اِمارت اسلامیہ افغانستان
افغانستان میں امریکہ کی شکست ٹوٹے ہوئے سوویت یونین کے زوال سے زیادہ گہری اور تیزی سے ہو گی۔
جلال الدین حقانی حفظہ اللہ
شروع اللہ کے نام سے، جو بڑا مہربان اور نہایت رحمدل ہے۔
انٹرویو لینے والے :۔ شہابدین غزنی
پیارے قارئین
السمود رسالہ کی خواہش تھی کی فیلڈ کمانڈر جلال الدین حقانی صاحب ، جو کہ اہم جہاد ی رہنماہ اور صوبہ خوست اور پکتیکا کے ملٹری کمانڈر بھی ہیں ، کا انٹرویو لیا جائے تاکہ افغان محاذ پر ہونے والی تازہ ترین سیاسی اور جہادی پیش رفت سے آگاہی حاصل ہو سکے۔ شیخ صاحب نے اپنی بے پناہ جہادی مصروفیات سے وقت نکالا اور السمود رسالہ کو اس انٹرویو کا اعزاز بخشا۔ ہم محترم کمانڈر حقانی صاحب کے بے حد مشکور ہیں۔اور اس انٹرویو کو حقیقی صورتحال اور مجاہدین کی کامیابیوں پر ایک ایسے منجھے ہوئے کمانڈر کا حقیقی تبصرہ سمجھتے ہیں جو مجاہدین کے ساتھ میدان جنگ میں بنفسِ نفیس جسمانی اور تخیلاتی طور پر موجو د ہے اور وہ اپنی جہادی سوچ اورفکر کے ساتھ جہادِ افغانستان میں افق کے اْس پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جہاں سجے سجائے اسٹیجوں ، اے سی کمروں اور بڑے بڑے فلیٹ پینل اسکرینوں کے سامنے بیٹھے نازک مزاج سیاسی تجزیہ نگاروں اور فوجی پنڈتوں کی سوچ آئیندہ دس سال بعد بھی نہیں پہنچ سکتی۔ ہمیں یقین ہے اِس انٹرویو کے ذریعے ہم دنیا کے سامنے وہ باتیں آشکار کریں گے جن سے سی این این، بی بی سی اور دوسرے جھوٹے شعبدہ بازوں کی شعبدہ بازیوں سے پردہ اْٹھ جائے گا، اور ملین ڈالر کے تھنک ٹینکوں کی مستقبل کی پیشبندیاں، اور ناٹو اور شیطان کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگون کی تمام چمکتی دمکتی ہزاروں رپورٹیں ردی کی ٹوکری کی طرف اپنا سفر شروع کر دیں گی۔ امریکہ کے جاہل پی ایچ ڈی ہولڈروں کو مستقبل کے بلندو بانگ دعووں، اور دجال کے بے بہرہ تھنک ٹینکوں کو ہرگز ایسا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مخلوق کو اپنی شعبدہ بازیوں اور جھوٹی کہانیوں کے ذریعے ڈرائیں۔ مستقبل کا حتمی حال تو بہر حال اللہ ہی کو معلوم ہے، مگر اللہ کی آیتوں اور نبی پاک کی احادیثوں سے مو منوں کو جو بشارتیں دی گئی ہیں ان کی روشنی میں ہم گذشتہ اور موجودہ صدی کے بہت بڑے جہادی کمانڈر اور صاحبِ دانش و حکمت کی زبانی موجودہ اور مستقبل قریب میں پیش آنے والے واقعا ت کی توضیحات کرنے کی کوشش کریں گے۔
سوال:۔ خدا ہمیشہ آپکو اچھی صحت دے، کیا آپ السمود کے قارئین کو اپنی صحت کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
جواب:۔ اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت ہی رحم والا ہے۔ جس نے اپنے غلاموں کو فتح عطا فرمائی اور اس کے سپاہیوں کی شان و شوکت زندہ رہے۔ جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور کفار کے لشکروں کو اکیلے ہی شکست دی۔ اس اللہ کی حمدو ثنا ہو جس نے ہمیں تمام مذاہب سے اعلیٰ، عظیم مذہب اسلام عطا فرمایا۔ محمد ﷺ پر ، آپﷺکے اہلِ بیت پر اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام پر اور ان تمام لوگوں پر جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے ہزاروں درود و سلام نازل ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اچھی صحت بخشی ہے۔ اچھی صحت سے میری مراد یہ ہے کہ باوجود یہ کہ میری عمر کافی لمبی ہو چکی ہے اور کافی عرصے سے سیکیورٹی کے خراب حالات کا بھی مجھے سامنا ہے مگر اللہ کا کرم ہے کہ جہادی امور کی انجام دہی میں مجھے صحت کے حوالے سے کبھی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا۔
سوال:۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے حال ہی میں آپکی صحت کے متعلق کافی شکوک و شبہات ابھارنے کی کوشش کی تھی۔ درحقیقت انھوں نے وحشیانہ بم حملوں میں آپ کی موت یا شہادت کی خبر پھیلائی تھی۔ ان افواہوں میں کہاں تک سچائی ہے؟
جواب:۔ یہ حقیقت کہ آپ میرا انٹرویو لے رہے ہیں اور میں آپ لوگوں کے درمیان زندہ ہوں ان افواہوں کو جھوٹا ثابت کرنے کیلیے کافی ہے۔ اگر میں اپنی صحت کا ان افواہوں سے موازنہ کروں تو میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ میں بالکل توانا اور تندرست ہوں اور مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ دشمن کی ان جھوٹی افواہوں اور رپورٹوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور دشمن ایسی دیدہ زیب اور جھوٹ سے مزین رپورٹوں سے محض اپنے آپ کو طفل تسلیاں دے رہا ہے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صحت ، بیماری، موت یا شہادت سب خدا کی طرف سے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی جانے والی تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر آدمی کیلیے تمام قسم کی قضائیں مقرر فرماتے ہیں اور کوئی بھی شخص مقرر کی ہوئی قضا سے بچ نہیں سکتا۔ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ہر مقرر شدہ قضا مقررہ وقت پہ اس پر آئیگی۔
ارشادِ ربانی ہے
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
انٹرویو لینے والے :۔ شہابدین غزنی
پیارے قارئین
السمود رسالہ کی خواہش تھی کی فیلڈ کمانڈر جلال الدین حقانی صاحب ، جو کہ اہم جہاد ی رہنماہ اور صوبہ خوست اور پکتیکا کے ملٹری کمانڈر بھی ہیں ، کا انٹرویو لیا جائے تاکہ افغان محاذ پر ہونے والی تازہ ترین سیاسی اور جہادی پیش رفت سے آگاہی حاصل ہو سکے۔ شیخ صاحب نے اپنی بے پناہ جہادی مصروفیات سے وقت نکالا اور السمود رسالہ کو اس انٹرویو کا اعزاز بخشا۔ ہم محترم کمانڈر حقانی صاحب کے بے حد مشکور ہیں۔اور اس انٹرویو کو حقیقی صورتحال اور مجاہدین کی کامیابیوں پر ایک ایسے منجھے ہوئے کمانڈر کا حقیقی تبصرہ سمجھتے ہیں جو مجاہدین کے ساتھ میدان جنگ میں بنفسِ نفیس جسمانی اور تخیلاتی طور پر موجو د ہے اور وہ اپنی جہادی سوچ اورفکر کے ساتھ جہادِ افغانستان میں افق کے اْس پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جہاں سجے سجائے اسٹیجوں ، اے سی کمروں اور بڑے بڑے فلیٹ پینل اسکرینوں کے سامنے بیٹھے نازک مزاج سیاسی تجزیہ نگاروں اور فوجی پنڈتوں کی سوچ آئیندہ دس سال بعد بھی نہیں پہنچ سکتی۔ ہمیں یقین ہے اِس انٹرویو کے ذریعے ہم دنیا کے سامنے وہ باتیں آشکار کریں گے جن سے سی این این، بی بی سی اور دوسرے جھوٹے شعبدہ بازوں کی شعبدہ بازیوں سے پردہ اْٹھ جائے گا، اور ملین ڈالر کے تھنک ٹینکوں کی مستقبل کی پیشبندیاں، اور ناٹو اور شیطان کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگون کی تمام چمکتی دمکتی ہزاروں رپورٹیں ردی کی ٹوکری کی طرف اپنا سفر شروع کر دیں گی۔ امریکہ کے جاہل پی ایچ ڈی ہولڈروں کو مستقبل کے بلندو بانگ دعووں، اور دجال کے بے بہرہ تھنک ٹینکوں کو ہرگز ایسا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مخلوق کو اپنی شعبدہ بازیوں اور جھوٹی کہانیوں کے ذریعے ڈرائیں۔ مستقبل کا حتمی حال تو بہر حال اللہ ہی کو معلوم ہے، مگر اللہ کی آیتوں اور نبی پاک کی احادیثوں سے مو منوں کو جو بشارتیں دی گئی ہیں ان کی روشنی میں ہم گذشتہ اور موجودہ صدی کے بہت بڑے جہادی کمانڈر اور صاحبِ دانش و حکمت کی زبانی موجودہ اور مستقبل قریب میں پیش آنے والے واقعا ت کی توضیحات کرنے کی کوشش کریں گے۔
سوال:۔ خدا ہمیشہ آپکو اچھی صحت دے، کیا آپ السمود کے قارئین کو اپنی صحت کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
جواب:۔ اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت ہی رحم والا ہے۔ جس نے اپنے غلاموں کو فتح عطا فرمائی اور اس کے سپاہیوں کی شان و شوکت زندہ رہے۔ جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور کفار کے لشکروں کو اکیلے ہی شکست دی۔ اس اللہ کی حمدو ثنا ہو جس نے ہمیں تمام مذاہب سے اعلیٰ، عظیم مذہب اسلام عطا فرمایا۔ محمد ﷺ پر ، آپﷺکے اہلِ بیت پر اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام پر اور ان تمام لوگوں پر جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے ہزاروں درود و سلام نازل ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اچھی صحت بخشی ہے۔ اچھی صحت سے میری مراد یہ ہے کہ باوجود یہ کہ میری عمر کافی لمبی ہو چکی ہے اور کافی عرصے سے سیکیورٹی کے خراب حالات کا بھی مجھے سامنا ہے مگر اللہ کا کرم ہے کہ جہادی امور کی انجام دہی میں مجھے صحت کے حوالے سے کبھی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا۔
سوال:۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے حال ہی میں آپکی صحت کے متعلق کافی شکوک و شبہات ابھارنے کی کوشش کی تھی۔ درحقیقت انھوں نے وحشیانہ بم حملوں میں آپ کی موت یا شہادت کی خبر پھیلائی تھی۔ ان افواہوں میں کہاں تک سچائی ہے؟
جواب:۔ یہ حقیقت کہ آپ میرا انٹرویو لے رہے ہیں اور میں آپ لوگوں کے درمیان زندہ ہوں ان افواہوں کو جھوٹا ثابت کرنے کیلیے کافی ہے۔ اگر میں اپنی صحت کا ان افواہوں سے موازنہ کروں تو میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ میں بالکل توانا اور تندرست ہوں اور مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ دشمن کی ان جھوٹی افواہوں اور رپورٹوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور دشمن ایسی دیدہ زیب اور جھوٹ سے مزین رپورٹوں سے محض اپنے آپ کو طفل تسلیاں دے رہا ہے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صحت ، بیماری، موت یا شہادت سب خدا کی طرف سے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی جانے والی تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر آدمی کیلیے تمام قسم کی قضائیں مقرر فرماتے ہیں اور کوئی بھی شخص مقرر کی ہوئی قضا سے بچ نہیں سکتا۔ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ہر مقرر شدہ قضا مقررہ وقت پہ اس پر آئیگی۔
ارشادِ ربانی ہے
کوئی بھی روح اللہ کی مرضی کے بغیر مر نہیں سکتی، زندگی کی میعاد مقرر کی ہوئی ہے اور لکھی ہوئی ہے۔ (آلِ عمران: ۴۵۱)
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
ہر روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور آخر کار تم ہماری طرف واپس لائے جائو گے۔ (العنکبوت: ۵۷)
میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ اگرچہ میں نے بڑے سخت دن دیکھے ہیں اور میں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جہاد میں اور دشمن سے لڑتے ہوئے گزارہ ہے؛ مجھے سخت بحرانوں کا مقابلہ بھی کرنا پڑا ہے اور کئی دفعہ ان جنگوں میں مجھے زخم بھی آئے ہیں جو ہمارے اور ہمارے دشمنوں یعنی کفاراور منافقین کے درمیان لڑی گئی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود میری صحت بالکل پرفیکٹ ہے۔
میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ شہادت اور موت فی سبیلِ اللہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہشیں ہیں۔ اپنی ساری زندگی کے دوران میری یہ شدید خواہش رہی ہے کہ میں اللہ کے راسے میں شہید ہو جائوں، میں اپنے جسم اور روح کی فی سبیلِ اللہ قربانی پیش کروں تاکہ اللہ کا دین قائم ہو اور اللہ کے قوانین نافذ ہوں۔ میں نے اپنی ساری زندگی اللہ کے بندوں کو ظالموں کے ظلم سے اور بے دینوں کے کفر ، عیاریوں اور مکاریوں سے نجات دلانے کیلیے راہِ جہاد میں وقف کی ہے۔ لیکن میری سب سے بڑی خواہش شہادت فی سبیلِ اللہ ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔
سوال:۔ خوب کمانڈر صاحب، افغانستان پر صلیبی قبضے کے سات سے زیادہ سال گزر گئے ہیں۔ ستر ہزار سے زیادہ صلیبی افواج جو کہ پائوں کے ناخن سے لے کر دانتوں تک جدید اسلحہ سے لیس ہیں افغانستان کی پاک سرزمیں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مجاہدین نہایت ہی محدود وسائل اور معمولی سے اسلحے کے ساتھ ان سے برسرِ پیکار ہیں۔ آپکے جہادی اور فوجی تجربے کی بنیاد پر اور دونوں طرف کی تعداد اور اسلحے کے نمایاں فرق کو مدِنظر رکھتے ہوئے، صلیبیوں کی شکست کیلیے مجاہدین سے آپ کیا امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔
جواب:۔ اگر ہم حق اور باطل کے مابین برپا موجودہ معر کہِ افغانستان پر غوروفکر کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد اور سب سے زیادہ غیر متناسب معرکہ یہ ہے جو اسلام اور کفر کی ساری مشترکہ قوتوں (یورپ و امریکہ کی دجالی قوتوں اور مقامی ملحدین و مشرکین) کے درمیان چل رہا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے صرف ایک ایسا معرکہ ہے جو آج کے معرکے سے تھوڑا ملتا جلتا ہے اور وہ غزوہ اعزاب کا واقعہ ہے۔ وہاں بھی آخر کار مجاہدین اسلام کو عظیم کامیابی نصیب ہوئی تھی بالکل اسی طرح موجودہ معرکے میں بھی آخری فتح انشاءاللہ اللہ کی تائید اور نصرت سے مجاہدین ہی کی ہو گی۔ مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد، لوگوں کی تائید اور حال ہی میں رونما ہونے والے ملٹری اور سیاسی حالات ہماری بات کے ثبوت اور ہمارے الفاظ کے گواہ ہیں۔
اس کے ساتھ میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ افغان مجاہدین کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والے وہ تمام حالات و واقعات جو سوویت یونین کو تباہی کی طرف لے گئے آج بحیثیت مجموعی امریکی دجالی سلطنت کو خصوصی اور دنیا بھر میں پھیلے اس کے نظام کو عمومی طور پر درپیش ہیں۔ وہ بڑی بڑی خطیر رقومات جو امریکہ افغانستان پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کیلیے صرف کر رہا ہے، اور روزانہ درجنوں کے حساب سے اس کے صلیبی سپاہیوں کی ہلاکتیں جو مجاہدین کے ہاتھوں ہو رہی ہیں، مجاہدین کی فتح اور ظالم صلیبیوں اور ان کے مقامی مددگاروں کی شکست کا واضح ثبوت ہیں۔
