اَوليائے کِرامرَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام سے مدد مانگنے کا ثبوت
سُوال : کىا اَوليائے کِرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام سے مدد مانگنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے ؟
جواب : ماں سے مدد مانگو، باپ سے مدد مانگو اور اسکوٹر چورى ہو جائے تو پولىس والوں سے مدد مانگو تو کچھ بھی نہ ہو،اللہ پاک کے وَلی غوثِ پاک عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الرَّزَّاق سے مدد مانگو تو اىمان ہى چلا جائے یہ کىسى عجىب مَت مارى گئى ہے ۔ اىسا کچھ بھى نہىں ہے ۔اَولىائے کِرامرَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام سے مدد مانگنے میں کوئى مسئلہ ہى نہىں ہے بلکہ ان سے مدد مانگنا قرآنِ کرىم کی آیاتِ مُبارَکہ سے ثابت ہے ۔ (امیرِ اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے کہنے پر قریب بیٹھے ہوئے مفتی صاحب نے اَولىائے کِرامرَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام سے مدد مانگنے پر قرآن و حدیث سے دَلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ) نبىٔ کرىم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے لىے اِرشاد فرماىا :
فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ(۴) (پ۲۸،التحریم : ۴)
ترجمۂ کنز الایمان : تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔
اِسى طرح فرماىا :
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ(۵۵) (پ۶،المائدہ : ۵۵)
ترجمۂ کنز الایمان : تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رَسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں ۔
قرآنِ کریم کى اِن آىاتِ مُبارَکہ میں یہ تَذکرہ موجود ہے کہ اللہ پاک بھى مددگار ہے ،اس کا رَسول بھى مددگار ہے ،فرشتے بھى مددگار ہیں اور نىک مومنىن بھى مددگار ہیں ۔
اللہپاک کے بندوں سے مدد مانگنے کی ترغیب
حدىثِ پاک مىں خودنبىٔ کرىم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے تَرغىب دِلائى ہے کہ اگر کسى موقع پر ضَرورت ہو تو پھر اللہ پاک کے بندوں سے مدد مانگى جا سکتى ہے چنانچہ نبىٔ کرىم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرماىا : جب تم میں کوئی اىسى جگہ پر ہو ،جہاں اس کا کوئى مدد گار نہىں ہے اور اسے مدد کى ضَرورت ہے تو وہ ىوں کہے : یَاعِبَادَ اللہِ اَعِیْنُوْنِیْ، یَاعِبَادَ اللہِ اَعِیْنُوْنِیْ ، یَاعِبَادَ اللہِ اَعِیْنُوْنِیْ یعنی اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو،اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو،اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو ۔(
[1]) اِس حدیثِ پاک کى شرح مىں عُلَمانے ىہ لکھا ہے کہ غىب میں اىسے بندے موجود ہوتے ہىں جو لوگوں کى مدد کرتے ہىں ۔(
[2])
سوارى خود بخود کیسے رُک گئى؟
حضرتِ سَیِّدُنا امام احمد بن حنبلرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اِرشاد فرماتے ہىں کہ ایک مقام پر مىرى سوارى بھاگ گئى تو کوئى پکڑنے والا نہىں تھا تو مىں نے دُور سے آواز لگائى : ”یَاعِبَادَ اللہِ اَحْبِسُوْ نِیْ یعنی اے اللہ کے بندو! میرے لیے اس سواری کو روک دو ۔“تو وہ سوارى خود بخود رُک گئى ۔امام طبرانى قُدِّ سَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہىں : ھٰذَا اَمْرٌ مُجَرَّبٌ ىعنی یہ معاملہ تجربہ شدہ ہے ۔(
[3]) اِس طرح کى بہت سارى رِواىات اور عُلَما کے اَقوال بھى موجود ہىں حتّٰى کہ حضرت شاہ وَلِىُّ اللہ مُحَدِّث دہلوى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کا پورا قصىدہ ہے کہ جس مىں آپ نے نبىٔ کرىم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے طرح طرح کى مدد طلب کى اور کہا کہ مىرا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے عِلاوہ کوئى غم خوار ہى نہىں ہے ، جب بڑى بڑى مصىبتىں پیش آتى ہىں تو مىں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کى بارگاہ مىں ہى اِلتجا کرتا ہوں ۔(
[4])اللہ تعالىٰ کے علاوہ کسى اور سے مدد مانگى جائے اور ىہ سمجھا جائے کہ وہ اللہ تعالىٰ کى عطا سے ہى مدد کرتے ہىں تو اس میں شرک ىا کفر کا دور دور تک کوئی شائبہ نہىں ۔
عام بندے مدد کر سکتے ہیں تو پھر اَولیا کیوں نہیں کر سکتے ؟
سُوال : سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃ میں ہے : ”( وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ(۴))ترجمۂ کنز الایمان : اور تجھی سے مدد چاہیں ۔‘‘پھر دوسروں سے مدد کیوں مانگی جاتی ہے ؟ (
[5])
جواب : (وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ(۴) ) (پ ۱،الفاتحه : ۴) ترجمۂ کنز الایمان : اور تجھی سے مدد چاہیں ۔ ‘‘(
[6]) اس کا اِنکار نہیں،اللہ پاک سے مدد مانگنی چاہیے ،ہم مانگتے بھی ہیں وہ اپنے آپ ہمیشہ ہمیشہ سے مددگار ہے ،مگر اِس آیت میں اِس بات کا اِنکار تو نہیں کہ اللہ پاک کی عطا کردہ طاقت سے بھی کوئی اور مدد نہیں کر سکتا ۔آخر پولىس والا بھى تو تمہارے ساتھ تعاون
[1] مصنف ابن ابی شیبه،کتاب الدعاء،باب مایقول الرجل اذا ندت…الخ،۷ / ۱۳۲،حدیث : ۱ دار الفکر بیروت
[2] معجمِ کبیر،عن عتبه بن غزوان،۱۷ / ۱۱۷حدیث : ۲۹۰ماخوذاً دار احیاء التراث العربی بیروت
[3] معجمِ کبیر،عن عتبه بن غزوان،۱۷ / ۱۱۷حدیث : ۲۹۰
[4]