اپنے ناجائز تسلط کو طوالت دینے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ نفرت کے فروغ اور تقسیم کی سیاست کا سہارہ لیا ہے۔گذشتہ تین سال سے پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے خلاف جن ہتکھنڈوں اور جیسے طاقت کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے اس کے بعد امن کے لیے بلائے جرگے کے خلاف اس طرز کی کاروائی کرکے ملک پر قابض مافیہ ہمیں جس دلدل میں دھکیل رہا ہے اس پر پورے ملک کی عوام کو متحد ہونا پڑے گا۔ امن جرگہ کسی ایک تنظیم کا جرگہ نہیں تھا جسے ایک تنظیم پر بلاجواز پابندی کی آڑ میں سبوتاژ کیا گیا یہ تمام پختونخواہ اور ملحقہ علاقوں کے عمائدین کا جرگہ تھا۔ وہاں موجود عوام پر بے دریغ گولیاں چلا کر کیا پیغام دینا مقصود تھا؟
مظلوم جب اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہا ہو تو حاکم پر اس کو سننا اور اس کا مداوا کرنا فرض ہے مگر اس کے لیے حاکم کا جائز ہونا بھی لازم ہے۔ ناجائز حکومتیں ہی ظلم کو اپنا ہتھیار بناتی ہیں۔ آج ہمیشہ سے زیادہ یہ بات واضح ہے کہ ہم جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، پاکستان کی بقا اب اس ناجائز تسلط کے خاتمے میں ہے۔ ورنہ کبھی بلوچ قوم کی محرومیوں کو ملک دشمنی قرار دینا تو کبھی بلوچستان میں مظلوم پنجابیوں کا قتل عام، کبھی پنجاب میں محنت مزدوری کرنے والے پختونوں کے خلاف نفرت کا پھیلاوا، کبھی فرقہ وارانہ فسادات اور ایسے گروہوں کی سرپرستی کرکے ہمیں تاعمر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر ہی لگائے رکھا جائیگا۔ اس وقت سب سے خبرناک چال جو چلی جارہی ہے وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے پختونخواہ پولیس کا استعمال ہے۔
نظریاتی اختلاف کے باوجود جہاں بات اپنی قوم کے امن کی ہو تو باوجود تحفظات کے اپنے کارکنان سے ہمیشہ اور مستقل یہی اپیل رہی ہے کہ امن کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو آپ نے تقویت دینی ہے۔ یہی مؤقف میرے لیڈر عمران خان کا بھی رہا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم مالاکنڈ میں امن قائم رکھنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ پوری قوم نے متحد ہوکر ہمارے لیے آواز اٹھائی۔ آج بھی ہمیں اسی اتحاد کے ساتھ اپنے لوگوں کے لیے بلاتفریق آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
https://twitter.com/x/status/1844075050212741411