سوال:۔ وقت ، حالات اور ذرائع کے لحاظ سے امارت اسلامیہ افغانستان پر ماضی میں سوویت یونین کے قبضے اور مو جودہ دور میں امریکی قبضے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمارا مطلب ہے کہ اس وقت مشرقی اور مغربی قوتوں کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی اور خاص طور سے کمیونسٹوں کے مظالم اور ان کے استحصالی طریقہ کار کی وجہ سے ساری دنیا کے لوگ ان سے نفرت کرتے تھے، یہی وجہ ہے کی جہادِافغانستان کو دنیا سے مالی اور اخلاقی مدد مل رہی تھی ۔ افغانستان سے باہر بھی مجاہدین کو جہادی سرگرمیاںجاری رکھنے اور مختلف ذرائع استعمال کرنے میں دشواریاں نہ تھیں۔ مگر آج صورتحال بالکل مختلف ہے، آج دنیا کے معاملات یک قطبی طاقت (امریکہ) چلا رہا ہے اور اس کی قوت کو چیلینج کرنے والا کوئی دوسرا ملک نہیں۔ آج ساری دنیا جہاد اور مجاہدین کے خلاف (دہشتگردی کے خلاف جنگ ،جیسا کہ وہ کہتے ہیں) کے نام پر اکٹھی ہے اور پوری دنیا سے کہیں سے بھی انھیں مالی، اخلاقی یا عسکری تعاون حاصل نہیں ہے۔ پوری دنیا میں کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جو کم ازکم سیاسی لحاظ سے ہی ان کی حمایت کر رہا ہو۔ لہذا ساری دنیا کی مالیاتی اور عسکری طاقتیں جب ایک طرف دنیاکی سب سے زیادہ خوفناک، تباہ کن اور جدید ترین عسکری طاقت امریکہ کے سائے تلے جمع ہو کر معمولی سے ہتھیاروں سے لیس، پہاڑ نشین، انگریزی سے بے بہرہ، جدید فوجی تعلیم و تربییت سے نامانوس افغان مجاہدین سے ٹکرانے آئی ہیں تو یہ مجاہدین کسطرح ان کا مقابلہ کریں گے؟ اسطرح ایک طرف سا ری دنیا کی شکست اور دوسری طرف مٹھی بھر مجاہدین کی فتح کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:۔ اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد اور نصرت سے ہمیشہ مافوق الفطرت واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں، جنھیں عام انسانی ذہن سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہ آج کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ یہ وہ کائناتی مستقل اور عظیم اللہ کی سنت ہے جو روزِ اول سے معرکہ حق و باطل میں ہمیشہ حق کے ساتھ ساتھ رہی ہے۔اگر ہم تاریخ پہ نگا دوڑائیں تواس غیبی تائیدو نصرت کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ مبارک ملتا ہے۔
سورۃ محمد آیت ۷ میں اللہ پاک فرماتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ یہ دنیا عقل، اسباب، وجوہات، منطق اور معقولات کے ذریعے چلتی ہے؛ لہذا ہمیں بھی عقلی اسباب اور محرکات کی جستجو کرنی چاہیے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مو جودہ حالات میں قابضین کے خلاف اسلامی جہاد ہی وہ پرجوش تحریک ہے جو امریکہ اور اس کے مقامی ایجنٹوں کی فتنہ و فساد کی بنیادوں پر بنائی جانے والی عمارت(فسادی حکومت) کو زمیں بوس کرے گی۔ تحریکِ جہادِ افغانستان ہی عالمی جہادکیلیے وہ مثبت ذرائع مہیا کرے گی جو امریکہ اور عالمی صیہونی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گے۔ اضافی اسباب میں ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی جغرافیائی صورتحال، امریکیوں کے خلاف دنیا بھر میں پیدا ہونے والی نفرت اور موجودہ جنگوں کی وجہ سے نہ ادا ہوسکنے والاا مریکی قرض وہ واضع اسباب ہیں جو امریکی غارت گروں کی تباہی اور شکست کا پتہ دیتے ہیں۔ درحقیقت میں سمجھتا ہوں موجودہ امریکی پالیسی اور اسکی طرف سے تمام بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے اب دنیا امریکہ کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ اس بات میں شاید اب زیادہ دیر نہ لگے کہ دنیا ایک طرف ہو جائے اور موجودہ ناکام امریکی پالیسی کے خلاف کوئی دوسرا رویہ اختیار کرے۔
میں اس بات کا ذکر بھی یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے وقت دنیا موجودہ روس کو رشین ایمپائر کے نام سے جانتی تھی، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ روسی سورمائوں کے خلاف مجاہدین کی فتوحات میں مغربی امداد اور امریکی سٹنگر میزائلوں کا بڑا حصہ ہے۔لہذا لوگوں نے ان فتوحات کو مغربی امداد اور امریکی اسٹنگر میزائلوں کی نذر کردیا۔مگر موجودہ دور میں امریکی صلیبیوں اور اسکے اتحادیوں کے خلاف جہادی فتوحات اور کامیابیاں تو بالخصوص مجاہدین کی قربانیوں اور اللہ وحدہ، لاشریک پر مضبوط ایمان کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکیں ہیں۔ اب یہ بات تو کسی کے لئیے بھی ممکن نہ رہی کہ وہ موجودہ جہادی فتوحات کو کسی ایجنسی یا کسی اور بے بنیاد دنیاوی طاغوت کے کھاتے میں ڈالے۔
سوال:۔ افغانستان پر صلیبی حملے کو سات سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی تمام تر سیاسی اور فوجی قوت استعمال کرنے کے باوجود بہادر افغان عوام کو زیر کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ابھی تک امریکی دامن میں، تمام تردجالی کاوشوں اور توانائیوں کا ثمر ناکامی، شکست اور تباہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں پڑا، اسکے علاوہ تمام مغربی فوجی کمانڈر، سیاسی تجزیہ نگار اور دوسرے لوگ اس بات پہ متفق ہیں کہ اس جنگ سے کوئی فتح حاصل نہیں ہو گی۔ ان تمام باتوں کے باوجود امریکہ اس با ت پر بضد ہے کہ وہ مزید فوجی کمک افغانستان بھیجے گا۔ اِن متضاد باتوں کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟
جواب:۔ میں نے یہ پہلے بھی کہا تھا اور اب دوبارہ کہتا ہوں کہ افغانستان میں امریکی معاملہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی جوئے کی میز پر ہارتا جا رہا ہو۔ وہ ہمیشہ اس امید پر کھیلتا جاتا ہے کہ شائد یہ بازی وہ جیت جائے، اور آخرکار کوئی معمولی سی بھی چیز حاصل کرنے کی بجائے وہ ان تمام چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جو اس کی ملکیت میں ہوتی ہیں۔
بغیر کسی شک وشبہ کے، افغانستان میں جنگ ہارنے کا مغربی اعتراف ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انھیں سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اگرچہ کہ وہ اپنی زبانوں سے اسے تسلیم نہ کریں،مگر ان کے فوجیوں کے کفن اور لاشیں تو اس حقیقت کا کھلا اعتراف ہیں ہی۔ جہاں تک مزید کمک بھیجنے کا سوال ہے باوجود اس کے کہ ابھی تک انھیں کوئی فتح بھی حاصل نہیں ہوئی،میرا اس بات پر یقین ہے کہ اللہ نے اس ظالم وجابر قوم کی بربادی کا سامان مظلوم افغانوں کے ہاتھوں لکھ دیا ہے۔ دو دہائیوں پہلے ہٹ دھرم اور مغرور روسی ایمپائر کو دنیا کے سیاسی نقشے سے ہٹانے کا سہرا انہی افغانوں کے سر جاتا ہے۔ اسی طرح پچھلی صدی میں برطانوی سامراج بھی افغانستانی کہساروں سے اپنا سر پھوڑنے کے بعد واپس چلا گیا تھا۔ مگر اب روسی ایمپائر کے خاتمے کے بعد جب امریکہ کو پوری دنیا میں کوئی للکارنے والا نہیں تھا تو امریکہ نے پوری زمین پر انسانیت کے خلاف بڑے بڑے گھنائونے اور مکروہ جرائم کیے اور اپنے انہی جرائم کی نحوست کی وجہ سے امریکیوں کو یہ زعمِ باطل ہو گیا کہ دنیا والوں کی قسمت ، دانا دنکا اور تقدیر ا،ن کے ہاتھ میں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت سے اِس کو بھی وہی مزہ چکھنا پڑے گا جو اس سے پہلے برطانوی اور رشین ایمپائر چکھ چکی ہیں۔
سوال:۔ بہت خوب کمانڈر صاحب، سات سال کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اِس پر مزید عالمی میڈیا نے تحریکِ طالبان اور طبقنچی کرزئی حکومت کے درمیان مذاکرات کی افواہیں بھی اڑانا شروع کر دی ہیں۔ اِس معاملے پر آپکی کیا رائے ہے؟
جواب:۔ جی ہاں! آخر کار سات سالوں کے بعد امریکیوں کو یہ بات سمجھ آئی ہے کہ ان کی موجودہ پالیسی بے کار ہے اور اِس کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان تبدیلیوں کے پیچھے بہت سارے خفیہ مقاصد ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں۔
۱۔ افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد کو بڑھانا۔
۲۔ افغان قبیلوں کے درمیان قبائلی اور نسلی نفرت کے بیج بونا تاکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف لڑھنے لگیں، یا لوگوں کے درمیان نسلی اور قبائلی تعصبات پیدا کرنا (awakening councils) یہی کام کرتی ہیں۔
۳۔مجاہدین کے ساتھ مذاکرات کرنا۔
وہ مندرجہ بالا پہلے دو نقاط پر کافی عرصے سے کام کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی ایسی کامیابی نہیں ملی جس کو وہ بتا سکیں۔
اب وہ تیسرے نقطے پر کا م کرنا چاہتے ہیں، یعنی مجاہدین کے ساتھ مذاکرات تاکہ ان کے مندرجہ ذیل مقاصد حاصل ہو سکیں۔
۱۔ عالمی میڈیا اور اخبارات میں مبالغہ آمیز خبروں کے ذریعے مجاہدین کے درمیان تقسیم اور بد اعتمادی پیدا ہو سکے۔ انھوں نے مذاکرات کی کہانیاں اس حد تک شائع کی ہیں کہ ا،ن میں مذاکرات کی جگہ، مذاکرات کے مراحل اور دونوں فریقین کی شرائط بھی بیان کی ہیں۔ یہ قدرتی بات ہے کہ اس طرح کی میڈیا کی مبالغہ آمیزی کا مقصد مجاہدین کے درمیان بد اعتمادی اور ایک دوسرے کے خلاف غلط خیالات کو جنم دینا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے لوگوں کے درمیان انتشار اور بے چینی پھیلانے کے سوا اور کچھ نہیں، اسطرح کا پرو پیگینڈا حقیقت سے بہت دور ہے۔
۲۔ اسطرح کے پرو پیگنڈے سے کرزئی کی طبقنچی حکومت کو یہ جواز بھی مہیا کرنا ہے کہ وہ مجاہدین سے مذاکرات کیلیے افغانستان کے لوگوں کیلیے قانونی حیثیت رکھتی ہے۔
۳۔ اسلامی امارت پر یہ الزام لگانا اور لوگوں کے دلوں میں یہ شبہات پیدا کرنا کہ ہم تو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں اور افغانستان کے مسئلے کا پر امن اورسیاسی حل نکالنا چا ہتے ہیں مگر یہ مجاہدین ہی ہیں جو جہادی حل پر زور دے رہے ہیں۔
میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ شہادت اور موت فی سبیلِ اللہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہشیں ہیں۔ اپنی ساری زندگی کے دوران میری یہ شدید خواہش رہی ہے کہ میں اللہ کے راسے میں شہید ہو جائوں، میں اپنے جسم اور روح کی فی سبیلِ اللہ قربانی پیش کروں تاکہ اللہ کا دین قائم ہو اور اللہ کے قوانین نافذ ہوں۔ میں نے اپنی ساری زندگی اللہ کے بندوں کو ظالموں کے ظلم سے اور بے دینوں کے کفر ، عیاریوں اور مکاریوں سے نجات دلانے کیلیے راہِ جہاد میں وقف کی ہے۔ لیکن میری سب سے بڑی خواہش شہادت فی سبیلِ اللہ ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔
سوال:۔ خوب کمانڈر صاحب، افغانستان پر صلیبی قبضے کے سات سے زیادہ سال گزر گئے ہیں۔ ستر ہزار سے زیادہ صلیبی افواج جو کہ پائوں کے ناخن سے لے کر دانتوں تک جدید اسلحہ سے لیس ہیں افغانستان کی پاک سرزمیں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مجاہدین نہایت ہی محدود وسائل اور معمولی سے اسلحے کے ساتھ ان سے برسرِ پیکار ہیں۔ آپکے جہادی اور فوجی تجربے کی بنیاد پر اور دونوں طرف کی تعداد اور اسلحے کے نمایاں فرق کو مدِنظر رکھتے ہوئے، صلیبیوں کی شکست کیلیے مجاہدین سے آپ کیا امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔
جواب:۔ اگر ہم حق اور باطل کے مابین برپا موجودہ معر کہِ افغانستان پر غوروفکر کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے منفرد اور سب سے زیادہ غیر متناسب معرکہ یہ ہے جو اسلام اور کفر کی ساری مشترکہ قوتوں (یورپ و امریکہ کی دجالی قوتوں اور مقامی ملحدین و مشرکین) کے درمیان چل رہا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے صرف ایک ایسا معرکہ ہے جو آج کے معرکے سے تھوڑا ملتا جلتا ہے اور وہ غزوہ اعزاب کا واقعہ ہے۔ وہاں بھی آخر کار مجاہدین اسلام کو عظیم کامیابی نصیب ہوئی تھی بالکل اسی طرح موجودہ معرکے میں بھی آخری فتح انشاءاللہ اللہ کی تائید اور نصرت سے مجاہدین ہی کی ہو گی۔ مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد، لوگوں کی تائید اور حال ہی میں رونما ہونے والے ملٹری اور سیاسی حالات ہماری بات کے ثبوت اور ہمارے الفاظ کے گواہ ہیں۔
اس کے ساتھ میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ افغان مجاہدین کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والے وہ تمام حالات و واقعات جو سوویت یونین کو تباہی کی طرف لے گئے آج بحیثیت مجموعی امریکی دجالی سلطنت کو خصوصی اور دنیا بھر میں پھیلے اس کے نظام کو عمومی طور پر درپیش ہیں۔ وہ بڑی بڑی خطیر رقومات جو امریکہ افغانستان پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کیلیے صرف کر رہا ہے، اور روزانہ درجنوں کے حساب سے اس کے صلیبی سپاہیوں کی ہلاکتیں جو مجاہدین کے ہاتھوں ہو رہی ہیں، مجاہدین کی فتح اور ظالم صلیبیوں اور ان کے مقامی مددگاروں کی شکست کا واضح ثبوت ہیں۔
سوال:۔ وقت ، حالات اور ذرائع کے لحاظ سے امارت اسلامیہ افغانستان پر ماضی میں سوویت یونین کے قبضے اور مو جودہ دور میں امریکی قبضے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمارا مطلب ہے کہ اس وقت مشرقی اور مغربی قوتوں کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی اور خاص طور سے کمیونسٹوں کے مظالم اور ان کے استحصالی طریقہ کار کی وجہ سے ساری دنیا کے لوگ ان سے نفرت کرتے تھے، یہی وجہ ہے کی جہادِافغانستان کو دنیا سے مالی اور اخلاقی مدد مل رہی تھی ۔ افغانستان سے باہر بھی مجاہدین کو جہادی سرگرمیاںجاری رکھنے اور مختلف ذرائع استعمال کرنے میں دشواریاں نہ تھیں۔ مگر آج صورتحال بالکل مختلف ہے، آج دنیا کے معاملات یک قطبی طاقت (امریکہ) چلا رہا ہے اور اس کی قوت کو چیلینج کرنے والا کوئی دوسرا ملک نہیں۔ آج ساری دنیا جہاد اور مجاہدین کے خلاف (دہشتگردی کے خلاف جنگ ،جیسا کہ وہ کہتے ہیں) کے نام پر اکٹھی ہے اور پوری دنیا سے کہیں سے بھی انھیں مالی، اخلاقی یا عسکری تعاون حاصل نہیں ہے۔ پوری دنیا میں کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جو کم ازکم سیاسی لحاظ سے ہی ان کی حمایت کر رہا ہو۔ لہذا ساری دنیا کی مالیاتی اور عسکری طاقتیں جب ایک طرف دنیاکی سب سے زیادہ خوفناک، تباہ کن اور جدید ترین عسکری طاقت امریکہ کے سائے تلے جمع ہو کر معمولی سے ہتھیاروں سے لیس، پہاڑ نشین، انگریزی سے بے بہرہ، جدید فوجی تعلیم و تربییت سے نامانوس افغان مجاہدین سے ٹکرانے آئی ہیں تو یہ مجاہدین کسطرح ان کا مقابلہ کریں گے؟ اسطرح ایک طرف سا ری دنیا کی شکست اور دوسری طرف مٹھی بھر مجاہدین کی فتح کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:۔ اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد اور نصرت سے ہمیشہ مافوق الفطرت واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں، جنھیں عام انسانی ذہن سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہ آج کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ یہ وہ کائناتی مستقل اور عظیم اللہ کی سنت ہے جو روزِ اول سے معرکہ حق و باطل میں ہمیشہ حق کے ساتھ ساتھ رہی ہے۔اگر ہم تاریخ پہ نگا دوڑائیں تواس غیبی تائیدو نصرت کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ مبارک ملتا ہے۔
بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اِزن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔ (البقرہ: ۹۴۲)
سورۃ محمد آیت ۷ میں اللہ پاک فرماتے ہیں۔
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا۔ (محمد: ۷)
یہ بات درست ہے کہ یہ دنیا عقل، اسباب، وجوہات، منطق اور معقولات کے ذریعے چلتی ہے؛ لہذا ہمیں بھی عقلی اسباب اور محرکات کی جستجو کرنی چاہیے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مو جودہ حالات میں قابضین کے خلاف اسلامی جہاد ہی وہ پرجوش تحریک ہے جو امریکہ اور اس کے مقامی ایجنٹوں کی فتنہ و فساد کی بنیادوں پر بنائی جانے والی عمارت(فسادی حکومت) کو زمیں بوس کرے گی۔ تحریکِ جہادِ افغانستان ہی عالمی جہادکیلیے وہ مثبت ذرائع مہیا کرے گی جو امریکہ اور عالمی صیہونی اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گے۔ اضافی اسباب میں ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی جغرافیائی صورتحال، امریکیوں کے خلاف دنیا بھر میں پیدا ہونے والی نفرت اور موجودہ جنگوں کی وجہ سے نہ ادا ہوسکنے والاا مریکی قرض وہ واضع اسباب ہیں جو امریکی غارت گروں کی تباہی اور شکست کا پتہ دیتے ہیں۔ درحقیقت میں سمجھتا ہوں موجودہ امریکی پالیسی اور اسکی طرف سے تمام بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے اب دنیا امریکہ کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ اس بات میں شاید اب زیادہ دیر نہ لگے کہ دنیا ایک طرف ہو جائے اور موجودہ ناکام امریکی پالیسی کے خلاف کوئی دوسرا رویہ اختیار کرے۔
میں اس بات کا ذکر بھی یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے وقت دنیا موجودہ روس کو رشین ایمپائر کے نام سے جانتی تھی، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ روسی سورمائوں کے خلاف مجاہدین کی فتوحات میں مغربی امداد اور امریکی سٹنگر میزائلوں کا بڑا حصہ ہے۔لہذا لوگوں نے ان فتوحات کو مغربی امداد اور امریکی اسٹنگر میزائلوں کی نذر کردیا۔مگر موجودہ دور میں امریکی صلیبیوں اور اسکے اتحادیوں کے خلاف جہادی فتوحات اور کامیابیاں تو بالخصوص مجاہدین کی قربانیوں اور اللہ وحدہ، لاشریک پر مضبوط ایمان کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکیں ہیں۔ اب یہ بات تو کسی کے لئیے بھی ممکن نہ رہی کہ وہ موجودہ جہادی فتوحات کو کسی ایجنسی یا کسی اور بے بنیاد دنیاوی طاغوت کے کھاتے میں ڈالے۔
سوال:۔ افغانستان پر صلیبی حملے کو سات سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی تمام تر سیاسی اور فوجی قوت استعمال کرنے کے باوجود بہادر افغان عوام کو زیر کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ابھی تک امریکی دامن میں، تمام تردجالی کاوشوں اور توانائیوں کا ثمر ناکامی، شکست اور تباہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں پڑا، اسکے علاوہ تمام مغربی فوجی کمانڈر، سیاسی تجزیہ نگار اور دوسرے لوگ اس بات پہ متفق ہیں کہ اس جنگ سے کوئی فتح حاصل نہیں ہو گی۔ ان تمام باتوں کے باوجود امریکہ اس با ت پر بضد ہے کہ وہ مزید فوجی کمک افغانستان بھیجے گا۔ اِن متضاد باتوں کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟
جواب:۔ میں نے یہ پہلے بھی کہا تھا اور اب دوبارہ کہتا ہوں کہ افغانستان میں امریکی معاملہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی جوئے کی میز پر ہارتا جا رہا ہو۔ وہ ہمیشہ اس امید پر کھیلتا جاتا ہے کہ شائد یہ بازی وہ جیت جائے، اور آخرکار کوئی معمولی سی بھی چیز حاصل کرنے کی بجائے وہ ان تمام چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جو اس کی ملکیت میں ہوتی ہیں۔
بغیر کسی شک وشبہ کے، افغانستان میں جنگ ہارنے کا مغربی اعتراف ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انھیں سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اگرچہ کہ وہ اپنی زبانوں سے اسے تسلیم نہ کریں،مگر ان کے فوجیوں کے کفن اور لاشیں تو اس حقیقت کا کھلا اعتراف ہیں ہی۔ جہاں تک مزید کمک بھیجنے کا سوال ہے باوجود اس کے کہ ابھی تک انھیں کوئی فتح بھی حاصل نہیں ہوئی،میرا اس بات پر یقین ہے کہ اللہ نے اس ظالم وجابر قوم کی بربادی کا سامان مظلوم افغانوں کے ہاتھوں لکھ دیا ہے۔ دو دہائیوں پہلے ہٹ دھرم اور مغرور روسی ایمپائر کو دنیا کے سیاسی نقشے سے ہٹانے کا سہرا انہی افغانوں کے سر جاتا ہے۔ اسی طرح پچھلی صدی میں برطانوی سامراج بھی افغانستانی کہساروں سے اپنا سر پھوڑنے کے بعد واپس چلا گیا تھا۔ مگر اب روسی ایمپائر کے خاتمے کے بعد جب امریکہ کو پوری دنیا میں کوئی للکارنے والا نہیں تھا تو امریکہ نے پوری زمین پر انسانیت کے خلاف بڑے بڑے گھنائونے اور مکروہ جرائم کیے اور اپنے انہی جرائم کی نحوست کی وجہ سے امریکیوں کو یہ زعمِ باطل ہو گیا کہ دنیا والوں کی قسمت ، دانا دنکا اور تقدیر ا،ن کے ہاتھ میں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت سے اِس کو بھی وہی مزہ چکھنا پڑے گا جو اس سے پہلے برطانوی اور رشین ایمپائر چکھ چکی ہیں۔
سوال:۔ بہت خوب کمانڈر صاحب، سات سال کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اِس پر مزید عالمی میڈیا نے تحریکِ طالبان اور طبقنچی کرزئی حکومت کے درمیان مذاکرات کی افواہیں بھی اڑانا شروع کر دی ہیں۔ اِس معاملے پر آپکی کیا رائے ہے؟
جواب:۔ جی ہاں! آخر کار سات سالوں کے بعد امریکیوں کو یہ بات سمجھ آئی ہے کہ ان کی موجودہ پالیسی بے کار ہے اور اِس کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان تبدیلیوں کے پیچھے بہت سارے خفیہ مقاصد ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں۔
۱۔ افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد کو بڑھانا۔
۲۔ افغان قبیلوں کے درمیان قبائلی اور نسلی نفرت کے بیج بونا تاکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف لڑھنے لگیں، یا لوگوں کے درمیان نسلی اور قبائلی تعصبات پیدا کرنا (awakening councils) یہی کام کرتی ہیں۔
۳۔مجاہدین کے ساتھ مذاکرات کرنا۔
وہ مندرجہ بالا پہلے دو نقاط پر کافی عرصے سے کام کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی ایسی کامیابی نہیں ملی جس کو وہ بتا سکیں۔
اب وہ تیسرے نقطے پر کا م کرنا چاہتے ہیں، یعنی مجاہدین کے ساتھ مذاکرات تاکہ ان کے مندرجہ ذیل مقاصد حاصل ہو سکیں۔
