WatanDost
Chief Minister (5k+ posts)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿١٣٥﴾
سورة النساء
اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی موﻻ کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے
یہاں میں قرآن کے دو واقعات نقل کرتا ہوں جہاں "ملزم" پر بار ثبوت بے گناہی ہے
جب کہ جرم سرزد ہوا ہے اور " امانت " میں خیانت ہوئی ہے - یہاں بھی بار ثبوت
سوال کرنے والے پر نہیں بلکہ "اکیوذڈ/ ملزم " پر ہے _
سورہ یوسف
قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ﴿١٧﴾
اور کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف (علیہ السلام) کو ہم نے اسباب کے پاس چھوڑا پس اسے بھیڑیا کھا گیا، آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گے، گو ہم بالکل سچے ہی ہوں
وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ﴿١٨﴾
اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر ﻻئے تھے، باپ نے کہا یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی سے ایک بات بنا لی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے
سورہ نمل
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿٢٠﴾
آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وه غیر حاضر ہے؟
لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢١﴾
یقیناً میں اسے سخت سزا دوں گا، یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا میرے سامنے کوئی صریح دلیل
بیان کرے
اب میں واقعہ حضرت عمر رضی الله نقل کرتا ہوں
ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے خطبے میں یہ کلمات ارشاد فرما رہے تھے کہ
ایھا الناس اسمعوا و اطیعوا
اے لوگو ! ولی الامر کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو
اسی دوران ایک شخص کھڑا ہو گیا اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کی بات کاٹتے هوئے بولا:
امیر المومنین! کوئی سمع و طاعت نہیں ہو گی_ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے نرمی سے پوچھا
اے الله کے بندے کیوں؟
اس نے کہا:
اموال غنیمت میں سے ہم سب کے حصہ میں تن ڈھانپنے کو صرف ایک ایک چادر آئی_ اس چادر سے
کرتہ تیار نہیں ہو سکتا تھا، لیکن آپ کے حصہ میں آنے والی چادر سے آپ کی قمیص کیسے تیار ہو گئی؟
حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے فرمایا:
بس یہیں رک جاؤ ! اس بات کا جواب میں نہیں کوئی اور دے گا_ پھر اپنے بیٹے کو آواز دی تو عبدالله بن
عمر رضی الله عنہ آگے آ گئے _انہوں نے وضاحت کی کہ
ایک چادر سے میرے والد محترم کی قمیص مکمل نہ ہو سکی اس لیے میں نے اپنے حصہ کی چادر اپنے
والد ماجد کو دے دی تا کہ ان کی قمیص مکمل ہو جائے _
یہ وضاحت سن کر صحابہ کرام رضی الله عنھم مطمئن ہو گئے اور سوال کرنے والے نے وضاحت سن
کر بڑے احترام اور عاجزی سے عرض کیا : امیر المومنین !
الآن السمع والطاعتہ یا امیر المومنین
امیر المومنین ! اب آپ جو حکم دیں گے ہم سمع و طاعت کے لیے تیار ہیں
(عیون الاخبار:٥٥/١، نقلا عن محض الصواب:٥٧٩/٢)
یہاں بھی ظاہرا چوری شدہ مال موجود ممکنہ سارق حضرت عمر رضی الله مسروقہ مال کے ساتھ موجود ہیں
اور حاکم وقت بھی ہیں ، حاکم وقت بھی وہ جن کے جیسا انبیاء و صدیق کے بعد کسی ماں نے جنا ہی نہیں جبکہ
مدعی ایک عام شخص ہے
کیا عمر فاروق نے " ثبوت لاؤ " کا مطالبہ پیش کیا یا خود " ثبوت پیش" کیا ؟؟؟
فیصلہ آپ سب خود کریں
میں نے جو سمجھا وہ آپ تک پہنچا دینا فرض جانا
بقلم
"وطن دوست
"
Last edited: