میں شروع دن سے حسن نثار، شیخ رشید، دوسرے لیڈروں اور یاروں دوستوں کے اس مؤقف سے بھرپور اختلاف کرتا تھا کہ پی ٹی آئی کوپختونخواہ میں حکومت نہیں بنانی چاہیے کیونکہ نورے انہیں ناکام کرنے کی کوشش کرینگے اور جب دھرنے کے دوران کے پی اسمبلی سے استعفوں کی باتیں ہوتی تو مجھے دُکھ ہوتا (خیر میں تو نیشنل اسمبلی سے استعفوں کے حق میں بھی نہیں تھا) اور شکر ہے کہ پرویز خٹک وغیرہ نے اسکی بھرپور مخالفت کی تھی اسلیے وہاں ایک تو شرمندگی سے بچ گئے دوسرا وہ کے پی میں مزید کارگردگی بھی دکھا سکےگے۔
آج میں نے اے این 122 کے بارے کئی شوز دیکھے۔ وہاں جتنے بھی پی ٹی آئی کے سپورٹرز دیکھے وہ پختونخواہ کی پولیس، تعلیم، صحت کے اصلاحات، پٹواری نظام کے خاتمے وغیرہ جیسے کاموں کی تعریفیں کرتے تھے۔ یہ بھی پی ٹی آئی کا اپنے سپورٹرز کیساتھ ایک قسم کی بھلائی ہے اور انکے اعتماد بڑھانے اور کسی سے بحث میں بہت مددگار ثابت ہوئی ہے۔ اب وہ بھی بڑے فخر سے اپنی پارٹی کے کارنامے گنوا سکتے ہیں جو کہ بہت خوش آئیند بات ہے جس سے نیوٹرل بندے بھی بہت متاثر ہوتے ہیں۔ میرے اپنے ذاتی دوست جو پی ٹی آئی کے سپورٹرز بھی ہیں کو یہ باتیں معلوم نہیں تھیں لیکن جب میں نے بتانی شروع کیں تو وہ حیران رہ گئے اور انہیں کہا کہ خبیثوں میری فیس بک پیج کیساتھ نتھی ہو جاؤ تو تم لوگوں کو روزانہ کے حساب سے بہت سی معلومات ملا کریگی۔ اب وہ اب ڈیٹ رہتے ہیں۔
اب ڈھائی سال بعد پختونخواہ میں کرنے اور دیکھانے کے لیے پی ٹی آئی کے پاس بہت کچھ ہیں جبکہ 2013 سے پہلے پی ٹی آئی کے پاس لوگوں کو بتانے کے لیے ایک ورلڈ کپ، ایک ہسپتال اور یونیورسٹی تھیں۔ جن سے بہت لوگوں کو واسطہ بھی نہیں تھا مطلب صرف وعدے ہی تھے اور یہ جو 78 لاکھ وؤٹ پی ٹی آئی کو ملے تھے وہ صرف وعدوں پہ ملے تھے اور یہی میری دلیل ہوتی کہ آپ ایک طالب علم کو خواہ جتنا بھی بتاؤ کہ اکسیجن گیس کیسی بنتی ہے اسے اتنی سمجھ نہیں آتی لیکن اسی طالب علم کو لیبارٹری لے جاؤ اور جب وہ اکسیجن بنتے دیکھے تو ساری عمر نہیں بھولے گا یہی فرق وعدوں اور عملی کام میں ہے۔ اسی لیے اگلے الیکشنز میں پی ٹی آئی کے پاس لوگوں کو دیکھانے کے لیے بہت کچھ ہوگا اور ضرور با ضرور پی ٹی آئی کا وؤٹ بنک ارشد شریف جیسے مداریوں کے خواہشوں کے بر عکس زیادہ ہوگا کم نہیں۔
ویسے عید پہ ایک دوست سے بات ہو رہی تھی جو فیز تھری، حیات آباد رہتا ہے، بتا رہا تھا کہ فیز تھری ڈبل فلائی اور پہ 24 گھنٹے کام ہو رہا ہے اور ستونیں تقریباً مکمل ہوگئیں ہیں۔ اسکے بعد ان پہ تیار بلاکس رکھے جائینگے اور شائد اس مہینے کے آخر تک مکمل ہو جائے گا کیونکہ 120 دن 17 اکتوبر 2015 کو مکمل ہو جائینگے۔ اور یہی دوست بتا رہا تھا کہ جیسے ہی پشاور کے حدود میں داخل ہو تو معلوم پڑتا کہ واقعی کسی شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔ باقی بھی دوستوں سے باتیں ہوتیں ہیں کسی نے ابھی تک کے پی کی حکومت کے بارے کوئی منفی بات نہیں کی۔ سب کہتے ہیں کہ کام تو اچھے ہو رہے ہیں لیکن تھوڑے سے سست ہیں۔ تو میں انہیں کہتا ہوں کہ تمام تعمیراتی کام سست ہوتےجبکہ تباہی کا کام تیز ہوتا ہے۔ بہرحال اُمید ہے کل کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، اگلے الیکشنز میں پی ٹی آئی کے وؤٹ زیادہ ہونگےکم نہیں۔
آج میں نے اے این 122 کے بارے کئی شوز دیکھے۔ وہاں جتنے بھی پی ٹی آئی کے سپورٹرز دیکھے وہ پختونخواہ کی پولیس، تعلیم، صحت کے اصلاحات، پٹواری نظام کے خاتمے وغیرہ جیسے کاموں کی تعریفیں کرتے تھے۔ یہ بھی پی ٹی آئی کا اپنے سپورٹرز کیساتھ ایک قسم کی بھلائی ہے اور انکے اعتماد بڑھانے اور کسی سے بحث میں بہت مددگار ثابت ہوئی ہے۔ اب وہ بھی بڑے فخر سے اپنی پارٹی کے کارنامے گنوا سکتے ہیں جو کہ بہت خوش آئیند بات ہے جس سے نیوٹرل بندے بھی بہت متاثر ہوتے ہیں۔ میرے اپنے ذاتی دوست جو پی ٹی آئی کے سپورٹرز بھی ہیں کو یہ باتیں معلوم نہیں تھیں لیکن جب میں نے بتانی شروع کیں تو وہ حیران رہ گئے اور انہیں کہا کہ خبیثوں میری فیس بک پیج کیساتھ نتھی ہو جاؤ تو تم لوگوں کو روزانہ کے حساب سے بہت سی معلومات ملا کریگی۔ اب وہ اب ڈیٹ رہتے ہیں۔
اب ڈھائی سال بعد پختونخواہ میں کرنے اور دیکھانے کے لیے پی ٹی آئی کے پاس بہت کچھ ہیں جبکہ 2013 سے پہلے پی ٹی آئی کے پاس لوگوں کو بتانے کے لیے ایک ورلڈ کپ، ایک ہسپتال اور یونیورسٹی تھیں۔ جن سے بہت لوگوں کو واسطہ بھی نہیں تھا مطلب صرف وعدے ہی تھے اور یہ جو 78 لاکھ وؤٹ پی ٹی آئی کو ملے تھے وہ صرف وعدوں پہ ملے تھے اور یہی میری دلیل ہوتی کہ آپ ایک طالب علم کو خواہ جتنا بھی بتاؤ کہ اکسیجن گیس کیسی بنتی ہے اسے اتنی سمجھ نہیں آتی لیکن اسی طالب علم کو لیبارٹری لے جاؤ اور جب وہ اکسیجن بنتے دیکھے تو ساری عمر نہیں بھولے گا یہی فرق وعدوں اور عملی کام میں ہے۔ اسی لیے اگلے الیکشنز میں پی ٹی آئی کے پاس لوگوں کو دیکھانے کے لیے بہت کچھ ہوگا اور ضرور با ضرور پی ٹی آئی کا وؤٹ بنک ارشد شریف جیسے مداریوں کے خواہشوں کے بر عکس زیادہ ہوگا کم نہیں۔
ویسے عید پہ ایک دوست سے بات ہو رہی تھی جو فیز تھری، حیات آباد رہتا ہے، بتا رہا تھا کہ فیز تھری ڈبل فلائی اور پہ 24 گھنٹے کام ہو رہا ہے اور ستونیں تقریباً مکمل ہوگئیں ہیں۔ اسکے بعد ان پہ تیار بلاکس رکھے جائینگے اور شائد اس مہینے کے آخر تک مکمل ہو جائے گا کیونکہ 120 دن 17 اکتوبر 2015 کو مکمل ہو جائینگے۔ اور یہی دوست بتا رہا تھا کہ جیسے ہی پشاور کے حدود میں داخل ہو تو معلوم پڑتا کہ واقعی کسی شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔ باقی بھی دوستوں سے باتیں ہوتیں ہیں کسی نے ابھی تک کے پی کی حکومت کے بارے کوئی منفی بات نہیں کی۔ سب کہتے ہیں کہ کام تو اچھے ہو رہے ہیں لیکن تھوڑے سے سست ہیں۔ تو میں انہیں کہتا ہوں کہ تمام تعمیراتی کام سست ہوتےجبکہ تباہی کا کام تیز ہوتا ہے۔ بہرحال اُمید ہے کل کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، اگلے الیکشنز میں پی ٹی آئی کے وؤٹ زیادہ ہونگےکم نہیں۔
Last edited by a moderator: