Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا ح

meezan

Politcal Worker (100+ posts)
تحریر: عامر گزدر


[TABLE="width: 1024"]
[TR]
[TD]
ڈاڑھی کے مسئلے میں ہمارے مذہبی حلقوں میں بالعموم یہ نقطۂ نظر پایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد کے لیے ڈاڑھی رکھنا "واجب"یعنیدینی طور پر لازم ہے۔پھر یہ دعویٰ بھی ہمارے معاشرے میں عمومی شہرت رکھتا ہے کہ ڈاڑھی کے بارے میں یہی رائے نہ صرف یہ کہ ائمۂ اربعہ اور اُمت کے تمام فقہا کی ہے،بلکہ مذاہب اربعہ کے تمام علما کا اِس پر اجماع ہے۔یہ بتائیں کہ فقہ اسلامی کی رو سے علمی طور پر ڈاڑھی کے مسئلے میں یہ مقدمہ آیا درست ہے ؟ کیا واقعتاً اِس مسئلےمیں اُمت کا اتفاق ہے ؟ اگر ہے تو اِس کی دلیل کیا ہے ؟ اور اگر نہیں ہے تو یہ بتائیں کہ ڈاڑھی کے مسئلے میں علما ے سلف وخلف نے کیا آرا پیش کی ہیں ؟
[/TD]
[TD="width: 45"]
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]

