کاشف عباسی شاید درست کہتے ہیں کہ اگر یہ ویڈیو عمران خان، نواز شریف کی سامنے آتی تو اتنا شور نہ اٹھتا جتنا ملک ریاض کے کیس میں ہوا ہے کیونکہ وہ متنازعہ شخص ہیں اور وہ ایک ایسے جج کے خلاف لڑائی لڑنے کا رسک لے رہے تھے جو عوام میں ان کی نسبت بہت پاپولر ہیں اور ان کے بیٹے پر انے والے سکینڈل کے باوجود ابھی بھی میرے جیسے انہیں بہتر جج سمجھتے ہیں اور اس سوچ پر مجھے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور سب سے زیادہ تنقید میرے ایڈیٹر ندیم سیعد میرے اوپر کر رہے ہیں۔ عوام دنیا ٹی وی پر تو ناراض ہیں کہ چیف آپریٹنگ افسر دنیا ٹی وی نوید کاشف نے یہ کال کیوں کہ کہ ملک ریاض کو بولنے دیں اور مت ٹوکیں۔
مجھے سمجھ نہیں آتی اس میں کیا برائی ہے کہ خبر تو ریاض ملک نے دینی ہے تو اسے بولنے دیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ کتنے چینلز میں جرات ہے کہ الطاف بھائی کی چھ گھنٹے کی پریس کانفرنس میں ایک لحمے کے لیے بھی کوئی اشتہار چلا سکیں ٹوکنا تو دور کی بات ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت لوگ ریاض ملک کو سننا چاہتے تھے لہذا اینکرز کا کم بولنا کے ہدایت دینا ہی درست ہدایت تھی۔
سارا شور شرابہ ریاض ملک کی وجہ سے اٹھا ہے۔ وہ سکینڈل سامنے لاتے لاتے خود سکینڈل کا شکار ہو گے ہیں۔ میرے ذرائع کہتے ہیں کہ ریاض ملک کو ان کی بیوی نے بہت سمجھایا کہ وہ چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس مت کریں۔ دوستوں نے بھی سمجھایا کہ پہلے ارسلان کے خلاف عدالت میں دئے گئے ثبوتوں کی کہانیاں اگلے دن اخبارات میں تو چھپنے دیں ۔ ان کے بیٹے علی کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے پریس کانفرنس کی تو وہ ان کی گاڑی کے آگے لیٹ جائیں گے۔ ریاض ملک نے بیوی اور اکلوتے بیٹے کی نہیں سنی اور وہ پریس کانفرنس کر ڈالی جو انہیں لے ڈوبی۔ چیف جسٹس کے خلاف کی گئی اس پریس کانفرنس کے بعد ریاض ملک اپنا کیس ہار گئے تھے اور وہ ایک بعد دوسری غلطی کرتے گئے اور اس کا جو کچھ انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
میں جمعہ کو ڈاکٹر معید پیرزادہ کے پی ٹی وی پر ہونے والے شو سوچتا پاکستان میں شریک تھا تو بھی موضوع یہی ویڈیو تھی۔ اس میں میرے دو قابل احترام ایڈیٹرز بھی شریک تھے جن سے میں نے دی نیوز کے دنوں میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ فہد حسین کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، وہ کرتے سب ہیں لیکن دنیا نیوز چینل کی ویڈیو سامنے آگئی ہے لہذا تنقید کا فوکس اس چینل پر زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہوتا تو ہے لیکن نہیں ہونا چاہیے اور اس پورے سکینڈل سے اینکرز کو بھی بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
محمد مالک بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہوتا ہے اور ہر میڈیا ہاوس میں اس طرح کی پالیساں چلائی جاتی ہیں۔ اس لیے میڈیا کے لوگ جو خود شوز کرتے ہیں، انہیں اس میں وہ مسئلہ اتنی شدت سے نظر نہیں آرہا جتنا ایک عام آدمی سمجھتا ہے۔ دونوں کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ میڈیا کے لوگ اندر کی کہانی اور اپنی مجبوریاں اچھی طرح جانتے ہیں تو عوام کے لیے یہ حیران کن نظارے ہیں کہ پروگرام کے وقفے میں کیا کچھ ہوتا ہے اور سیاستدان کیسے اینکرز کو کنٹرول کرتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ سارا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب پروگرام کے دوران وزیراعظم گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کا فون مبشر لقمان کو آتا ہے۔ لوگ مریم نواز کے مہر بخاری کو بھیجے گئے ٹیکسٹ مسیج پر انتے ناخوش نہیں ہیں جتنے وہ گیلانی کے فون پر ہیں۔ یہاں تک بھی درست ہے کہ لوگ وقفہ میں اینکرز کو فون کرتے رہتے ہیں اور بہت کچھ ہوتا ہے۔ تاہم جب وہ فون ریاض ملک کو دیا جاتا ہے تو پھر ایک پرابلم شروع ہوتا ہے۔ اس ساری ویڈیو میں سے اگر یہ فون کال نکال لی جائے تو باقی شاید میڈیا کے لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ پروگرام کے وقفہ میں سب کچھ ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کام بھی ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ تو گالیاں تک دی جارہی ہوتی ہیں۔ یہ سب کو علم ہے لیکن عوام کے لیے ایک نئی چیز تھی کہ اینکرز وقفے میں کیا کرتے ہیں۔ گیلانی کے بیٹے کے فون سے یہ ثاتر ملا کہ سب کچھ سپانسر تھا اور چیف جسٹس کو بدنام کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
مبشر شاید اس وجہ سے بھی ملک ریاض سے ناراض لگ رہے تھے کہ وہ ان کی فرمائش پر حامد میر کے خلاف کوئی لفظ کہنے کو تیار نہیں تھے۔ اس طرح مبشر اس بات پر مہر بخاری سے ناراض لگ رہے تھے کہ وہ مونس الہی کے بارے میں سوال کرنا چاہتی تھی جب کہ مبشر نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر مہر نے کہا کہ وہ اپنے سوال پوچھیں گی اور وہ اپنے سوال پوچھیں۔ جس پر مبشر شو کو چھوڑ کر چلے گئے اور سب نے دیکھا بھی سہی اور پھر لائیو وہ واپس آئے اور پھر میاں عامر اور ریاض ملک پر ایک کمنٹ کر کے پھر چلے گئے کہ ملک صاحب آپ کو کہنا پڑے گا کہ آپ دونوں کو دباؤ پر میں واپس آیا ہوں۔ مبشر کے چہرے پر غصہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اس پورے انٹرویو کے عمل سے خوش نہیں ہیں کیونکہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ نہیں ہورہا۔ شاید مبشر کے واک آوٹ کرنے کی وجہ مونس کے بارے میں پوچھا جانیو الا متوقع سوال بھی ہو سکتا ہے۔
شاید اینکرز یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ وہ کتنا بڑا انٹرویو کر رہے تھے اور پورا ملک انہیں دیکھ رہا تھا اور ان کے اس رویہ کا کیا منفی ردعمل نکل سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اینکرز کی اپنی انا ان کے پروفینشل ازم اور چینل کے مفادات پر حاوی ہو گئی۔ اس کا اندازہ ریاض ملک کو بھی ہو گیا تھا کہ مہر اور مبشر کی لڑائی اس کے انٹرویو کو تباہ کر رہی ہے لہذا وہ بے چینی سے ان دونوں کی منت ترلے کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اگرچہ میرے اپنے ایڈیٹر ندیم سیعد بھی مجھ سے زیادہ خوش نہیں ہیں کہ میں بقول ان کے ایک ’متنازعہ‘چیف جسٹس کے حق میں کیوں ہوں۔ ندیم کے پاس بھی کئی جواز موجود ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میرے پاس اپنے جواز ہیں۔ اس لیے جب چیف جسٹس کے بیٹے کا سکینڈل سامنے آیا تو دنیا نیوز کے مالک میاں عامر محمود نے دوبئی سے عامر میر، ارشد شریف اور مجھ سے فون پر بات کی۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ ہمارے چینل کی اس موقع پر کیا پالیسی ہونی چاہیے۔ یہ پہلی دفعہ ہورہا تھا کہ کوئی مالک اپنے رپوٹروں کو بھی فیصلے میں شامل کرنا چاہتا تھا یا کم ازکم ان سے رائے لینا چاہتا تھا۔
اتفاقاً ہم تنیوں کا ایک ہی نکتہ نطر تھا کہ اس مرحلے پر جب ہر طرف الزامات کی بھرما ر ہورہی ہے اور کسی کے پاس کوئی دستاویزای ثبوت نہیں ہے، ہمیں اس وقت سمجھداری سے کام لیتے ہوئے ایک نیوٹرل لائن لینی چاہیے اور بہتر ہوگا کہ ہم عدالتی کارروائی کو رپورٹ کریں اور کوئی ایسا نیا الزام چیف جسٹس پر نہ لگائیں جس کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہ۔ میرا یہ بھی خیال تھا کہ ہمیں چیف جسٹس اور ان کے بیٹے کے کیس کو ایک دوسرے سے جدا کر کے دیکھنا چاہیے۔
میاں عامر کچھ دیر تک سوچتے رہے اور پھر بولے کہ آپ لوگوں سے بات کرنے سے پہلے میری کچھ اور لوگوں سے بات ہوئی ہے اور میرے زہن میں کچھ اور پالیسی تھی لیکن اپ لوگوں کی بات میں وزن ہے لہذا ہم یہی پالیسی اپنائیں گے۔ یہ کریڈٹ میاں عامر کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس وقت یہ ہدایات سب کو دیں کہ ہم نے چیف جسٹس کو براہ راست ٹارگٹ نہیں کرنا اور ہم نے محض حقائق کو نیوٹرل ہو کر رپورٹ کرنا ہے اور جو عدالتی کارروائی ہوگی اس پر ہی ہم عمل پیرا ہوں گے۔اور مجھے یہ کریڈٹ میاں عامر کو دینے میں ہرج نہیں ہے کہ انہوں نے میری اور ارشد شریف کی لائن سے اتفاق کیا حالانکہ ان پر دوسرے دباؤ بھی تھے کہ چیف جسٹس پھنس گئے ہیں لہذا کھل کر ان پر وار کیا جائے، خصوصاً جب ایک گروپ کے صحافی کھل کر چیف جسٹس کے خاندان کے بارے میں پروگرام کر رہے تھے جو اب دنیا ٹی وی پر الزامات کی بوچھاڑ کیے ہوئے ہیں۔ تاہم دنیا ٹی وی نے اس موقع پر انتہائی سمجھداری سے کام لیتے ہوئے متوازن پالیسی اختیار کی اور اس وجہ سے اس چینل کی ریٹنگ بھی اوپر گئی۔
اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب سب اینکرز میں ریاض ملک کو اپنے پروگرامز میں بلانے کے لیے ایک دوڑلگ گئی۔ کامران خان سے لے کر جاوید چوہدری، مہر بخاری اور مبشر لقمان تک سب چاہتے تھے کہ ریاض ملک ان کے شو میں بیٹھ کر باتیں کریں۔ ریاض ملک کس کو ناراض کرنا اس موقع پر افورڈ نہیں کر سکتے تھے خصوصاً جب وہ چیف جسٹس سے لڑائی لڑ رہے تھے اور ان سب کی حمایت اور ہمدردی کی ضرورت بھی تھی58۔ تاہم مہر بخاری اور مبشر کا پلڑا بھاری رہا۔ ریاض ملک نے سب کو ٹائم دینے کا وعدہ کیا۔ پہلے مبشر اور مہر نے انٹرویو کرنا تھا اور اگلے دن کامران خان اور جاوید چوہدری کی باری تھی۔
آپ نے ایکسپریس میں فرنٹ پیچ پر اشہتار بھی دیکھا ہوگا جو مہر اور مبشر کے انٹرویو کے اگلے روز چھپا۔ ریاض ملک کے لئے پرابلم اس وقت کھڑا ہوا جب ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ کس کے پروگرام میں جائیں اور کس کو نطر انداز کریں۔ ایک چینل پر یہ ممکن نہیں تھا کہ آٹھ بجے کے شو میں مبشر کو انٹرویو دیا جائے اور دس بجے مہر کے پروگرام میں وہی گفتگو کی جائے۔ اس پر یہ طے ہوا کہ بہتر ہو گا کہ دونوں ایک چینل سے تعلق رکھتے ہیں لہذا وہ دونوں اکھٹے انٹرویو کر لیں۔ یوں ان دونوں کو اکھٹا کیا گیا۔
یہ بات بہت واضح لگ رہی تھی کہ دونوں اینکرز اس بات پر خوش نہیں تھے کہ انہیں کریڈیٹ بانٹنا پڑے گا اگرچہ مہر بخاری کا رویہ پھر بھی زیادہ پروفیشنل رہا ۔ انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ اس انٹرویو سے چینل کا کتنا بھلا ہو گا اور یہ ان دونوں کا کریڈٹ تھا کہ ریاض ملک کو وہ سکرین پر لے آئے تھے۔ اس ویڈیو سے بھی لگ رہا ہے کہ مہر بخاری اور مبشر کے درمیان سخت نوک جھونک چل رہی ہے۔ مبشر سخت ناراض لگ رہے ہیں اور وہ واضح طور پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ انہیں مہر کا اس شو میں بیٹھنا اچھا نہیں لگ رہا اور بات بڑھتی چلی گئی۔
یہ بات ضرور ہے کہ بہت عرصے سے جس طرح پاکستانی اینکرز ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے شوز میں لڑ رہے تھے اور اپنے آپ کو نیک اور پوری دنیا کو کرپٹ سمجھ رہے تھے اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکلا ہے۔ سب لوگ انتظار کر رہے تھے کہ کب ا س دوڑ کا کلائمکس ہوتا ہے۔ بہت سارے لوگوں کو اعتراض تھا کہ کچھ اینکرز بغیر صحافت کے آداب سکھیے پیراشوٹ کر کے آسمان سے میڈیا میں کودے ہیں اور جس طرح وہ اپنے شوز میں حشر نشر کر رہے ہیں، اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
پاکستان میں سب اداروں کی توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہوا اس عمل کو تیز کرنے میں میڈیا کا بہت ہاتھ ہے ۔ میڈیا نے ہر ادارے کو ایکسپوز کر کے رکھ دیا اور اس سارے عمل میں خود بھی ایکسپوز ہو کر رہ گیا ہے۔ شاید پوری عمارت گرے گی تو نئی بنائی جا سکے گی اس لیے میٖڈیا کے بت بھی گرنے دیں جو کچھ عرصے پہلے تک جنرل مشرف کے علاوہ موجودہ سیاسی اور عدالتی بتوں کو گرانے کا کریڈٹ لے رہے تھے !شاید اسے مکافات عمل کہتے ہیں !!