بم دھماکے۔ مجرم کون؟
مسعود انور
http://www.masoodanwar.com
[email protected]
پشاور میں کوہاٹی دروازے پر قائم قدیم گرجا گھر میں ہونے والا دھماکا اپنی نوعیت کا نہ تو پہلا دھماکا ہے اور نہ آخری۔ پاکستانی قوم ان دھماکوں کی عادی ہوچکی ہے۔ چاہے کراچی و کوئٹہ ہوں یا پھر پشاور وقبائلی علاقے، یہاں پر دھماکے اور ان کے نتیجے میں ہونے والا یہ بھاری جانی و مالی نقصان بھی اب اس قوم کے لئے مزید کوئی بڑی خبر نہیں رہا ہے۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ہونے والا یہ دھماکا بس تھوڑا سا اس لیے منفرد ہے کہ اس میں پاکستان میں بسنے والی ایک اقلیت نشانہ بن گئی۔ جبکہ اب تک اس ملک میں رہنے والی مسلم اکثریت ہی اس کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دھماکے برما اور بھارت میں ہونے والے فسادات سے اس لیے یکسر مختلف ہیں کہ اکثریت ہویا اقلیت ، کوئی بھی نسل ہو یا رنگ، لوگ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں یا مذہب سے، یہاں پر کسی کے دل میں کسی دوسرے کے لیے نفرت کے جذبات نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ایک دوسرے کو ضرر پہنچانا چاہتے ہیں۔ نقصان کسی کا بھی ہو، غم ہر ایک کو یکساں ہوتا ہے۔پشاور میں ہونے والے ہی بم دھماکے کو دیکھئے۔ سب سے پہلے ان کی مدد کو کون پہنچا۔ آس پاس کے مسلمان۔ الخدمت کے مسلم رضا کار۔ ان زخمیوں کو اسپتال کس نے پہنچایا، ان کو فوری طور پر دوا کس نے فراہم کی، ان زخمیوں کو خون کس نے فراہم کیا۔ یہ الخدمت کے رضاکار اور علاقے کے سارے مسلمان ہی تو تھے نہ۔ اس طرح پاکستان کے بارے میں یہ تاثر نہیں بن پاتا کہ یہاں پر کوئی مذہبی منافرت موجود ہے جبکہ برما میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے وہاں کے بودھ بھکشو ہی ہیں اور بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے مال و آبرو کو لوٹنے والے بھی ان کے ہندو انتہا پسند ہمسایہ دار ہی ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کے گھروں پر حملوں میں بھی وہاں کے عیسائی شامل ہیں ۔ یہی صورتحال جرمنی اور فرانس میں بھی ہے۔
پشاور دھماکے کے بعد سوال یہ نہیں ہے کہ اس کا نشانہ کون بنا، اصل سوال یہ ہے کہ یہ نشانہ بنانے والے ہیں کون اور ان پر قابو کیسے پایا جائے؟ دیکھنے میں یہ سوال انتہائی مشکل ہے اور یہ سوال جتنے بھی لوگوں سے بھی کیا جائے، اتنے ہی اس جواب کے پہلو ہیں۔ جیسے چار اندھوں سے ہاتھی کے بارے میں پوچھا جائے تو اس کے جواب بھی چار ہی آتے ہیں۔مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس سوال کا جواب جتنا بھی پیچیدہ بنادیا جائے ، اتنا پیچیدہ ہے نہیں اور نہ ہی اس کے حل میں کوئی راکٹ سائنس پوشیدہ ہے۔
اس امر پر تو پوری قوم متفق ہے کہ یہ دھماکے کرنے والے پاکستان یا مسلمانوں کے دوست نہیں ہیں۔ یہ یا تو براہ راست یا پھر انجانے میں ملک دشمنوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اس معاملے کا کھرا پاکستان کے بجائے باہر سے ہی اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان میں ان معاملات کو روکنے کا ایک ہی آسان سا طریقہ ہے کہ سب سے پہلے ان کی رسد بند کردی جائے۔ یہ رسد ان کو ملتی کہاں سے ہے۔ اس کا ایک بڑا ذریعہ تو ناٹو کے گمشدہ کنٹینر ہی ہیں جس کی بندش پر کوئی بھی حکومت راضی ہی نہیں ہے۔ قبائلی علاقوں میں موجود یہ فوج ظفر موج رضا کار نہیں ہے۔ یہ سب کے سب تنخواہ دار ہیں۔ ان کی تنخواہوں کا بل لاکھوں میں نہیں کروڑوں روپے ماہانہ میں ہے۔ یہ اسلحہ تو ناٹو کے کنٹینروں کے ذریعے ان تک پہنچ گیا اب ان کی ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی کیسے ہوتی ہے۔یہ کروڑوں روپے کی کرنسی ہر ماہ آخر ان دور دراز قبائلی علاقوں تک پہنچتی کیسے ہے۔ اس کے بارے میں ، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ کروڑوں روپے جو ہزار ہزار روپے کے نوٹوں کی شکل میں ہوتے ہیں ، کسی ٹرک یا گدھے کے ذریعے اسمگل ہوکر ان علاقوں میں نہیں پہنچتے۔ اس کا ذریعہ آپ کا قومی بینک نیشنل بینک ہی ہے۔ اس کو کیوں نہیں روکتے۔
اگر ایک ڈیرہ جیل پر حملے کی گتھی ہی سلجھالی جائے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ بم دھماکے کرنے والے کس کس کے پالے ہوئے ہیں۔ اگر سانحہ ایبٹ آباد ہی کے بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کرلی جائیں تو پتہ چل جائے گا کہ اسامہ وہاں تھا بھی کہ نہیں اور اصل واقعہ کیا ہے۔یہ سارے کے سارے گروہ صرف اور صرف مالی مدد کے ذریعے ہی چلتے ہیں۔ ان کی رسد جس روز بھی کاٹ ڈالی جائے گی، یہ اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ مگر ان کو خون پلا کر توانا کون کرتا ہے۔ کیا یہ عوام ہیں۔ جی نہیں یہ ہماری ملک میں بیٹھے ہوئے ارباب اقتدار ہی ہیں اور یہ عسکری قیادت ہی ہے جو عالمی سازش کاروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
یہ ایم کیو ایم کس نے بنائی تھی۔ یہ جئے سندھ کو کس نے توانا کیا تھا۔ یہ اے این پی کو کس نے از سرنو زندگی بخشی تھی۔ یہ ایک پاکستانی سپہ سالار ضیا ء الحق کا ہی کارنامہ تھا نہ۔ پھر دوسرے سپہ سالار پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو آج اس درجے پر پہنچادیا کہ جس کا کبھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ ایک جنرل پرویز مشرف ہی تھا نہ جس کے دور میں ناٹو کنٹینروں کی گمشدگی پر آنکھ بند رکھی گئی اور سندھ و بلوچستان میں اس جدید اسلحہ کے ڈھیر لگ گئے جو پاکستانی فوج کے پاس بھی موجود نہیں۔ یہ کیانی ہی تو ہیں جس کے دور میں ڈیرہ جیل اور بنوں جیل جیسے واقعات ہوئے۔ یہ ڈیرہ جیل اوربنوں جیل کوئی چھوٹے واقعات نہیں ہیں۔ یہ یہاں سے چھڑائے گئے مجرم ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسران کو دیر بالا میں نشانہ بنایا اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے پشاور میں دھماکے کیے۔
اب بات پشاور جیسے سانحات پر نوحہ خوانی کی نہیں ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اس دہشت گردی سے نمٹنا ہے یا ان دہشت گردوں کو دودھ پلانا ہے۔اگر نمٹنا ہے تو مجرم کو مجرم قرار دیجیے۔ انہیں جیلوں سے پے رول پر مت رہا کریں اور جیلوں کو توڑنے کے مواقع نہ فراہم کریں۔ جن برسراقتدار لوگوں نے مجرموں کو سندھ میں پے رول پر رہا کیا ہے انہیں بھی جیلوں میں ڈالیں۔ جن برسراقتدار اور باوردی لوگوں نے بنوں اور ڈیرہ جیل توڑنے میں معاونت فراہم کی ہے ، انہیں بھی جیل میں ڈالیں۔ جن سرکاری افسران اور حکومت کے کارپردازوں نے ناٹو کنٹینروں کو غائب کیا ہے انہیں بھی جیلوں کی سیر کروائیں۔ بینکوں کے ذریعے انہیں ماہانہ تنخواہوں کی مزید ادائیگی رکوائیں۔ان مجرموں کی سرکوبی سے پہلے تو ان مجرموں کے سرپرستوں کو پکڑیں جو ان کے گرفتار ہوتے ہی ان کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔ یہ دھماکے بھی ختم ہوجائیں گے اور ملک سے افراتفری بھی ختم ہوجائے گی۔ جب تک مجرموں کی سرکاری سرپرستی ختم نہیں کریں گے، اس وقت تک جرم نہیں ختم ہوگا۔ مگر سرکار پر اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ ان کے سارے اہل خانہ تو ملک سے باہر دہری شہریت کے مزے کررہے ہیں اورجتنے دھماکے ہوتے ہیں ، ان کے بینک اکاوٴنٹ اتنے ہی بھر جاتے ہیں۔ ان کو کرنا کیا ہے، صرف ان بم دھماکوں کی مذمت ہی تو کرنی ہوتی ہے۔
سمجھ لیجیے کہ بین الاقوامی سازش کاروں کی سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوپاتی جب تک حکومت اور سرکار میں بیٹھے ان کے ایجنٹ ان سازش کاروں کے باہر بیٹھے ایجنٹ مجرموں کی مدد نہیں کرتے۔ جتنے دھماکے کرنے والے باہر کے ایجنٹ مجرم ہیں اتنے اندر بیٹھے وہ ایجنٹ بھی مجرم ہیں جو سزا یافتہ مجرموں کو پے رول پر رہا کرتے ہیں، ڈیرہ و بنوں جیل تڑواتے ہیں، ناٹو کنٹینر غائب کرواتے ہیں اور بینکوں کے ذریعے انہیں مالی مدد کی فراہمی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان مجرموں کو پہچانئے اور ان کی سرکوبی کی فکر کریں۔ باہر کے دھماکے خود بہ خود ختم ہوجائیں گے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
مسعود انور
http://www.masoodanwar.com
[email protected]
پشاور میں کوہاٹی دروازے پر قائم قدیم گرجا گھر میں ہونے والا دھماکا اپنی نوعیت کا نہ تو پہلا دھماکا ہے اور نہ آخری۔ پاکستانی قوم ان دھماکوں کی عادی ہوچکی ہے۔ چاہے کراچی و کوئٹہ ہوں یا پھر پشاور وقبائلی علاقے، یہاں پر دھماکے اور ان کے نتیجے میں ہونے والا یہ بھاری جانی و مالی نقصان بھی اب اس قوم کے لئے مزید کوئی بڑی خبر نہیں رہا ہے۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ہونے والا یہ دھماکا بس تھوڑا سا اس لیے منفرد ہے کہ اس میں پاکستان میں بسنے والی ایک اقلیت نشانہ بن گئی۔ جبکہ اب تک اس ملک میں رہنے والی مسلم اکثریت ہی اس کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دھماکے برما اور بھارت میں ہونے والے فسادات سے اس لیے یکسر مختلف ہیں کہ اکثریت ہویا اقلیت ، کوئی بھی نسل ہو یا رنگ، لوگ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں یا مذہب سے، یہاں پر کسی کے دل میں کسی دوسرے کے لیے نفرت کے جذبات نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ایک دوسرے کو ضرر پہنچانا چاہتے ہیں۔ نقصان کسی کا بھی ہو، غم ہر ایک کو یکساں ہوتا ہے۔پشاور میں ہونے والے ہی بم دھماکے کو دیکھئے۔ سب سے پہلے ان کی مدد کو کون پہنچا۔ آس پاس کے مسلمان۔ الخدمت کے مسلم رضا کار۔ ان زخمیوں کو اسپتال کس نے پہنچایا، ان کو فوری طور پر دوا کس نے فراہم کی، ان زخمیوں کو خون کس نے فراہم کیا۔ یہ الخدمت کے رضاکار اور علاقے کے سارے مسلمان ہی تو تھے نہ۔ اس طرح پاکستان کے بارے میں یہ تاثر نہیں بن پاتا کہ یہاں پر کوئی مذہبی منافرت موجود ہے جبکہ برما میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے وہاں کے بودھ بھکشو ہی ہیں اور بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے مال و آبرو کو لوٹنے والے بھی ان کے ہندو انتہا پسند ہمسایہ دار ہی ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کے گھروں پر حملوں میں بھی وہاں کے عیسائی شامل ہیں ۔ یہی صورتحال جرمنی اور فرانس میں بھی ہے۔
پشاور دھماکے کے بعد سوال یہ نہیں ہے کہ اس کا نشانہ کون بنا، اصل سوال یہ ہے کہ یہ نشانہ بنانے والے ہیں کون اور ان پر قابو کیسے پایا جائے؟ دیکھنے میں یہ سوال انتہائی مشکل ہے اور یہ سوال جتنے بھی لوگوں سے بھی کیا جائے، اتنے ہی اس جواب کے پہلو ہیں۔ جیسے چار اندھوں سے ہاتھی کے بارے میں پوچھا جائے تو اس کے جواب بھی چار ہی آتے ہیں۔مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس سوال کا جواب جتنا بھی پیچیدہ بنادیا جائے ، اتنا پیچیدہ ہے نہیں اور نہ ہی اس کے حل میں کوئی راکٹ سائنس پوشیدہ ہے۔
اس امر پر تو پوری قوم متفق ہے کہ یہ دھماکے کرنے والے پاکستان یا مسلمانوں کے دوست نہیں ہیں۔ یہ یا تو براہ راست یا پھر انجانے میں ملک دشمنوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اس معاملے کا کھرا پاکستان کے بجائے باہر سے ہی اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان میں ان معاملات کو روکنے کا ایک ہی آسان سا طریقہ ہے کہ سب سے پہلے ان کی رسد بند کردی جائے۔ یہ رسد ان کو ملتی کہاں سے ہے۔ اس کا ایک بڑا ذریعہ تو ناٹو کے گمشدہ کنٹینر ہی ہیں جس کی بندش پر کوئی بھی حکومت راضی ہی نہیں ہے۔ قبائلی علاقوں میں موجود یہ فوج ظفر موج رضا کار نہیں ہے۔ یہ سب کے سب تنخواہ دار ہیں۔ ان کی تنخواہوں کا بل لاکھوں میں نہیں کروڑوں روپے ماہانہ میں ہے۔ یہ اسلحہ تو ناٹو کے کنٹینروں کے ذریعے ان تک پہنچ گیا اب ان کی ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی کیسے ہوتی ہے۔یہ کروڑوں روپے کی کرنسی ہر ماہ آخر ان دور دراز قبائلی علاقوں تک پہنچتی کیسے ہے۔ اس کے بارے میں ، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ کروڑوں روپے جو ہزار ہزار روپے کے نوٹوں کی شکل میں ہوتے ہیں ، کسی ٹرک یا گدھے کے ذریعے اسمگل ہوکر ان علاقوں میں نہیں پہنچتے۔ اس کا ذریعہ آپ کا قومی بینک نیشنل بینک ہی ہے۔ اس کو کیوں نہیں روکتے۔
اگر ایک ڈیرہ جیل پر حملے کی گتھی ہی سلجھالی جائے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ بم دھماکے کرنے والے کس کس کے پالے ہوئے ہیں۔ اگر سانحہ ایبٹ آباد ہی کے بارے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کرلی جائیں تو پتہ چل جائے گا کہ اسامہ وہاں تھا بھی کہ نہیں اور اصل واقعہ کیا ہے۔یہ سارے کے سارے گروہ صرف اور صرف مالی مدد کے ذریعے ہی چلتے ہیں۔ ان کی رسد جس روز بھی کاٹ ڈالی جائے گی، یہ اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ مگر ان کو خون پلا کر توانا کون کرتا ہے۔ کیا یہ عوام ہیں۔ جی نہیں یہ ہماری ملک میں بیٹھے ہوئے ارباب اقتدار ہی ہیں اور یہ عسکری قیادت ہی ہے جو عالمی سازش کاروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
