اسلام آباد(فخر درانی) اسلا م آباد ایئرپورٹ آمد پر نواز شریف کے ساتھ بہت برا سلوک اور سخت برتائو کیا گیا۔سابق وزیر اعظم کو ذاتی معالج اور دوائیاں بھی ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔تفصیلات کے مطابق،اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپور ٹ پر ان کی آمد کے بعد تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی ان کی بیٹی کے سامنے تذلیل کی گئی اور ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔باوثوق ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے
کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔جیسے ہی نواز شریف اور ان کی بیٹی خصوصی چارٹرڈ طیارے سے باہر آئے انہیں بلند آواز میں احکامات دیئے گئے کہ ’’وہیں رک جائو‘ہلنا مت‘‘۔دونوں باپ بیٹی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ متعدد کیمروں کی لائٹیں ان پر پڑ رہی تھیں۔مریم نواز نے سوال کیا کہ میڈیا یہاں کیسے آیا؟بعد میں انہیں علم ہوا کہ جو لوگ متعدد رخ سے ان کی تصاویر بنا رہے تھے وہ کسی میڈیا کےنمائندے نہیں تھے۔وہاں دو علیحدہ علیحدہ ایس یو وی ان کا انتظارکررہی تھیں۔نواز شریف نے احتجاج
کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مریم کو ان کے ساتھ ،ایک ہی کار میں بٹھایا جائے۔تاہم ان کی یہ درخواست سختی سے مسترد کردی گئی اور انہیں بتایا گیا کہ یہ صرف لاجسٹک انتظامات ہیں ، آپ دونوں کو ایک ہی جگہ لے کر جائیں گے۔نیب حکام جو کاریں لائے تھے انہیں ایس یو ویز سے آخری لمحات میں تبدیل کردیا گیا۔تاہم نواز شریف کے لیے سب سے پریشان کن لمحہ وہ تھا جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ چیف کمشنر اسلام آباد نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا ، جس کے مطابق مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہائوس لے کر جائیں گے۔انہوں نے اصرار کیا کہ مریم نوا زکو ان کے ساتھ ہی اڈیالہ جیل کر جائیں، تاہم حکام اس بات پر بضدتھے کہ مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہائوس ہی لے کر جائیں گے۔دریں اثنا ءجب یہ مسئلہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا تو اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔تاہم ، بدسلوکی یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔نواز شریف سے ایس یو وی کے درمیان بیٹھنے کا کہا گیا۔انہیں دو صحت مند آدمیوں کے درمیان سینڈوچ بنادیا گیا اور بتایاگیا کہ ایسا سیکوریٹی وجوہات کے سبب ضروری ہے۔ایک 68برس کے شخص کے ساتھ اڈیالہ جیل کے 50کلومیٹر کے فاصلے کے لیے یہ بہت مشکل تھا۔جیل جاتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے ان سے کہا کہ انہیں ان کی بیٹی سے ایک مرتبہ ملادیا جائے۔
انہیں یقین تھا کہ ان کی درخواست قبول کرلی جائے گی۔انہوں نے یہی درخواست بعد میں دو مرتبہ پھر کی۔بالآخر انہوں نے ایک عہدیدار سے وعدہ لیا کہ وہ ان کی ملاقات مریم نواز سے کرائیں گے۔یہ وعدہ جلد ہی وفا ہوگیا جب عہدیدار دونوں کو میڈیکل چیک اپ کے لیے لے کر گئے۔ذرائع کے مطابق، اس علیحدگی پر مریم نواز بھی پریشان ہوگئی تھیں ، تاہم جیسے ہی انہوں نے نواز شریف کو دیکھا ان کی مسکراہٹ لوٹ آئی۔باپ بیٹی کا مضبوط رشتہ سب کو نظر آرہا تھا۔جب کہ وزیر اعظم کےمشیر خاص عرفان صدیقی نے یو اے ای حکام کےلندن کے بعد پہلے اسٹاپ میں ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا سے متعلق بتایا۔ان کے مطابق، وہ جیسے ہی لندن کے بعد پہلے اسٹاپ پہنچےسابق وزیر اعظم نوا زشریف اور ان کی بیٹی مریم نوا ز کو وی آئی پی پروٹوکول افسران نے اپنے حصار میں لے لیااور انہیں ایئرپورٹ کے وی آئی پی لائونج میں لے آئے۔عرفان صدیقی نے بتایا کہ ہماری اچھی طرح سے نگرانی کی جارہی تھی۔وہاں درجنوں قومی اور بین الاقوامی میڈیا نمائندگان موجود تھے جو نواز شریف سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔یہاں تک کے نواز شریف کو بھی یہ غیر معمولی نگرانی محسوس ہوئی اور انہوں نے پروٹوکول چیف سے اس بارے میں دریافت کیا۔
