پہلی بات کہ سیلاب آنا واقع ہی بڑی خبر ہے لیکن بحث طلب بات یہ ہے کہ یہ سیلاب پہلی دفعہ تو نہیں آیا بلکہ سالوں سے ہی ایسا سیلاب آتا ہے تو آج کی حکومت اور اس سے پہلے آنیوالی حکومتوں نے اسکے لیے کیا کیا۔ جمہوریت بچانے کے لیے تو قومی اسمبلی کا جواینٹ سیشن بھی چل جاتا ہے اور وزیراعظم کو استعفی نہ دینے کے لیے قرارداد بھی منظورہو جاتی ہے لیکن وہیں سالوں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ویسے کا ویسا ہی پڑا ہے۔ یہ پانی آفت کی بجاے نعمت بھی بن سکتا تھا جو نہ صرف آپکی بجلی کی کمی کو پورا کرتا بلکہ آپکے کھیتوں کو بھی سیراب کرتا۔
دوسری بات جب سیلاب آتا ہے تو اسکی زد میں کون کون سے علاقے آتے ہیں اس پر حکومت نے کتنی ریسرچ کی ہے اور ان علاقوں پر لوگوں کو مستقل طور پر کہیں اور ٹاوں اسکیمیں یا مکان بنا کر منتقل کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ ایسی آفات میں کم از کم انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔ آپ نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے کویی تربیت یافتہ لوگوں کا ادارہ کیوں نہیں*بنادیا۔ آپ جہاں مصیبت آے فوج کو گھسا دیتے ہو۔
تیسری بات یہ کہ میڈیا پر پیسا تو چلا ہے اور آپ جانتے ہیں ہمارے وزیراعظم بھری اسمبلی میں بیٹھ کر کس ادارے کا نام لیتے ہیں۔ وہ ہی ایک ادارہ ہے جو آپکے نقطہ نظر سے پوری طرح متفق ہے۔ آپ جتنے بھی شاطر کیوں نہ ہو جاو مسٹر طلعت لیکن آپ اب لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتے۔ آپ انا تکبر اور میں کے ہاتھوں بک گیے ہو۔ آپ کس پر پیسوں کا الزام لگار ہے ذرا کھل کر بات ہی کردو اگر اتنے ہی ایماندار صحافی ہیں تو۔ سچ کو بولنا پڑتا ہے۔ نہ بولا ہوا سچ جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ تمھیں گالیا ں پڑ رہی ہیں تو بالکل صحیح پڑ رہی ہیں۔ دوسروں کو بکاو کہنے والے کو اپنا دامن بھی دیکھنا چاہیے۔ اتنا گر گیے ہوکہ اب اٹھ بھی نہ سکو گے۔