[TABLE="width: 1024"]
[TR]
[/TR]
[TR]
[TD]
دیکھیے ،فقہ ِاسلامی کی روشنی میں پہلی بات تو یہ جاننا چاہیے کہ اِس مسئلے میں ائمۂ اربعہ کے اتفاق کا دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے۔ علم کی دنیا میں اِس کی کوئی حقیقت ہے،نہ اِس کے اثبات کے لیےکوئی ماخذ ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔دوسرے یہ کہ مذاہب اربعہ کے علما وائمہ بھی اِس مئلے میں قطعاً متفق نہیں ہیں۔ اُن کے مابین بھی اِس معاملے میں بہت کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ڈاڑھی کے مسئلے میں سلف وخلف کے علما وائمہ کے مابین کئی پہلؤوں سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔تحقیق کی رو سے دیکھا جائے تو علماے اُمت کے مابین ڈاڑھی کی تعریف اور اِس کی حدودِ اربعہ کی تعیین میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ڈاڑھی رکھنے کے حکم میں بھی اختلاف ہے۔ ڈاڑھی کی تہذیب واصلاح اور اُس کی تراش خراش کے باب میں بھی فقہا کی آرا کئی پہلؤوں سے باہم مختلف ہیں۔یہاں تک کہ ڈاڑھی منڈانے کا کیا حکم ہے ؟؛اِس سوال کے جواب میں بھی اُمت کے اصحاب ِ علم باہم متفق نہیں ہیں۔
چنانچہ یہ جاننا چاہیے کہ اِس مسئلے میں اُمت میں کسی بھی پہلو سے اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ بلکہ یہ منجملہ مختَلف فیہ مسائل ہے۔
یہاں سائل کا اصل سوال چونکہ خاص "ڈاڑھی رکھنے کے حکم" کے بارے میں ہے تو اِس حوالے سے واضح رہے کہ راقم الحروف کی تحقیق واستقصا کے مطابق اُمت کے سلف وخلف کے علماومحققین کی پانچ مختلف آرا سامنے آتی ہیں،جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :
1۔ڈاڑھی رکھنا ہر مسلمان مرد پر واجب ہے۔
بعض فقہا کے نزدیک مسلمان مرد کے لیے ڈاڑھی رکھنا دین میں"واجب" یعنی لازم ہے۔اِس کا ترک کرنا قابل مواخذہ ہے۔ یہ رائے علماے احناف کی اور دوسری روایت کے مطابق بقیہ تینوں مذاہب کے فقہا کی ہے۔ علماے عصر میں سے یہی رائے شیخ عبد العزیزبن باز،شیخ عبد الرزاق عفیفی، اور بعض دیگر علما کی ہے (1)۔
2۔ڈاڑھی رکھنا مسنون ومستحب ہے۔
ایک رائے کے مطابق ڈاڑھی رکھنا دین میں ایک " مسنون ومستحب" عمل ہے۔یعنی یہ دین میں ایک پسندیدہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔مسلمان مرد پر ڈاڑھی رکھنا لازم ہے،نہ اِس کے ترک کرنے پر کوئی مواخذہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ نقطۂ نظر مالکی،شافعی اورحنبلی فقہا کا ہے۔ علماے معاصرین میں سے علامہ یوسف قرضاوی کی بھی یہی رائے ہے (2)۔
3۔ ڈاڑھی رکھنا منجملہ اُمورِ عرف وعادت ہے۔
ڈاڑھی کے معاملے میں تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مردوں کا ڈاڑھی رکھنا یا نہ رکھنا منجملہ قومی اور علاقائی عادات ہے۔یہ اُمورِ شریعت میں سے نہیں ہے کہ اِس میں فرضیت وحرمت کی بحث کی جائے۔ اِس معاملہ میں لوگوں کو اپنے عرف کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ رائے علماے مصر میں سے علامہ شیخ محمود شلتوت(سابق رئیس جامعہ الازھر)، اور امام جاد الحق علی جاد الحق(سابق رئیس جامعہ الازھر) اور بعض دیگر علماے عصر کی ہے۔
یہ اصحابِ علم اپنی رائے کی تفصیل اِس طرح کرتے ہیں کہ عرب اور دیگر قوموں کی قدیم تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاڑھی رکھنا اُن کے ہاں اچھی عادات میں شمار ہوا کرتا تھا۔اور پھر اکثر اُمتوں میں دین ،نسل اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود اُن کے علما وفلاسفہ میں بھی ڈاڑھی رکھنے کی یہ عادت اِسی طرح موجود رہی ہے۔وہ اِسے جمالِ شخصیت کا مظہر اور ذریعۂ وقار سمجھتے تھے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی اُمت کو ایسی مستحسن عادات کو اپنانے کی ہدایت فرماتے جو عرف کے مطابق شخصیت کی خوبصورتی اور وقار کا ذریعہ ہوں۔ ڈاڑھی بڑھانے سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اِسی قبیل سے ہیں(3)۔
4۔ڈاڑھی رکھنے کا حکم مسلمانوں کو غیر مسلموں سے ممیز رکھنے کے لیے دیا گیا ہے۔
چوتھا نقطۂ نظر ایک عراقی عرب عالم ومحقق شیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع کا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مسلمان مردوں کے لیے ڈاڑھی رکھنے اور بڑھانے کی نبوی ہدایت ایک خاص علت پر مبنی ہے،جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بیان ہوئی ہے۔ اور وہ مسلمانوں کامحض معاشرے میں موجود غیرمسلموں سے ممیز ہونے کی غرض سے علامتی طور پر اظہارِ مخالفت ہے۔
شیخ الجُدیع مزید فرماتے ہیں کہ حکم کی اصل علت چونکہ یہی بیان ہوئی ہے ،چنانچہ کسی زمانے یا علاقے میں غیرمسلموں کا طریقہ اور امتیاز بڑی ڈاڑھی رکھنا ہوگا تو اُس صورت میں بھی مسلمانوں کو اپنا امتیاز قائم رکھنے کی غرض سے اُن کے بر عکس طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔
یہ البتہ ،واضح رہے کہ غیرمسلموں سے مظاہر میں مخالفت کا یہ حکم بھی زیادہ سے زیادہ"مستحب ومندوب" کے درجے کا ہے۔یہ مسلمان مردوں پر واجب نہیں ہے۔چنانچہ آدمی کی نیت ،جو کہ ایک داخلی چیز ہے؛اگر غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنے کی نہ ہوتو اِس حکم کو ترک کرنا بھی زیادہ سے زیادہ کراہت کے دائرے میں آئے گا۔کسی مستحب عمل کو ترک کردینا حرمت یا شریعت کی مخالفت کے زمرے میں قطعاٍ نہیں آتا۔
ڈاڑھی بڑھا نے کا حکم غیر مسلموں سے اظہارِ مخالفت کی علت پر مبنی ہے۔چنانچہ یہ علت جب تک موجود رہے گی ؛یہ حکم بھی باقی رہے گا۔ اور جب علت موجود نہ رہے تو حکم بھی معطل ہوجائے گا۔اور علت کے مفقود ہوجانے کی صورت میں ڈاڑھی رکھنے کے عمل کو حکم کے اعتبار سے اپنی اصل حیثیت پر رکھا جائے گا۔اور ڈاڑھی کا معاملہ اپنی اصل کے اعتبار سے چونکہ عاداتِ معاشرہ کے قبیل سے ہے۔اور عادات کے باب میں عرف کی بڑی اہمیت ہے۔عرف کا کوئی عمل اگر خلاف شرع نہ ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی یہی رہا ہے کہ وہ اُس کی موافقت کرتے تھے۔ چنانچہ ایسی صورت میں پھر ڈاڑھی کے معاملے میں معاشرے کے عرف ہی کی پیروی کی جائے گی۔ یعنی مسلمانوں کا عرف اگر کسی زمانے اور علاقے میں ڈاڑھی منڈاکر رکھنے کا ہو اور ڈاڑھی کو بڑھانا وہاں شذوذ میں شمار کیا جاتا اور باعث شہرت بن جاتا ہو تو ایسی صورت میں عرف کی پیروی کرنا ہی موافقِ سنت ہوگا۔کیونکہ اِس طرح کی صورت حال میں ڈاڑھی کو بڑھانا دین کی کسی مصلحت ومقصد کو پورا نہیں کرتا۔
اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ علتِ حکم کو پیش نظر رکھتے ہوئے ڈاڑھی بڑھانے کے اِس حکم کی تعمیل بھی اُسی زمانے اور معاشرے میں کی جائے گی جہاں مسلمانوں کو اقتدار وغلبہ حاصل ہو۔کیونکہ اِس کے بغیر غیر مسلموں سے اظہارِ مخالفت ممکن ہے،نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دورِ مغلوبیت میں اِس طرح کا کوئی حکم مسلمانوں کو کبھی دیا ہے(4)۔
5۔ ڈاڑھی مرد کی فطرت اور اُس کی مردانہ وجاہت کا مظہر ہے۔
اِس باب میں پانچواں اور آخری نقطۂ نظر یہ ہے کہ مرد کے لیے ڈاڑھی اُس کی خلقت کے اعتبار سے ایک فطری چیز اور اُس کی مردانہ وجاہت کا مظہر ہے۔ چنانچہ مرد،خواہ وہ کسی بھی زمانے،علاقے اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو؛وہ جب ڈاڑھی رکھتا ہے تو اپنی اِسی خلقی فطرت اور مردانہ وجاہت کی رعایت اور حیثیت سے رکھتا ہے؛آسمانی شریعتوں نے اِس سے کبھی بحث کی ہے،نہ قرآن سنت میں محصور اسلامی شریعت نے اِس معاملے میں کوئی قانون سازی کی ہے۔
اسلامی شریعت کے اُن تمام احکام کو جو عملی نوعیت کے ہیں؛اگرجمع کر کے دیکھا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ اصلاً چار ہی قسم کے ہیں۔ایک وہ سنن جو عبادات کے قبیل سے ہیں۔دوسرے وہ احکام جو اخلاقیات کے تزکیے سے تعلق رکھتے ہیں۔تیسرے وہ اعمال جو تطہیر بدن سے متعلق ہیں۔اور چوتھے وہ ہدایات جو خور ونوش کی پاکیزگی کے لیے دی گئی ہیں۔ذرا تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو ڈاڑھی رکھنے اور بڑھانے کا حکم،احکامِ دین کی اِن چاروں نوعیتوں میں سے کسی ایک سے بھی متعلق نہیں ہوتا۔یعنی یہ عبادات کے قبیل کا کوئی عمل ہے،نہ تزکیہ اخلاق سے اِس کا کوئی تعلق ہے۔اِسی طرح یہ تطہیر بدن سے متعلق ہوتا ہے،نہ کھانے پینے کی پاکیزگی ہی سے اِس کا کوئی تعلق جوڑا جاسکتا ہے۔
اِس تفصیل سے ڈاڑھی رکھنے کے عمل کا اپنی نوعیت کے لحاظ سے بھی دائرۂ شریعت سے خارج ہونا بالبداہت واضح ہوجاتا ہے۔
یہاں اِس بات پر بھی نظر رہے کہ ڈاڑھی کا حکم اسلامی شریعت کے کسی بنیادی حکم کا تقاضا یا فرع نہیں ہے،بلکہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایک مستقل بالذات حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔اور اخبار آحاد دین میں اِس نوعیت کے کسی مستقل بالذات حکم کا،جس سے اصل مصادرِ شریعت یعنی قرآن وسنت بالکل خاموش ہوں؛ماخذ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی چند اخبار آحاد ہیں،جن کی بنا پر ڈاڑھی کا مسئلہ اُمت میں موضوع ِبحث بنا ہے۔اور ہر صاحبِ علم نے اِس مسئلے میں اپنی رائے کے حق میں مستدل کے طور پر بالعموم اُنہی روایات کو پیش کیا ہے۔
اُن احادیثِ باب کو جمع کر کے اُن کے موقع ومحل کی رعایت کرتے ہوئے اگر دقّتِ نظر سے اُن پر تدبر کیا جائے تو یہ بات بھی خود اُن روایتوں ہی سے واضح ہوجاتی ہے کہ مثبت طور پر کسی مستقل حکمِ شرعی کی حیثیت سے ڈاڑھی رکھنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن ارشادات میں بھی سرے سے بیان ہی نہیں ہوا ہے۔بلکہ اُن میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی اور مونچھ ،دونوں کے معاملے میں بعض مجوسیوں،مشرکوں اور اہل کتاب میں پائی جانے والی اُس متکبرانہ وضع کو ترک کرنے کی نصیحت مسلمانوں کو فرمائی ہے جس میں لوگ چھوٹی ڈاڑھی اور بڑی بڑی مونچھیں رکھتےتھے۔ غرور وتکبر پر دلالت کرنے والی یہ وضع ، ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کے اخلاقی تزکیے کو مجروح کردیتی ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا تم ڈاڑھی بڑھالو،لیکن مونچھیں ہر حال میں چھوٹی رکھو۔آپ کی اِس نصیحت کا صحیح محل یہی تھا۔ مگر لوگوں نے اِسے ڈاڑھی بڑھانے کا مستقل حکم سمجھااور اِس طرح ایک ایسی چیز دین میں داخل کردی جو اُس سے کسی طرح متعلق نہیں ہوسکتی۔
احادیثِ باب سے مسلمان مرد کے لیے ڈاڑھی سےمتعلق کسی مستقل دینی حکم کو اخذ کرنے کی گنجایش بھی اُس وقت پیدا ہوسکتی تھی، جب روایتوں میں اِس سے متصل مونچھوں کو پست رکھنے اور غیر مسلموں سے اظہار مخالفت کا کوئی تذکرہ موجود نہ ہوتا۔
اِس سے صاف واضح ہے کہ محض اخبارِ آحاد سے مستقل نوعیت کے احکامِ شریعت اخذ کرنے والے اصحاب کے لیے بھی اگر تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو روایاتِ باب میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ یہ استاذِ محترم جناب جاوید احمد صاحب غامدی کا نقطۂ نظر ہے (5)۔
حکم کا ماخذ اور احادیثِ باب کی تخریج وتحقیق
مسلمان مرد کے لیے ڈاڑھی رکھنے کے حکم سے متعلق علما وفقہا نے اپنی جو آرا پیش کی ہیں ،اُن کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی آپ کے چند ارشادات ہیں، جن سب میں آپ نے ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھوں کو پست کرنے اور اِس طرح مجوسیوں،مشرکوں اور اہل کتاب سے اظہارِ مخالفت کی ہدایت فرمائی ہے۔بعض کتب حدیث میں مذکور یہ روایات آپ سے اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں۔ اِس مضمون کی تمام احادیث کو جمع کرکے اگرعلمِ روایت کے معیار پر پرکھا جائے تو نتیجتا ً تین مرفوع احادیث سامنے آتی ہیں،جن کا استناد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا اور جو محدثین کی اصطلاح میں "صحیح" یا "حسن " کی شرائط پر پورا اُترتی اور مقبول قرار پاتی ہیں۔اور یہ واقعہ ہے کہ اِن کی روایت بھی تین ہی صحابہ رضی اللہ کی نسبت سے ہوئی ہے۔اِن روایتوں کی تخریج وتحقیق حسبِ ذیل ہے:
ا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث اور اُس کے متون
ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ متفرق کتب میں موجود اِس روایت کے تمام طرق کو جمع کیا جائے تو اِس کے مندرجہ ذیل متون سامنے آتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مشرکین کی مخالفت کرو(بعض الفاظ کے مطابق:مجوسیوں کی مخالفت کرو)،ڈاڑھیاں بڑھاؤ(بعض متون میں بیان ہوا ہے:ڈاڑھیوں کو چھوڑ دو)اور مونچھوں کو پست کرو(بعض طرق کے الفاظ ہیں : مونچھوں کو بالکل پست رکھو۔مونچھوں کو ختم کردو) (6)۔
متنوع الفاظ ِ حدیث پر مشتمل یہ تمام طرق "صحیح" یا "حسن الاسانید" ہیں۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک طریق میں روایت ہوا ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجوسیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا : یہ لوگ مونچھوں کو چھوڑ دیتے اور ڈاڑھیوں کو منڈاتے ہیں ،چنانچہ تم اِن کی مخالفت کرو (7)۔
عصر حاضر کے عالم ومحدث شیخ شعیب الارناؤوط نے ابن حبان پر اپنی تحقیق میں اور شیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع نے اپنی کتاب"اللحیۃ" میں اِس روایت کو "حسن"(8)،جبکہ امام حدیث شیخ ناصر الدین البانی نے اِسے"صحیح" قرار دیا ہے(9)۔
ب۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اور اُس کے الفاظ
دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بیان ہوئی ہے۔ جس کے متون کی تفصیل ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مونچھوں کو تراشو(بعض الفاظ کے مطابق:کم کرو۔ بالکل باریک کردو )۔بعض متون میں الفاظ اس طرح آئے ہیں کہ" مونچھیں کچھ تراش کر رکھو"۔اور ڈاڑھیوں کو چھوڑدو۔اور اِس طرح مجوسیوں کی مخالفت کرو (10)۔
شیخ شعیب الار ناؤوط مسند احمد پر اپنی تحقیق میں فرماتے ہیں کہ اِس روایت کی سند امام مسلم کی شرائط کے مطابق"صحیح" ہے(11)۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ایک طریق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بعض اضافوں کے ساتھ یوں بیان ہوا ہے :
تم اپنی ڈاڑھیوں کو چھوڑ دو اور مونچھوں کو کم کرلو(بعض متون کے مطابق : کچھ کم کرلو)اور بڑھاپے کی وجہ سے پیدا ہونے اپنے بالوں کی سفیدی کو رنگ دیا کرو۔یہود ونصاری کی مشابہت اختیار نہ کرو(12)۔
شیخ شعیب الار ناؤوط فرماتے ہیں کہ یہ روایت "صحیح" ہے ، لیکن یہاں اِس کی سند "حسن" کے درجے کی ہے (13)۔
مصری عالم ومحقق شیخ احمد شاکر نے مسند احمد پر اپنی تحقیق میں اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے(14)۔
بعض متون میں بیان ہوا ہے کہ مشرکین اپنی مونچھوں کو چھوڑ دیتے اور اپنی ڈاڑھیوں کو بالکل پست کردیتے ہیں۔لہذا تم اپنی ڈاڑھیوں کو بڑھالو اور مونچھوں کو نہایت پست کردو۔ اِس طرح اہل شرک کی مخالفت کرو (15)۔
شیخ ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الجُدیع نے اِس روایت کو "حسن" قرار دیا ہے(16)۔
حضرت ابو ہریرہ ہی سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
مجوسی اپنی مونچھوں کو چھوڑدیا کرتے اور ڈاڑھیوں کو بالکل پست کردیا کرتے تھے۔چنانچہ تم اپنی مونچھوں کو تراش کر رکھو اور ڈاڑھیوں کو بڑھالو۔ اور اِس طرح اُن کی مخالفت کرو(17)۔
شیخ ابو محمد الجُدیع کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث بھی "حسن" کا درجہ رکھتی ہے(18)۔
ج۔ ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کی حدیث اور اُس کے متون
تیسری مرفوع حدیث حضرت ابو اُمامہ الباہلی رضی اللہ عنہ نے اِس طرح روایت کی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر انصار کے بعض ایسے بزرگوں کی مجلس میں تشریف لے گئے جن کی ڈاڑھیاں سفید تھیں۔آپ نے دیکھا تو فرمایا :تم اپنی ڈاڑھیوں کو سرخ یا زرد رنگ سے رنگ لیا کرو۔ اور اِس طرح اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں : اُس موقع پر ہم نے آپ سے عرض کیا :اے اللہ کے رسول !اہلِ کتاب پاجامہ پہنتے ہیں؛وہ تہ بند نہیں باندھتے۔اِس پر آپ نے فرمایا:تم پاجامہ بھی پہنو اور تہمد بھی باندھو۔اِس طرح اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ اہل کتاب چمڑے کے موزے استعمال کرتے ہیں؛جوتے نہیں پہنتے۔اِس پر آپ نے فرمایا :تم موزے بھی پہنا کرو اور جوتے بھی استعمال کرو۔اِن اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
پھر فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! اہل کتاب اپنی ڈاڑھیوں کو تراشتے اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا :تم اپنی مونچھوں کو تراش کر رکھو اور ڈاڑھیاں بڑھالو۔ اور اِن اہل کتاب کی مخالفت کرو(19)۔
معاصر عالم ومحقق شیخ شعیب الارناؤوط نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے(20)۔
جبکہ امام حدیث شیخ ناصر الدین البانی اورشیخ ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الجدیع نے اِسے "حسن" قرار دیا ہے (21)۔
محققانہ تجزیے کے مطابق مذکورہ بالا تین صحابہ کی احادیث کے سوا اڈاڑھی کے موضوع پر متعدد صحابہ سے مروی بقیہ تمام روایتیں ضعیف یا نہایت ضعیف روایتوں کا مجموعہ ہیں۔اُن میں سے کوئی ایک روایت بھی تحقیق سند کے معیارات پر پورا نہیں اُترتی۔
علما کی آرا ------سبب ِاختلاف
یہاں آخر میں ایک سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ موضوع ِبحث مسئلے میں علما ومحققین کے مذکورہ بالا آرا میں پائے جانے والے اختلاف کا اصل سبب کیا ہے ؟
اِس کی تفصیل یہ ہے کہ جو فقہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی آخبار آحاد کو آسمانی شریعت کا ماخذ قرار دیتے ہوئے اُن میں روایت ہونے والے ڈاڑھی جیسےمستقل بالذات نوعیت کے احکام کو بھی شریعتِ اسلامی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اور پھر اُن میں منقول حکم کے صیغوں کو" وجوب" کے معنی میں لیتے ہیں؛اُن علما نے اِس مسئلے میں نتیجتاً "واجب" کا حکم لگایا ہے۔
جن اصحابِ علم نے موضوعِ بحث مسئلے میں مروی ارشاداتِ نبوی پرمجموعی تناظر میں تدبر کیا اور سیاقِ احکام پر بھی نظر رکھی؛اُنہوں حکم کے صیغوں کو قرائن کی بنیاد پر" استحباب" اور "سُنیت" پر محمول کیا ہے۔
اور جن محققین نے اِس پر مزید یہ کیا کہ روایتوں کے متون ہی سے حکم کی علت کو متعین کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے موقع ومحل کو بھی پیش نظر رکھا،اُنہوں نے "استحباب" کا قول اختیار کرتے ہوئے حکم کو علت پر مبنی اور موقع ومحل ہی کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔
جن علما نے مرد کے لیے ڈاڑھی رکھنے کے عمل کو اپنی نوعیت کے لحاظ سے منجملہ اُمورِ عادات اور عرفِ معاشرہ قرار دیا؛انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو دائرۂ شریعت سے باہر عرف کی مستحن عادات ہی کی ترغیب پر محمول کیا۔
جن محقیقن نے دین میں مستقل بالذات احکام کا ماخذ ومصدر محض قرآن وسنت ہی کو مانا اور مرد کے لیے ڈاڑھی کو اپنی نوعیت کے لحاظ سے سر کے بالوں کی مانند ایک فطری چیز قرار دیا؛اُنہوں نے بھی اِسے آسمانی شریعت کے احکام میں شمار نہیں کیا۔اُنہوں نے احادیثِ باب کو جمع کر کے اُن پر اِسی پہلو سے تدبر کیا تو اِس نتیجے پر پہنچے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اصلاً ڈاڑھی کے حوالے سے کوئی مستقل حکم بیان ہی نہیں کر رہے ہیں۔بلکہ اُن میں تو مسلمانوں کو ڈاڑھی اور مونچھ،دونوں کے معاملے میں اُس متکبرانہ وضع کو اختیار کرنے سے روکا گیا ہے جو اُس زمانے کے بعض غیر مسلم گروہوں میں موجود تھی۔هذا ما عندي والعلم عند الله

حواشی
. 1اللحیۃ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقییۃ،الشیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع،ص:243۔مجموع الفتاوی،الشیخ عبد العزیزبن باز،3/372۔373۔فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،5/140،فتوی رقم :2139۔
. 2اللحیۃ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقییۃ،الشیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع،ص:242۔الحلال والحرام فی الاسلام،الشیخ القرضاوی، 85۔87۔
. 3فتاوی الشیخ محمود شلتوت،227۔229۔ الفتاوی الاسلامیۃ،الامام جاد الحق علی جاد الحق،2/21۔23۔
. 4اللحیۃ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقییۃ،الشیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع۔
. 5میزان،جاوید احمد غامدی،ص:234۔235۔محاضرات "الاسلام کورس"۔
. 6مسند احمد،رقم: 4654۔ ابن ابی شیبہ،رقم :25492۔ صحیح بخاری، رقم: 5553،5554۔ صحیح مسلم،رقم:259۔ سنن ترمذی،رقم:2763۔ نسائی،رقم: 5226۔ مستخرج ابی عوانہ،رقم : 353۔
. 7صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان،رقم:5476۔ السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم: 679۔
. 8صحیح ابن حبان بتحقیق الشیخ شعیب الارناؤوط،12/289،رقم:5476۔اللحیۃ۔الشیخ عبد اللہ بن یوسف الجدیع،ص: 53۔
. 9سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ، الالبانی ، رقم : 2834۔
. 10مسند احمد ، رقم : 8785۔ مسلم ، رقم : 260۔
. 11مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ شعیب والشیخ عادل مرشد وآخرون،14/390۔
. 12مسند احمد ، رقم : 8672۔
. 13مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ شعیب والشیخ عادل مرشد وآخرون،14/305۔306۔
. 14مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ احمد شاکر ، 16/274۔
. 15کشف الاستار عن زوائد البزار،الھیثمی،رقم:2971۔
. 16اللحیہ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقہیۃ،ص:56۔
. 17التاریخ الکبیر،الامام البخاری ،رقم:419۔
. 18اللحیہ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقہیۃ،ص:57۔
. 19مسند احمد،رقم:22283۔
. 20مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ شعیب والشیخ عادل مرشد وآخرون،36/613۔ 614۔
. 21جلباب المرأۃ المسلمۃ ، ص :185۔ اللحیہ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقہیۃ،ص:60۔
کتابیات
. 1التاريخ الكبير،محمد بن إسماعيل بن إبراهيم أبو عبدالله البخاري الجعفي،دار الفكر۔
. 2الجامع الصحيح سنن الترمذي، محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي،دار إحياء التراث العربي بيروت،(الأحاديث مذيلة بأحكام الألباني عليها)۔
. 3الجامع الصحيح المختصر،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي،دار ابن كثير ، اليمامة بيروت،الطبعة الثالثة ، 1407 ھ 1987 م۔
. 4جلباب المرأة المسلمة في الكتاب والسنة،محمد ناصر الدين الألباني - المكتبة الإسلامية - عمان - الطبعة: الأولى - سنة الطبع: 1413 ھ ـ
. 5الحلال والحرام فی الاسلام،الشیخ الدکتور یوسف القرضاوی،مکتبۃ وھبۃ،القاہرۃالطبعۃ الثانیۃ والعشرون،1418 ھ۔ 1997 م۔
. 6سنن البيهقي الكبرى، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر البيهقي، مكتبة دار الباز - مكة المكرمة ، 1414 1994۔
. 7صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان،محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي،مؤسسة الرسالة بيروت،الطبعة الثانية ، 1414 ھ 1993م،تحقيق : الشیخ شعيب الأرنؤوط ،(الأحاديث مذيلة بأحكام شعيب الأرنؤوط عليها)
. 8صحيح مسلم، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري،دار إحياء التراث العربي بيروت۔
. 9الفتاوی (دراسۃ لمشکلات المسلم المعاصرفی حیاتہ الیومیۃ والعامۃ)،الامام لاکبر الشیخ محمو شلتوت،دار الشروق،القاہرۃ،الطبعۃ الثامنۃ عشرۃ،1421 ھ۔2001 م۔
. 10الفتاوی الاسلامیۃ،فضیلۃ الامام الاکبر شیخ الزھرجاد الحق علی جاد الحق،دار الفاروق للنشر والتوزیع،القاہرۃ،الطبعۃ الاولی:2005 م۔
. 11فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء، أحمد بن عبد الرزاق الدويش، الرئاسة العامة للبحوث العلمية والإفتاء۔
. 12کشف الاستار عن زوائد البزار،نور الدین الھیثمی،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت،1979 م۔ 1985م۔
. 13اللحیۃ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقہیۃ۔ شیخ ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الجُدیع۔ مؤسسۃ الریان للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت،لبنان، الطبعۃ الثالثۃ : 1428ھ۔2007م۔
. 14المجتبى من السنن، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن النسائي، مكتب المطبوعات الإسلامية حلب،الطبعة الثانية ، 1406 ھ 1986 م،(الأحاديث مذيلة بأحكام الشیخ الألباني عليها)۔
. 15مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز رحمه الله،(المتوفى: 1420هـ)مصدر الكتاب:موقع الرئاسة العامة للبحوث العلمية والإفتاء،
http://www.alifta.com۔
. 16مستخرج أبي عوانة ،أبو عوانة يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم بن يزيد الإسفراييني (316هـ). دار المعرفة - بيروت، الطبعة الأولى، 1419هـ- 1998م.
. 17مسند الإمام أحمد بن حنبل، أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني،مؤسسة قرطبة القاهرة،(الأحاديث مذيلة بأحكام الشیخ شعيب الأرنؤوط عليها )۔
. 18مسند الإمام أحمد بن حنبل، أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني،الشیخ شعيبالأرنؤوط - عادل مرشد،وآخرون،مؤسسة الرسالة، الطبعة : الأولى ، 1421 هـ - 2001 م۔
. 19المسند، أحمد بن محمد بن حنبل - المحقق: أحمد شاكر، دار الجيل -
. 20المصنف في الأحاديث والآثار،أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الكوفي، مكتبة الرشد الرياض الطبعة الأولى ، 1409 ھ۔
. 21میزان۔ جاوید احمد غامدی، ناشر: المورد ، ادارۂ علم وتحقیق لاہور ، طبع پنجم: فروری 2010 ء۔
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD="width: 45"]
:جواب
[/TD]
[TD="width: 45"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]

beard.jpg

 

_pakistan

Minister (2k+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا &#1

Thanks for sharing.
 

zsheikh

MPA (400+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا &#1

Daarhi rakhna agar sunnat hai to daarhi ka khayal rakhna (matlab dekhnay mein bhali lagay) yeh phir farz hojat hai mein ne kai log dekha hai jo daarhi ka khayal nahi rakhtay. jab khana khatay hain to darhi per saara khana laga howa hota hai. jab ke kitaabon se pata chalta Hazoor pbuh darhi mubarak ka khaas khayal rakhtay thay isi tarah mukhtlif documentries mein bhi arabon ki daarhi dekhnay mein achi lagti hai bajai yahan jis tarah log darhi rakhtay hain.

Mera maqsad mazaaq udana nahi balkay yah kehna chata hoon kay darhi rakhna sunnat hai to daarhi ka khayal rakhna farz hai. takay koi daarhi ka mazaaq na uray. Mein khud bhi kosish kar raha hoon daarhi rakhnay ki. InsAllah.
 

cefspan

Minister (2k+ posts)

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا &#1

Don't be foolish understand the bigger picture or framework of islam before quoting anything from anyone.

Things only make sense when they are looked at in their own settings. Take a building like a house, why it has doors or windows or roof or walls or floor etc etc only makes sense if you look at the whole building and its purpose. Only then other things will become clearer for their purpose as its parts.

Islam is not a mazhab but a deen ie a social structure. People need peace not God. God is creator, a creator who created things and set out for them primary and secondary tasks and the main task he set out for people is to attain peace by means of social structuring and by means of putting in place a good social system that works to fulfil its purpose if people practiced it properly. Anything else mullahs own diversion and we should be sensible enough to see why they did it. It is because the whole thing is explained in the quran itself.
 

islamabadi6

Councller (250+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا

تحریر: عامر گزدر


[TABLE="width: 1024"]
[TR]
[TD]
ڈاڑھی کے مسئلے میں ہمارے مذہبی حلقوں میں بالعموم یہ نقطۂ نظر پایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد کے لیے ڈاڑھی رکھنا "واجب"یعنیدینی طور پر لازم ہے۔پھر یہ دعویٰ بھی ہمارے معاشرے میں عمومی شہرت رکھتا ہے کہ ڈاڑھی کے بارے میں یہی رائے نہ صرف یہ کہ ائمۂ اربعہ اور اُمت کے تمام فقہا کی ہے،بلکہ مذاہب اربعہ کے تمام علما کا اِس پر اجماع ہے۔یہ بتائیں کہ فقہ اسلامی کی رو سے علمی طور پر ڈاڑھی کے مسئلے میں یہ مقدمہ آیا درست ہے ؟ کیا واقعتاً اِس مسئلےمیں اُمت کا اتفاق ہے ؟ اگر ہے تو اِس کی دلیل کیا ہے ؟ اور اگر نہیں ہے تو یہ بتائیں کہ ڈاڑھی کے مسئلے میں علما ے سلف وخلف نے کیا آرا پیش کی ہیں ؟
[/TD]
[TD="width: 45"]

[/TD]
[/TR]
[/TABLE]

[TABLE="width: 1024"]
[TR]
[/TR]
[TR]
[TD]
دیکھیے ،فقہ ِاسلامی کی روشنی میں پہلی بات تو یہ جاننا چاہیے کہ اِس مسئلے میں ائمۂ اربعہ کے اتفاق کا دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے۔ علم کی دنیا میں اِس کی کوئی حقیقت ہے،نہ اِس کے اثبات کے لیےکوئی ماخذ ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔دوسرے یہ کہ مذاہب اربعہ کے علما وائمہ بھی اِس مئلے میں قطعاً متفق نہیں ہیں۔ اُن کے مابین بھی اِس معاملے میں بہت کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ڈاڑھی کے مسئلے میں سلف وخلف کے علما وائمہ کے مابین کئی پہلؤوں سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔تحقیق کی رو سے دیکھا جائے تو علماے اُمت کے مابین ڈاڑھی کی تعریف اور اِس کی حدودِ اربعہ کی تعیین میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ڈاڑھی رکھنے کے حکم میں بھی اختلاف ہے۔ ڈاڑھی کی تہذیب واصلاح اور اُس کی تراش خراش کے باب میں بھی فقہا کی آرا کئی پہلؤوں سے باہم مختلف ہیں۔یہاں تک کہ ڈاڑھی منڈانے کا کیا حکم ہے ؟؛اِس سوال کے جواب میں بھی اُمت کے اصحاب ِ علم باہم متفق نہیں ہیں۔
چنانچہ یہ جاننا چاہیے کہ اِس مسئلے میں اُمت میں کسی بھی پہلو سے اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ بلکہ یہ منجملہ مختَلف فیہ مسائل ہے۔
یہاں سائل کا اصل سوال چونکہ خاص "ڈاڑھی رکھنے کے حکم" کے بارے میں ہے تو اِس حوالے سے واضح رہے کہ راقم الحروف کی تحقیق واستقصا کے مطابق اُمت کے سلف وخلف کے علماومحققین کی پانچ مختلف آرا سامنے آتی ہیں،جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :
1۔ڈاڑھی رکھنا ہر مسلمان مرد پر واجب ہے۔
بعض فقہا کے نزدیک مسلمان مرد کے لیے ڈاڑھی رکھنا دین میں"واجب" یعنی لازم ہے۔اِس کا ترک کرنا قابل مواخذہ ہے۔ یہ رائے علماے احناف کی اور دوسری روایت کے مطابق بقیہ تینوں مذاہب کے فقہا کی ہے۔ علماے عصر میں سے یہی رائے شیخ عبد العزیزبن باز،شیخ عبد الرزاق عفیفی، اور بعض دیگر علما کی ہے (1)۔
2۔ڈاڑھی رکھنا مسنون ومستحب ہے۔
ایک رائے کے مطابق ڈاڑھی رکھنا دین میں ایک " مسنون ومستحب" عمل ہے۔یعنی یہ دین میں ایک پسندیدہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔مسلمان مرد پر ڈاڑھی رکھنا لازم ہے،نہ اِس کے ترک کرنے پر کوئی مواخذہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ نقطۂ نظر مالکی،شافعی اورحنبلی فقہا کا ہے۔ علماے معاصرین میں سے علامہ یوسف قرضاوی کی بھی یہی رائے ہے (2)۔
3۔ ڈاڑھی رکھنا منجملہ اُمورِ عرف وعادت ہے۔
ڈاڑھی کے معاملے میں تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مردوں کا ڈاڑھی رکھنا یا نہ رکھنا منجملہ قومی اور علاقائی عادات ہے۔یہ اُمورِ شریعت میں سے نہیں ہے کہ اِس میں فرضیت وحرمت کی بحث کی جائے۔ اِس معاملہ میں لوگوں کو اپنے عرف کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ رائے علماے مصر میں سے علامہ شیخ محمود شلتوت(سابق رئیس جامعہ الازھر)، اور امام جاد الحق علی جاد الحق(سابق رئیس جامعہ الازھر) اور بعض دیگر علماے عصر کی ہے۔
یہ اصحابِ علم اپنی رائے کی تفصیل اِس طرح کرتے ہیں کہ عرب اور دیگر قوموں کی قدیم تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاڑھی رکھنا اُن کے ہاں اچھی عادات میں شمار ہوا کرتا تھا۔اور پھر اکثر اُمتوں میں دین ،نسل اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود اُن کے علما وفلاسفہ میں بھی ڈاڑھی رکھنے کی یہ عادت اِسی طرح موجود رہی ہے۔وہ اِسے جمالِ شخصیت کا مظہر اور ذریعۂ وقار سمجھتے تھے۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی اُمت کو ایسی مستحسن عادات کو اپنانے کی ہدایت فرماتے جو عرف کے مطابق شخصیت کی خوبصورتی اور وقار کا ذریعہ ہوں۔ ڈاڑھی بڑھانے سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اِسی قبیل سے ہیں(3)۔
4۔ڈاڑھی رکھنے کا حکم مسلمانوں کو غیر مسلموں سے ممیز رکھنے کے لیے دیا گیا ہے۔
چوتھا نقطۂ نظر ایک عراقی عرب عالم ومحقق شیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع کا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مسلمان مردوں کے لیے ڈاڑھی رکھنے اور بڑھانے کی نبوی ہدایت ایک خاص علت پر مبنی ہے،جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بیان ہوئی ہے۔ اور وہ مسلمانوں کامحض معاشرے میں موجود غیرمسلموں سے ممیز ہونے کی غرض سے علامتی طور پر اظہارِ مخالفت ہے۔
شیخ الجُدیع مزید فرماتے ہیں کہ حکم کی اصل علت چونکہ یہی بیان ہوئی ہے ،چنانچہ کسی زمانے یا علاقے میں غیرمسلموں کا طریقہ اور امتیاز بڑی ڈاڑھی رکھنا ہوگا تو اُس صورت میں بھی مسلمانوں کو اپنا امتیاز قائم رکھنے کی غرض سے اُن کے بر عکس طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔
یہ البتہ ،واضح رہے کہ غیرمسلموں سے مظاہر میں مخالفت کا یہ حکم بھی زیادہ سے زیادہ"مستحب ومندوب" کے درجے کا ہے۔یہ مسلمان مردوں پر واجب نہیں ہے۔چنانچہ آدمی کی نیت ،جو کہ ایک داخلی چیز ہے؛اگر غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنے کی نہ ہوتو اِس حکم کو ترک کرنا بھی زیادہ سے زیادہ کراہت کے دائرے میں آئے گا۔کسی مستحب عمل کو ترک کردینا حرمت یا شریعت کی مخالفت کے زمرے میں قطعاٍ نہیں آتا۔
ڈاڑھی بڑھا نے کا حکم غیر مسلموں سے اظہارِ مخالفت کی علت پر مبنی ہے۔چنانچہ یہ علت جب تک موجود رہے گی ؛یہ حکم بھی باقی رہے گا۔ اور جب علت موجود نہ رہے تو حکم بھی معطل ہوجائے گا۔اور علت کے مفقود ہوجانے کی صورت میں ڈاڑھی رکھنے کے عمل کو حکم کے اعتبار سے اپنی اصل حیثیت پر رکھا جائے گا۔اور ڈاڑھی کا معاملہ اپنی اصل کے اعتبار سے چونکہ عاداتِ معاشرہ کے قبیل سے ہے۔اور عادات کے باب میں عرف کی بڑی اہمیت ہے۔عرف کا کوئی عمل اگر خلاف شرع نہ ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی یہی رہا ہے کہ وہ اُس کی موافقت کرتے تھے۔ چنانچہ ایسی صورت میں پھر ڈاڑھی کے معاملے میں معاشرے کے عرف ہی کی پیروی کی جائے گی۔ یعنی مسلمانوں کا عرف اگر کسی زمانے اور علاقے میں ڈاڑھی منڈاکر رکھنے کا ہو اور ڈاڑھی کو بڑھانا وہاں شذوذ میں شمار کیا جاتا اور باعث شہرت بن جاتا ہو تو ایسی صورت میں عرف کی پیروی کرنا ہی موافقِ سنت ہوگا۔کیونکہ اِس طرح کی صورت حال میں ڈاڑھی کو بڑھانا دین کی کسی مصلحت ومقصد کو پورا نہیں کرتا۔
اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ علتِ حکم کو پیش نظر رکھتے ہوئے ڈاڑھی بڑھانے کے اِس حکم کی تعمیل بھی اُسی زمانے اور معاشرے میں کی جائے گی جہاں مسلمانوں کو اقتدار وغلبہ حاصل ہو۔کیونکہ اِس کے بغیر غیر مسلموں سے اظہارِ مخالفت ممکن ہے،نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دورِ مغلوبیت میں اِس طرح کا کوئی حکم مسلمانوں کو کبھی دیا ہے(4)۔
5۔ ڈاڑھی مرد کی فطرت اور اُس کی مردانہ وجاہت کا مظہر ہے۔
اِس باب میں پانچواں اور آخری نقطۂ نظر یہ ہے کہ مرد کے لیے ڈاڑھی اُس کی خلقت کے اعتبار سے ایک فطری چیز اور اُس کی مردانہ وجاہت کا مظہر ہے۔ چنانچہ مرد،خواہ وہ کسی بھی زمانے،علاقے اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو؛وہ جب ڈاڑھی رکھتا ہے تو اپنی اِسی خلقی فطرت اور مردانہ وجاہت کی رعایت اور حیثیت سے رکھتا ہے؛آسمانی شریعتوں نے اِس سے کبھی بحث کی ہے،نہ قرآن سنت میں محصور اسلامی شریعت نے اِس معاملے میں کوئی قانون سازی کی ہے۔
اسلامی شریعت کے اُن تمام احکام کو جو عملی نوعیت کے ہیں؛اگرجمع کر کے دیکھا جائے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ اصلاً چار ہی قسم کے ہیں۔ایک وہ سنن جو عبادات کے قبیل سے ہیں۔دوسرے وہ احکام جو اخلاقیات کے تزکیے سے تعلق رکھتے ہیں۔تیسرے وہ اعمال جو تطہیر بدن سے متعلق ہیں۔اور چوتھے وہ ہدایات جو خور ونوش کی پاکیزگی کے لیے دی گئی ہیں۔ذرا تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو ڈاڑھی رکھنے اور بڑھانے کا حکم،احکامِ دین کی اِن چاروں نوعیتوں میں سے کسی ایک سے بھی متعلق نہیں ہوتا۔یعنی یہ عبادات کے قبیل کا کوئی عمل ہے،نہ تزکیہ اخلاق سے اِس کا کوئی تعلق ہے۔اِسی طرح یہ تطہیر بدن سے متعلق ہوتا ہے،نہ کھانے پینے کی پاکیزگی ہی سے اِس کا کوئی تعلق جوڑا جاسکتا ہے۔
اِس تفصیل سے ڈاڑھی رکھنے کے عمل کا اپنی نوعیت کے لحاظ سے بھی دائرۂ شریعت سے خارج ہونا بالبداہت واضح ہوجاتا ہے۔
یہاں اِس بات پر بھی نظر رہے کہ ڈاڑھی کا حکم اسلامی شریعت کے کسی بنیادی حکم کا تقاضا یا فرع نہیں ہے،بلکہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ ایک مستقل بالذات حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔اور اخبار آحاد دین میں اِس نوعیت کے کسی مستقل بالذات حکم کا،جس سے اصل مصادرِ شریعت یعنی قرآن وسنت بالکل خاموش ہوں؛ماخذ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی چند اخبار آحاد ہیں،جن کی بنا پر ڈاڑھی کا مسئلہ اُمت میں موضوع ِبحث بنا ہے۔اور ہر صاحبِ علم نے اِس مسئلے میں اپنی رائے کے حق میں مستدل کے طور پر بالعموم اُنہی روایات کو پیش کیا ہے۔
اُن احادیثِ باب کو جمع کر کے اُن کے موقع ومحل کی رعایت کرتے ہوئے اگر دقّتِ نظر سے اُن پر تدبر کیا جائے تو یہ بات بھی خود اُن روایتوں ہی سے واضح ہوجاتی ہے کہ مثبت طور پر کسی مستقل حکمِ شرعی کی حیثیت سے ڈاڑھی رکھنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن ارشادات میں بھی سرے سے بیان ہی نہیں ہوا ہے۔بلکہ اُن میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی اور مونچھ ،دونوں کے معاملے میں بعض مجوسیوں،مشرکوں اور اہل کتاب میں پائی جانے والی اُس متکبرانہ وضع کو ترک کرنے کی نصیحت مسلمانوں کو فرمائی ہے جس میں لوگ چھوٹی ڈاڑھی اور بڑی بڑی مونچھیں رکھتےتھے۔ غرور وتکبر پر دلالت کرنے والی یہ وضع ، ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کے اخلاقی تزکیے کو مجروح کردیتی ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا تم ڈاڑھی بڑھالو،لیکن مونچھیں ہر حال میں چھوٹی رکھو۔آپ کی اِس نصیحت کا صحیح محل یہی تھا۔ مگر لوگوں نے اِسے ڈاڑھی بڑھانے کا مستقل حکم سمجھااور اِس طرح ایک ایسی چیز دین میں داخل کردی جو اُس سے کسی طرح متعلق نہیں ہوسکتی۔
احادیثِ باب سے مسلمان مرد کے لیے ڈاڑھی سےمتعلق کسی مستقل دینی حکم کو اخذ کرنے کی گنجایش بھی اُس وقت پیدا ہوسکتی تھی، جب روایتوں میں اِس سے متصل مونچھوں کو پست رکھنے اور غیر مسلموں سے اظہار مخالفت کا کوئی تذکرہ موجود نہ ہوتا۔
اِس سے صاف واضح ہے کہ محض اخبارِ آحاد سے مستقل نوعیت کے احکامِ شریعت اخذ کرنے والے اصحاب کے لیے بھی اگر تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو روایاتِ باب میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ یہ استاذِ محترم جناب جاوید احمد صاحب غامدی کا نقطۂ نظر ہے (5)۔
حکم کا ماخذ اور احادیثِ باب کی تخریج وتحقیق
مسلمان مرد کے لیے ڈاڑھی رکھنے کے حکم سے متعلق علما وفقہا نے اپنی جو آرا پیش کی ہیں ،اُن کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی آپ کے چند ارشادات ہیں، جن سب میں آپ نے ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھوں کو پست کرنے اور اِس طرح مجوسیوں،مشرکوں اور اہل کتاب سے اظہارِ مخالفت کی ہدایت فرمائی ہے۔بعض کتب حدیث میں مذکور یہ روایات آپ سے اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں۔ اِس مضمون کی تمام احادیث کو جمع کرکے اگرعلمِ روایت کے معیار پر پرکھا جائے تو نتیجتا ً تین مرفوع احادیث سامنے آتی ہیں،جن کا استناد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا اور جو محدثین کی اصطلاح میں "صحیح" یا "حسن " کی شرائط پر پورا اُترتی اور مقبول قرار پاتی ہیں۔اور یہ واقعہ ہے کہ اِن کی روایت بھی تین ہی صحابہ رضی اللہ کی نسبت سے ہوئی ہے۔اِن روایتوں کی تخریج وتحقیق حسبِ ذیل ہے:
ا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث اور اُس کے متون
ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ متفرق کتب میں موجود اِس روایت کے تمام طرق کو جمع کیا جائے تو اِس کے مندرجہ ذیل متون سامنے آتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :مشرکین کی مخالفت کرو(بعض الفاظ کے مطابق:مجوسیوں کی مخالفت کرو)،ڈاڑھیاں بڑھاؤ(بعض متون میں بیان ہوا ہے:ڈاڑھیوں کو چھوڑ دو)اور مونچھوں کو پست کرو(بعض طرق کے الفاظ ہیں : مونچھوں کو بالکل پست رکھو۔مونچھوں کو ختم کردو) (6)۔
متنوع الفاظ ِ حدیث پر مشتمل یہ تمام طرق "صحیح" یا "حسن الاسانید" ہیں۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک طریق میں روایت ہوا ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجوسیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا : یہ لوگ مونچھوں کو چھوڑ دیتے اور ڈاڑھیوں کو منڈاتے ہیں ،چنانچہ تم اِن کی مخالفت کرو (7)۔
عصر حاضر کے عالم ومحدث شیخ شعیب الارناؤوط نے ابن حبان پر اپنی تحقیق میں اور شیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع نے اپنی کتاب"اللحیۃ" میں اِس روایت کو "حسن"(8)،جبکہ امام حدیث شیخ ناصر الدین البانی نے اِسے"صحیح" قرار دیا ہے(9)۔
ب۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اور اُس کے الفاظ
دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بیان ہوئی ہے۔ جس کے متون کی تفصیل ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مونچھوں کو تراشو(بعض الفاظ کے مطابق:کم کرو۔ بالکل باریک کردو )۔بعض متون میں الفاظ اس طرح آئے ہیں کہ" مونچھیں کچھ تراش کر رکھو"۔اور ڈاڑھیوں کو چھوڑدو۔اور اِس طرح مجوسیوں کی مخالفت کرو (10)۔
شیخ شعیب الار ناؤوط مسند احمد پر اپنی تحقیق میں فرماتے ہیں کہ اِس روایت کی سند امام مسلم کی شرائط کے مطابق"صحیح" ہے(11)۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ایک طریق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بعض اضافوں کے ساتھ یوں بیان ہوا ہے :
تم اپنی ڈاڑھیوں کو چھوڑ دو اور مونچھوں کو کم کرلو(بعض متون کے مطابق : کچھ کم کرلو)اور بڑھاپے کی وجہ سے پیدا ہونے اپنے بالوں کی سفیدی کو رنگ دیا کرو۔یہود ونصاری کی مشابہت اختیار نہ کرو(12)۔
شیخ شعیب الار ناؤوط فرماتے ہیں کہ یہ روایت "صحیح" ہے ، لیکن یہاں اِس کی سند "حسن" کے درجے کی ہے (13)۔
مصری عالم ومحقق شیخ احمد شاکر نے مسند احمد پر اپنی تحقیق میں اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے(14)۔
بعض متون میں بیان ہوا ہے کہ مشرکین اپنی مونچھوں کو چھوڑ دیتے اور اپنی ڈاڑھیوں کو بالکل پست کردیتے ہیں۔لہذا تم اپنی ڈاڑھیوں کو بڑھالو اور مونچھوں کو نہایت پست کردو۔ اِس طرح اہل شرک کی مخالفت کرو (15)۔
شیخ ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الجُدیع نے اِس روایت کو "حسن" قرار دیا ہے(16)۔
حضرت ابو ہریرہ ہی سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
مجوسی اپنی مونچھوں کو چھوڑدیا کرتے اور ڈاڑھیوں کو بالکل پست کردیا کرتے تھے۔چنانچہ تم اپنی مونچھوں کو تراش کر رکھو اور ڈاڑھیوں کو بڑھالو۔ اور اِس طرح اُن کی مخالفت کرو(17)۔
شیخ ابو محمد الجُدیع کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث بھی "حسن" کا درجہ رکھتی ہے(18)۔
ج۔ ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کی حدیث اور اُس کے متون
تیسری مرفوع حدیث حضرت ابو اُمامہ الباہلی رضی اللہ عنہ نے اِس طرح روایت کی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر انصار کے بعض ایسے بزرگوں کی مجلس میں تشریف لے گئے جن کی ڈاڑھیاں سفید تھیں۔آپ نے دیکھا تو فرمایا :تم اپنی ڈاڑھیوں کو سرخ یا زرد رنگ سے رنگ لیا کرو۔ اور اِس طرح اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں : اُس موقع پر ہم نے آپ سے عرض کیا :اے اللہ کے رسول !اہلِ کتاب پاجامہ پہنتے ہیں؛وہ تہ بند نہیں باندھتے۔اِس پر آپ نے فرمایا:تم پاجامہ بھی پہنو اور تہمد بھی باندھو۔اِس طرح اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ اہل کتاب چمڑے کے موزے استعمال کرتے ہیں؛جوتے نہیں پہنتے۔اِس پر آپ نے فرمایا :تم موزے بھی پہنا کرو اور جوتے بھی استعمال کرو۔اِن اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
پھر فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! اہل کتاب اپنی ڈاڑھیوں کو تراشتے اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا :تم اپنی مونچھوں کو تراش کر رکھو اور ڈاڑھیاں بڑھالو۔ اور اِن اہل کتاب کی مخالفت کرو(19)۔
معاصر عالم ومحقق شیخ شعیب الارناؤوط نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے(20)۔
جبکہ امام حدیث شیخ ناصر الدین البانی اورشیخ ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الجدیع نے اِسے "حسن" قرار دیا ہے (21)۔
محققانہ تجزیے کے مطابق مذکورہ بالا تین صحابہ کی احادیث کے سوا اڈاڑھی کے موضوع پر متعدد صحابہ سے مروی بقیہ تمام روایتیں ضعیف یا نہایت ضعیف روایتوں کا مجموعہ ہیں۔اُن میں سے کوئی ایک روایت بھی تحقیق سند کے معیارات پر پورا نہیں اُترتی۔
علما کی آرا ------سبب ِاختلاف
یہاں آخر میں ایک سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ موضوع ِبحث مسئلے میں علما ومحققین کے مذکورہ بالا آرا میں پائے جانے والے اختلاف کا اصل سبب کیا ہے ؟
اِس کی تفصیل یہ ہے کہ جو فقہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی آخبار آحاد کو آسمانی شریعت کا ماخذ قرار دیتے ہوئے اُن میں روایت ہونے والے ڈاڑھی جیسےمستقل بالذات نوعیت کے احکام کو بھی شریعتِ اسلامی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اور پھر اُن میں منقول حکم کے صیغوں کو" وجوب" کے معنی میں لیتے ہیں؛اُن علما نے اِس مسئلے میں نتیجتاً "واجب" کا حکم لگایا ہے۔
جن اصحابِ علم نے موضوعِ بحث مسئلے میں مروی ارشاداتِ نبوی پرمجموعی تناظر میں تدبر کیا اور سیاقِ احکام پر بھی نظر رکھی؛اُنہوں حکم کے صیغوں کو قرائن کی بنیاد پر" استحباب" اور "سُنیت" پر محمول کیا ہے۔
اور جن محققین نے اِس پر مزید یہ کیا کہ روایتوں کے متون ہی سے حکم کی علت کو متعین کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے موقع ومحل کو بھی پیش نظر رکھا،اُنہوں نے "استحباب" کا قول اختیار کرتے ہوئے حکم کو علت پر مبنی اور موقع ومحل ہی کے ساتھ خاص قرار دیا ہے۔
جن علما نے مرد کے لیے ڈاڑھی رکھنے کے عمل کو اپنی نوعیت کے لحاظ سے منجملہ اُمورِ عادات اور عرفِ معاشرہ قرار دیا؛انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو دائرۂ شریعت سے باہر عرف کی مستحن عادات ہی کی ترغیب پر محمول کیا۔
جن محقیقن نے دین میں مستقل بالذات احکام کا ماخذ ومصدر محض قرآن وسنت ہی کو مانا اور مرد کے لیے ڈاڑھی کو اپنی نوعیت کے لحاظ سے سر کے بالوں کی مانند ایک فطری چیز قرار دیا؛اُنہوں نے بھی اِسے آسمانی شریعت کے احکام میں شمار نہیں کیا۔اُنہوں نے احادیثِ باب کو جمع کر کے اُن پر اِسی پہلو سے تدبر کیا تو اِس نتیجے پر پہنچے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اصلاً ڈاڑھی کے حوالے سے کوئی مستقل حکم بیان ہی نہیں کر رہے ہیں۔بلکہ اُن میں تو مسلمانوں کو ڈاڑھی اور مونچھ،دونوں کے معاملے میں اُس متکبرانہ وضع کو اختیار کرنے سے روکا گیا ہے جو اُس زمانے کے بعض غیر مسلم گروہوں میں موجود تھی۔هذا ما عندي والعلم عند الله

حواشی
. 1اللحیۃ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقییۃ،الشیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع،ص:243۔مجموع الفتاوی،الشیخ عبد العزیزبن باز،3/372۔373۔فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،5/140،فتوی رقم :2139۔
. 2اللحیۃ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقییۃ،الشیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع،ص:242۔الحلال والحرام فی الاسلام،الشیخ القرضاوی، 85۔87۔
. 3فتاوی الشیخ محمود شلتوت،227۔229۔ الفتاوی الاسلامیۃ،الامام جاد الحق علی جاد الحق،2/21۔23۔
. 4اللحیۃ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقییۃ،الشیخ عبد اللہ بن یوسف الجُدیع۔
. 5میزان،جاوید احمد غامدی،ص:234۔235۔محاضرات "الاسلام کورس"۔
. 6مسند احمد،رقم: 4654۔ ابن ابی شیبہ،رقم :25492۔ صحیح بخاری، رقم: 5553،5554۔ صحیح مسلم،رقم:259۔ سنن ترمذی،رقم:2763۔ نسائی،رقم: 5226۔ مستخرج ابی عوانہ،رقم : 353۔
. 7صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان،رقم:5476۔ السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم: 679۔
. 8صحیح ابن حبان بتحقیق الشیخ شعیب الارناؤوط،12/289،رقم:5476۔اللحیۃ۔الشیخ عبد اللہ بن یوسف الجدیع،ص: 53۔
. 9سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ، الالبانی ، رقم : 2834۔
. 10مسند احمد ، رقم : 8785۔ مسلم ، رقم : 260۔
. 11مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ شعیب والشیخ عادل مرشد وآخرون،14/390۔
. 12مسند احمد ، رقم : 8672۔
. 13مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ شعیب والشیخ عادل مرشد وآخرون،14/305۔306۔
. 14مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ احمد شاکر ، 16/274۔
. 15کشف الاستار عن زوائد البزار،الھیثمی،رقم:2971۔
. 16اللحیہ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقہیۃ،ص:56۔
. 17التاریخ الکبیر،الامام البخاری ،رقم:419۔
. 18اللحیہ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقہیۃ،ص:57۔
. 19مسند احمد،رقم:22283۔
. 20مسند الامام احمد بتحقیق الشیخ شعیب والشیخ عادل مرشد وآخرون،36/613۔ 614۔
. 21جلباب المرأۃ المسلمۃ ، ص :185۔ اللحیہ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقہیۃ،ص:60۔
کتابیات
. 1التاريخ الكبير،محمد بن إسماعيل بن إبراهيم أبو عبدالله البخاري الجعفي،دار الفكر۔
. 2الجامع الصحيح سنن الترمذي، محمد بن عيسى أبو عيسى الترمذي السلمي،دار إحياء التراث العربي بيروت،(الأحاديث مذيلة بأحكام الألباني عليها)۔
. 3الجامع الصحيح المختصر،محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي،دار ابن كثير ، اليمامة بيروت،الطبعة الثالثة ، 1407 ھ 1987 م۔
. 4جلباب المرأة المسلمة في الكتاب والسنة،محمد ناصر الدين الألباني - المكتبة الإسلامية - عمان - الطبعة: الأولى - سنة الطبع: 1413 ھ ـ
. 5الحلال والحرام فی الاسلام،الشیخ الدکتور یوسف القرضاوی،مکتبۃ وھبۃ،القاہرۃالطبعۃ الثانیۃ والعشرون،1418 ھ۔ 1997 م۔
. 6سنن البيهقي الكبرى، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر البيهقي، مكتبة دار الباز - مكة المكرمة ، 1414 1994۔
. 7صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان،محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم التميمي البستي،مؤسسة الرسالة بيروت،الطبعة الثانية ، 1414 ھ 1993م،تحقيق : الشیخ شعيب الأرنؤوط ،(الأحاديث مذيلة بأحكام شعيب الأرنؤوط عليها)
. 8صحيح مسلم، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري،دار إحياء التراث العربي بيروت۔
. 9الفتاوی (دراسۃ لمشکلات المسلم المعاصرفی حیاتہ الیومیۃ والعامۃ)،الامام لاکبر الشیخ محمو شلتوت،دار الشروق،القاہرۃ،الطبعۃ الثامنۃ عشرۃ،1421 ھ۔2001 م۔
. 10الفتاوی الاسلامیۃ،فضیلۃ الامام الاکبر شیخ الزھرجاد الحق علی جاد الحق،دار الفاروق للنشر والتوزیع،القاہرۃ،الطبعۃ الاولی:2005 م۔
. 11فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء، أحمد بن عبد الرزاق الدويش، الرئاسة العامة للبحوث العلمية والإفتاء۔
. 12کشف الاستار عن زوائد البزار،نور الدین الھیثمی،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت،1979 م۔ 1985م۔
. 13اللحیۃ۔ دراسۃ حدیثیۃ فقہیۃ۔ شیخ ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الجُدیع۔ مؤسسۃ الریان للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت،لبنان، الطبعۃ الثالثۃ : 1428ھ۔2007م۔
. 14المجتبى من السنن، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن النسائي، مكتب المطبوعات الإسلامية حلب،الطبعة الثانية ، 1406 ھ 1986 م،(الأحاديث مذيلة بأحكام الشیخ الألباني عليها)۔
. 15مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز رحمه الله،(المتوفى: 1420هـ)مصدر الكتاب:موقع الرئاسة العامة للبحوث العلمية والإفتاء،
http://www.alifta.com۔
. 16مستخرج أبي عوانة ،أبو عوانة يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم بن يزيد الإسفراييني (316هـ). دار المعرفة - بيروت، الطبعة الأولى، 1419هـ- 1998م.
. 17مسند الإمام أحمد بن حنبل، أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني،مؤسسة قرطبة القاهرة،(الأحاديث مذيلة بأحكام الشیخ شعيب الأرنؤوط عليها )۔
. 18مسند الإمام أحمد بن حنبل، أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني،الشیخ شعيبالأرنؤوط - عادل مرشد،وآخرون،مؤسسة الرسالة، الطبعة : الأولى ، 1421 هـ - 2001 م۔
. 19المسند، أحمد بن محمد بن حنبل - المحقق: أحمد شاكر، دار الجيل -
. 20المصنف في الأحاديث والآثار،أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الكوفي، مكتبة الرشد الرياض الطبعة الأولى ، 1409 ھ۔
. 21میزان۔ جاوید احمد غامدی، ناشر: المورد ، ادارۂ علم وتحقیق لاہور ، طبع پنجم: فروری 2010 ء۔
[/TD]
[TD]

[/TD]
[TD="width: 45"]
:جواب
[/TD]
[TD="width: 45"]

[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]

[/TD]
[/TR]
[/TABLE]

beard.jpg


Instead of posting a thread about the importance of beard...it would have been more useful if you had made a thread mentioning the importance of Human rights in Islam...or the importance of Justice...or the importance of fair Play in Islam...or the importance of women's rights...or the importance of animals rights in Islam....or the importance of civic sense...but Im sure you won't do it...you know why? Becausee it requires thinking...and is too much work for you
 

meezan

Politcal Worker (100+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا

Instead of posting a thread about the importance of beard...it would have been more useful if you had made a thread mentioning the importance of Human rights in Islam...or the importance of Justice...or the importance of fair Play in Islam...or the importance of women's rights...or the importance of animals rights in Islam....or the importance of civic sense...but Im sure you won't do it...you know why? Becausee it requires thinking...and is too much work for you

I'm sure you dint even read the thread, by the why do you think we cannot think?
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا

Instead of posting a thread about the importance of beard...it would have been more useful if you had made a thread mentioning the importance of Human rights in Islam...or the importance of Justice...or the importance of fair Play in Islam...or the importance of women's rights...or the importance of animals rights in Islam....or the importance of civic sense...but Im sure you won't do it...you know why? Becausee it requires thinking...and is too much work for you


Yeah EIK Baghair Dharie Walay
SHOQEEN fatway BAAZ JAVED GHAMDI ko
PAAK POWITAr sabit karnay ki BHOONDHI kohshish hai
@mezaan ki.
Yaani Sahib e Shariat MUHAMMAD e MUSTAFA SAW
ki SHArEAT ki tashreeh GHAMDI Kar SAKTA hai
Muhammad SAW ki SUNNAT apnaey Ya na APNAEY.
 

w-a-n-t-e-d-

Minister (2k+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا

اسلام کے نام سے نیا اسلام متعارف کرانے والے
جناب جاوید احمد غامدی

حال ہی میں خوارج ،معتزلہ، باطنیہ، بہائیہ، بابیہ، قادیانیت اورپرویزیت کی طرح ایک نئے فتنے نے سر اٹھایا ہے جو اگرچہ تجدد پسندی کی کوکھ سے بر آمد ہوا ہے مگر اس نے اسلام کے متوازی ایک نئے مذہب کی شکل اختیار کر لی ہے، اس فتنے کا نام ہے غامدیت!ہے۔

اگر ہم تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو عباسی دور حکومت میں جب یونانی فلسفہ عربی زبان میں منتقل ہوا تو اس کے ردِعمل میں مسلمان دو گروہوں میں منقسم ہوگئے۔ ایک عظیم اکثریت نے تو اسے قرآن و سنت کی روشنی میں یکسر مسترد کرکے اسکے تار پود بکھیر دیے، جبکہ دوسرے گروہ نے مرعوب ہوکراس کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے۔ پہلا گروہ اہل سنت کے نام سے موسوم ہوا، اور دوسرے نے معتزلہ(راہ حق سے منحرف گروہ) کے نام سے شہرت پائی۔معتزلہ نے عقل کو اصل قرار دے کر شریعت کو اس کے تابع کردیا، پھر کیونکہ یونانی فلسفہ کے اعتقاد اسلامی عقائد و افکار سے بہت مختلف تھے اور ان کو فروغ دینے کیلئے ایک بہت بڑی رکاوٹ خود آپ ﷺ کی سنت تھی جو قرآن کی حتمی تعبیر کی شکل میں مسلمانوں میں رائج تھیں، چنانچہ انہوں نے انکار سنت کی راہ بھی اپنائی ۔ نتیجے کے طور پر یونانی فلسفے کی روشنی میں جدید اصولوں کی بنیاد پر معتزلہ کا ایک نیا اسلام وجود میں آیاجس کا کوئی تصور صحابہ اور سلف صالحین کے دور میں موجود نہیں تھا۔ خلافت عباسیہ میں حکومت کی سرپرستی کی بنا پر اس فکر کو کچھ عرصے پھلنے پھولنے کا بھی موقعہ ملا، لیکن آئمہ اہل سنت کی بے مثال قربانیوں، انتھک جدوجہداور سخت مخالفت کی بنا پر یہ فرقہ عوام الناس میں مقبولیت حاصل نہ کر سکا اوراعتزالی فکرکا دور اولین اپنے انجام کو پہنچا اورایک تاریخی واقعے کی حیثیت سے کتابوں کے صفحات تک محدود ہو کر رہ گیا۔

انیسوی صدی ہجری میں جب یورپ میں سائنس نے پاپا ئیت سے ایک طویل تصادم کے بعد علمی تفوق پایا تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر مرتب ہوئے۔سائنس کو انکار مذہب کے مترادف سمجھا جانے لگا اور الحاد و لادینیت کا دور دوراں ہوا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کی طرف سے دو طرح کا طرز عمل سامنے آیا۔ ایک طرف راسخ اور پختہ فکر علماء تھے جنہوں نے واضح کیا کہ مذہب کی بنیاد وحی ہے، اور دنیا کی کوئی بھی مسلمہ حقیقت مذہب کے خلاف نہیں ہوسکتی، اور مغرب میں اصل معرکہ مذہب و سائنس کے بجائے عیسائی پادریوں کے ذاتی نظریات اور سائنسی دریافتوں کے مابین ہے۔
اس کے بالمقابل دوسرے گروہ نے ایک اور راہ اپنائی وہ یہ کہ انہوں نے اپنی مرعوبانہ ذہنیت کی بنیاد پر مغربی نظریات کو مسلمہ حقائق کا درجہ دے کر وحی کو ان کے مطابق ڈھالنے کے لئے تاویلات شروع کردیں ۔ یہ فکر اعتزال کا دور ثانی تھاجس کی سرخیل سرزمین ہند میں سر سید احمد خان نے ڈالی۔مغربی افکار کی رو سے ہر وہ بات جوطبعی قوانین کے خلاف ہو اسے خلاف عقل قرار دے کر رد کردیا جاتا تھا، چنانچہ سرسیدنے قدرت (نیچریت) کی برتری کا نعرہ لگایا۔ لغت عرب کی مدد سے قرآن کی من گھڑت تاویلات پیش کیں۔ احادیث کو مشکوک قرار دیا اور امت کے اجتماعی معاملات طرز عمل کو آئمہ و مجتہدین کے ذاتی خیالات و اجتہادات کہہ کر نظر انداز کردیا۔ نتیجے کہ طور پر نیچرو لغت کی بنیاد پر وضع کردہ اصولوں کے تحت اسلام کی جوتعبیرو تشکیل نو مسلمانوں کے سامنے آئی وہ ان کے صدیوں کے اجتماعی تعامل سے یکسر بیگانہ تھی۔ سرسیدکے اس اعتزالی فکر کی دوسری کڑی جناب غلام احمد پرویزہیں جو اپنے امام سرسید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لغت پرستی اور انکارسنت کے حوالے سے کافی معروف ہوئے۔
ایک بار پھر جب11اکتوبر 2001کو عالمی استعماری اتحاد نے اسلام کے خلاف نئی صلیبی جنگ کا آغاز کیا توعام مسلمانوں کے کسی ردعمل سے بچنے کیلئے یہ کہا گیا کہ یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے ۔ یہ پروپیگنڈہ اس بڑے پیمانے پر پھیلا یا گیا کہ یہودیوں اورامریکہ سے نفرت کرنے والے عام مسلمان بھی اس پروپیگنڈہ میں Trap ہوگئے۔ دوسرے مرحلے میں یہ ضرورت پیش آئی کہ زرئع ابلاغ کی طاقت اور جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کی قوت سے راسخ العقید ہ اور پختہ مسلمانوں کو انتہا پسند Extremistاور دہشت گرد Terroristکا Titleدے کر ان کے خلاف بھر پور زہر اگلا جائے یہاں تک کہ یہ خود مسلمانوں میں تنہا ہوجائیں ۔ باقی بچ جانے والے عام مادہ پرست مسلمانوں کوکھلم کھلا کفر کی دعوت عام دینے کے بجائے انکے سامنے اسلام کا ایک ایسا نیا Version پیش کیا جائے ،جس کا نام تو اسلامی ہومگر درحقیقت وہ جدت اور دنیا داری سے مامورصحیح اسلام سے متوازی علیحدہ دین ہواور اس کے ساتھ ہی زرئع ابلاغ کی بھر پور طاقت سے اس نئے مذہب کی خوبصورت اور جاذب نظر انداز میں تشہیر کی جائے ۔ اہل مغرب کو اس کے لئے کوئی زیادہ محنت نہ کرنی پڑی کیونکہ مسلمانوں میں موجود بہت سے لوگ خود ہی آستین کا سانپ بن کر اسلام کے مقابلہ میں عالم کفر سے جاملے۔ بس ان لوگوں نے اپنے اس نئے اسلام کو معتدل اور روشن خیال اسلام (بیچ کا اسلام یعنی منافقت ) Moderate & Enlightened Islam کا نام دیا اوراس نئے اسلام سے ہر اس چیز کو نکال باہرکیا جس پر کسی بھی پہلو سے اہل مغرب معترض تھے۔

فہم سلف سے منحرف ،متجدد فکر ، روشن خیال اور مرعوب زدہ طبقے میں الموردادارہ علم و تحقیق سب سے پیش ہے۔جس کے سربراہ اول ازکر جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔ انہوں نے اس احتیاط کے پیش نظر کہ کہیں علماء انہیں بھی سرسید اور پرویز کے ساتھ منسوب نہ کر دیں، لغتِ قرآن کے بجائے عربی معلی یعنی عربی محاورے کا نعرہ لگایااور انکار سنت کا کھلم کھلا دعوی کرنے کے بجائے حدیث و سنت میں فرق کے عنوان سے اس مقصد کو پورا کیا۔ وہ اپنی نسبت مولانا امین حسین اصلاحی اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کے واسطے سے مولانا شبلی نعمانی ؒ سے کرتے ہیں،(کیونکہ ان حضرات کے علمی تفردات کے باوجود اہل علم انکے بارے میں قدرے نرم ہیں جس کا سبب مذکورہ بالا اصحاب ثلاثہ کی وہ گرانقدر دینی و ملی خدمات ہیں جو انکی کمزوریوں اور تسامحات کے ازالے کے لئے کافی ہیں) لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ غامدی صاحب جس اسلام کو پیش کررہے ہیں وہ دبستان شبلی کا اسلام ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ وہ پرویز وسرسید کا اعتزالی اسلام ہے۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام، استعماری طاقتیں اوراسلام دشمن یہودی لابی کے عزائم کے سامنے دین اسلام ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔لہذا وہ ایسے تمام افراد کی بھر پور حمایت اور اعانت کرتے ہیں جومسلمانوں میں جدت کے نام سے غیر اسلامی افکار کا جواز نکالتے ہیں اور انکے اجماعی معاملات کو متنازعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے غامدی صاحب اور انکے معاصرین جیسے نام نہاد دانشور ڈاکڑ جاوید اقبال، ڈاکڑ مبارک علی اور مہدی حسن کو اہل مغرب کی خاص معاونت و حمایت حاصل ہے ۔ مغربی ممالک کے ٹکڑوں پر پلتے نام نہاد اسلامی و پاکستانی میڈیاکے دروازے ان حضرات پرکھلے ہیں ،تا کہ یہ دین سے ہی خلافِ دین حرکات کی جھوٹی تاویلات پیش کریں کہ عام مسلمان بے جانے بوجھے گمراہ ہو جائیں۔امریکی اخبار ات و جرائد کی خبروں سے معلوم ہوا کہ عالمی استعماری طاقتوں اور یہودی لابی نے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے کرکروڑوں ڈالرپرمشتمل ایک بہت بڑا فنڈ اس مد میں مختص کررکھا ہے۔یہ کمیشن دین اسلام کی غلط اور من گھڑت تصویر پیش کر نے والوں کی حوصلہ افزئی کرتاہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اسی کمیشن نے متعدل اور انتہا پسند اسلام کے نام دو مختلف طبقہ ہائے اسلام کی تھیوری تیار کی تھی اور یہی پاکستان میں معتدل Moderate اسلام کے نام سے نیا اسلام متعارف کرانے والے جناب جاوید احمد غامدی ،ڈاکڑ جاوید اقبال، ڈاکڑ مبارک علی ,مہدی حسن اور شعیب منصورکی حوصلہ افزائی کرتاہے
 

A.G.Uddin

Minister (2k+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا &#1

Yeh jo Sipah-e-Sahaba wale Ghamidi ko US$ per palne wala bolte hain,aray kabhi apni tareekh padhooo...Zia-ul-Haq ke daur mein kisne American dollars khaye thay? Aray CIA ki madad ke baghair tum log kar kya sakte thay? Sari dunya ko pata hai key Afghanistan per invasion USSR ne kyun ki thi.Tumhare madrasoun,(Qabza keegayi)Masjidoun aur websites se koi history nahi seekhsakta.
Sarmaydarana Nizam ki baat jahaan tak hai tau tareekh gawah hai key Capitalists ke dalaal rahe hain yeh Mullah log jaisa key kissi zamane mein Pope waghera rahe hain....Issi capitalism aur loot mar ke tareeqe ko Bani Israel ke religious leaders ne istimaal kiya aur Anbiya Alayhis Salaam ke khilaf sazishein kein aur apni awam ko gumraah kiya. USA Capitalism ka mandir raha hai aur inhi religious clerics ne apni dukaan chamkane keliye unka saath diya.Capitialism ko kis mun se najane yeh log galiyan dete hain jabkey capitalism per he yeh Maulvi hazarat apni dukaan chamkate aaye hain. I am not a Communist but do admire few good things about Karl Marx,tum loog usse kuch bhi kaho,mujhe Kafir tak kaho,I don't give a damn. Baqi Maududi ka he ek quote hai key Islam mein daadhi hai,Daadhi mein Islam nahi hai......Aray Abu Jahal aur Firoun ki bhi dadhiyaan thein.Kya ab woh Emaan wale thehre Nauzubillah?
 

w-a-n-t-e-d-

Minister (2k+ posts)
Re: Importance of beard in Islam - عامر گزدر - مسلمان مرد کےلیے ڈاڑھی کا &am

Yeh jo Sipah-e-Sahaba wale Ghamidi ko US$ per palne wala bolte hain,aray kabhi apni tareekh padhooo...Zia-ul-Haq ke daur mein kisne American dollars khaye thay? Aray CIA ki madad ke baghair tum log kar kya sakte thay? Sari dunya ko pata hai key Afghanistan per invasion USSR ne kyun ki thi.Tumhare madrasoun,(Qabza keegayi)Masjidoun aur websites se koi history nahi seekhsakta.
Sarmaydarana Nizam ki baat jahaan tak hai tau tareekh gawah hai key Capitalists ke dalaal rahe hain yeh Mullah log jaisa key kissi zamane mein Pope waghera rahe hain....Issi capitalism aur loot mar ke tareeqe ko Bani Israel ke religious leaders ne istimaal kiya aur Anbiya Alayhis Salaam ke khilaf sazishein kein aur apni awam ko gumraah kiya. USA Capitalism ka mandir raha hai aur inhi religious clerics ne apni dukaan chamkane keliye unka saath diya.Capitialism ko kis mun se najane yeh log galiyan dete hain jabkey capitalism per he yeh Maulvi hazarat apni dukaan chamkate aaye hain. I am not a Communist but do admire few good things about Karl Marx,tum loog usse kuch bhi kaho,mujhe Kafir tak kaho,I don't give a damn. Baqi Maududi ka he ek quote hai key Islam mein daadhi hai,Daadhi mein Islam nahi hai......Aray Abu Jahal aur Firoun ki bhi dadhiyaan thein.Kya ab woh Emaan wale thehre Nauzubillah?


Modudi Alim Nahi Tha Os K Pas Alim ya Mufti Honay Ki Sandh Nahi ...

Modudi , Hameed Uddin Farahi, Amin Islahi Dr Israr Ahmad Or Fitna Ghamdi Yeh Sab Ek Thay Ek He Group Tha
Modudi nay jab siasi jamat banaee tu yeh sab alag alag hogay...

apki tamam batayin out of topic hain jin pay hum apna waqt zaya nahi karsaktay...


Darhi k wajib ya sunnat honay pay oper bohat say bhaiuon nay bohat behtreen books share ki hain
unsay istefada hasil karayin Ghamdi Maloon ki wakalat faida mand nahi ap k leyh ..


JazakAllah
 

Back
Top