تاہم پروٹوکول افسر نے ان سے کہا یہ انہیں اوپر سے احکامات آئے ہیں۔ہمارے پاسپورٹس اور بورڈنگ پاسز لندن سے پہلے اسٹاپ کے پروٹوکول اسٹاف نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔سابق مشیر خاص کے مطابق، نواز شریف کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ ایئرپورٹ کے باہر اپنے حامیوں سے گفتگو کریں گےاور اپنی ماں کو سلام کریں گے، جس کے بعد صبح سویرے وہ اپنے آپ کو نیب لاہور کے حوالے کردیں گے۔تاہم جہاز کے باہر آتے ہی منظر بالکل مختلف تھا۔جہاز کو رینجرز، اے ایس ایف اور ایلیٹ فورس کے جوانوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ تقریباً15منٹ بعد کچھ مرد اور خواتین یونیفارم پہنے جہاز میں داخل ہوئے۔نواز شریف نے انہیں بتایا کہ وہ گرفتار ی دینے ہی یہاں آئے ہیں ، تو پھر ملک کو میدان جنگ کیوں بنایا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اپنے ذاتی ملازم عابد اللہ اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو ہدایات دیں
کہ وہ ان کے ساتھ رہیں تاہم انہیں اجازت نہیں دی گئی۔عرفان صدیقی کے مطابق، نواز شریف نے بھی اپنے ذاتی معالج کو ساتھ رکھنے کی اجازت مانگی مگر پھر بھی انہیں اجازت نہیں دی گئی۔یہاں تک کے انہیں اپنی دوائیاں تک ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔اگلے روز حسین نواز نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر شکایت کی کہ ان کے
والد کو گدّا بھی نہیں دیا گیا اور ان کا واش روم اتنا گندا تھا کہ وہ پوری رات سو بھی نہیں سکے۔
https://jang.com.pk/news/522110#_
کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔جیسے ہی نواز شریف اور ان کی بیٹی خصوصی چارٹرڈ طیارے سے باہر آئے انہیں بلند آواز میں احکامات دیئے گئے کہ ’’وہیں رک جائو‘ہلنا مت‘‘۔دونوں باپ بیٹی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ متعدد کیمروں کی لائٹیں ان پر پڑ رہی تھیں۔مریم نواز نے سوال کیا کہ میڈیا یہاں کیسے آیا؟بعد میں انہیں علم ہوا کہ جو لوگ متعدد رخ سے ان کی تصاویر بنا رہے تھے وہ کسی میڈیا کےنمائندے نہیں تھے۔وہاں دو علیحدہ علیحدہ ایس یو وی ان کا انتظارکررہی تھیں۔نواز شریف نے احتجاج
کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مریم کو ان کے ساتھ ،ایک ہی کار میں بٹھایا جائے۔تاہم ان کی یہ درخواست سختی سے مسترد کردی گئی اور انہیں بتایا گیا کہ یہ صرف لاجسٹک انتظامات ہیں ، آپ دونوں کو ایک ہی جگہ لے کر جائیں گے۔نیب حکام جو کاریں لائے تھے انہیں ایس یو ویز سے آخری لمحات میں تبدیل کردیا گیا۔تاہم نواز شریف کے لیے سب سے پریشان کن لمحہ وہ تھا جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ چیف کمشنر اسلام آباد نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا ، جس کے مطابق مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہائوس لے کر جائیں گے۔انہوں نے اصرار کیا کہ مریم نوا زکو ان کے ساتھ ہی اڈیالہ جیل کر جائیں، تاہم حکام اس بات پر بضدتھے کہ مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہائوس ہی لے کر جائیں گے۔دریں اثنا ءجب یہ مسئلہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا تو اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔تاہم ، بدسلوکی یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔نواز شریف سے ایس یو وی کے درمیان بیٹھنے کا کہا گیا۔انہیں دو صحت مند آدمیوں کے درمیان سینڈوچ بنادیا گیا اور بتایاگیا کہ ایسا سیکوریٹی وجوہات کے سبب ضروری ہے۔ایک 68برس کے شخص کے ساتھ اڈیالہ جیل کے 50کلومیٹر کے فاصلے کے لیے یہ بہت مشکل تھا۔جیل جاتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے ان سے کہا کہ انہیں ان کی بیٹی سے ایک مرتبہ ملادیا جائے۔
انہیں یقین تھا کہ ان کی درخواست قبول کرلی جائے گی۔انہوں نے یہی درخواست بعد میں دو مرتبہ پھر کی۔بالآخر انہوں نے ایک عہدیدار سے وعدہ لیا کہ وہ ان کی ملاقات مریم نواز سے کرائیں گے۔یہ وعدہ جلد ہی وفا ہوگیا جب عہدیدار دونوں کو میڈیکل چیک اپ کے لیے لے کر گئے۔ذرائع کے مطابق، اس علیحدگی پر مریم نواز بھی پریشان ہوگئی تھیں ، تاہم جیسے ہی انہوں نے نواز شریف کو دیکھا ان کی مسکراہٹ لوٹ آئی۔باپ بیٹی کا مضبوط رشتہ سب کو نظر آرہا تھا۔جب کہ وزیر اعظم کےمشیر خاص عرفان صدیقی نے یو اے ای حکام کےلندن کے بعد پہلے اسٹاپ میں ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا سے متعلق بتایا۔ان کے مطابق، وہ جیسے ہی لندن کے بعد پہلے اسٹاپ پہنچےسابق وزیر اعظم نوا زشریف اور ان کی بیٹی مریم نوا ز کو وی آئی پی پروٹوکول افسران نے اپنے حصار میں لے لیااور انہیں ایئرپورٹ کے وی آئی پی لائونج میں لے آئے۔عرفان صدیقی نے بتایا کہ ہماری اچھی طرح سے نگرانی کی جارہی تھی۔وہاں درجنوں قومی اور بین الاقوامی میڈیا نمائندگان موجود تھے جو نواز شریف سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن کسی کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔یہاں تک کے نواز شریف کو بھی یہ غیر معمولی نگرانی محسوس ہوئی اور انہوں نے پروٹوکول چیف سے اس بارے میں دریافت کیا۔
تاہم پروٹوکول افسر نے ان سے کہا یہ انہیں اوپر سے احکامات آئے ہیں۔ہمارے پاسپورٹس اور بورڈنگ پاسز لندن سے پہلے اسٹاپ کے پروٹوکول اسٹاف نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔سابق مشیر خاص کے مطابق، نواز شریف کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ ایئرپورٹ کے باہر اپنے حامیوں سے گفتگو کریں گےاور اپنی ماں کو سلام کریں گے، جس کے بعد صبح سویرے وہ اپنے آپ کو نیب لاہور کے حوالے کردیں گے۔تاہم جہاز کے باہر آتے ہی منظر بالکل مختلف تھا۔جہاز کو رینجرز، اے ایس ایف اور ایلیٹ فورس کے جوانوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ تقریباً15منٹ بعد کچھ مرد اور خواتین یونیفارم پہنے جہاز میں داخل ہوئے۔نواز شریف نے انہیں بتایا کہ وہ گرفتار ی دینے ہی یہاں آئے ہیں ، تو پھر ملک کو میدان جنگ کیوں بنایا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اپنے ذاتی ملازم عابد اللہ اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو ہدایات دیں
کہ وہ ان کے ساتھ رہیں تاہم انہیں اجازت نہیں دی گئی۔عرفان صدیقی کے مطابق، نواز شریف نے بھی اپنے ذاتی معالج کو ساتھ رکھنے کی اجازت مانگی مگر پھر بھی انہیں اجازت نہیں دی گئی۔یہاں تک کے انہیں اپنی دوائیاں تک ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔اگلے روز حسین نواز نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر شکایت کی کہ ان کے
والد کو گدّا بھی نہیں دیا گیا اور ان کا واش روم اتنا گندا تھا کہ وہ پوری رات سو بھی نہیں سکے۔
https://jang.com.pk/news/522110#_