Patwari or Computer? زمینوں کا رکھوالا

shafi3859

Minister (2k+ posts)
زمینوں کا رکھوالا: پٹواری کی جگہ کمپیوٹر


پنجاب حکومت نے پورے صوبے میں زمین کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کرنے کے لیے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔پاکستان میں آج بھی کپڑے کے ایک ٹکڑے کے ذریعےزمین کی نشاندہی کا پُرانا نظام رائج ہے۔ پٹواری لٹھا کہلائے جانے والے اس نظام کے تحت پاکستان کے اکثر علاقوں میں زمینوں کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں اس نظام کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست بدعنوانی کے مواقع بتائے جاتے ہیں۔

زمینوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹر پر رکھنے کی پالیسی کا آغاز حافظ آباد سے کر دیا گیا ہے جبکہ باقی اضلاع کی زمینوں کا ریکارڈ سنہ دو ہزار چودہ تک کمپوٹرائزڈ کر دیا جائے گا۔موجودہ نظام کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے ایک پٹواری کے دفتر کا دورہ کیا۔ پٹورای صاحب تو موجود نہیں تھے البتہ اُن کا نجی سٹاف موجود تھا جو لوگوں کو کپڑے کے ٹکڑے کے ذریعے زمین کی نشاندہی کر کے دے رہا تھا اور کچھ فیس بھی وصول کر رہا تھا جو بظاہر سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہونا تھی۔

پٹواری کے نجی سٹاف جس نے پٹوار کا کورس بھی کیا ہوا ہے نے بتایا کہ کپڑے کے ٹکڑے پر کی گئی زمینوں کی نشاندہی کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ نویں گریڈ کا پٹواری جس کی تنخواہ پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ ہے کس طرح تین سے چار ملازم رکھ سکتا ہے۔راولپنڈی میں تعینات ایک پٹواری نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ تحصیل دار سمیت اعلیٰ سرکاری افسران کی طرف سے اُن سے غیر سرکاری مطالبات کیے جاتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے اُن کے پاس لوگوں سے زمینوں کی نشاندہی اور نقل فراہم کرنے کے لیے پیسے لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔اُنہوں نے کہا کہ مختلف حلقوں میں تعیناتی کے لیے سفارش اور بولیاں لگائی جاتی ہیں اور جو پٹواری صاحبان سیاسی اثرورسوخ کے علاوہ افسران کے غیر ضروری مطالبات تسلیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اُنہیں اُن حلقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں پر زمین کی خریدوفروخت کا کام سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

پٹوار خانے سے زمین کی نشاندہی کروانے کے بعد ریکارڈ آفس سے زمین کی نقل حاصل کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔راولپنڈی کا ریکارڈ روم انگریزوں کے دور میں بنائی گئی عمارت میں موجود ہے۔ ڈیڑھ سو سالہ پُرانی اس عمارت میں زمین کا سولہ سالہ پُرانا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ اس عمارت میں کچھ عرصہ قبل آگ بھی لگ گئی تھی جس سے زمین کا ریکارڈ جل گیا تھا۔ یہاں پر بھی زمین کی نقل حاصل کرنے کے لیے نظرانہ دیا جاتا ہے۔ اس ریکارڈ روم کے انچارج اس کی تردید کرتے ہیں۔زمینوں کی نشاندہی اور ملکیت کے بارے میں پٹواریوں کے فیصلوں سے متعلق لاکھوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ نیر شاہ بھی اُن افراد میں شامل ہیں جو پٹواری کے فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں اور مبینہ طور پر اُن کی کروڑوں روپے مالیت کی زمین تنازع کا شکار ہوگئی ہے۔ اس زمین سے متعلق نیر شاہ کا مقدمہ گُزشتہ تیس سال سے عدالت میں زیر سماعت ہے۔انہی مسائل کے حل کے لیے پنجاب حکومت نے زمینوں کے ریکارڈ کی کمپورائزیشن کا منصوبہ شروع کیا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ سنہ دوہزّار چودہ میں مکمل ہوگا جس سے پٹواریوں کی طاقت کم ہوگی اور لوگوں کوریلیف ملے گا۔ منیب جاوید اس منصوبے پر کام کررہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ صوبے کی تمام زمین کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کرنا بظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے تاہم اُن کا کہنا ہے کہ شفٹوں میں دن رات اس منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ اس سے بدعنوانی کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد زمین کے مالک اپنی زمین کا ریکارڈ اُسی طرح دیکھ سکیں گے جس طرح بینک کا کھاتے دار آن لائن کے ذریعے گھر بیٹھے اپنے اکاؤنٹ کی صورت حال دیکھتے ہیں۔

bbcurdu
 
Last edited by a moderator:

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
اس پروگرام میں جو اندراج اور تبدیلی ہوگی لکنے میں زمینوں کے سائیز لمبائی چوڑائی اس کا رکارڈ بھی محفوظ ہونا لازمی ہے تاکہ کسی کو ردوبدل کرنے کا موقع نہ ملے کیس کی صورت میں حقیقت نہ چھپ جائے- پاکستان میں پلاٹوں کے نقشے نہیں ہوتے یہ بھی بہت اہم ہیں کہ ہر پلاٹ کا ہر گھر کمپوٹر رائیز نقشہ موجود ہو جائیداد کے کاغذات کے ساتھ اور حکومت کے پاس اس کا رکارڈ موجود ہو تب کسی کی زمین پر تجاوز کرنا ختم ہو جائیگا ہر ایک کو اپنا حق ملے گا - اگر مسلم لیگ نون نے یہ کام کیا ہے تو بہت اچھی بات ہے ان کو داد دینی چاہئے جبکہ یہ پروگرام تحریک انصاف کا تھا
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
(یہ منصوبہ پہلے بھی شروع کیا گیا تھا، شائد ناکام رہا (بنا دیا گیا
 

