We all enjoyed videos of Indian players crying after their match with SA but that was a great aspect of their inner self respect and overall national courage and willing to do something for their country. Fortunately our players played well but Unfortunately we failed to show our national courage and willingness towards this event as a team.
and BBC says
http://www.bbc.co.uk/urdu/sport/2012/10/121004_hafeez_presser_defeat_zs.shtml
موہالی کے بعد اب یہ دل کولمبو میں ٹوٹے ہیں لیکن کپتان کی سادگی پہ کون نہ مرے کہ وہ فخر سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں ٹیم کی اس ٹورنامنٹ کی کارکردگی پر خوشی ہے ۔
سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے کپتان محمد حفیظ جب پریس کانفرنس میں آئے تو چہرے پر نہ افسردگی تھی اور نہ اپنے اور ٹیم کے کیے کی پشیمانی بلکہ جب ان سے پوچھا گیا کہ پوری قوم کی توقعات پر پورا نہ اترنے کے بعد اب آپ قوم کو کیا کہیں گے تو انہوں نے بڑے اطمینان سے جواب دے دیا کہ پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم نے جو کارکردگی دکھائی ہے اس پر وہ خوش ہیں۔
’صرف اس میچ میں بیٹنگ ناکام ہوئی ہے اور یہ کھیل ہے جس میں ایک ٹیم کامیابی حاصل کرتی ہے اور دوسری ہارتی ہے‘۔
محمد حفیظ پورے ٹورنامنٹ میں لفظوں سے کھیلتے رہے اور اپنے کھلاڑیوں کے گن گاتے رہے کہ وہ میچ ونر ہیں لیکن جب ان سے سینیئر کھلاڑیوں کی غیرمستقل مزاج کارکردگی کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ میچ ونر کہاں ہیں تو سینئر کھلاڑیوں کا دفاع کرتے نہ تھکنے والے حفیظ نے ایک بار پھر ان کھلاڑیوں کی
خوبیاں گنوانی شروع کردیں۔
محمد حفیظ کا دعوی ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں کامران اکمل کی کارکردگی اچھی رہی جبکہ تقریباً ہر میچ میں انہوں نے کیچ گرائے اور اپنی جس بیٹنگ کے بل پر وہ ٹیم میں شامل کیے گئے تھے ا سکی جھلک صرف ایک وارم اپ میچ میں ہی دکھاپائے۔
اسی طرح شعیب ملک بھی کامران اکمل کی طرح حیران کن طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی انٹیگریٹی کمیٹی سے کلیئر ہوکر ٹیم میں شامل ہوئے لیکن بحیثیت بیٹسمین وہ مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکے بولر کی حیثیت سے ان کا کردار ویسے ہی ختم ہوچکا ہے۔
شاہد آفریدی کے لیے پورا ٹورنامنٹ بھیانک خواب ثابت ہوا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کپتانی نہ ملنے کا اثر ان کی کارکردگی پر پڑا ہے کیونکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ مصباح الحق کو ٹی ٹوئنٹی سے فارغ کئے جانے کے بعد شاہد آفریدی کپتانی کے مضبوط دعویدار تھے لیکن کرکٹ بورڈ انہیں کپتانی دینے کے لیے تیار نہ تھا اور محمد حفیظ کی قسمت جاگ گئی جو کافی عرصے سے کپتانی کے لیے بہت بے چین اور پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔
محمد حفیظ کو کپتانی تو مل گئی لیکن سلیکشن کی غیرمستقل مزاجی ہو یا میدان میں غلط فیصلے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی ان میں پختگی نہیں آئی ہے۔ حالانکہ ان کی کپتانی میں پاکستان نے آسٹریلیا سے ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتی ہے لیکن اس ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں وہ جرات مندانہ درست فیصلوں سے دور دور اور دفاعی خول میں بند بیٹسمین دکھائی دیے۔
اس پورے ٹورنامنٹ میں سلیکشن کی غیرمستقل مزاجی کھل کر سامنے آئی ۔ کچھ نہ کر کے بھی کئی کھلاڑی تمام میچ کھیل گئے اور بنچ پر بیٹھے اسد شفیق اور محمد سمیع کھیلے بغیر ہی وطن واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔عبدالرزاق بھی صرف ایک میچ کے لیے کپتان کا اعتماد حاصل کرسکے۔
سہیل تنویر، یاسرعرفات اور عمران نذیر کی اوسط درجے کی کارکردگی انہیں مزید کتنے سال کھلاسکتی ہے۔؟
کامران اکمل جو بیٹنگ کی خوبی پر ٹیم میں لیے گئے ہیں کب تک غیرمعیاری وکٹ کیپنگ سے حریف بیٹسمینوں کو ایک میچ میں دو باریاں کھلواتے رہیں گے۔؟
شعیب ملک بھی بیٹسمین کے طور پر ٹیم میں لیے جاتے رہے ہیں لیکن آخر وہ بھی کب تک ٹینس کی زبان میں ڈبل فالٹ کرتے رہیں گے ؟
سلیکشن کمیٹی ہمیشہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتی ہے کہ ٹیم سلیکشن کپتان اور کوچ کی مرضی اور خواہشات کے مطابق کیا جاتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر سلیکشن کمیٹی کا کردار ہی ختم کردیا جائے اور مکمل اختیارات کوچ اور کپتان کو دے دیے جائیں اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر سلیکٹرز کو بھی جواب دہی کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ کولمبو میں جو کچھ ہوا ہے اس میں وہ بھی شریک ہیں۔
and BBC says
http://www.bbc.co.uk/urdu/sport/2012/10/121004_hafeez_presser_defeat_zs.shtml

اب وہ دور نہیں رہا جب ٹیم ہارجاتی تھی تو کھلاڑی شرمندگی سے چہرے چھپائے پھرتے تھے اور اپنی خراب کارکردگی پر خود کو کوستے رہتے تھے انہیں یہ بھی خوف رہتا تھا کہ نہ جانے شائقین ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھیں گے۔
اب تو حال یہ ہے کہ ٹیم بڑے سے بڑا میچ ہارجائے ٹیم کو ہر صوبے کا گورنر اور وزیراعلی استقبالیے دے کر انعامات سے مالا مال کردیتا ہے اور یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ ٹیم نے صرف میچ نہیں ہارا بلکہ پوری قوم کا دل بھی توڑا ہے۔
اب تو حال یہ ہے کہ ٹیم بڑے سے بڑا میچ ہارجائے ٹیم کو ہر صوبے کا گورنر اور وزیراعلی استقبالیے دے کر انعامات سے مالا مال کردیتا ہے اور یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ ٹیم نے صرف میچ نہیں ہارا بلکہ پوری قوم کا دل بھی توڑا ہے۔
[*=right]
موہالی کے بعد اب یہ دل کولمبو میں ٹوٹے ہیں لیکن کپتان کی سادگی پہ کون نہ مرے کہ وہ فخر سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں ٹیم کی اس ٹورنامنٹ کی کارکردگی پر خوشی ہے ۔
سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے کپتان محمد حفیظ جب پریس کانفرنس میں آئے تو چہرے پر نہ افسردگی تھی اور نہ اپنے اور ٹیم کے کیے کی پشیمانی بلکہ جب ان سے پوچھا گیا کہ پوری قوم کی توقعات پر پورا نہ اترنے کے بعد اب آپ قوم کو کیا کہیں گے تو انہوں نے بڑے اطمینان سے جواب دے دیا کہ پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم نے جو کارکردگی دکھائی ہے اس پر وہ خوش ہیں۔
’صرف اس میچ میں بیٹنگ ناکام ہوئی ہے اور یہ کھیل ہے جس میں ایک ٹیم کامیابی حاصل کرتی ہے اور دوسری ہارتی ہے‘۔
محمد حفیظ پورے ٹورنامنٹ میں لفظوں سے کھیلتے رہے اور اپنے کھلاڑیوں کے گن گاتے رہے کہ وہ میچ ونر ہیں لیکن جب ان سے سینیئر کھلاڑیوں کی غیرمستقل مزاج کارکردگی کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ میچ ونر کہاں ہیں تو سینئر کھلاڑیوں کا دفاع کرتے نہ تھکنے والے حفیظ نے ایک بار پھر ان کھلاڑیوں کی
خوبیاں گنوانی شروع کردیں۔
محمد حفیظ کا دعوی ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں کامران اکمل کی کارکردگی اچھی رہی جبکہ تقریباً ہر میچ میں انہوں نے کیچ گرائے اور اپنی جس بیٹنگ کے بل پر وہ ٹیم میں شامل کیے گئے تھے ا سکی جھلک صرف ایک وارم اپ میچ میں ہی دکھاپائے۔
اسی طرح شعیب ملک بھی کامران اکمل کی طرح حیران کن طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی انٹیگریٹی کمیٹی سے کلیئر ہوکر ٹیم میں شامل ہوئے لیکن بحیثیت بیٹسمین وہ مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکے بولر کی حیثیت سے ان کا کردار ویسے ہی ختم ہوچکا ہے۔
شاہد آفریدی کے لیے پورا ٹورنامنٹ بھیانک خواب ثابت ہوا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کپتانی نہ ملنے کا اثر ان کی کارکردگی پر پڑا ہے کیونکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ مصباح الحق کو ٹی ٹوئنٹی سے فارغ کئے جانے کے بعد شاہد آفریدی کپتانی کے مضبوط دعویدار تھے لیکن کرکٹ بورڈ انہیں کپتانی دینے کے لیے تیار نہ تھا اور محمد حفیظ کی قسمت جاگ گئی جو کافی عرصے سے کپتانی کے لیے بہت بے چین اور پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔
محمد حفیظ کو کپتانی تو مل گئی لیکن سلیکشن کی غیرمستقل مزاجی ہو یا میدان میں غلط فیصلے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی ان میں پختگی نہیں آئی ہے۔ حالانکہ ان کی کپتانی میں پاکستان نے آسٹریلیا سے ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتی ہے لیکن اس ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں وہ جرات مندانہ درست فیصلوں سے دور دور اور دفاعی خول میں بند بیٹسمین دکھائی دیے۔
اس پورے ٹورنامنٹ میں سلیکشن کی غیرمستقل مزاجی کھل کر سامنے آئی ۔ کچھ نہ کر کے بھی کئی کھلاڑی تمام میچ کھیل گئے اور بنچ پر بیٹھے اسد شفیق اور محمد سمیع کھیلے بغیر ہی وطن واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔عبدالرزاق بھی صرف ایک میچ کے لیے کپتان کا اعتماد حاصل کرسکے۔
سہیل تنویر، یاسرعرفات اور عمران نذیر کی اوسط درجے کی کارکردگی انہیں مزید کتنے سال کھلاسکتی ہے۔؟
کامران اکمل جو بیٹنگ کی خوبی پر ٹیم میں لیے گئے ہیں کب تک غیرمعیاری وکٹ کیپنگ سے حریف بیٹسمینوں کو ایک میچ میں دو باریاں کھلواتے رہیں گے۔؟
شعیب ملک بھی بیٹسمین کے طور پر ٹیم میں لیے جاتے رہے ہیں لیکن آخر وہ بھی کب تک ٹینس کی زبان میں ڈبل فالٹ کرتے رہیں گے ؟
سلیکشن کمیٹی ہمیشہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتی ہے کہ ٹیم سلیکشن کپتان اور کوچ کی مرضی اور خواہشات کے مطابق کیا جاتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر سلیکشن کمیٹی کا کردار ہی ختم کردیا جائے اور مکمل اختیارات کوچ اور کپتان کو دے دیے جائیں اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر سلیکٹرز کو بھی جواب دہی کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ کولمبو میں جو کچھ ہوا ہے اس میں وہ بھی شریک ہیں۔
Last edited by a moderator: