
یہ ہے ہماری پرانی جنریشن کے کام . جو ایک فوٹو اور کسی پولیٹیشن کے ساتھ ایک چاۓ کی بیٹھک کو بھی اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے .
صرف اس ایک سوچ کو بدلنا پڑے گا .
صحافیوں کو پوچھنا ہو گا کہ جناب آپ کے خاندان نے ذاتی کاروبار سے کتنا فائدہ اٹھایا جب آپ اقتدار میں تھے . اگر کوئی صحافی یہ کام بھی نہیں کر سکتا تو اس کے صحافی ہونے پر لعنت.
جاوید چودہری اور بہت سے اینکرز اس حقیقت سے منہ پھیر رہے ہیں کہ عمران خان کو اپنی سیاست کے لیے کسی صحافی اور کسی میڈیا ہاؤس کی ضرورت نہیں ہے . کیوں کہ وہ سیاست نہیں کر رہا. وہ اپنی دھن میں مگن اس قوم کو غلامی سے آزاد کرا رہا ہے . اس کی اس ایمانداری سے بھرپور کوشش نے کتنے ہی نوجوانوں کو لکھاری (ٹوٹا پھوٹا) بنا دیا . تو پھر نوجوان اس عظیم انسان سے محبت کیوں نا کریں جو ہر قدم پر اپنی ذات میں ایک مشل راہ ہے .
کپتان وہ ہے جس نے نوجوانوں کو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا مطلب سمجھایا اور خود کر کے دکھایا. آج تک کے سبھی فرعونوں کا مقابلہ کر کے دکھایا.
یہ سبھی صحافی اس بات پر بھی غصّہ ہیں کہ جس پٹھان قوم کومفلسی میں بھی ان کے آقا اور دنیا کے بڑے بڑے نتھ نہیں ڈال سکے اس قوم کو اگر سیاست دانو کی غلامی اور سسٹم کی غلامی سے اس عمران خان سے نجات دلا دی تو یہ تو پورے پاکستان کے میر جعفروں کو بہار پھینک دیں گے
ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ کسی حکومت نے صوبہ کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہو اور صحافیوں کو منہ ہی نہیں لگایا جا رہا گڈ گوورنانس کا سرٹیفکیٹ لینے ک لیے .
صحافیوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ نواز شریف جسی کمزرو انسان کی طرح عمران خان کو کیسے نیچے لگائیں. ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کپتان کو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی سمجھ آ گئی ہے. اور اس کے نوجوان اس کے خلاف کسی بھی محاذ پر ڈٹ جائیں گے . خواہ وہ سوکل میڈیا ہو یا سڑکیں ہوں .
ویسے بھی اس سے بڑھ کر شرم کی بات کیا ہو گی کہ انٹرنیٹ کے لیڈر کے تطعنے مارنے والوں کی سیاست آج خود سوشل میڈیا تک محدود ہو گیئی ہے
Last edited: