
’انسانی گوشت کے جلنے کی بُو تو شاید کمرۂ عدالت تک نہیں پہنچ رہی تھی مگر آگ کے شعلوں سے جھلس جانے والی دونوں بہنوں کی چیخیں نظامِ انصاف کے کانوں میں صور پھُونک رہی تھیں۔‘
شیکسپیئر کے مکالمے یا غالب کے شعر کی طرح،
اُن بزرگ کی بات بھی سُنے بغیر نظر انداز نہیں کی جا سکتی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان کا کہا ہوا نہ تو تخیلاتی شعر تھا اور نہ المیے پر مبنی ڈرامہ۔
وہ ’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ کے دردناک اور دل سوز حقائق بیان کر رہے تھے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اسی سانحے نے مُلک کے جنوبی صوبے سندھ میں جاری اُس فوجی کارروائی کا رُخ بھی موڑ کر رکھ دیا تھا جسے ’سندھ آپریشن کلین اپ‘ کہا جاتا ہے۔
وہ پانچ جون 1992 کی رات تھی۔ سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع ہوئے ابھی محض ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ وہاں تعینات میجر ارشد جمیل اعوان کی سربراہی میں فوج کے ایک دستے نے دعویٰ کیا کہ فوج سے مقابلے میں نو ڈاکو مارے گئے۔
فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہلاک ہونے والے ’جرائم پیشہ‘ افراد انڈین خفیہ ادارے ’را‘ سے بھی روابط رکھتے تھے اور اُن سے بھاری مقدار میں جدید اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔
فوجی افسر کے دعوے پر مبنی خبر شہری علاقوں سے شائع ہونے والے اخبارات میں چھپنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل آصف نواز دونوں ہی دریائے سندھ کے کنارے اس مقام
پر پہنچے جہاں فوج نے مقابلے کا دعویٰ کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے اس وقت سندھ میں نگران بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا بھی وزیراعظم اور آرمی چیف کے ہمراہ ٹنڈو بہاول گئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں ’میں نے ہی کور کیا تھا۔ وہاں ڈاکوؤں سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی دکھایا گیا جس کی ہم نے تصاویر بھی پریس کو جاری کیں اور وزیراعظم نے کارروائی میں شریک افسر اور ان کے دستے کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی کیا۔‘
صحافی ناز سہتو اُسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت انگریزی اخبار سندھ آبزرور اور سندھی اخبار خادمِ وطن دونوں ہی
کے نیوز ایڈیٹر تھے۔
ناز سہتو کے مطابق تین چار روز تک تو شہری علاقوں کے بڑے اخبارات میں بھی اس مقابلے کی خوب پذیرائی ہوئی مگر پھر مقامی صحافیوں نے بالآخر اس کے اصل حقائق کا پردہ فاش کر دیا۔
ناز سہتو نے بتایا ’اور تب چانڈیو قبیلے سے تعلق رکھنے والی مائی جندو کے خاندان پر ٹوٹنے والی
قیامت کا پتا چلا۔‘
اُس زمانے کے انگریزی اور اردو اخبارات اور اب انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق میجر ارشد جمیل اعوان کے بعض قرابت دار دراصل مائی جندو کے خاندان کی ملکیتی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں میجر ارشد جمیل سے ’مدد‘ مانگی۔
تحقیقات کے مطابق پانچ جون کی رات میجر ارشد اپنے 15 رکنی دستے کے ہمراہ مائی جندو کے گھر میں جا گھسے اور وہاں موجود نو افراد کو بندوق کی نوک پر اغوا کر لیا۔ اِن افراد میں مائی جندو
کے دو بیٹے بہادر اور منٹھار جبکہ ایک داماد حاجی اکرم بھی شامل تھے
۔
پھر میجر ارشد اور اُن کا دستہ تمام مغویوں کو لے کر دریائے سندھ کے کنارے پہنچا جہاں ان تمام افراد کو قطار میں کھڑا کر کے گولیاں مار دی گئیں اور مرنے والے نو افراد کو ڈاکو قرار دے دیا گیا۔
ناز سہتو کے مطابق ’ہمارے ایک نمائندے نے پانچ جون کی رات محض اتنی خبر دی کہ ٹنڈو بہاول سے کچھ افراد کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں لے گئے ہیں۔ دوسرے دن قریبی دریائی علاقے
کوٹھڑی سے خبر آئی کہ کچھ لاشیں ہسپتال لائی گئی ہیں۔‘
لاشوں کی صرف تصاویر دستیاب تھیں جبکہ حراست کی خبر کی کوئی تفصیل نہیں تھی اور ناز سہتو سمیت کئی صحافی بھی دونوں خبروں کے تعلق سے بےخبر تھے۔بہرحال مقامی اخبارات میں لاشوں کی تصاویر بغیر تفصیل کے شائع ہوئی اور حراست کی خبر
کےلیے ناز سہتو سمیت کئی صحافی ٹنڈو بہاول پہنچے۔
ناز سہتو کے مطابق ’ٹنڈو بہاول کے سہمے ہوئے خوفزدہ لوگ جنھیں اپنے لوگوں کے فوجی افسر اور دستے کے ہاتھوں قتل کی کوئی اطلاع ہی نہیں تھی اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ حراست کی خبر پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھے مگر جب انھیں دریا کنارے سے ملنے والی لاشوں کی تصاویر دکھائی گئیں تو اُنھیں پہچان کر یہ لوگ رونے اور بین کرنے لگے۔‘
from the early 90s.

سانحۂ ٹنڈو بہاول: مائی جندو کے خاندان کے نو افراد کا قتل جس نے سندھ میں آپریشن کلین اپ کا رخ ہی موڑ دیا - BBC News اردو
’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ حکومت اور فوج دونوں کے لیے ایسی قومی شرمندگی کا باعث بنا جس کا اعتراف اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کو اعلانیہ طور پر کرنا پڑا۔

how is this different than punjab police or sindh police ?
Last edited by a moderator: