پنجاب یونیورسٹی میں کل ہونے والے واقعہ کے ضمن میں جمعیت طلبہ کا اصلاحی کلچر زیر بحث آیاتو جماعت کے احباب نے انکشاف کیا کہ پشتونوں کے اصل مسائل تو ڈورن حملے، آئی ڈی پیز، شناختی بحران، ٹارگٹڈ آپریشن وغیرہ ہیں۔ لوگ ویسے ہی چھوٹے معاملے کو رائی کا پہاڑ بنا رہے ہیں۔ احباب ہمیشہ درست فرماتے ہیں۔ ان سے حسن ظن رکھنا چاہیے مگر ساتھ میں پوچھنا چاہیے کہ اگر یہی پشتونوں کے مسائل ہیں تو آپ کے قلم کی جولانیاں کہاں تھیں؟
گزشتہ پانچ سال سے آپ کے قلم کو دیکھ کر تو ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ پشتون کیا پورے پاکستان کے مسائل میں حلب، رابعہ، عافیہ، امریکہ، روہنگیا، حیا اور اسی قبیل کے دیگر مسائل شامل ہیں۔ آپ پہلے اسامہ کی شہادت کا غم مناتے ہیں بعد میں باچا خان یونیورسٹی کی نیم دلانہ تعزیت کرتے ہیں۔ چار انگلیوں والا رابعہ اور محمد مرسی اور تحریر سکوائر کی فیس بک ڈی پیز تو ہزاروں بدلیں مگر کبھی آئی ڈی پیز، کوئٹہ سول ہسپتال، پولیس اکیڈمی، سیہون کی ڈی پی نظر نہ آئی۔ ہم گہنگار مگر نا سمجھ ہیں۔ حسن ظن رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے ان اقدامات میں بھی امت مسلمہ کوئی عظیم مفاد ہو۔
ایک بات البتہ سمجھ نہ آ سکی۔ آپ فرماتے ہیں کہ، پشتون، قوم پرستی کے غلیظ تصور کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ درست ہے۔ قوم پرستی واقعی ایک غلیظ تصور ہے اگر پیدائش کی بنیاد پر کسی انسان کو دوسرے سے کمتر سمجھا جائے۔ درست ہے کہ قوم پرستی غلیظ تصور ہے اگر ذات پات کی بنیاد پر انسانوں میں امتیاز برتا جائے۔ کوئی گروہ پیدائش کی بنیاد پر نہ اعلی ہو سکتا ہے اور نہ ادنی۔ انسان کے مساوات اور احترام میں درجہ بندی نہیں ہو سکتی۔ مگر صاحب! یہ پشتونوں کی قوم پرستی نہیں ہے۔ ایسی قوم پرستی جس کی بھی ہوگی قابل افسوس ہو گی۔ ماں باپ کے حیاتیاتی فعل کی بنیاد پر کوئی انسان خود کو دوسرے سے برتر نہیں سمجھ سکتا۔ پشتون قوم پرستی پشتون ولی کو کہتے ہیں۔ ممکن ہے اب قوم پرستی کی تعریف بدل گئی ہو۔ مدعا یہ ہے کہ پشتون سماج میں پشتون ولی کو قوم پرستی کہتے ہیں۔ پشتون ولی وہ غیر تحریر اخلاقی اقدار ہیں جس پر پشتون سماج صدیوں سے کاربند ہے۔ ہماری بات چھوڑئیے کہ ہمیں نہ تقوی کا دعوی ہے اور نہ پارسائی عطا ہو سکی مگر تاریخ کی کتب میں بہت سی عبارتیں موجود ہیں۔ حسین رضوان سے لے Erinn Banting تک سب واقف ہیں کہ پشتون ولی کسے کہتے ہیں۔
Afghanistan: The people آئیے کی کتاب Erinn Banting
پر نظر ڈالتے ہیں کہ پشتون ولی کو کیسے بیان کیا گیا ہے۔
ننگ Honor )
۔ ہر پشتون کے لازم ہے کہ کمزور کی حفاظت کرے گا۔ اس کے لئے آواز اٹھائے گا۔ Respect
( پت : عزت)
(۔ ہر پشتون اپنے اور دوسروں کی عزت کا خیال رکھے گا۔ جس پشتون میں
نہیں ہو گا اسے پشتون تصور نہیں کیا جائے گا۔
Protection of Women ناموس)۔)
ہر پشتون کے لئے لازم ہو گا کہ وہ کسی بھی قیمت پر عورت کی قدر کرے۔ یہ لازم ہے کہ وہ
عورت کو ہر طرح کی تشدد سے بچائے چاہے وہ ہاتھ کا تشدد ہو یا الفاظ کا تشدد۔ؒ
Loyalty ثبات) ۔)
ہر پشتون کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے وطن، سماج، قبیلے، دوستوں، ہمسائیوں اور خاندان کے ساتھ وفاداری نبھائے۔ بے وفائی ہر پشتون کے لئے مقام شرم ہو گا۔
Righteousness (خیگڑہ)
ہر پشتون کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے الفاظ، اعمال اور خیالات میں اچھا ہو۔ پشتونوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انسانوں اور جانوروں کے معاملے میں ہمیشہ اچھائی کا رویہ اختیار کرے۔Bravery تورہ)۔)
ہر پشتون کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی بھی غاصب سے اپنے وطن، زمین، سماج اور خاندان کی حفاظت کرے۔ اسے چاہیے کہ ہر ظالم کے خلاف بہادری سے کھڑا رہے۔
(Asylumپناہ ۔)
کوئی بھی شخص کسی پشتون گھرانے، پشتون سماج یا پشتون قبیلے کے پاس اگر پناہ لینے کی غرض سے آئے گا تو پشتونوں پر لازم ہو گا کہ اس کو پناہ دیں۔ پناہ گزین شخص کی حفاظت پشتونوں کے لئے جان سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
Forgiveness ننواتے)۔)
کوئی بھی دشمن اگر کسی پشتون قبیلے، خاندان یا فرد کے پاس پہنچ کر معافی مانگ لے تو پشتون کے لئے لازم ہے کہ اس کو معاف کر دے۔
Hospitality میلمستیا)۔)
مہمان نوازی پشتون اقدار کا بنیادی جزو ہے۔ کسی بھی مہمان کو اس کے رنگ، نسل، زبان، مذہب یا سماجی حیثیت کی بنیاد پر نہیں تولا جائے گا۔ مہمان جو بھی ہو گا وہ ہمیشہ واجب الاحترام رہے گا۔ اس کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔Justice and Revenge نیو او بدل) ۔)
انصاف کے حصول کے لئے بدلہ لازم ہے۔ آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک ہے۔ اس میں وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔
یہ وہ اقدار ہیں جسے پشتون سماج میں صدیوں سے ایک غیر مرتب دستور کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ غیر مرتب دستور صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس کی بنیاد قبیلوی معاشرے میں اس وقت پڑی جب ریاست کا وجود بھی نہیں تھا۔ اس وقت انصاف کے لئے سماج میں ادارے موجود نہیں تھے۔ آج کے سماج میں کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ مجرم کو خود سزا دے۔ مجرم کو سزا دینے کا حق اب ریاست کا کام ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پشتون سماج میں سماج کے ہر فرد کو پشتون سمجھا جاتا ہے۔ پشتون سماج میں لفظ پشتون ایک صفت(Adjective) ہے۔ اس سے یاد آیا کہ جب پیرس میں حملہ ہوا تو ہمارے مرحوم چچا نے ایک جملہ کہا اس صفت کی عین تشریح ہے۔ چچا نے کہا، دا ظالمان سوک او چی سپین پشتانہ یی مڑو کڑل ( یہ کون ظالم تھے جنہوں نے معصوم پشتونوں کے خون سے ہولی کھیلی)۔ یہ در اصل پشتون ولی ہے۔ اسی کو پشتون سماج میں قوم پرستی کہتے ہیں۔ کسی شخص کو ان اقدار پر اعتراض ہے تو ہمیں اپنی بات پر اصرار نہیں۔ ہاں مگر عرض ہے کہ یہ اقدار ہمارے خون میں رچ بس گئے ہیں اس لئے قابل قدر ہیں۔اقدار کی بات چلی ہے تو ثقافت کی بات کر لیتے ہیں۔ پشتون سماج کے ثقافت میں خوشی کے موقع پر شپیلئی، رباب، منگئی اور اتنڑ شامل ہیں۔ پشتون روشن خیال سماج نے اپنے خوشیوں کا حق کس نہ ماضی میں کسی کو چھیننے دیا اور نہ اب یہ حق کسی خدائی فوجداری کے دعویدار گروہ کو تفویض کرنے کو تیار ہے۔
احباب کو شاید یاد نہیں مگر ہمیں یاد ہے کہ جن افغان طالبان کی احباب عذرخواہی میں مصروف تھے وہی افغان طالبان جب کوئی نیا شہر فتح کرتے تو سب سے پہلے اتنڑ کرتے۔ جبر کی مگر اپنی صورتیں ہیں۔ لال شہاز قلندر کے مزار پر دھماکہ کرنے والوں نے کہا تھا کہ مزار پر دھمال ہو گا تو قتال ہو گا۔ کل جناب لیاقت بلوچ صاحب نے فرمایا، یونیورسٹی میں رقص ہو گا تو کشیدگی ہو گی۔ اس پر اور کیا کہا جا سکتاہے؟ برادرم عثمان قاضی کا جملہ صادق آتا ہے، وہی نذر کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں، بس ہوا یہ کہ حیدرآباد دکن اور دلی کے رکھ رکھاؤ کی مجبوریاں اب راست گفتاری میں حائل نہیں ہیں، سو اہل وطن اس اجل تاب چہرے کو بے نقاب دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں۔مکرر عرض ہے کہ سیاست کی ابجد سمجھنے والا بھی جانتا ہے کہ جماعت یا جمعیت کی شناخت لسانی نہیں مذہبی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا معاملہ کسی ادنی درجے میں بھی پشتون پنجابی لسانی معاملہ نہیں ہے۔
یہ دو گروہوں کا نظریاتی تصادم ہے۔ ایک گروہ خود کو خدائی فوجداری کے منصب پر فائز سمجھتا ہے جس نے دوسرے گروہ کو لبرل، سیکولر اور روشن خیالی کا نمائندہ سمجھ کر نشانہ بنایا ہے۔ حملہ کرنے والوں کی شناخت لسانی بالکل نہیں ہے۔ یہ جبر اور حق کا معاملہ ہے۔ یہ بندوق اور بانسری کی لڑائی ہے۔ یہ خوشیاں چھیننے کا معاملہ ہے۔ ہم مگر مایوس نہیں ہیں۔ اس مٹی میں ابھی سر سلامت ہیں جو دھمال پر دھنتے ہیں اور اتنڑ پر ہلتے ہیں۔
گزشتہ پانچ سال سے آپ کے قلم کو دیکھ کر تو ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ پشتون کیا پورے پاکستان کے مسائل میں حلب، رابعہ، عافیہ، امریکہ، روہنگیا، حیا اور اسی قبیل کے دیگر مسائل شامل ہیں۔ آپ پہلے اسامہ کی شہادت کا غم مناتے ہیں بعد میں باچا خان یونیورسٹی کی نیم دلانہ تعزیت کرتے ہیں۔ چار انگلیوں والا رابعہ اور محمد مرسی اور تحریر سکوائر کی فیس بک ڈی پیز تو ہزاروں بدلیں مگر کبھی آئی ڈی پیز، کوئٹہ سول ہسپتال، پولیس اکیڈمی، سیہون کی ڈی پی نظر نہ آئی۔ ہم گہنگار مگر نا سمجھ ہیں۔ حسن ظن رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے ان اقدامات میں بھی امت مسلمہ کوئی عظیم مفاد ہو۔
ایک بات البتہ سمجھ نہ آ سکی۔ آپ فرماتے ہیں کہ، پشتون، قوم پرستی کے غلیظ تصور کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ درست ہے۔ قوم پرستی واقعی ایک غلیظ تصور ہے اگر پیدائش کی بنیاد پر کسی انسان کو دوسرے سے کمتر سمجھا جائے۔ درست ہے کہ قوم پرستی غلیظ تصور ہے اگر ذات پات کی بنیاد پر انسانوں میں امتیاز برتا جائے۔ کوئی گروہ پیدائش کی بنیاد پر نہ اعلی ہو سکتا ہے اور نہ ادنی۔ انسان کے مساوات اور احترام میں درجہ بندی نہیں ہو سکتی۔ مگر صاحب! یہ پشتونوں کی قوم پرستی نہیں ہے۔ ایسی قوم پرستی جس کی بھی ہوگی قابل افسوس ہو گی۔ ماں باپ کے حیاتیاتی فعل کی بنیاد پر کوئی انسان خود کو دوسرے سے برتر نہیں سمجھ سکتا۔ پشتون قوم پرستی پشتون ولی کو کہتے ہیں۔ ممکن ہے اب قوم پرستی کی تعریف بدل گئی ہو۔ مدعا یہ ہے کہ پشتون سماج میں پشتون ولی کو قوم پرستی کہتے ہیں۔ پشتون ولی وہ غیر تحریر اخلاقی اقدار ہیں جس پر پشتون سماج صدیوں سے کاربند ہے۔ ہماری بات چھوڑئیے کہ ہمیں نہ تقوی کا دعوی ہے اور نہ پارسائی عطا ہو سکی مگر تاریخ کی کتب میں بہت سی عبارتیں موجود ہیں۔ حسین رضوان سے لے Erinn Banting تک سب واقف ہیں کہ پشتون ولی کسے کہتے ہیں۔
Afghanistan: The people آئیے کی کتاب Erinn Banting
پر نظر ڈالتے ہیں کہ پشتون ولی کو کیسے بیان کیا گیا ہے۔
ننگ Honor )
۔ ہر پشتون کے لازم ہے کہ کمزور کی حفاظت کرے گا۔ اس کے لئے آواز اٹھائے گا۔ Respect
( پت : عزت)
(۔ ہر پشتون اپنے اور دوسروں کی عزت کا خیال رکھے گا۔ جس پشتون میں
نہیں ہو گا اسے پشتون تصور نہیں کیا جائے گا۔
Protection of Women ناموس)۔)
ہر پشتون کے لئے لازم ہو گا کہ وہ کسی بھی قیمت پر عورت کی قدر کرے۔ یہ لازم ہے کہ وہ
عورت کو ہر طرح کی تشدد سے بچائے چاہے وہ ہاتھ کا تشدد ہو یا الفاظ کا تشدد۔ؒ
Loyalty ثبات) ۔)
ہر پشتون کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے وطن، سماج، قبیلے، دوستوں، ہمسائیوں اور خاندان کے ساتھ وفاداری نبھائے۔ بے وفائی ہر پشتون کے لئے مقام شرم ہو گا۔
Righteousness (خیگڑہ)
ہر پشتون کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے الفاظ، اعمال اور خیالات میں اچھا ہو۔ پشتونوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انسانوں اور جانوروں کے معاملے میں ہمیشہ اچھائی کا رویہ اختیار کرے۔Bravery تورہ)۔)
ہر پشتون کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی بھی غاصب سے اپنے وطن، زمین، سماج اور خاندان کی حفاظت کرے۔ اسے چاہیے کہ ہر ظالم کے خلاف بہادری سے کھڑا رہے۔
(Asylumپناہ ۔)
کوئی بھی شخص کسی پشتون گھرانے، پشتون سماج یا پشتون قبیلے کے پاس اگر پناہ لینے کی غرض سے آئے گا تو پشتونوں پر لازم ہو گا کہ اس کو پناہ دیں۔ پناہ گزین شخص کی حفاظت پشتونوں کے لئے جان سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
Forgiveness ننواتے)۔)
کوئی بھی دشمن اگر کسی پشتون قبیلے، خاندان یا فرد کے پاس پہنچ کر معافی مانگ لے تو پشتون کے لئے لازم ہے کہ اس کو معاف کر دے۔
Hospitality میلمستیا)۔)
مہمان نوازی پشتون اقدار کا بنیادی جزو ہے۔ کسی بھی مہمان کو اس کے رنگ، نسل، زبان، مذہب یا سماجی حیثیت کی بنیاد پر نہیں تولا جائے گا۔ مہمان جو بھی ہو گا وہ ہمیشہ واجب الاحترام رہے گا۔ اس کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔Justice and Revenge نیو او بدل) ۔)
انصاف کے حصول کے لئے بدلہ لازم ہے۔ آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک ہے۔ اس میں وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔
یہ وہ اقدار ہیں جسے پشتون سماج میں صدیوں سے ایک غیر مرتب دستور کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ غیر مرتب دستور صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس کی بنیاد قبیلوی معاشرے میں اس وقت پڑی جب ریاست کا وجود بھی نہیں تھا۔ اس وقت انصاف کے لئے سماج میں ادارے موجود نہیں تھے۔ آج کے سماج میں کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ مجرم کو خود سزا دے۔ مجرم کو سزا دینے کا حق اب ریاست کا کام ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پشتون سماج میں سماج کے ہر فرد کو پشتون سمجھا جاتا ہے۔ پشتون سماج میں لفظ پشتون ایک صفت(Adjective) ہے۔ اس سے یاد آیا کہ جب پیرس میں حملہ ہوا تو ہمارے مرحوم چچا نے ایک جملہ کہا اس صفت کی عین تشریح ہے۔ چچا نے کہا، دا ظالمان سوک او چی سپین پشتانہ یی مڑو کڑل ( یہ کون ظالم تھے جنہوں نے معصوم پشتونوں کے خون سے ہولی کھیلی)۔ یہ در اصل پشتون ولی ہے۔ اسی کو پشتون سماج میں قوم پرستی کہتے ہیں۔ کسی شخص کو ان اقدار پر اعتراض ہے تو ہمیں اپنی بات پر اصرار نہیں۔ ہاں مگر عرض ہے کہ یہ اقدار ہمارے خون میں رچ بس گئے ہیں اس لئے قابل قدر ہیں۔اقدار کی بات چلی ہے تو ثقافت کی بات کر لیتے ہیں۔ پشتون سماج کے ثقافت میں خوشی کے موقع پر شپیلئی، رباب، منگئی اور اتنڑ شامل ہیں۔ پشتون روشن خیال سماج نے اپنے خوشیوں کا حق کس نہ ماضی میں کسی کو چھیننے دیا اور نہ اب یہ حق کسی خدائی فوجداری کے دعویدار گروہ کو تفویض کرنے کو تیار ہے۔
احباب کو شاید یاد نہیں مگر ہمیں یاد ہے کہ جن افغان طالبان کی احباب عذرخواہی میں مصروف تھے وہی افغان طالبان جب کوئی نیا شہر فتح کرتے تو سب سے پہلے اتنڑ کرتے۔ جبر کی مگر اپنی صورتیں ہیں۔ لال شہاز قلندر کے مزار پر دھماکہ کرنے والوں نے کہا تھا کہ مزار پر دھمال ہو گا تو قتال ہو گا۔ کل جناب لیاقت بلوچ صاحب نے فرمایا، یونیورسٹی میں رقص ہو گا تو کشیدگی ہو گی۔ اس پر اور کیا کہا جا سکتاہے؟ برادرم عثمان قاضی کا جملہ صادق آتا ہے، وہی نذر کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں، بس ہوا یہ کہ حیدرآباد دکن اور دلی کے رکھ رکھاؤ کی مجبوریاں اب راست گفتاری میں حائل نہیں ہیں، سو اہل وطن اس اجل تاب چہرے کو بے نقاب دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں۔مکرر عرض ہے کہ سیاست کی ابجد سمجھنے والا بھی جانتا ہے کہ جماعت یا جمعیت کی شناخت لسانی نہیں مذہبی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا معاملہ کسی ادنی درجے میں بھی پشتون پنجابی لسانی معاملہ نہیں ہے۔
یہ دو گروہوں کا نظریاتی تصادم ہے۔ ایک گروہ خود کو خدائی فوجداری کے منصب پر فائز سمجھتا ہے جس نے دوسرے گروہ کو لبرل، سیکولر اور روشن خیالی کا نمائندہ سمجھ کر نشانہ بنایا ہے۔ حملہ کرنے والوں کی شناخت لسانی بالکل نہیں ہے۔ یہ جبر اور حق کا معاملہ ہے۔ یہ بندوق اور بانسری کی لڑائی ہے۔ یہ خوشیاں چھیننے کا معاملہ ہے۔ ہم مگر مایوس نہیں ہیں۔ اس مٹی میں ابھی سر سلامت ہیں جو دھمال پر دھنتے ہیں اور اتنڑ پر ہلتے ہیں۔
Last edited: