Is the DHA accountable to the government

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
check out the tip of the iceberg!!! how the defenders of the country loot the nation!!!

55b19b8ba9723.jpg

ISLAMABAD: Is the Defence Housing Authority (DHA), a real estate entity of the army, working without any oversight or is it answerable to the federal government?

The Supreme Court (SC) posed this question to the government on Thursday.

The status of the DHA came under discussion during the hearing of a complaint filed against the development of the DHA valley on an area reserved for the lake adjoining the proposed Dadhocha dam.

During the last hearing on July 16, the SC had asked the National Accountability Bureau (NAB) to explain why the inquiry into the unauthorised development of a housing scheme on an area reserved for a dam was pending since July 2012.


Justice Khawaja asked why Gen Aziz, who was the vice president of DHA, Islamabad, could ask the Punjab chief minister to relocate the water reservoir meant for millions



Dadhocha was planned for providing water to the residents of the twin cities, said Justice Jawwad S. Khawaja, adding the proposed dam was supposed to replace the Rawal dam, the calculated life of which would be over during the current year.
A two-member SC bench, comprising Justice Khawaja and Justice Dost Mohammad, heard the case.

During the course of hearing, the additional prosecutor general NAB, Akbar Tarar, informed the court that the Punjab government had submitted a report which claimed that the controversy over the Dadhocha dam was being addressed.
The report was presented to the court.

The Punjab government in the report says, Major General Humayun Aziz, vice-president DHA, Islamabad, called on the Chief Minister (Punjab) on March 3, 2015. In the meeting he (DHA VP) expressed his reservation on the construction of a dam on Ling river near village Dadhocha proposed by the irrigation department as a large portion of DHA is likely to be affected by its pond area. He proposed an alternative dam site around three kilometres upstream of village Dadhocha. After discussion, the chief minister directed the secretary irrigation department Punjab to hold a meeting with the VP DHA for resolving this matter.

The report stated that in a subsequent meeting of Gen Aziz with the secretary irrigation on April 3, it was decided to carry out a feasibility study for an alternate site.

The additional advocate general Punjab, Razzaq A. Mirza, told the bench that the feasibility study would likely be completed by July 31.
After Mirzas statement, Justice Khawaja recalled that earlier the Punjab government had taken the stance that the site could not be changed. He added that the chief secretary Punjab had twice submitted a report to the court in which the Punjab government had categorically rejected shifting the dam to any other location.

Prima facie, the change of mind took place after a uniformed general met the chief minister, remarked Justice Dost Mohammad.
Justice Khawaja asked why Gen Aziz, who was the vice-president of DHA, Islamabad, could ask the chief minister of Punjab to relocate the water reservoir meant for millions of residents of the garrison city.

Is the DHA answerable to the government or any other authority? Justice Khawaja asked the additional attorney general (AAG), Amir Rehman, and additional prosecutor general NAB Tarar.

Tarar informed the court that DHA was a statutory organisation and headed by the adjutant general of the army. Both the law officers, however, could not explain if the federal government enjoyed any powers to keep a check on the DHA.

AAG Rehman said under the DHA Act 2013, the authority provides residential facilities to the bereaved families of martyrs, war injured, disabled and the officials of the armed forces.

At this, the bench asked if the federal government could provide details about the allotment of land to the bereaved families, injured and disabled by the DHA in its various housing schemes.

The bench also asked the counsel of the federal government to inform the court whether the DHA was answerable to any authority or not. The matter was then adjourned till August 10 when the government is to provide the information ordered by the court.
Published in Dawn, July 24th, 2015

SOURCE
http://www.dawn.com/news/1196048/is-the-dha-accountable-to-the-government



aye watan ke sajeeley jawanoo
meray rakhbaey tumharey lie hain
meray DHA tumharey liey hain


اسلام آباد: پاک فوج کا ریئل اسٹیٹ کا ایک ادارہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)، کیا کسی نگرانی کے بغیر کام کررہا ہے یا یہ وفاقی حکومت کو جوابدہ ہے۔

کل یہ سوال سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کے سامنے رکھا گیا۔

مجوزہ ڈاڈھوچہ ڈیم سے ملحق جھیل کے لیے مختص زمین پر ڈی ایچ اے وادی کی تعمیر کے خلاف دائر کی گئی ایک شکایت کی سماعت کے دوران ڈی ایچ اے کی حیثیت زیرِ بحث آئی۔

واضح رہے کہ 16 جولائی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے کہا تھا کہ آخر کیوں ڈیم کے لیے مختص علاقے پر ایک رہائشی اسکیم کی غیر مجاز تعمیر کی انکوائری جوالائی 2012ء سے زیرِ التواء پڑی ہوئی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈاڈھوچہ ڈیم کا منصوبہ جڑواں شہر کے باشندوں کو پانی کی فراہمی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مجوزہ ڈیم، روال ڈیم کی جگہ لینے والا تھا، جس کی متعین عمر اس سال کے دوران ختم ہوجائے گی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس دوست محمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے اس دو رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔

اس سماعت کے دوران نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اکبر تارڑ نے عدالت کو مطلع کیا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈاڈھوچہ ڈیم کے اس تنازعے سے نمٹا جارہا ہے۔

یہ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

حکومتِ پنجاب کی اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد کے نائب صدر میجر جنرل ہمایوں عزیز نے وزیراعلیٰ پنجاب سے تین مارچ 2015ء کو ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کےد وران ڈی ایچ اے کے نائب صدر نے ڈاڈھوچہ گاؤں کے قریب محکمہ آبپاشی کی جانب سے لنگ دریا پر ڈیم کی تعمیر کی تجویز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس جھیل کی وجہ سے ڈی ایچ اے کا ایک بڑا حصہ متاثر ہونے کا امکان ہے۔

میجر جنرل ہمایوں عزیز نے ڈاڈھوچہ گاؤں سے لگ بھگ تین کلومیٹر کے فاصلے پر دریا کے بالائی حصہ پر ڈیم کے لیے متبادل مقام کی تجویز پیش کی۔

اس تبادلۂ خیال کے بعد وزیراعلیٰ نے پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے ڈی ایچ اے کے نائب صدر کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کریں۔

اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد میجر جنرل ہمایوں عزیز کی سیکریٹری آبپاشی کے ساتھ 3 اپریل کی ملاقات کےد وران یہ فیصلہ کیا گیا کہ متبادل مقام کا ایک فزیبیلیٹی مطالعہ تیار کیا جائے۔

پنجاب کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رزاق اے مرزا نے عدالتی بینچ کو بتایا کہ یہ فزیبیلیٹی مطالعہ 31 جولائی کو مکمل ہونے کا امکان ہے۔

رزاق اے مرزا کے بیان کے بعد جسٹس جواد ایس خواجہ نے یاد دلایا کہ اس سے قبل حکومتِ پنجاب کا یہ مؤقف تھا کہ ڈیم کا مقام تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب کے چیف سیکریٹری نے عدالت میں ایک رپورٹ دو مرتبہ جمع کرائی تھی جس میں حکومتِ پنجاب نے ڈیم کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی تجویز دوٹوک انداز میں مسترد کردیا تھا۔

اس موقع پر جسٹس دوست محمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بظاہر ایک باوردی جنرل کے ساتھ وزیراعلیٰ کی ملاقات کے بعد ذہن تبدیل ہوگیا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد کے نائب صدر میجر جنرل ہمایوں عزیز آخر کس طرح وزیراعلیٰ پنجاب کو پانی کے ذخیرے کی جگہ کی تبدیلی کے لیے کہہ سکتے ہیں، جو راولپنڈی شہر کے لاکھوں باشندوں کو پانی فراہم کرے گا۔

انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا کہ کیا ڈی ایچ اے حکومت یا کسی اور ادارے کو جواب دہ ہے؟

اکبر تارڑ نے عدالت کو مطلع کیا کہ فوج کے ایک ماتحت جنرل کی سربراہی میں ڈی ایچ اے ایک قانونی ادارہ ہے۔ تاہم یہ دونوں قانونی افسران یہ واضح نہیں کرسکے کہ کیا وفاقی حکومت ڈی ایچ اے کی جانچ پڑتال کا کوئی اختیار رکھتی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی ایچ اے کے ایکٹ 2013ء کے تحت یہ اتھارٹی شہیدوں کے سوگوار خاندانوں، جنگ میں زخمی اور معذور ہوجانے والوں اور مسلح افواج کے عہدے داروں کو رہائش کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

اس کے جواب میں عدالتی بینچ نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت ڈی ایچ اے کی مختلف رہائشی اسکیموں میں سوگوار خاندانوں، زخمیوں اور معذوروں کو الاٹ کی گئی زمین کے بارے میں تفصیلات فراہم کرسکتی ہے۔

عدالتی بینچ نے وفاقی حکومت کے وکیل سے کہا کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں کہ کیا ڈی ایچ اے کسی اتھارٹی کو جوابدہ ہے یا نہیں۔

اس کے بعد یہ مقدمہ 10 اگست تک کے لیے ملتوی کردیا گیا، جب عدالت کے حکم پر حکومت مطلوبہ تفصیلات فراہم کردے گی۔
 
Last edited by a moderator:

aazad.mubassir

Minister (2k+ posts)
اے وطن کے سجیلے جوانو یہ مربے تمھارے لئے ہیں
یہ آرمی کا پاکستان ہے
نہ کہ پاکستان کی آرمی
 

Altaf Lutfi

Chief Minister (5k+ posts)
نیب سے گزشتہ سالوں کی مالیاتی بدعنوانیوں کے دباےؑ گےؑ کیسوں کی تفصیل طلب کرنے سے اندازہ ھو گیا تھا کہ عدلیہ نے آخرکار اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ھے، اس آرٹیکل سے یہ خوشگوار احساس ھوتا ھے کہ عدلیہ اس ضمن میں فوجی احاطہِ اثر کو بھی نظر انداز نھیں کر رھی اور یہ تاثر خود فوجی قیادت کے اس یقین سے بھی مطابقت رکھتا ھے کہ سابق جرنیلوں کے خلاف زیرِ التواء کیسوں پر پیشرفت کی جاےؑ تاکہ سویلین قیادت کو یکطرفہ احتساب کا شور مچانے کا موقعہ نہ مل سکے

عدالت بے شک اپنے وقار، آزادی اور تحکم کو درست طریقے سے ثابت کر رھی ھے لیکن یہ امر اپنی جگہ بالکل درست ھے کہ ڈی ایچ اے کا سربراہ اگر وزیرِ اعلیٰ سے اپنے منصوبے کو ھونے والے نقصان کا معاملہ اٹھاتا ھے تو یہ اس کا معمول کا کام ھے، اس میں دھمکانے والی تو بات نھیں ھے، یونیفارم کا ذکر اور حوالہ غیر ضروری ھے اور جہاں تک حکومتِ پنجاب کے ڈیم کی لوکیشن کے غیر متبادل ھونے پر پہلے اصرار اور پھر اس موقف سے فرار کی بات ھے تو یہ بات ھر شخص جانتا ھے کہ ایک ندی پر ڈیم کے لیے ایک سے زیادہ مقامات دستیاب ھوتے ھیں

یقینا" حکومتِ پنجاب اور ڈی ایچ اے کسی ایسے حل پر متفق ھو جایؑیں گے جس سے دونوں کے مفادات کا تحفظ ھو سکے
 

yahya.khan

Minister (2k+ posts)
اسلام آباد: پاک فوج کا ریئل اسٹیٹ کا ایک ادارہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)، کیا کسی نگرانی کے بغیر کام کررہا ہے یا یہ وفاقی حکومت کو جوابدہ ہے۔
کل یہ سوال سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کے سامنے رکھا گیا۔
مجوزہ ڈاڈھوچہ ڈیم سے ملحق جھیل کے لیے مختص زمین پر ڈی ایچ اے وادی کی تعمیر کے خلاف دائر کی گئی ایک شکایت کی سماعت کے دوران ڈی ایچ اے کی حیثیت زیرِ بحث آئی۔
واضح رہے کہ 16 جولائی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے کہا تھا کہ آخر کیوں ڈیم کے لیے مختص علاقے پر ایک رہائشی اسکیم کی غیر مجاز تعمیر کی انکوائری جوالائی 2012ء سے زیرِ التواء پڑی ہوئی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈاڈھوچہ ڈیم کا منصوبہ جڑواں شہر کے باشندوں کو پانی کی فراہمی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ مجوزہ ڈیم، روال ڈیم کی جگہ لینے والا تھا، جس کی متعین عمر اس سال کے دوران ختم ہوجائے گی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس دوست محمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے اس دو رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔
اس سماعت کے دوران نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اکبر تارڑ نے عدالت کو مطلع کیا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈاڈھوچہ ڈیم کے اس تنازعے سے نمٹا جارہا ہے۔
یہ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔
حکومتِ پنجاب کی اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد کے نائب صدر میجر جنرل ہمایوں عزیز نے وزیراعلیٰ پنجاب سے تین مارچ 2015ء کو ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات کےد وران ڈی ایچ اے کے نائب صدر نے ڈاڈھوچہ گاؤں کے قریب محکمہ آبپاشی کی جانب سے لنگ دریا پر ڈیم کی تعمیر کی تجویز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس جھیل کی وجہ سے ڈی ایچ اے کا ایک بڑا حصہ متاثر ہونے کا امکان ہے۔
میجر جنرل ہمایوں عزیز نے ڈاڈھوچہ گاؤں سے لگ بھگ تین کلومیٹر کے فاصلے پر دریا کے بالائی حصہ پر ڈیم کے لیے متبادل مقام کی تجویز پیش کی۔
اس تبادلۂ خیال کے بعد وزیراعلیٰ نے پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے ڈی ایچ اے کے نائب صدر کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کریں۔
اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد میجر جنرل ہمایوں عزیز کی سیکریٹری آبپاشی کے ساتھ 3 اپریل کی ملاقات کےد وران یہ فیصلہ کیا گیا کہ متبادل مقام کا ایک فزیبیلیٹی مطالعہ تیار کیا جائے۔
پنجاب کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رزاق اے مرزا نے عدالتی بینچ کو بتایا کہ یہ فزیبیلیٹی مطالعہ 31 جولائی کو مکمل ہونے کا امکان ہے۔
رزاق اے مرزا کے بیان کے بعد جسٹس جواد ایس خواجہ نے یاد دلایا کہ اس سے قبل حکومتِ پنجاب کا یہ مؤقف تھا کہ ڈیم کا مقام تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب کے چیف سیکریٹری نے عدالت میں ایک رپورٹ دو مرتبہ جمع کرائی تھی جس میں حکومتِ پنجاب نے ڈیم کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی تجویز دوٹوک انداز میں مسترد کردیا تھا۔
اس موقع پر جسٹس دوست محمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’’بظاہر ایک باوردی جنرل کے ساتھ وزیراعلیٰ کی ملاقات کے بعد ذہن تبدیل ہوگیا۔‘‘
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد کے نائب صدر میجر جنرل ہمایوں عزیز آخر کس طرح وزیراعلیٰ پنجاب کو پانی کے ذخیرے کی جگہ کی تبدیلی کے لیے کہہ سکتے ہیں، جو راولپنڈی شہر کے لاکھوں باشندوں کو پانی فراہم کرے گا۔
انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا کہ ’’کیا ڈی ایچ اے حکومت یا کسی اور ادارے کو جواب دہ ہے؟‘‘
اکبر تارڑ نے عدالت کو مطلع کیا کہ فوج کے ایک ماتحت جنرل کی سربراہی میں ڈی ایچ اے ایک قانونی ادارہ ہے۔ تاہم یہ دونوں قانونی افسران یہ واضح نہیں کرسکے کہ کیا وفاقی حکومت ڈی ایچ اے کی جانچ پڑتال کا کوئی اختیار رکھتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی ایچ اے کے ایکٹ 2013ء کے تحت یہ اتھارٹی شہیدوں کے سوگوار خاندانوں، جنگ میں زخمی اور معذور ہوجانے والوں اور مسلح افواج کے عہدے داروں کو رہائش کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
اس کے جواب میں عدالتی بینچ نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت ڈی ایچ اے کی مختلف رہائشی اسکیموں میں سوگوار خاندانوں، زخمیوں اور معذوروں کو الاٹ کی گئی زمین کے بارے میں تفصیلات فراہم کرسکتی ہے۔
عدالتی بینچ نے وفاقی حکومت کے وکیل سے کہا کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں کہ کیا ڈی ایچ اے کسی اتھارٹی کو جوابدہ ہے یا نہیں۔
اس کے بعد یہ مقدمہ 10 اگست تک کے لیے ملتوی کردیا گیا، جب عدالت کے حکم پر حکومت مطلوبہ تفصیلات فراہم کردے گی۔

http://www.dawnnews.tv/news/1024261/
 

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
نیب سے گزشتہ سالوں کی مالیاتی بدعنوانیوں کے دباےؑ گےؑ کیسوں کی تفصیل طلب کرنے سے اندازہ ھو گیا تھا کہ عدلیہ نے آخرکار اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ھے، اس آرٹیکل سے یہ خوشگوار احساس ھوتا ھے کہ عدلیہ اس ضمن میں فوجی احاطہِ اثر کو بھی نظر انداز نھیں کر رھی اور یہ تاثر خود فوجی قیادت کے اس یقین سے بھی مطابقت رکھتا ھے کہ سابق جرنیلوں کے خلاف زیرِ التواء کیسوں پر پیشرفت کی جاےؑ تاکہ سویلین قیادت کو یکطرفہ احتساب کا شور مچانے کا موقعہ نہ مل سکے

عدالت بے شک اپنے وقار، آزادی اور تحکم کو درست طریقے سے ثابت کر رھی ھے لیکن یہ امر اپنی جگہ بالکل درست ھے کہ ڈی ایچ اے کا سربراہ اگر وزیرِ اعلیٰ سے اپنے منصوبے کو ھونے والے نقصان کا معاملہ اٹھاتا ھے تو یہ اس کا معمول کا کام ھے، اس میں دھمکانے والی تو بات نھیں ھے، یونیفارم کا ذکر اور حوالہ غیر ضروری ھے اور جہاں تک حکومتِ پنجاب کے ڈیم کی لوکیشن کے غیر متبادل ھونے پر پہلے اصرار اور پھر اس موقف سے فرار کی بات ھے تو یہ بات ھر شخص جانتا ھے کہ ایک ندی پر ڈیم کے لیے ایک سے زیادہ مقامات دستیاب ھوتے ھیں

یقینا" حکومتِ پنجاب اور ڈی ایچ اے کسی ایسے حل پر متفق ھو جایؑیں گے جس سے دونوں کے مفادات کا تحفظ ھو سکے
Boot polish karney ka shukria! :biggthumpup:
 

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
100 % agreed

woh din door nahi jab awwam in harem khoor generalon ko sarkoon pe ghaseetaingey.Malik Riaz ke liaey dam site bhi change hijatee hai ,main sadkaey jaon terey mulk ke hifazat key? We dont need enemy india ,DHA army is going worst damage it self! Almost all retire army men consider themselves above the law.
 

Altaf Lutfi

Chief Minister (5k+ posts)
Boot polish karney ka shukria! :biggthumpup:

شکریہ ! یہ تو میرا فرض تھا ،، جب مجھے پتا چلا کہ اس بار ٹُھڈ تمھاری تشریف پر پڑنے والا ھے تو میں نے سوچا کہ کم از کم بُوٹ صاف چمکدار تو ھونا چاھیے
 

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
شکریہ ! یہ تو میرا فرض تھا ،، جب مجھے پتا چلا کہ اس بار ٹُھڈ تمھاری تشریف پر پڑنے والا ھے تو میں نے سوچا کہ کم از کم بُوٹ صاف چمکدار تو ھونا چاھیے
Tum ne achi tarha zaban se chaat ke saaf kia boot ke nahi?
yar tum kab izaat ke rooti kamaogey? kia sari zindagee generalon ke leed uthao gey? kitnee safaiyee do gey? koi haya hoti koi sharam hoti hai !
 

Altaf Lutfi

Chief Minister (5k+ posts)
Tum ne achi tarha zaban se chaat ke saaf kia boot ke nahi?
yar tum kab izaat ke rooti kamaogey? kia sari zindagee generalon ke leed uthao gey? kitnee safaiyee do gey? koi haya hoti koi sharam hoti hai !

بھیا وقت برباد نہ کرو، ، کچھ دیر میں تو ڈاکٹر بھی اٹھ جانے ھیں، پہلے علاج کرا لو، میں ادھر ھی ھوں