کسی سادہ لوح پاکستانی کی زبان پر تلخ جملے بھی بدمزہ نھیں کرتے کہ اس کا خلوص صاف ظاھر ھوتا ھے، لیکن ایک پڑھا لکھا آدمی جب جاھلوں جیسی بات لفنگے انداز میں کر رھا ھو تواس کی نیت اور عقل پر ترس آتا ھے، وہی دہشت گرد عدالت سے سزایاب نھٰیں ھو پاتا جس کا کیس پولیس نے جان بُوجھ کر بگاڑا ھو، تفتیش ٹھیک نہ کی ھو، چالان میں گڑبڑ کی ھو، گواھوں کو بھگا دیا ھو، دفعات کمزور لگا دی ھوں ،، جب مقدمہ ھی مریل ھوگا تو جج سلطان راھی کی طرح گرجتا ھوا ملزم کو ٹوکے مار مار کر ھلاک نھیں کر سکتا، اس کو تو وھی کرنے کی اجازت ھے، جیسا مقدمہ سامنے رکھا گیا ھو، یہ عدالت کی نھیں، پولیس کی کمزوری ھے اور اس حوالے سے یہ وزیرِ اعلیٰ کی، وزیرِ داخلہ کی اور پولیس کی اعلیٰ قیادت کی غفلت اور نا اھلی شمار ھوتی ھے، جو پولیس کو سمارٹ رکھنے کے ذمہ دار ھوتے ھیں
یہاں تک دہشت گردوں کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ ھے، جج بھی اسی معاشرے کے انسان ھیں اور اپنے وطن سے محبت کرتے ھیں لیکن ان کے سامنے جو کیس ھے اس میں ان کے قلم سے ملک کا مستقبل متاثر ھونا ھے، آج عدلیہ فوج کو جو اختیار دے گی، کل وہ اختیار کسی پرویز مشرف کے ھاتھ میں بھی آنا ھے اور عدلیہ چاھتی ھے کہ دہشت گردوں کی سرکوبی کرتے وقت قوم کو آنے والے دور کے کسی جرنیل کے ظلم سے بھی محفوظ رکھا جاےؑ ۔۔
عدلیہ کی ایک مجبوری یہ بھی ھے کہ اسے مُلکی دستور کے اندر فیصلے دینے ھیں، اگر کسی خاص صورتِ حال میں دستوری شقیں حالات سے نبٹنے میں رکاوٹ بن رھی ھوں تو پہلے پارلیمنٹ کو دستور میں ترمیم کرنی لازم ھے تاکہ عدلیہ قانون کے اندر دلیرانہ فیصلے دے ۔۔
جو احمق دہشت گردی سے نبٹنے میں سارا ملبہ عدلیہ پر ڈال رھے ھیں ان کو طریقِ کار کا مطالعہ کر کے بات کرنی چاھیے اور جس طرح کی شرمناک باتیں وہ لاعلمی میں کر چکے ھیں، وہ واپس اپنے گندے مقعد میں ڈال لینی چاھیؑیں