جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آچکا ہے۔ فیصلے کے مطابق الیکشن صاف شفاف ہوئے ہیں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ عجیب وغریب سا ہے یعنی مریض بیمار ہے، دل کی تکلیف ہے، جگر نے کام کرنا بند کردیا ہے، گردے بھی ناکارہ ہوگئے ہیں، برین ٹیومر بھی ہے لیکن مریض فٹ ہے۔ خیر فیصلے پر بہت تبصرے ہوچکے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ عمران خان کو آگے کیا کرنا چاہئے؟
عمران خان نے بہت سا قیمتی وقت دھاندلی کے خلاف جدوجہد پر ضائع کردیا۔ دھاندلی کے خلاف تحریک میں عمران خان نے بے شمار بلنڈر کئے جن میں سول نافرمانی، بل جلانا، توڑپھوڑ، دھمکیاں، دوسروں پر الزامات کی بارش شامل ہیں۔ غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں، یہ بچے دیتی ہیں۔ اب عمران خان کی کی گئی غلطیاں بچے دے رہی ہیں اور تحریک انصاف کو کافی ہزیمت اور تنقید کا سامنا ہے۔ تنقید اس بات پر نہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں۔ تنقید اس بات پر ہے کہ عمران خان دھاندلی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن میں کیس ٹھیک طرح سے لڑا نہیں ہے۔ افتخارچوہدری، جنگ، جیو، نجم سیٹھی سب پر الزام لگائے لیکن جوڈیشل کمیشن میں اس پر کوئی بات نہیں کی۔اپنا کیس خود ہی انتہائی کمزور کرکے لڑا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ن لیگ کے مینڈیٹ کی توثیق ہوگئی اور تحریک انصاف سر پیٹ رہی ہے۔
غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں لیکن حماقتیں تحریک انصاف کا شیوہ ہے۔ اگر آپ کیس ٹھیک طریقے سے لڑ نہیں سکتے تھے تو جوڈیشل کمیشن کیوں بنوایا؟ چپ کرکے اسمبلیوں میں بیٹھ جاتے اور دھاندلی دھاندلی کی گردان کرتے جیسے پیپلزپارٹی ا ور دوسری جماعتیں کرتی ہیں۔ تحریک انصاف نے 30 اکتوبر 2011 کے بعد یہ ثابت کرردیا ہے کہ وہ اپنی دشمن خود ہے۔ اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لیتی ہے۔ خیر جو ہوا سو ہوا اب عمران خان کو اپنی غلطیوں اور بلنڈرز سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ میری عقل اور ذہن کے مطابق عمران خان کو اپنی سیاست ان پوائنٹس پر کرنی چاہئے ۔
نمبر 1: بولنے سے پہلے سوچ لیں
خان صاحب کی عادت ہے کہ وہ بولتے پہلے ہیں سوچتے بعد میں ہیں۔ انہیں بولنے سے پہلے سوچ اچھی طرح لینا چاہئےورنہ وہ اسی طرح کے نتائج بھگتتے رہیں گے جیسے اب بھگت رہے ہیں۔ دھرنوں کے دوران کسی نے جو کان میں کہہ دیا عمران خان نے بول دیا۔ آپ وہ ساری ویڈیو کو ایک بار چیک کریں کہ عمران خان کے کان میں کسی نے کچھ کہا اور بعد میں عمران خان نے جو بھی کہا وہی آج عمران خان کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
نمبر 2: ساتھیوں سے مشاورت کریں
خان صاحب کچھ کرنے سے پہلے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کرلیا کریں، اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط نہ کریں۔ خان صاحب کو ایڈونچر والی طبعیت پر قابو پانا ہوگا۔ جو آپکے دل میں آئے وہی کرنا شروع کردیں، ایسا کرنا ٹھیک نہیں۔
نمبر 3: اچھی میڈیا ٹیم
تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم کا نہ ہونا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنا ترجمان شیریں مزاری اور سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق کو مقرر کیا ہوا ہے جو ہمیشہ ہی دفاع کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور عمران خان کو خود آکر اپناموقف دینا پڑتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کا دفاع بھی کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان پرویز رشید کی بات کا جواب دینے آجاتے ہیں، کیا کبھی نوازشریف نے نعیم الحق یا کائرہ کی بات کا جواب دیا ہے؟ تحریک انصاف کے پاس اچھے سپیکرز کی کمی نہیں ہے لیکن انہیں آگے نہیں آنے دیا جاتا اور ان کی صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔ تحریک انصاف کوچاہئے کہ ایسے لوگوں کو ترجمان اور سیکرٹری اطلاعات مقرر کرے جو میڈیا پر اپنا موقف دلیل سے دے سکیں۔ تحریک انصاف کو قمرالزمان کائرہ سے سیکھنا چاہئے جو ایک مہذب انداز میں دلیل کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔
نمبر4 :پارٹی کو منظم کریں
عمران خان کو اب ایک کام یہ بھی کرنا چاہئے کہ پارٹی کو پوری طرح منظم کریں، پارٹی کو یونین کونسل اور محلہ کی طرح تک منظم کریں اور دھڑے بندیاں ختم کریں۔ مختلف شہروں، علاقوں کی مہینے کی بنیاد پر رپورٹ لیں۔ ہر عہدیدار کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کا سسٹم بنائیں۔ مختلف حلقوں میں جائیں اور ہر حلقے میں ورکرز سے ملیں۔ عوامی رابطہ مہم چلائیں، جلسوں کی بجائے ورکرز کیساتھ میٹنگز کریں۔ اس طرح تحریک انصاف کا ہر حلقے میں ووٹ بنک خود بخود بڑھ جائے گا اور تحریک انصاف کو الیکٹیبلز سے بلیک میل ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
نمبر5: لوٹوں سے چھٹکاراپائیں
تیس اکتوبر کے بعد عمران خان نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ دوسری پارٹی سے آئے لوگوں کو بڑے بڑے عہدے دے دئیے جیسے جاوید ہاشمی کو پارٹی کا صدر، شاہ محمود قریشی کو وائس چئیرمین بنادیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کا نظریہ پیچھے چلا گیا اور یہ لوگ آگے آگئے۔ اب عمران خان کو چاہئے کہ وہ ایسے نام نہاد الیکٹیبلز سے جان چھڑائیں، پارٹی کی ذمہ داریاں ان لوگوں کو دیں جو نظریہ پر پورے اترتے ہوں۔جب سے تحریک انصاف میں انویسٹر گروپ کی آمد ہوئی ہے، عمران خان کا ورکرز سے رابطوں کا بہت زیادہ فقدان ہے اور پارٹی پر علیم خان، جہانگیرترین، شاہ محمود ٹولے کا قبضہ ہوگیا ہے ۔
نمبر 6: خیبرپختونخوا حکومت پر توجہ دیں
تحریک انصاف کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ خیبرپختونخوا حکومت پر توجہ دیتی اور دو سال میں ایک ماڈل پیش کرتی۔ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں کچھ نہیں کیا سوائے پولیس ریفارمز، پٹواری کلچر، رائٹ ٹو انفارمیشن اور احتساب کمیشن کے۔ تحریک انصاف کا مین فوکس تعلیم، صحت، سیوریج، سڑک، گلی نالی،پرائس کنٹرول ہونا چاہئے تھا۔ تحریک انصاف کو عوامی پراجیکٹس کے ساتھ ساتھ شوکیس پراجیکٹس بھی بنانے ہوں گے جیسے ماس ٹرانزٹ، فلائی اوورز، سڑکیں، انڈرپاسز وغیرہ۔۔ عمران خان کو خود ہر ماہ کسی ایک ضلع کا دورہ کرناچاہئے اور وہاں کے ہسپتالوں، سکولوں ، سڑکوں ، امن وامان کی صورتحال، لوگوں کے مسائل کا خود جائزہ لینا چاہئے۔ ہر ضلع کے لئے پارٹی کی سطح پر رضاکارانہ ٹاسک فورس بنانی چاہئے جو ہر ماہ ضلع میں ہونیوالی ڈویلپمنٹ کی پارٹی کو پراگریس رپورٹ دے۔ تحریک انصاف ہر وزارت سے ماہانہ بنیادوں پر اسکی کارکردگی کا حساب لے ۔
نمبر7 : بلوچستان اور سندھ پر توجہ دیں
عمران خان کو بلوچستان اور سندھ پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو وفتا فوقتا سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوںکا دورہ کرنا چاہئے۔ ایک عرصہ بیت گیا عمران خان نے بلوچستان کا دورہ نہیں کیا، سندھ میں پیپلزپارٹی کی بیڈگورننس کی وجہ سے ایک خلاء موجود ہے اور تحریک انصاف کے پاس اس خلا کو پر کرنے ۔ عمران خان کو وقتا فوقتا سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے اور عوامی رابطہ مہم چلانی چاہئے۔
نمبر 8 : شیڈو کیبنٹ بنائیں
شیڈو کیبنٹ کا تصور پاکستان میں نہیں ہے ۔ ہر پارٹی کو حکومت کی مختلف وزارتوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کیلئے شیڈو کیبنٹ کی ضرورت پڑتی ہے اور آئندہ حکومت سازی کیلئے مختلف پالیسیاں بنانا پڑتی ہیں۔ تحریک انصاف اگر آئندہ حکومت میں آتی ہے تو وہ اسکے پاس تعلیم، صحت، معیشت، قانون، پبلک ویلفئیر کیلئے کیا کیا پالیسیاں ہیں؟ وہ کس طرح بجلی کا مسئلہ حل کرے گی؟ معیشت کو کس طرح ٹھی کرے گی؟ ملک کو غیر ملکی قرضوں سے کیسے نجات دلائے گی؟ ان سب کیلئے تحریک انصاف کو ابھی سے پالیسیاں بنانا پڑیں گی اور اسکے لئے قابل لوگوں پر مشتمل شیڈوکیبنٹ کی ضرورت ہے۔ جس میں مختلف امور کے ماہر نہ صرف حکومت کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کریں بلکہ آئندہ کیلئے پالیسیاں بھی بنائے۔ اگر تحریک انصاف یہ کام کرے اور لوگوں پر اپنی پالیسیاں واضح کرے تو لوگ تحریک انصاف کو زیادہ سنجیدگی سے لیں گے۔
نمبر9 : اپنا نظریہ واضح کریں
تحریک انصاف کو نظریہ بہت کنفیوژڈ ہے۔ خاص طور پر تحریک انصاف کو اپنا نظریہ واضح کرنا پڑے گا۔ تحریک انصاف کے طالبان سے متعلق نظریات سے بہت زیادہ کنفیوژن پھیلائی ہے، عمران خان کے طالبان سے متعلق نظریات نے تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔خاص طور پر لبرل ووٹ بنک تحریک انصاف سے دور ہوگیا ہے۔ عمران خان کو نظریہ سازی اپنے ذہن سے نہیں پارٹی کے لوگوں سے مل کر کرنی چاہئے کہ تحریک انصاف کے ذہن میں ریاست کا کیا ماڈل ہے؟ اگر حکومت میں آئی تواقلتیوں کیلئے کیا کرے گی؟ کس طرح مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت سے نبٹے گی؟ عمران خان کو میدان میں واضح نظریات کیساتھ آنا ہوگا ۔
نمبر 10: اکیلے بیٹھ جائیں
عقلمند شخص وہی ہوتا ہے جو ایک غلطی کو دوسری بار نہ دہرائے۔ عمران خان کو چاہئے کہ کسی دن اکیلے بیٹھے ، یہ سوچے کہ 30 اکتوبر کے بعد عمران خان نے کیا کیا غلطیاں کیں؟ کونسی غلطی کتنی بار دہرائی؟ بہتر ہوگا کہ عمران خان ایک ہفتے کیلئے اکیلے کسی ٹھنڈے مقام پر چلے جائیں۔ وہاں جاکر 30 اکتوبر کے بعد ایک ایک دن کے بارے میں سوچیں۔اپنی ہر غلطی کو نوٹ کریں۔ کس شخص نے عمران خان سے کیا غلطیاں کروائیں؟ اسکے ٹریک ریکارڈ کے بارے میں سوچیں۔ یہ بھی سوچیں کہ عمران خان نے کس کس مخلص پارٹی ممبر کو کھڈے لائن لگایا ہے؟ واپس نئے لائحہ عمل سے آئیں۔
نمبر 11: کارکنوں کی تربیت کریں
تحریک انصاف کو اب کارکنوں کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کس طرح لڑا جاتا ہے؟ دھاندلی کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟ مخالفین کے پروپیگنڈے کا کس طرح جواب دیا جائے؟ گلی محلوں میں تحریک انصاف کو کس طرح پروموٹ کیا جائے اور مخالف جماعت سے کیسے نبٹاجائے؟ سوشل میڈیا پر کمپین کیسے چلائی جائے؟ ان سب کیلئے تحریک انصاف کو کارکنوں کی تربیت کرنا ہوگی اور مختلف لیڈران ، سینئر پارٹی کارکنوں کے ذریعے ضلع، ٹاؤن کی سطح پر مختلف ورکشاپس منعقد کرانا ہوں گی۔
نمبر 12: مختلف ونگز پر توجہ دیں
تحریک انصاف کی سب سےبڑی طاقت سٹوڈنٹ ونگ اور ویمن ونگ رہا ہے لیکن حامد خان کے ایک غلط فیصلے نے فوزیہ قصوری کو پارٹی الیکشن سے باہر کردیا اور وویمن ونگ منزہ حسن کے پاس چلا گیا جس کی وجہ سے خواتین ونگ غیر فعال ہوگیا۔ تحریک انصاف کو وویمن ونگ کو دوبارہ بحال کرنا پڑے گا اور فوزیہ قصوری کو واپس پارٹی میں لانا ہوگا۔ جبکہ یوتھ ونگ، لیبرونگ، کسان ونگ اور دیگر ونگز کو بھی فعال کرنا ہوگا۔
نمبر13: خاندان اور سیاست کو علیحدہ کریں
عمران خان کو چاہئے کہ وہ دوسروں کو ایسا تاثر نہ دیں کہ تحریک انصاف ایک موروثی جماعت ہے۔ کراچی الیکشن میں ریحام خان کو کمپین پر لے جانا عمران خان کا غلط فیصلہ تھا اور اس فیصلے سے تحریک انصاف کو کافی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ریحام خان کو عمران خان سیاسی معاملات سے علیحدہ ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ ریحام خان کے معاملے پر تحریک انصاف کے کارکنوں میں کافی تقسیم ہے اور تحریک انصاف کے کارکن ریحام خان کی ایکٹیوٹیز پر کافی تنقید کرتے نظر آئے ہیں۔
نمبر 14: ساکھ بحال کریں
تحریک انصاف کی ساکھ کو اگر سب سے زیادہ کسی نے نقصان پہنچایا ہے تو وہ عمران خان خود ہیں۔ طالبان کے بارے میں موقف، سول نافرمانی کی تحریک، بجلی کے بل جلانا،بغیر سوچے سمجھے کسی پر بھی الزام لگادینا ان سب کی وجہ سے تحریک انصاف کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کو ساکھ بحال کرنے کیلئے بہت تگ ود کرنا پڑے گی۔ عمران خان بھی روایتی سیاستدان بن گئے ہیں اور پارٹی بھی دوسری پارٹی کے لوگوں کے آنے سے روایتی بن گئی ہے۔ عمران خان کو مختلف سٹیپس اٹھا کر ثابت کرنا پڑے گا کہ عمران خان دوسرے سیاستدانوں سے مختلف ہیں اور تحریک انصاف دوسری پارٹیوں سے مختلف ہے۔
نمبر 15:اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے بچیں
سب سے اہم نکتہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سےبچنا ہوگا۔ تحریک انصاف کو دوسری پارٹی کے الیکٹیبلز کو متاثر کرنے کیلئے اپنے بارے میں یہ تاثر بند کرنا ہوگا کہ اسے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے اور آئندہ حکومت ان کی ہی ہوگی۔ اب تک ریکارڈ ہے کہ جس جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی ہے اسٹیبلشمنٹ نے سب سے زیادہ اسی جماعت کو ڈسا ہے۔ بھٹو صاحب اسٹیبلشمنٹ کو لیکر آئے اور اسٹیبلشمنٹ نے انہیں تختہ دار تک پہنچا دیا۔ نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی تو 12 اکتوبر کو اسی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں سعودی عرب روانہ کردیا۔ چوہدری برادران نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی آج گجرات کی ایک سیٹ تک محدود ہوگئی ہے۔ آصف زرداری نے 5 سال تک اسٹیبلشمنٹ سے بناکر رکھی آج اسکی جماعت کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔عمران خان نے اگر سیاست کرنی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کی بجائے عوامی سیاست کریں۔یہی تحریک انصاف کیلئے لانگ ٹرم کیلئے اچھی ہے۔