بہت پرانی بات ہے
تہتر کے آئین کے نفاذ سے بھی پرانی
میری عمر اس وقت نو برس تھی جب والد گرامی نے اسی حلقے سے جیت کی خوشی میں حلوے کی دیگوں کا اہتمام کیا
وہ دن اور آج کا دن ، اس حلقے کو کبھی حلقہ نہیں سمجھا ، ہمیشہحلوہ ہی سمجھا
پلیٹ میں پڑا حلوہ جو پلیٹ سے زیادہ پیٹ میں اچھا لگتا ہے
پھر یونہی پچاس برس گزر گے ، شکست نے میرا منہ نہیں دیکھا ،غالبا ڈر جاتی ہو گی
بڑے ہی بیبے لوگ تھے یہاں کے ..معصوم ، بھولے بھالے ، سادہ لوح
جب بھی کفار نے اسلام یا میرے خلاف کوئی سازش کی انہوں نے ناکام بنا دی
میرے مرشد ایک سابقہ امریکی سفیر نے خود ہی مجھے سمجھایا تھا کہ ان لوگوں کو جتنا امریکا سے ڈرا کر رکھو گے اتنے ہی کامیاب رہو گے
بس یہی تھا میری کامیابی کا راز
الله مرشد کو کروٹ کروٹ راحت نصیب کرے
اور پھر کل کا دن آیا
واۓ ناکامی ! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
میری حلوے کی پلیٹ کو میری نظروں کے سامنے کوئی دوسرا لپیٹ گیا
ہاۓ دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
اے لوگو ! اتنا ظلم
کیا خطا ہوئی ، کون سا جرم کیا تھا میں نے
یہی سوچا تھا کہ اپنی خاندانی گدی پر اپنے صاحبزادے کو بٹھا کر اس آخری عمر میں خود نروان کی تلاش میں امریکی جزیروں پر چلا جاؤں گا
لیکن افسوس کہ تمام دلی حسرتیں دل میں ہی رہ گئیں
ترس آتا ہے اپنے معصوم لخت جگر پر جسے اس ننھی سی عمر میں شکست کا یہ صدمہ جھیلنا پڑا
"حسرت ہے ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گۓ "