے۔ لیکن مزید شمال کی جانب حقانی کے علاقے کے نزدیک کسی قسم کی نرمی نہیں ہے‘۔
تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر حقانی گروپ علاقے سے نکلنا چاہے تو وہ ایسا کرنے پر قادر ہے۔
 

ocean5

MPA (400+ posts)
this air vice marshall shehzad chaudrhy is american agent he always talks against pakistan yey bazaro aurat ka bacha hay