یہ ایم کیو ایم کس نے بنائی تھی۔ یہ جئے سندھ کو کس نے توانا کیا تھا۔ یہ اے این پی کو کس نے از سرنو زندگی بخشی تھی۔ یہ ایک پاکستانی سپہ سالار ضیا ء الحق کا ہی کارنامہ تھا نہ۔ پھر دوسرے سپہ سالار پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو آج اس درجے پر پہنچادیا کہ جس کا کبھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ ایک جنرل پرویز مشرف ہی تھا نہ جس کے دور میں ناٹو کنٹینروں کی گمشدگی پر آنکھ بند رکھی گئی اور سندھ و بلوچستان میں اس جدید اسلحہ کے ڈھیر لگ گئے جو پاکستانی فوج کے پاس بھی موجود نہیں۔ یہ کیانی ہی تو ہیں جس کے دور میں ڈیرہ جیل اور بنوں جیل جیسے واقعات ہوئے۔ یہ ڈیرہ جیل اوربنوں جیل کوئی چھوٹے واقعات نہیں ہیں۔ یہ یہاں سے چھڑائے گئے مجرم ہی ہیں جنہوں نے پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسران کو دیر بالا میں نشانہ بنایا اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے پشاور میں دھماکے کیے۔
اب بات پشاور جیسے سانحات پر نوحہ خوانی کی نہیں ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ اس دہشت گردی سے نمٹنا ہے یا ان دہشت گردوں کو دودھ پلانا ہے۔اگر نمٹنا ہے تو مجرم کو مجرم قرار دیجیے۔ انہیں جیلوں سے پے رول پر مت رہا کریں اور جیلوں کو توڑنے کے مواقع نہ فراہم کریں۔ جن برسراقتدار لوگوں نے مجرموں کو سندھ میں پے رول پر رہا کیا ہے انہیں بھی جیلوں میں ڈالیں۔ جن برسراقتدار اور باوردی لوگوں نے بنوں اور ڈیرہ جیل توڑنے میں معاونت فراہم کی ہے ، انہیں بھی جیل میں ڈالیں۔ جن سرکاری افسران اور حکومت کے کارپردازوں نے ناٹو کنٹینروں کو غائب کیا ہے انہیں بھی جیلوں کی سیر کروائیں۔ بینکوں کے ذریعے انہیں ماہانہ تنخواہوں کی مزید ادائیگی رکوائیں۔ان مجرموں کی سرکوبی سے پہلے تو ان مجرموں کے سرپرستوں کو پکڑیں جو ان کے گرفتار ہوتے ہی ان کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔ یہ دھماکے بھی ختم ہوجائیں گے اور ملک سے افراتفری بھی ختم ہوجائے گی۔ جب تک مجرموں کی سرکاری سرپرستی ختم نہیں کریں گے، اس وقت تک جرم نہیں ختم ہوگا۔ مگر سرکار پر اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ ان کے سارے اہل خانہ تو ملک سے باہر دہری شہریت کے مزے کررہے ہیں اورجتنے دھماکے ہوتے ہیں ، ان کے بینک اکاوٴنٹ اتنے ہی بھر جاتے ہیں۔ ان کو کرنا کیا ہے، صرف ان بم دھماکوں کی مذمت ہی تو کرنی ہوتی ہے۔
سمجھ لیجیے کہ بین الاقوامی سازش کاروں کی سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوپاتی جب تک حکومت اور سرکار میں بیٹھے ان کے ایجنٹ ان سازش کاروں کے باہر بیٹھے ایجنٹ مجرموں کی مدد نہیں کرتے۔ جتنے دھماکے کرنے والے باہر کے ایجنٹ مجرم ہیں اتنے اندر بیٹھے وہ ایجنٹ بھی مجرم ہیں جو سزا یافتہ مجرموں کو پے رول پر رہا کرتے ہیں، ڈیرہ و بنوں جیل تڑواتے ہیں، ناٹو کنٹینر غائب کرواتے ہیں اور بینکوں کے ذریعے انہیں مالی مدد کی فراہمی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان مجرموں کو پہچانئے اور ان کی سرکوبی کی فکر کریں۔ باہر کے دھماکے خود بہ خود ختم ہوجائیں گے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