
بھارتی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مرکھنڈے کاٹجو کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیتے ہوئے ملک کی سپریم کورٹ نے حد سے تجاوز کیا ہے۔
جسٹس مارکھنڈے کاٹجو نے یہ بات بی بی سی کے پروگرام سیربین سے بات کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا:پاکستان کی سپریم کورٹ نے عوام کو خوش کرنے کے چکر میں وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کی اپنی آئینی حددو کو پار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توہینِ عدالت کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں اور توہینِ عدالت کے ہر مقدمے کا فیصلہ نااہل کرنا نہیں ہوتا۔ یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ کو یہ نہیں کہا کہ عدالت رشوت لے کر فیصلے کرتی ہے یا عدالت بدنیتی پر فیصلے کرتی ہے۔ اگر وہ یہ کہتے تو پھر نااہل قرار دیا جاسکتا تھا۔
جسٹس مارکھنڈے نے کہا کہ سپریم کورٹ سے یہ کہا گیا تھا کہ یہ مقدمہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ سپریم کورٹ سے کہا گیا کہ آئین کی آرٹیکل248 شق دو کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔
اس مؤقف سے کیسے عدلیہ بدنام ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اعتراض نہیں اٹھا سکتا۔ اگر ایک وکیل عدالت سے کہتا ہے کہ یہ آپ کے دائرہ کار میں نہیں آتا تو کیا اس کو جیل بھیج دیا جائے گا۔ وہ آپ کو گالی نہیں نکال رہا بلکہ ایک قانونی نکتہ اٹھا رہا ہے۔
جسٹس مارکھنڈے نے کہا کہ یہ تو بہت آسان ہے کہ اگر چیف جسٹس کی صدر سے نہیں بنتی تو پہلے کوئی غیر آئینی حکم جاری کردے اور جب وزیر اعظم اس پر اعتراض کرے تو اس کو نااہل قرار دے دے۔ اس طرح تو جمہوریت نہیں چلتی۔ وزیر اعظم حکومت چلاتا ہے پارلیمان کے اعتماد سے نہ کہ سپریم کورٹ یا چیف جسٹس کے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے لیے توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر غیر قانونی کام ہو رہا ہے تو ضرور ایکشن لیا جائے لیکن آئین میں جو مختلف اداروں میں توازن ہے اس کو خراب نہ کیا جائے۔
جسٹس مارکھنڈے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ صدر کا استثنیٰ ختم کرسکتی ہے۔ انگریزوں نے جو آئین بنایا اس میں انہوں نے کہا کہ لوگ قانون سے بالاتر نہیں ہے ماسوائے ایک شخص کے۔ ان کے مطابق اگر اس کو بھی استثنیٰ حاصل نہ ہو تو سسٹم چل ہی نہیں سکتا۔
جسٹس مارکھنڈے نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوزم کبھی کبھی اچھا ہوتا ہے لیکن عام طور پر نہیں۔
سپریم کورٹ کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہیے۔ ہاں غیر معمولی صورتحال میں آپ ایکٹوزم کرسکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے سپریم کورٹ نے تو حد کردی۔ انہوں نے آرٹیکل 248 شق دو کو ختم کردیا۔
آئین میں مختلف اداروں میں توازن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو اپنی حد خود قائم کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ توہینِ عدالت کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں اور توہینِ عدالت کے ہر مقدمے کا فیصلہ نااہل کرنا نہیں ہوتا۔ یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ کو یہ نہیں کہا کہ عدالت رشوت لے کر فیصلے کرتی ہے یا عدالت بدنیتی پر فیصلے کرتی ہے۔ اگر وہ یہ کہتے تو پھر نااہل قرار دیا جاسکتا تھا۔
جسٹس مارکھنڈے نے کہا کہ سپریم کورٹ سے یہ کہا گیا تھا کہ یہ مقدمہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ سپریم کورٹ سے کہا گیا کہ آئین کی آرٹیکل248 شق دو کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔
اس مؤقف سے کیسے عدلیہ بدنام ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اعتراض نہیں اٹھا سکتا۔ اگر ایک وکیل عدالت سے کہتا ہے کہ یہ آپ کے دائرہ کار میں نہیں آتا تو کیا اس کو جیل بھیج دیا جائے گا۔ وہ آپ کو گالی نہیں نکال رہا بلکہ ایک قانونی نکتہ اٹھا رہا ہے۔
جسٹس مارکھنڈے نے کہا کہ یہ تو بہت آسان ہے کہ اگر چیف جسٹس کی صدر سے نہیں بنتی تو پہلے کوئی غیر آئینی حکم جاری کردے اور جب وزیر اعظم اس پر اعتراض کرے تو اس کو نااہل قرار دے دے۔ اس طرح تو جمہوریت نہیں چلتی۔ وزیر اعظم حکومت چلاتا ہے پارلیمان کے اعتماد سے نہ کہ سپریم کورٹ یا چیف جسٹس کے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے لیے توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر غیر قانونی کام ہو رہا ہے تو ضرور ایکشن لیا جائے لیکن آئین میں جو مختلف اداروں میں توازن ہے اس کو خراب نہ کیا جائے۔
جسٹس مارکھنڈے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ صدر کا استثنیٰ ختم کرسکتی ہے۔ انگریزوں نے جو آئین بنایا اس میں انہوں نے کہا کہ لوگ قانون سے بالاتر نہیں ہے ماسوائے ایک شخص کے۔ ان کے مطابق اگر اس کو بھی استثنیٰ حاصل نہ ہو تو سسٹم چل ہی نہیں سکتا۔
جسٹس مارکھنڈے نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوزم کبھی کبھی اچھا ہوتا ہے لیکن عام طور پر نہیں۔
سپریم کورٹ کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنا چاہیے۔ ہاں غیر معمولی صورتحال میں آپ ایکٹوزم کرسکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے سپریم کورٹ نے تو حد کردی۔ انہوں نے آرٹیکل 248 شق دو کو ختم کردیا۔
آئین میں مختلف اداروں میں توازن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو اپنی حد خود قائم کرنی ہے۔