لاہور ( انور عباس انور)موجودہ مسلم لیگی حکومت اپنے تمام تر دعووں کے برعکس سیاسی مخالفین کو بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ ضلع شیخوپورہ اس حوالے سے سبقت لیے ہوئے ہے۔ ویسے بھی ضلع شیخوپورہ اپنے مخصوص کردار اور روئیے کے باعث ملک گیر شہرت کا حامل رہا ہے ۔اور آج بھی ہے۔
میاں نواز شریف نے بارہا اپنے اس عزم کو دہرا یاہے کہ انکی حکومت کسی سے سیاسی انتقام نہیں لے گی ۔حتی کہ انہوں نے اپنے بدترین دشمن جنرل پرویز مشرف تک کو دل کی گہرائیوں سے معاف کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں ملک کے نئے وزیر داخلہ جناب چودہری نثارعلی خاں نے بھی اسمبلی فلور پر اعلان کیا کہ انہوںں نے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ پوری قوت سے نبٹیں ۔ لیکن اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے مارے گے چھاپوں کے دوران ان کے اہل خانہ کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی نہ کی جائے ۔خواتین کا احترام کیا جائے۔
لیکن ضلع شیخوپورہ کی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ کے تمام احکامات کو ہوا میں اڑا تے ہوئے پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور امیدوار صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 165 رانا عباس علی خاں اور انکے دو بھائیوں رانا ارشد خاں اور رانا محبوب علی خاں سمیت پندرہ افراد کے خلاف نہ صرف ,147/149,353/186,506/427 اور 16mpo کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔بلکہ اس مقدمہ کے اندراج سے قبل رات کی تاریکی میں پولیس کی بھاری نفری نے بیک وقت شرقپور شریف میں انکے آفس اور انکی رہاش گاہ واقع 23 چک راجپوتاں چھاپے مارے اور وہاں پر ایک حشر برپا کردیا ۔وہاں پر موجود کسی چیز کو اصلی حالت میں نہیں چھوڑا گیا۔توڑ پھوڑ کے نئے رکارڈ قائم کیے گے۔ وہاں کے مناظر دشمن ملک کی افواج کا منہ چڑا تے ہیں۔
پولیس نے رانا عباس علی خاں کے شرقپور شریف کے آفس اور رہاش گاہ پر چھاپے کے دوران وہاں موجود انکے ملازمین کو انتہائی بیدردی کے ساتھ وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ ملک ندیم نامی ملازم کو ننگاہ کرکے ڈنڈوں ،لاٹھیوں گھونسوں اور ٹھدوں کے آزادانہ استعمال سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے برہنہ حالت میں ہی باہر بازار میں لایا گیا پھر نہ جانے پولیس کے جوانوں کو کیا خیال سوجھا کہ ندیم ملک کو واپس ڈیرے کے اندر لیجا کر اسے شلوار پہنائی گئی ۔
رانا عباس علی خاں کے دفتر اور رہاش گاہ کی تباہی کے مناظر دیکھ کر حیرانگی اور تعجب ہوتا ہے اور دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ شریفوں کی شریف حکومت کی شریف پولیس کا ہی کارنامہ ہے یا اسرائیلی یا کسی بھارتی پولیس کی فلسطینی یا کشمیری مسلمان کے گھر میں کارروائی ہے۔ رانا عباس علی خاں اور انکے ساتھیوں کا جرم کیا ہے؟اسکی تفصیل اسسٹنٹ کمشنر تحصیل شرقپور شریف امان انور قدوائی اپنی مدعیت میں تھانہ شرقپور میں درج کرائی گئی ایف آئی آر نمبر461/13 مورخہ 22/08/2013 میں بیان کرتے ہیں کہ میں بمعہ ساجد مشرف ٹی ایم او شرقپور عثمان احمد و سٹاف بسلسلہ فلڈ ریلیف ڈیوٹی پل ابدالیہ پہنچا ،نہر اپر چناب و ڈیک کا پانی پل کو متاثر کر ہاتھا۔جس سے پل ٹوٹنے کا شدید خدشہ تھا۔ڈی سی او شیخوپورہ کے حکم کے تحت سڑک کو توڑ کر پانی کا فلو گذارنے لگے تو اسی اثنا میں اٹاری کی جانب سے ٹرالیوں ،کاروں اور موٹر سائیکلوں پر 200/300 اشخاص مسلح ہائے ڈنڈے،سوٹے،کئیی اور بیلچے جنکی قیادت رانا عباس علی خاں ،رانا ارشد پسران شیر خاں اقوام راجپوت سکنائے چکنمبر 23 کر رہے تھے۔
جن کے ہمراہ نصیر شاہ ساکن گوہر پور ثانی،منیر وٹو ساکن ساد پار، لطیف ولد شریف سکنہ ڈھامکے، ملک ندیم ،رفیق جٹ، شیخ پرویز،منشا، بلو بوسن، عبدالروف، حاجی احمد علی، بوٹا ولد مند، حافظ وقاص ، رانا ظہورعالم، رانا شوکت علی، ادریس ولد سید، رانا محبوب علی خاں،ملک بوٹا سکنہ میر پور جن کے نام و پتہ بعد میں معلوم ہوئے۔ پل ابدالیہ پر پہنچے اور کام بند کروادیا۔ جس پر میں نے پولیس نفری ڈی ایس پی فروز والا،ایس ایچ او شرقپور ایس ایچ او فیکٹری ایریا کو کال کیا جو موقعہ پر پہنچ گے۔ تو ہم نے کام دوبارہ شروع کروادیا۔ تو رانا برادران نے عوامالناس کو اور اپنے ہمرائیوں کو اشتعال دلواتے ہوئے للکارے مارتے ہوئے مجھ پر اور پولیس پارٹی پر ہلہ بول دیا۔اور کام پر لگی کرین کی توڑ پھوڑ کی اور سنگین نتائج کی دہمکیاں دیں۔ جوکہ رانا عباس علی خاں وغیرہ نے ہم پر حملہ آور ہو کر، اور عوام الناس کو اشتعال دلوا کر اور سنگین نتائج کی دہمکیاں دیکر اور کار سرکار میں مداخلت کرکے اور کام پر لگی کرین کو نقصان پہنچا کر ارتکاب جرم 353/186، 506/427,147/149 اور 16MPOکا کیا ہے۔تحریر ہذا بغرض کائمی مقدمہ بدست سٹاف ارسال تھانہ ہے اور مقدمہ درج کرکے پولیس کو تفتیش پر مامور کیا جائے دستخط انگریزی امان انور قدوائی۔
یہاں تک تو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ رانا عباس اور اسکے بھائیوں نے عوام لناس کو ہمراہ لیکر سڑک توڑنے کی مخالفت کی اور انتظامیہ کو عوام الناس کے مفاد میں ایسا کرنے سے اجتناب برتنے کا بھی کہا ہوگا ۔مقدمہ درج کرنا بھی درست مانا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ مقدمہ کے اندراج تک ہی محدود رہتا ۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ نے کس اتحارٹی کے تحت رانا عباس علی خاں اور ان کے بھائیوں کی گرفتاری کے لیے مارے گے چھاپوں کے دوران انکی رہاش اور ڈیرے پر توڑ پھوڑ ،ہلڑ بازی کرنے کا مظاہرہ کیا۔ چلو یہاں تک بھی بات مانی جا سکتی ہے مگر شرقپور شریف والے دفتر میں گھس کر ملک ندیم نامی ملازم کو الف ننگا کرکے بدترین تشدد کا نشانہ کس قانون اور قاعدے کے زمرے میں آتا ہے؟
رانا عبس علی خاں اور انکے بھائیوں کے ڈیرے اور رہاش گاہ پر دھاوا بولنے والے پولیس جوان جاتے ہوئے انکے گھر اور دفتر سے قیمتی اشیا ۔طلائی زیوارات اور لاکھوں روپے حتی کہ کپڑے بھی لے گے جبکہ پولیس کے ان جوان بہادر وں نے کچن کے سامان اور گھریلو فرج،ٹی وی،اے سی ،توڑ ڈالے ۔اس موقعہ پر پولیس نے اسقدر فائرنگ کی جس سے علاقے خوف و ہراس پھیل گیا،لوگ حیران ہیں کہ رانا عباس علی خان کوئی اشتہار ملزمان اور دہشت گرد نہیں بلکہ ایک عزت دار پاکستانی شہری اور سیاستدان ہیں۔ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا علاقے کے سیاسی مخالفین کو وفاق میں اہم عہدے پر فائز ایک شخصیت کی طرف سے اہم پیگام سمجھا جا رہا ہے
مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے لیگی رہنما جو خیر سے شریف بردران کی مہربانی اور شفقت سے مرکز میں ایک انتہائی اہم وزارت پر فاسئز کیے گے ہیں۔ جن کا تعلق ضلع شیخوپورہ کی تحصیل مریدکے سے ہے اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 132 سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔الیکشن مئی دو ہزار گیارہ سے قبل سابق تحصیل ناظم فروز والا رانا انوار الحق انکی سیاسی دشمنی کی بھینٹ چڑھ کر معاشی قبرستان کی نظر ہو چکے ہیں۔اسی طرح سابق ناظم یونین کونسل حاجی خالد محمود اعوان بھی مسلم لیگ چھوڑنے کے جرم میں کافی ذلت اور پریشانی اٹھا ئے بیٹھے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ حالی خالد محمود اعوان اس وفاقی وزیر کے ساتھ کاروباری شراکتداری رکھتے تھے ۔لیکن جونہی انہوں نے سیاسی راستے الگ کیے تو انہیں مکھن میں سے بال کی طرح کاروبار سے باہر نکال کر پھینک دیا گیا ہے۔
لوگ سوچتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کب رکیں گی۔؟ یا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور خادم اعلی پنجاب اور وزیر اعظم نواز شریف اس وفاقی وزیر کی انتقامی کارروائیوں پر آنکھیں بند کیے اسے آشیر باد دیتے رہیں گے۔سنا
ہے کہ اس وفاقی وزیر کے وزیر داخلہ چودہری نثار علیخان سے بھی مراسم داری ہے
http://www.topstoryonline.com/anwar-abbas-report-sheikhupura
میاں نواز شریف نے بارہا اپنے اس عزم کو دہرا یاہے کہ انکی حکومت کسی سے سیاسی انتقام نہیں لے گی ۔حتی کہ انہوں نے اپنے بدترین دشمن جنرل پرویز مشرف تک کو دل کی گہرائیوں سے معاف کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں ملک کے نئے وزیر داخلہ جناب چودہری نثارعلی خاں نے بھی اسمبلی فلور پر اعلان کیا کہ انہوںں نے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ پوری قوت سے نبٹیں ۔ لیکن اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے مارے گے چھاپوں کے دوران ان کے اہل خانہ کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی نہ کی جائے ۔خواتین کا احترام کیا جائے۔
لیکن ضلع شیخوپورہ کی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ کے تمام احکامات کو ہوا میں اڑا تے ہوئے پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور امیدوار صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 165 رانا عباس علی خاں اور انکے دو بھائیوں رانا ارشد خاں اور رانا محبوب علی خاں سمیت پندرہ افراد کے خلاف نہ صرف ,147/149,353/186,506/427 اور 16mpo کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔بلکہ اس مقدمہ کے اندراج سے قبل رات کی تاریکی میں پولیس کی بھاری نفری نے بیک وقت شرقپور شریف میں انکے آفس اور انکی رہاش گاہ واقع 23 چک راجپوتاں چھاپے مارے اور وہاں پر ایک حشر برپا کردیا ۔وہاں پر موجود کسی چیز کو اصلی حالت میں نہیں چھوڑا گیا۔توڑ پھوڑ کے نئے رکارڈ قائم کیے گے۔ وہاں کے مناظر دشمن ملک کی افواج کا منہ چڑا تے ہیں۔