shahbaz tariq

Chief Minister (5k+ posts)
sab bakwas hai ajj bi patwari apni abb-o-tabb ky sath kam kar rhy hai. or ab to rate bi high ho gye hai janab
 

rasheikh

Senator (1k+ posts)
اس پروگرام میں جو اندراج اور تبدیلی ہوگی لکنے میں زمینوں کے سائیز لمبائی چوڑائی اس کا رکارڈ بھی محفوظ ہونا لازمی ہے تاکہ کسی کو ردوبدل کرنے کا موقع نہ ملے کیس کی صورت میں حقیقت نہ چھپ جائے- پاکستان میں پلاٹوں کے نقشے نہیں ہوتے یہ بھی بہت اہم ہیں کہ ہر پلاٹ کا ہر گھر کمپوٹر رائیز نقشہ موجود ہو جائیداد کے کاغذات کے ساتھ اور حکومت کے پاس اس کا رکارڈ موجود ہو تب کسی کی زمین پر تجاوز کرنا ختم ہو جائیگا ہر ایک کو اپنا حق ملے گا - اگر مسلم لیگ نون نے یہ کام کیا ہے تو بہت اچھی بات ہے ان کو داد دینی چاہئے جبکہ یہ پروگرام تحریک انصاف کا تھا
I dont support any party Blindly. But Plan Jiss Kay bhi ho , Credit Goes to those who Implemented !!!! Baatein to sub Kartay hein we have to give Credit to those Who ACT on It.
 

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
(یہ منصوبہ پہلے بھی شروع کیا گیا تھا، شائد ناکام رہا (بنا دیا گیا
یہ ناکام ہو ہی نہیں سکتا صرف ان کے پاس نارمل سپیشلٹ نہیں ہونگیں یا پھر کرنا نہیں چاہتے اپنی منافقت کی وجہ سے-اسکے علاوہ پاکستان میں انٹرنشنل ناپ تول کا نظام مستحکم کرنا بھی اہم ہے آج کل گز میٹر کلو سیر فٹ وغیرہ سارے موجود ہیں جس کی وجہ سے ساری قوم جاہل بنی ہوئی ہے کسی کو نارمل حساب کتاب بھی نہیں اتا
 
Last edited:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
یہ ناکام ہو ہی نہیں سکتا صرف ان کے پاس نارمل سپیشلٹ نہ ہونگیں یا پھر کرنا نہیں چاہتے اپنی منافقت کی وجہ سے
وجوہات ٹیکنکل نہیں نان ٹیکنکل تھیں (ہیں). ریلوے ٹکٹنگ کا نظام بھی کمپوٹرایذڈ کیا گیا تھا سنا ہے وہ بھی دوبارہ رجسٹروں پر آ گیا ہے. نادار آفس کے باہر بھی پھٹے لگ گئے ہیں
 

Muhkam

MPA (400+ posts)
زمینوں کا رکھوالا: پٹواری کی جگہ کمپیوٹر

پنجاب حکومت نے پورے صوبے میں زمین کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کرنے کے لیے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔

پاکستان میں آج بھی کپڑے کے ایک ٹکڑے کے ذریعےزمین کی نشاندہی کا پُرانا نظام رائج ہے۔ پٹواری لٹھا کہلائے جانے والے اس نظام کے تحت پاکستان کے اکثر علاقوں میں زمینوں کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں اس نظام کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست بدعنوانی کے مواقع بتائے جاتے ہیں۔

زمینوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹر پر رکھنے کی پالیسی کا آغاز حافظ آباد سے کر دیا گیا ہے جبکہ باقی اضلاع کی زمینوں کا ریکارڈ سنہ دو ہزار چودہ تک کمپوٹرائزڈ کر دیا جائے گا۔

موجودہ نظام کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے ایک پٹواری کے دفتر کا دورہ کیا۔ پٹورای صاحب تو موجود نہیں تھے البتہ اُن کا نجی سٹاف موجود تھا جو لوگوں کو کپڑے کے ٹکڑے کے ذریعے زمین کی نشاندہی کر کے دے رہا تھا اور کچھ فیس بھی وصول کر رہا تھا جو بظاہر سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہونا تھی۔


پٹواری کے نجی سٹاف جس نے پٹوار کا کورس بھی کیا ہوا ہے نے بتایا کہ کپڑے کے ٹکڑے پر کی گئی زمینوں کی نشاندہی کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ نویں گریڈ کا پٹواری جس کی تنخواہ پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ ہے کس طرح تین سے چار ملازم رکھ سکتا ہے۔

راولپنڈی میں تعینات ایک پٹواری نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ تحصیل دار سمیت اعلیٰ سرکاری افسران کی طرف سے اُن سے غیر سرکاری مطالبات کیے جاتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے اُن کے پاس لوگوں سے زمینوں کی نشاندہی اور نقل فراہم کرنے کے لیے پیسے لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ مختلف حلقوں میں تعیناتی کے لیے سفارش اور بولیاں لگائی جاتی ہیں اور جو پٹواری صاحبان سیاسی اثرورسوخ کے علاوہ افسران کے غیر ضروری مطالبات تسلیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اُنہیں اُن حلقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں پر زمین کی خریدوفروخت کا کام سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130819_patwari_revenue_a.shtml
 

Back
Top