جب سے پشاور میں چرچ پر حملہ ہوا ہے ۔ پورے ملک کا میڈیا کورَس میں ایک ہی گانا
گارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔عیسائیوں کا پشاور کے سانحہ کے خلاف احتجاج، اسلام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلم اکثریت کو حاصل تھے، حکومت گرجا گھروں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کرے وغیرہ وغیرہ۔یہ ان تمام خبروں کا نچوڑ ہے جو اخبارات و الیکٹرونک میڈیا پر تسلسل سے پیش کیا جارہا ہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھ کر،سن کر اور پڑھ کر ایک ہی تاثر بنتا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں عیسائی مسلم فسادات شروع ہوچکے ہیں اور مسلم اکثریت روز اپنی عیسائی اقلیت پر حملے کرکے ان کی عبادت گاہوں اور ان کی جان و املاک کو نقصان پہنچارہی ہے۔ بالکل یہی تاثر بین الاقوامی میڈیا بھی دے رہا ہے اورتقریبا یہی تاثر مسٹر اوباما کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب کے موقع پر تھا۔
مگر کیا پاکستان میں ایسا ہی ہے؟ جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ سانحہ پشاور میں اور دیگر بم دھماکوں میں بس اتنا سا ہی فرق ہے کہ اس سے پہلے مسلم اکثریت اس کا نشانہ بنتی رہی ہے اور اب یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان کی کوئی اقلیت اس کا نشانہ بنی ہے۔ اقلیتوں کو جتنا تحفظ پاکستان میں ہے اتنا تو یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں مسلم اقلیت بھی کو حاصل نہیں ہے۔ پاکستان میں نہ تو کسی اقلیت کو اپنی عبادت گاہ قائم کرنے پر پابندی ہے اور نہ ہی اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے پر۔ ہندو اسلامی توحیدی تعلیمات کے برعکس اپنے دیوی دیوتاوٴں کی مورتیوں کی نہ صرف نمائش کرتے ہیں بلکہ ان کو اپنی مذہبی رسومات کی بھی بھرپور آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح سکھوں نے پاکستان بنتے وقت مسلمانوں پر کیا کیا ظلم و ستم نہیں کیے مگر وہ بھی کرپان و کنگھا سجائے گھومتے نظر آئیں گے اور ان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ملک میں جگہ جگہ گرجا گھر قائم ہیں۔ ہمارے سارے اسپتالوں میں نرسوں اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشینوں کی اکثریت عیسائی ہے اور ان کو کہیں پر بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خاکروبوں کا شعبہ تو ہے ہی ان کے حوالے اور اس پس منظر میں وہ ملک کے ہر گوشے میں اور ہر گھر میں موجود ہیں مگر مامون ہیں۔ تو پھر یہ شور و غوغا کیوں؟
اس کے برعکس یورپ کے اکثر ممالک میں مسلمان اپنی عبادت گاہیں قائم نہیں کرسکتے۔ جہاں پر قائم ہیں مثلا برطانیہ میں تو آئے دن اس پر حملے ہوتے رہتے ہیں، مسلم اکثریت کے گھروں کو عیسائی انتہا پسند جلا ڈالتے ہیں، امریکا و یورپ کے ہوائی اڈوں پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ میں بھارت، برما وغیرہ کی بات نہیں کررہا بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی بات کررہا ہوں جو کسی بھی امتیاز کے خلاف ہیں۔آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ایتھنز میں پہلی مسجد بنانے کی حکومت نے اجازت دی ہے تو ڈر کے مارے ایک بھی سرکاری ٹھیکیدار حکومت کے پاس اس مسجد کی تعمیر کے لیے اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ مسلم لباس، حجاب و ڈاڑھی کے بارے میں کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔ اس سے ان ممالک میں اقلیتوں کے تحفظ کی صورت کاندازہ لگاسکتا ہے۔
مگر اقلیتوں کے عدم تحفظ کا ڈھول پاکستان میں پیٹا جارہا ہے اور پاکستانی ہیں کہ اس تشہیری مہم سے گھبرا کر دفاعی انداز میں آچکے ہیں اور اگر مگر چونکہ چنانچہ کی زبان استعمال کررہے ہیں۔یہ سیدھی سی بات ہے کہ پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور یہ دہشت گردی انہی ممالک کی اسپانسرڈ ہے جو اس دھماکے پر ہمارا کان موڑ رہے ہیں۔امریکا، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا غرض کون سا ایسا ملک ہے جو پاکستان میں ان دہشت گردوں کی عملی سرپرستی نہیں کررہا ۔ان مجرموں کو اپنے ملک میں سیاسی پناہ نہیں دیتا، انہیں بے اندازہ مالی معاونت نہیں فراہم کرتا اور انہیں اپنے ملک میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریب کاری کی سہولت مہیا نہیں کرتا۔ ان ممالک کی دہشت گردی کے لیے خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان ممالک کی موبائل فون کمپنیاں پاکستان میں غیر قانونی سموِں تک کو بند کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ یہ موبائل کمپنیاں یورپ و امریکا میں اس طرح بلاشناخت موبائل فون کی یہ سمیں کیوں نہیں فراہم کرتیں۔
ہمارا میڈیا جو پوری طرح ان بین الاقوامی سازش کاروں کے ایجنٹ میں تبدیل ہوچکا ہے، ان ہی لوگوں کی قوالی ہمیں دن و رات سنارہا ہے ۔ جناب یہ پشاور میں کسی گرجا گھر پر حملہ نہیں ہوا ہے۔ یہ پاکستان پر حملہ تھا اور اس حملے میں مارے جانے والے عیسائی یا مسلمان نہیں بلکہ صاف اور سیدھے الفاظ میں پاکستانی تھے اور بس۔بالکل ایسے ہی پاکستانی جو کوئٹہ، پشاور اور کراچی کے دھماکوں میں مارے جاتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دھماکے کے بعد جن لوگوں نے ان متاثرین کو امداد دی وہ اور کوئی نہیں ، سب کے سب مسلمان تھے۔ اس دھماکے کے وقت بچ جانے والے عیسائی یا تو ذخمی تھے یا پھر حواس باختہ۔ یہ صرف اور صرف مسلمان تھے جو دوسرے اور تیسرے دھماکے خطرے کے باوجودفورا وہاں پر پہنچے اور زخمیوں کو اسپتال پہنچایا، ان کو خون دیا اور کھانے پینے کی اشیاء فراہم کیں۔ یہ ایجنٹ میڈیا یہ سب کیوں نہیں دکھاتا۔ ان لوگوں کے انٹرویو کیوں نشر نہیں کرتا جنہوں خون دینے کے لیے طویل لائنیں لگائیں۔ یہ میڈیا جب عیسائی زخمیوں کے انٹرویو لیتا ہے تو ان سے سوال کیوں نہیں کرتا کہ تمہیں یہاں کون لایا اور تمہیں اپنے گھروں میں کیا خطرات ہیں۔ یہ میڈیا اس لیے یہ سب نہیں دکھائے گا کہ یہ سب اس کے دیے گئے اسکرپٹ میں نہیں ہے۔
جان لیجئے کہ دھماکا کرنے والے ان عالمی سازش کاروں کے جتنے بڑے ایجنٹ تھے، اتنے ہی بڑے ایجنٹ سرکار میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی ہیں جو دیے گئے اسکرپٹ کے مطابق اپنے ڈائیلاگ کی ادائیگی کررہے ہیں اور اتنے ہی بڑے ایجنٹ میڈیا ٹائیکون بھی ہیں جو وہی تصویر دکھارہے ہیں جو مطلوب ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش
http://masoodanwar.wordpress.com/2013/09/25/minorities-in-pakistan/
گارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔عیسائیوں کا پشاور کے سانحہ کے خلاف احتجاج، اسلام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلم اکثریت کو حاصل تھے، حکومت گرجا گھروں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کرے وغیرہ وغیرہ۔یہ ان تمام خبروں کا نچوڑ ہے جو اخبارات و الیکٹرونک میڈیا پر تسلسل سے پیش کیا جارہا ہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھ کر،سن کر اور پڑھ کر ایک ہی تاثر بنتا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں عیسائی مسلم فسادات شروع ہوچکے ہیں اور مسلم اکثریت روز اپنی عیسائی اقلیت پر حملے کرکے ان کی عبادت گاہوں اور ان کی جان و املاک کو نقصان پہنچارہی ہے۔ بالکل یہی تاثر بین الاقوامی میڈیا بھی دے رہا ہے اورتقریبا یہی تاثر مسٹر اوباما کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب کے موقع پر تھا۔
مگر کیا پاکستان میں ایسا ہی ہے؟ جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ سانحہ پشاور میں اور دیگر بم دھماکوں میں بس اتنا سا ہی فرق ہے کہ اس سے پہلے مسلم اکثریت اس کا نشانہ بنتی رہی ہے اور اب یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان کی کوئی اقلیت اس کا نشانہ بنی ہے۔ اقلیتوں کو جتنا تحفظ پاکستان میں ہے اتنا تو یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں مسلم اقلیت بھی کو حاصل نہیں ہے۔ پاکستان میں نہ تو کسی اقلیت کو اپنی عبادت گاہ قائم کرنے پر پابندی ہے اور نہ ہی اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے پر۔ ہندو اسلامی توحیدی تعلیمات کے برعکس اپنے دیوی دیوتاوٴں کی مورتیوں کی نہ صرف نمائش کرتے ہیں بلکہ ان کو اپنی مذہبی رسومات کی بھی بھرپور آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح سکھوں نے پاکستان بنتے وقت مسلمانوں پر کیا کیا ظلم و ستم نہیں کیے مگر وہ بھی کرپان و کنگھا سجائے گھومتے نظر آئیں گے اور ان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ملک میں جگہ جگہ گرجا گھر قائم ہیں۔ ہمارے سارے اسپتالوں میں نرسوں اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشینوں کی اکثریت عیسائی ہے اور ان کو کہیں پر بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خاکروبوں کا شعبہ تو ہے ہی ان کے حوالے اور اس پس منظر میں وہ ملک کے ہر گوشے میں اور ہر گھر میں موجود ہیں مگر مامون ہیں۔ تو پھر یہ شور و غوغا کیوں؟
اس کے برعکس یورپ کے اکثر ممالک میں مسلمان اپنی عبادت گاہیں قائم نہیں کرسکتے۔ جہاں پر قائم ہیں مثلا برطانیہ میں تو آئے دن اس پر حملے ہوتے رہتے ہیں، مسلم اکثریت کے گھروں کو عیسائی انتہا پسند جلا ڈالتے ہیں، امریکا و یورپ کے ہوائی اڈوں پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ میں بھارت، برما وغیرہ کی بات نہیں کررہا بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی بات کررہا ہوں جو کسی بھی امتیاز کے خلاف ہیں۔آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ایتھنز میں پہلی مسجد بنانے کی حکومت نے اجازت دی ہے تو ڈر کے مارے ایک بھی سرکاری ٹھیکیدار حکومت کے پاس اس مسجد کی تعمیر کے لیے اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ مسلم لباس، حجاب و ڈاڑھی کے بارے میں کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔ اس سے ان ممالک میں اقلیتوں کے تحفظ کی صورت کاندازہ لگاسکتا ہے۔
مگر اقلیتوں کے عدم تحفظ کا ڈھول پاکستان میں پیٹا جارہا ہے اور پاکستانی ہیں کہ اس تشہیری مہم سے گھبرا کر دفاعی انداز میں آچکے ہیں اور اگر مگر چونکہ چنانچہ کی زبان استعمال کررہے ہیں۔یہ سیدھی سی بات ہے کہ پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور یہ دہشت گردی انہی ممالک کی اسپانسرڈ ہے جو اس دھماکے پر ہمارا کان موڑ رہے ہیں۔امریکا، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا غرض کون سا ایسا ملک ہے جو پاکستان میں ان دہشت گردوں کی عملی سرپرستی نہیں کررہا ۔ان مجرموں کو اپنے ملک میں سیاسی پناہ نہیں دیتا، انہیں بے اندازہ مالی معاونت نہیں فراہم کرتا اور انہیں اپنے ملک میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریب کاری کی سہولت مہیا نہیں کرتا۔ ان ممالک کی دہشت گردی کے لیے خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان ممالک کی موبائل فون کمپنیاں پاکستان میں غیر قانونی سموِں تک کو بند کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ یہ موبائل کمپنیاں یورپ و امریکا میں اس طرح بلاشناخت موبائل فون کی یہ سمیں کیوں نہیں فراہم کرتیں۔
ہمارا میڈیا جو پوری طرح ان بین الاقوامی سازش کاروں کے ایجنٹ میں تبدیل ہوچکا ہے، ان ہی لوگوں کی قوالی ہمیں دن و رات سنارہا ہے ۔ جناب یہ پشاور میں کسی گرجا گھر پر حملہ نہیں ہوا ہے۔ یہ پاکستان پر حملہ تھا اور اس حملے میں مارے جانے والے عیسائی یا مسلمان نہیں بلکہ صاف اور سیدھے الفاظ میں پاکستانی تھے اور بس۔بالکل ایسے ہی پاکستانی جو کوئٹہ، پشاور اور کراچی کے دھماکوں میں مارے جاتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دھماکے کے بعد جن لوگوں نے ان متاثرین کو امداد دی وہ اور کوئی نہیں ، سب کے سب مسلمان تھے۔ اس دھماکے کے وقت بچ جانے والے عیسائی یا تو ذخمی تھے یا پھر حواس باختہ۔ یہ صرف اور صرف مسلمان تھے جو دوسرے اور تیسرے دھماکے خطرے کے باوجودفورا وہاں پر پہنچے اور زخمیوں کو اسپتال پہنچایا، ان کو خون دیا اور کھانے پینے کی اشیاء فراہم کیں۔ یہ ایجنٹ میڈیا یہ سب کیوں نہیں دکھاتا۔ ان لوگوں کے انٹرویو کیوں نشر نہیں کرتا جنہوں خون دینے کے لیے طویل لائنیں لگائیں۔ یہ میڈیا جب عیسائی زخمیوں کے انٹرویو لیتا ہے تو ان سے سوال کیوں نہیں کرتا کہ تمہیں یہاں کون لایا اور تمہیں اپنے گھروں میں کیا خطرات ہیں۔ یہ میڈیا اس لیے یہ سب نہیں دکھائے گا کہ یہ سب اس کے دیے گئے اسکرپٹ میں نہیں ہے۔
جان لیجئے کہ دھماکا کرنے والے ان عالمی سازش کاروں کے جتنے بڑے ایجنٹ تھے، اتنے ہی بڑے ایجنٹ سرکار میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی ہیں جو دیے گئے اسکرپٹ کے مطابق اپنے ڈائیلاگ کی ادائیگی کررہے ہیں اور اتنے ہی بڑے ایجنٹ میڈیا ٹائیکون بھی ہیں جو وہی تصویر دکھارہے ہیں جو مطلوب ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش
http://masoodanwar.wordpress.com/2013/09/25/minorities-in-pakistan/