پولیس نے رانا عباس علی خاں کے شرقپور شریف کے آفس اور رہاش گاہ پر چھاپے کے دوران وہاں موجود انکے ملازمین کو انتہائی بیدردی کے ساتھ وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ ملک ندیم نامی ملازم کو ننگاہ کرکے ڈنڈوں ،لاٹھیوں گھونسوں اور ٹھدوں کے آزادانہ استعمال سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے برہنہ حالت میں ہی باہر بازار میں لایا گیا پھر نہ جانے پولیس کے جوانوں کو کیا خیال سوجھا کہ ندیم ملک کو واپس ڈیرے کے اندر لیجا کر اسے شلوار پہنائی گئی ۔
رانا عباس علی خاں کے دفتر اور رہاش گاہ کی تباہی کے مناظر دیکھ کر حیرانگی اور تعجب ہوتا ہے اور دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ شریفوں کی شریف حکومت کی شریف پولیس کا ہی کارنامہ ہے یا اسرائیلی یا کسی بھارتی پولیس کی فلسطینی یا کشمیری مسلمان کے گھر میں کارروائی ہے۔ رانا عباس علی خاں اور انکے ساتھیوں کا جرم کیا ہے؟اسکی تفصیل اسسٹنٹ کمشنر تحصیل شرقپور شریف امان انور قدوائی اپنی مدعیت میں تھانہ شرقپور میں درج کرائی گئی ایف آئی آر نمبر461/13 مورخہ 22/08/2013 میں بیان کرتے ہیں کہ میں بمعہ ساجد مشرف ٹی ایم او شرقپور عثمان احمد و سٹاف بسلسلہ فلڈ ریلیف ڈیوٹی پل ابدالیہ پہنچا ،نہر اپر چناب و ڈیک کا پانی پل کو متاثر کر ہاتھا۔جس سے پل ٹوٹنے کا شدید خدشہ تھا۔ڈی سی او شیخوپورہ کے حکم کے تحت سڑک کو توڑ کر پانی کا فلو گذارنے لگے تو اسی اثنا میں اٹاری کی جانب سے ٹرالیوں ،کاروں اور موٹر سائیکلوں پر 200/300 اشخاص مسلح ہائے ڈنڈے،سوٹے،کئیی اور بیلچے جنکی قیادت رانا عباس علی خاں ،رانا ارشد پسران شیر خاں اقوام راجپوت سکنائے چکنمبر 23 کر رہے تھے۔
جن کے ہمراہ نصیر شاہ ساکن گوہر پور ثانی،منیر وٹو ساکن ساد پار، لطیف ولد شریف سکنہ ڈھامکے، ملک ندیم ،رفیق جٹ، شیخ پرویز،منشا، بلو بوسن، عبدالروف، حاجی احمد علی، بوٹا ولد مند، حافظ وقاص ، رانا ظہورعالم، رانا شوکت علی، ادریس ولد سید، رانا محبوب علی خاں،ملک بوٹا سکنہ میر پور جن کے نام و پتہ بعد میں معلوم ہوئے۔ پل ابدالیہ پر پہنچے اور کام بند کروادیا۔ جس پر میں نے پولیس نفری ڈی ایس پی فروز والا،ایس ایچ او شرقپور ایس ایچ او فیکٹری ایریا کو کال کیا جو موقعہ پر پہنچ گے۔ تو ہم نے کام دوبارہ شروع کروادیا۔ تو رانا برادران نے عوامالناس کو اور اپنے ہمرائیوں کو اشتعال دلواتے ہوئے للکارے مارتے ہوئے مجھ پر اور پولیس پارٹی پر ہلہ بول دیا۔اور کام پر لگی کرین کی توڑ پھوڑ کی اور سنگین نتائج کی دہمکیاں دیں۔ جوکہ رانا عباس علی خاں وغیرہ نے ہم پر حملہ آور ہو کر، اور عوام الناس کو اشتعال دلوا کر اور سنگین نتائج کی دہمکیاں دیکر اور کار سرکار میں مداخلت کرکے اور کام پر لگی کرین کو نقصان پہنچا کر ارتکاب جرم 353/186، 506/427,147/149 اور 16MPOکا کیا ہے۔تحریر ہذا بغرض کائمی مقدمہ بدست سٹاف ارسال تھانہ ہے اور مقدمہ درج کرکے پولیس کو تفتیش پر مامور کیا جائے دستخط انگریزی امان انور قدوائی۔
یہاں تک تو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ رانا عباس اور اسکے بھائیوں نے عوام لناس کو ہمراہ لیکر سڑک توڑنے کی مخالفت کی اور انتظامیہ کو عوام الناس کے مفاد میں ایسا کرنے سے اجتناب برتنے کا بھی کہا ہوگا ۔مقدمہ درج کرنا بھی درست مانا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ مقدمہ کے اندراج تک ہی محدود رہتا ۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ نے کس اتحارٹی کے تحت رانا عباس علی خاں اور ان کے بھائیوں کی گرفتاری کے لیے مارے گے چھاپوں کے دوران انکی رہاش اور ڈیرے پر توڑ پھوڑ ،ہلڑ بازی کرنے کا مظاہرہ کیا۔ چلو یہاں تک بھی بات مانی جا سکتی ہے مگر شرقپور شریف والے دفتر میں گھس کر ملک ندیم نامی ملازم کو الف ننگا کرکے بدترین تشدد کا نشانہ کس قانون اور قاعدے کے زمرے میں آتا ہے؟
رانا عبس علی خاں اور انکے بھائیوں کے ڈیرے اور رہاش گاہ پر دھاوا بولنے والے پولیس جوان جاتے ہوئے انکے گھر اور دفتر سے قیمتی اشیا ۔طلائی زیوارات اور لاکھوں روپے حتی کہ کپڑے بھی لے گے جبکہ پولیس کے ان جوان بہادر وں نے کچن کے سامان اور گھریلو فرج،ٹی وی،اے سی ،توڑ ڈالے ۔اس موقعہ پر پولیس نے اسقدر فائرنگ کی جس سے علاقے خوف و ہراس پھیل گیا،لوگ حیران ہیں کہ رانا عباس علی خان کوئی اشتہار ملزمان اور دہشت گرد نہیں بلکہ ایک عزت دار پاکستانی شہری اور سیاستدان ہیں۔ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا علاقے کے سیاسی مخالفین کو وفاق میں اہم عہدے پر فائز ایک شخصیت کی طرف سے اہم پیگام سمجھا جا رہا ہے
مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے لیگی رہنما جو خیر سے شریف بردران کی مہربانی اور شفقت سے مرکز میں ایک انتہائی اہم وزارت پر فاسئز کیے گے ہیں۔ جن کا تعلق ضلع شیخوپورہ کی تحصیل مریدکے سے ہے اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 132 سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔الیکشن مئی دو ہزار گیارہ سے قبل سابق تحصیل ناظم فروز والا رانا انوار الحق انکی سیاسی دشمنی کی بھینٹ چڑھ کر معاشی قبرستان کی نظر ہو چکے ہیں۔اسی طرح سابق ناظم یونین کونسل حاجی خالد محمود اعوان بھی مسلم لیگ چھوڑنے کے جرم میں کافی ذلت اور پریشانی اٹھا ئے بیٹھے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ حالی خالد محمود اعوان اس وفاقی وزیر کے ساتھ کاروباری شراکتداری رکھتے تھے ۔لیکن جونہی انہوں نے سیاسی راستے الگ کیے تو انہیں مکھن میں سے بال کی طرح کاروبار سے باہر نکال کر پھینک دیا گیا ہے۔
لوگ سوچتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کب رکیں گی۔؟ یا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور خادم اعلی پنجاب اور وزیر اعظم نواز شریف اس وفاقی وزیر کی انتقامی کارروائیوں پر آنکھیں بند کیے اسے آشیر باد دیتے رہیں گے۔سنا
ہے کہ اس وفاقی وزیر کے وزیر داخلہ چودہری نثار علیخان سے بھی مراسم داری ہے
http://www.topstoryonline.com/anwar-abbas-report-sheikhupura