۱۔ عالمی میڈیا اور اخبارات میں مبالغہ آمیز خبروں کے ذریعے مجاہدین کے درمیان تقسیم اور بد اعتمادی پیدا ہو سکے۔ انھوں نے مذاکرات کی کہانیاں اس حد تک شائع کی ہیں کہ ا،ن میں مذاکرات کی جگہ، مذاکرات کے مراحل اور دونوں فریقین کی شرائط بھی بیان کی ہیں۔ یہ قدرتی بات ہے کہ اس طرح کی میڈیا کی مبالغہ آمیزی کا مقصد مجاہدین کے درمیان بد اعتمادی اور ایک دوسرے کے خلاف غلط خیالات کو جنم دینا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے لوگوں کے درمیان انتشار اور بے چینی پھیلانے کے سوا اور کچھ نہیں، اسطرح کا پرو پیگینڈا حقیقت سے بہت دور ہے۔
۲۔ اسطرح کے پرو پیگنڈے سے کرزئی کی طبقنچی حکومت کو یہ جواز بھی مہیا کرنا ہے کہ وہ مجاہدین سے مذاکرات کیلیے افغانستان کے لوگوں کیلیے قانونی حیثیت رکھتی ہے۔
۳۔ اسلامی امارت پر یہ الزام لگانا اور لوگوں کے دلوں میں یہ شبہات پیدا کرنا کہ ہم تو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں اور افغانستان کے مسئلے کا پر امن اورسیاسی حل نکالنا چا ہتے ہیں مگر یہ مجاہدین ہی ہیں جو جہادی حل پر زور دے رہے ہیں۔
جہاں تک امارت اسلامیہ افغانستان کا تعلق ہے تو مذاکرات کے بارے میں اس کا مؤقف درج ذیل ہے۔
امارت اسلامیہ اس بات کے حق میں ہے کہ تمام مسائل کا حل امن کے ذرائع سے ڈھونڈا جائے۔ امارتِ اسلامیہ یہ بات گزشتہ آٹھ سالوں سے کہہ رہی ہے اور امریکہ اور اقوامِ متحدہ سے بھی اس کا یہی مطالبہ ہے کہ مسائل کے پرامن حل کیلے پر امن طریقے اپنائے جائیں۔ امریکی ہی نہ تو ایسی بات کرتے تھے اور نہ ہی ایسی کسی بات کے حق میں تھے۔ ان کا یہ دعوہ تھا کہ ان کی مادی قوت میں اتنا دم خم ہے کہ وہ اِس کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر لیں گے۔ وہ دوسروں کو نفرت اور حقارت سے دیکھتے تھے۔
اسی طرح، امارت اسلامیہ نے یہ کوشش کی تھی کہ تمام معاملات اسلامی ممالک کی وساطت سے حل ہو جائیں۔ مگر امریکی جابرانہ دھوکے نے امریکیوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ امارت اسلامیہ افغانستان پر اپنی مرضی مسلط کریں، اور مغرور امریکی کوئی بھی باشعور اور عقل و سمجھ میں آنے والے حل کی جانب راغب نہ ہوئے۔ انھوں نے امارت اسلامیہ پر وحشیانہ حملے شروع کر دیے جس سے ہزاروں معصوم افغان ہلاک ہو گئے، پورے کے پورے گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، اور پہلے ہی تباہ شدہ افغانستان کو مزید کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا۔
جب کے دوسری طرف، مجاہدین کی مزاحمت کی وجہ سے ہزاروں صلیبی سپاہی قتل ہو چکے ہیں، اور مجرمانہ حملوں کو سرانجام دینے میں امریکیوں کا اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اور اِن تمام چیزوں کے باوجود، آج ان کی حالت یہ ہے کہ وہ خود اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتے۔
سوال:۔ آپکی گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ فے الحال مذاکرات میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ کیا ایسا ہی ہے؟
جواب:۔ جی ہاں! جہاں تک میری سمجھ میں بات آتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کا ابھی کوئی فائدہ نہیں ہے، امریکی، ان کے اتحادی اور طبقنچی کرزئی حکومت وہ مذاکرات کے ذریعے اپنی مکارانہ عسکری سازشیں پوری کرنا چاہتے ہیں، اور اصل مسئلے کو نہ تو وہ حل کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ختم کرنا۔ مجھے اس بارے میں یقین ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مذاکرات میں ذرا بھی مخلص نہیں ہیں، کیونکہ ان کی طرف سے مذاکرات کی بنیادی شرط ہی دونوں فریقین کے مفادات کا تحفظ شامل ہے۔ اس طرح وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں مگر اپنی شرائط پہلے سے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ یہ چیز قومی اور بین الاقوامی مذاکرات کے اصولوں کو بری طرح مسخ کرتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مذاکرات کیلیے امارت اسلامیہ افغانستان کی صورتحال بالکل واضح اور صاف ہے۔ امارت کی شرائط عزت سے ماننے اور ان پر سختی سے عمل کرنے سے ہی مسئلے کا اصل حل سامنے آ سکتا ہے۔ ہماری شرائط میں سے سب سے پہلی شرط بغیر کسی لیل و لعت کے غیر ملکی فوجوں کی واپسی ہے۔ اگر ہم افغانستان کے اصل مسئلے کی طرف آئیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ امارت اسلامیہ افغانستان پر غیر ملکی فوجوں کا قبضہ ہے، جو افغانستان کے نہتے مسلمان عوام پر دن کو اور رات کی تاریکی میں، کبھی خوفناک قسم کے ہیلی کاپٹروں، کبھی دیو ہیکل اور دہشتناک ہوائی جہازوں اور کبھی دیو قامت ٹینکوں اور دوسرے (mass murder) ہتھیاروں سے حملے کرتے ہیں۔ معصوم شہریوں کو یرمغال بنا لیتے ہیں، لوگوں کے گھروں اور املاک کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔ ایک ایک حملے میں کئی کئی خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں، معصوم بچوں اور بچیوں کو قتل کرتے ہیں۔ ہماری مساجد کو بموں سے اڑا دیتے ہیں اور ہماری مقدس کتاب کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ اس فوجی قبضے کی وجہ سے افغانستان کا امن و امان بھی غارت ہو گیا ہے اور غیر ملکی فوجوں کا یہ ٹولہ ایک ایسی حکو مت کی حفاظت کر رہا ہے اور اسے پروان چڑھا رہا ہے، جو دنیا میں کرپشن میں پہلے نمبر پر ہے۔ منافق حکومتی اہلکاروں نے رشوت کا بازار گرم کر رکھا ہے وہ منشیات ، قتل وغارت گری، اغواہ برائے تاوان اور بچوں سے جبری مشقت کے ذریعے افغان عوام کا استحصال کر رہے ہیں اور ان غیر ملکی فوجوں کا ٹولہ اس کا م میں ان سے اپنا حصہ وصول کر کے ان کی پوری پوری حفاظت کر رہا ہے۔ اِن تمام جرائم کی خبریں اور ثبوت امریکی اخبارات و رسائل نے بھی متعدد بار شائع کیے ہیں، مگر امریکی انتظامیہ ان کی پشت پناہی سے ذرا بھر بھی پیچھے نہیں ہٹی۔
سوال:۔ آپ نے خطرناک امریکی پروجیکٹ قبائلی اور نسلی ملیشیا ، جو کہ (Iraqi Awakening Councils) کی طرح ہے، کی بات کی ہے۔ ایک ممتاز اور منجھے ہوئے جہادی امام اور مشہورو معروف قبائلی لیڈر کی حثییت سے آپ افغانستان میں اس امریکی مکاری کی کامیابی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:۔ امریکیوں کو ہماری ارضِ مقدس پر نہ صرف اِس مکاری میں منہ کی کھانی پڑی ہے، بلکہ اس میدان میں کی جانے والی دیگر تمام قسم کی مکاریوں اور شعبدہ بازیوںمیں بھی ا،ن کو سخت ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دراصل وہ افغان عوام کے مزاج کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان کے منصوبے اورعملیات حماقتوں اورخیالی پلائو سے زیادو اہمیت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر افغانی عوام بھوک، غربت اور بے روزگاری سے پریشان ہیں جبکہ امریکی مردوں اور عورتوں کے لئیے سیرو تفریح کے مراکز بنا رہے ہیں۔ وہ بڑے بڑے پارک تعمیر کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں لوگ غربت اور بھوک میں مبتلا ہیں۔ امریکی شیطانی قسم کی جمہوریت نافذ کرنے کیلیے بھنبھنا رہے ہیں جبکہ ہزاروں آدمی ا،ن کے بڑے بڑے بموں اور تباہ کن مارٹر گولوں تلے دب کر ہلاک ہو رہے ہیں۔
جب کہ دوسری طرف، افغانی عوام کے دلوں میں امریکیوں ، ان کے دم چھلوں اور ان کے اتحادیوں کے خلاف غصہ اور نفرت دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ جی ہاں! اور اِس طرح کی موجودہ صورتحال میں وہ لوگوں سے مدد کیلیے کہہ رہے ہیں۔ افغانی ماحول سے ان کی ناآشنائی، دراصل ا،ن کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔ اگرچہ کہ انھوں نے عراق میں اس مکاری کی کامیابی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ مکاری بڑے کام کی ہے مگر امارت اسلامیہ افغانستان کے حالات عراق کے حالات سے یکسر مختلف ہیں، جہاں مختلف گروہوں کے درمیان کافی اختلافات موجود ہیں۔ میرا خیال ہےکہ لوگوں کے درمیان پائے جانے والے انہی اختلافات کی وجہ سے امریکی اس قابل ہوئے ہیں کہ عراق میں انھیں اس منصوبے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر افغانستان میں اس مکاری کی کامیابی کے امکانات سرے سے ہی معدوم ہیں جہاں لوگ جانی دشمن ہوتے ہوئے بھی غیر ملکیوں کے خلاف حالتِ جنگ میں سگے بہن بھائیوں کی طرح بن جاتے ہیں۔
سوال:۔ بہت خوب شیخ حقانی صاحب! مغربی اخبارات لکھتے ہیں کہ آپکی جہادی سرگرمیاں اور تحریک امارتِ اسلامیہ کے سرکل میں نہیں آتی، اور آپ اپنی تحریک آزادانہ طور پر چلا رہے ہیں۔ ان دعووں کی کیا وجوہات ہیں اور ان میں کتنا سچ ہے؟
جواب:۔ یہ ایک کھلی صداقت ہے کہ جب بھی اس امریکی دشمن کو میدانِ جنگ میں شکست ہوتی ہے تو میڈیا میں یہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے اور اسطرح میڈیا کے ذریعے بے بنیاد افواہیں پھیلاتا ہے اورنئے نئے دعوے کرتا ہے۔ یہ اِس شکست خوردہ اور مکار دشمن کی سازشوں کا حصہ ہے اور اس سارے شوروغل کا مقصد مجاہدین میں تقسیم اور بد اعتمادی کی فضا پیدا کرنا ہے۔ وہ صرف اِسی پہ بس نہیں کرتا بلکہ اِس طرح کے اور کئی بے بنیاد الزامات لگاتا اور پھیلاتا رہتا ہے۔ کبھی تو وہ مجاہدین کے درمیان ماڈریٹ اور شدت پسند کی تقسیم پیدا کرنا چاہتا ہے اور کبھی مذاکرات کی افواہیں پھیلا کر مجاہدین کی وحدت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ دشمن کے یہ تمام دعوے بے بنیاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تمام مجاہدین ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں امریکی صلیبیوں اور اْن کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ مجاہدین کے درمیان ماڈریٹ یا شدت پسند کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ وہ تمام ایک ہی مرکزی قیادت کی سربراہی میں لڑھتے ہیں، جیسا کہ آیتِ کریمہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
اسی طرح، امارت اسلامیہ نے یہ کوشش کی تھی کہ تمام معاملات اسلامی ممالک کی وساطت سے حل ہو جائیں۔ مگر امریکی جابرانہ دھوکے نے امریکیوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ امارت اسلامیہ افغانستان پر اپنی مرضی مسلط کریں، اور مغرور امریکی کوئی بھی باشعور اور عقل و سمجھ میں آنے والے حل کی جانب راغب نہ ہوئے۔ انھوں نے امارت اسلامیہ پر وحشیانہ حملے شروع کر دیے جس سے ہزاروں معصوم افغان ہلاک ہو گئے، پورے کے پورے گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، اور پہلے ہی تباہ شدہ افغانستان کو مزید کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا۔
جب کے دوسری طرف، مجاہدین کی مزاحمت کی وجہ سے ہزاروں صلیبی سپاہی قتل ہو چکے ہیں، اور مجرمانہ حملوں کو سرانجام دینے میں امریکیوں کا اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اور اِن تمام چیزوں کے باوجود، آج ان کی حالت یہ ہے کہ وہ خود اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتے۔
سوال:۔ آپکی گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ فے الحال مذاکرات میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ کیا ایسا ہی ہے؟
جواب:۔ جی ہاں! جہاں تک میری سمجھ میں بات آتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کا ابھی کوئی فائدہ نہیں ہے، امریکی، ان کے اتحادی اور طبقنچی کرزئی حکومت وہ مذاکرات کے ذریعے اپنی مکارانہ عسکری سازشیں پوری کرنا چاہتے ہیں، اور اصل مسئلے کو نہ تو وہ حل کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ختم کرنا۔ مجھے اس بارے میں یقین ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مذاکرات میں ذرا بھی مخلص نہیں ہیں، کیونکہ ان کی طرف سے مذاکرات کی بنیادی شرط ہی دونوں فریقین کے مفادات کا تحفظ شامل ہے۔ اس طرح وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں مگر اپنی شرائط پہلے سے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ یہ چیز قومی اور بین الاقوامی مذاکرات کے اصولوں کو بری طرح مسخ کرتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مذاکرات کیلیے امارت اسلامیہ افغانستان کی صورتحال بالکل واضح اور صاف ہے۔ امارت کی شرائط عزت سے ماننے اور ان پر سختی سے عمل کرنے سے ہی مسئلے کا اصل حل سامنے آ سکتا ہے۔ ہماری شرائط میں سے سب سے پہلی شرط بغیر کسی لیل و لعت کے غیر ملکی فوجوں کی واپسی ہے۔ اگر ہم افغانستان کے اصل مسئلے کی طرف آئیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ امارت اسلامیہ افغانستان پر غیر ملکی فوجوں کا قبضہ ہے، جو افغانستان کے نہتے مسلمان عوام پر دن کو اور رات کی تاریکی میں، کبھی خوفناک قسم کے ہیلی کاپٹروں، کبھی دیو ہیکل اور دہشتناک ہوائی جہازوں اور کبھی دیو قامت ٹینکوں اور دوسرے (mass murder) ہتھیاروں سے حملے کرتے ہیں۔ معصوم شہریوں کو یرمغال بنا لیتے ہیں، لوگوں کے گھروں اور املاک کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔ ایک ایک حملے میں کئی کئی خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں، معصوم بچوں اور بچیوں کو قتل کرتے ہیں۔ ہماری مساجد کو بموں سے اڑا دیتے ہیں اور ہماری مقدس کتاب کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ اس فوجی قبضے کی وجہ سے افغانستان کا امن و امان بھی غارت ہو گیا ہے اور غیر ملکی فوجوں کا یہ ٹولہ ایک ایسی حکو مت کی حفاظت کر رہا ہے اور اسے پروان چڑھا رہا ہے، جو دنیا میں کرپشن میں پہلے نمبر پر ہے۔ منافق حکومتی اہلکاروں نے رشوت کا بازار گرم کر رکھا ہے وہ منشیات ، قتل وغارت گری، اغواہ برائے تاوان اور بچوں سے جبری مشقت کے ذریعے افغان عوام کا استحصال کر رہے ہیں اور ان غیر ملکی فوجوں کا ٹولہ اس کا م میں ان سے اپنا حصہ وصول کر کے ان کی پوری پوری حفاظت کر رہا ہے۔ اِن تمام جرائم کی خبریں اور ثبوت امریکی اخبارات و رسائل نے بھی متعدد بار شائع کیے ہیں، مگر امریکی انتظامیہ ان کی پشت پناہی سے ذرا بھر بھی پیچھے نہیں ہٹی۔
سوال:۔ آپ نے خطرناک امریکی پروجیکٹ قبائلی اور نسلی ملیشیا ، جو کہ (Iraqi Awakening Councils) کی طرح ہے، کی بات کی ہے۔ ایک ممتاز اور منجھے ہوئے جہادی امام اور مشہورو معروف قبائلی لیڈر کی حثییت سے آپ افغانستان میں اس امریکی مکاری کی کامیابی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:۔ امریکیوں کو ہماری ارضِ مقدس پر نہ صرف اِس مکاری میں منہ کی کھانی پڑی ہے، بلکہ اس میدان میں کی جانے والی دیگر تمام قسم کی مکاریوں اور شعبدہ بازیوںمیں بھی ا،ن کو سخت ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دراصل وہ افغان عوام کے مزاج کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان کے منصوبے اورعملیات حماقتوں اورخیالی پلائو سے زیادو اہمیت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر افغانی عوام بھوک، غربت اور بے روزگاری سے پریشان ہیں جبکہ امریکی مردوں اور عورتوں کے لئیے سیرو تفریح کے مراکز بنا رہے ہیں۔ وہ بڑے بڑے پارک تعمیر کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں لوگ غربت اور بھوک میں مبتلا ہیں۔ امریکی شیطانی قسم کی جمہوریت نافذ کرنے کیلیے بھنبھنا رہے ہیں جبکہ ہزاروں آدمی ا،ن کے بڑے بڑے بموں اور تباہ کن مارٹر گولوں تلے دب کر ہلاک ہو رہے ہیں۔
جب کہ دوسری طرف، افغانی عوام کے دلوں میں امریکیوں ، ان کے دم چھلوں اور ان کے اتحادیوں کے خلاف غصہ اور نفرت دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ جی ہاں! اور اِس طرح کی موجودہ صورتحال میں وہ لوگوں سے مدد کیلیے کہہ رہے ہیں۔ افغانی ماحول سے ان کی ناآشنائی، دراصل ا،ن کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔ اگرچہ کہ انھوں نے عراق میں اس مکاری کی کامیابی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ مکاری بڑے کام کی ہے مگر امارت اسلامیہ افغانستان کے حالات عراق کے حالات سے یکسر مختلف ہیں، جہاں مختلف گروہوں کے درمیان کافی اختلافات موجود ہیں۔ میرا خیال ہےکہ لوگوں کے درمیان پائے جانے والے انہی اختلافات کی وجہ سے امریکی اس قابل ہوئے ہیں کہ عراق میں انھیں اس منصوبے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر افغانستان میں اس مکاری کی کامیابی کے امکانات سرے سے ہی معدوم ہیں جہاں لوگ جانی دشمن ہوتے ہوئے بھی غیر ملکیوں کے خلاف حالتِ جنگ میں سگے بہن بھائیوں کی طرح بن جاتے ہیں۔
سوال:۔ بہت خوب شیخ حقانی صاحب! مغربی اخبارات لکھتے ہیں کہ آپکی جہادی سرگرمیاں اور تحریک امارتِ اسلامیہ کے سرکل میں نہیں آتی، اور آپ اپنی تحریک آزادانہ طور پر چلا رہے ہیں۔ ان دعووں کی کیا وجوہات ہیں اور ان میں کتنا سچ ہے؟
جواب:۔ یہ ایک کھلی صداقت ہے کہ جب بھی اس امریکی دشمن کو میدانِ جنگ میں شکست ہوتی ہے تو میڈیا میں یہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے اور اسطرح میڈیا کے ذریعے بے بنیاد افواہیں پھیلاتا ہے اورنئے نئے دعوے کرتا ہے۔ یہ اِس شکست خوردہ اور مکار دشمن کی سازشوں کا حصہ ہے اور اس سارے شوروغل کا مقصد مجاہدین میں تقسیم اور بد اعتمادی کی فضا پیدا کرنا ہے۔ وہ صرف اِسی پہ بس نہیں کرتا بلکہ اِس طرح کے اور کئی بے بنیاد الزامات لگاتا اور پھیلاتا رہتا ہے۔ کبھی تو وہ مجاہدین کے درمیان ماڈریٹ اور شدت پسند کی تقسیم پیدا کرنا چاہتا ہے اور کبھی مذاکرات کی افواہیں پھیلا کر مجاہدین کی وحدت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ دشمن کے یہ تمام دعوے بے بنیاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تمام مجاہدین ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں امریکی صلیبیوں اور اْن کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ مجاہدین کے درمیان ماڈریٹ یا شدت پسند کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ وہ تمام ایک ہی مرکزی قیادت کی سربراہی میں لڑھتے ہیں، جیسا کہ آیتِ کریمہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وہ کافروں کیلیے سخت مگر ایک دوسرے کیلیے نرم ہیں
میں خود بھی امارتِ اسلامیہ کی مرکزی شورٰی کا ایک رکن ہوں۔ خوست اور پکتیکا صوبوں میں جہادی سرگرمیوں کو چلانا میری ذمہ داری ہے۔ عالمی میڈیا کے یکطرفہ دعووں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ کیونکہ ہم نے امیر المومینین ملا محمد عمر مجاہد کے ہاتھ پر بیت کی ہے، ہم آج تک اِس بیت پر قائم ہیں اور امارتِ اسلامیہ کے اصولوں اور فیصلوں کے پابند اور وفادار ہیں۔ امارتِ اسلامیہ کے مجاہدین کے درمیان کسی قسم کی رنجش یا تلخی نہیں ہے۔
کیونکہ ہمیں کافی جہادی تجربہ حاصل ہے لہذا ہم کفار کی تمام چالوں اور سازشوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔تمام مسلمان، اور خاص طور سے افغان، دشمن کی ان مکارانا چالوں سے بڑے اچھے طریقے سے واقف ہیں، لہذا ہمیں یقین ہے کہ دشمن کی یہ چالیں بھی بڑی بری طرح ناکامی کا منہ دیکھیں گی۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ موجودہ چودہویں صدی میں ملا محمد عمرمجاہد جیسا بہادر، خودداراور سرگرم لیڈر کوئی نہیں ہے۔یہ امیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ تمام مجاہدین کو اس رحمت کا احساس ہے اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس رحمت کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ ہم بہت سارے امیروں کے ہاتھ سے گزر چکے ہیں، اور روسیوں کے خلاف جہاد میں تنظیمی ڈھانچے میں ہونے والی رنجشوں سے بھی واقف ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ روسیوں کے خلاف جہاد سے حاصل ہونے والے فوائد کو کسطرح امیروں کے جتھے نے ضائع کر دیا تھا۔ وہ تمام کامیابیاں جو ہم نے جہاد کے ذریعے حاصل کی تھیں آپس کی رنجش کی وجہ سے ضائع ہو گئیں۔ لہٰذا افغان مسلمان اِس کڑوے تجربے کو دوبارہ نہیں دہرانے دیں گے۔ آج ہم متحد ہیں اور ہم کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں تقسیم کرے یا ہمارے درمیان رنجشیں ڈالے۔
سوال:۔ یہ بات بھی اچھی طرح سب کو معلوم ہے کہ افغانستان کا جنوب مشرقی حصہ پاکستان سے ملتا ہے۔ اسی وجہ سے کرزئی کا ٹولہ اکثر بھنبھناتا ہے کہ جہادی سرگرمیاں پڑوسی ملک (پاکستان)میں ترتیب دی جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ آپ کی کمانڈ سے تعلق رکھنے والے بہت سے مجاہدین دوسرے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ان دعووں میں کتنا سچ ہے؟
جواب:۔ ساری دنیا کے سامنے یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ طبقنچی حکومت میں ۷۳ صلیبی ممالک کے نجس لوگ شامل ہیں، تاہم وہ بے بنیاد افواہوں پر بھنبھناتے ہیں۔ میں یہ بات پو چھنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر جنوب مشرق میں ہونے والے جہادی آپریشن پڑوسی ملک میں ترتیب دیے جاتے ہیں تو، شمالی اور وسطی حصوں میں ہونے والے جہادی آپریشن کہاں ترتیب دیے جاتے ہیں؟
بغیر کسی شک و شبے کے میں یہ بات آپکو بتاتا ہوں کہ ایسے تمام کامیاب جہادی آپریشن جن میں صلیبی سپاہی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں، وسطی صوبوں میں ترتیب اور وہیں سے لانچ کیے جاتے ہیں۔ اور ان صوبوں کی تو کسی بھی پڑوسی ملک سے سرحد نہیں لگتی۔ اور یہی بات میں شمالی صوبوں کندوز، بغلان، بلخ،بدخشاں ، جوزجان اور دوسرے صوبوں کے بارے میں کہوں گا، جن کی سرحد سوال میں بیان کیے گئے ملک (پاکستان) کے ساتھ نہیں لگتی۔ یہاں پر کیے گئے جہادی آپریشنز کی ترتیب کہاں دی گئی ہے؟ اگر ملکوں اور حکومتوں کی مدد سے فتح و شکست مل سکتی تو کرزئی کی طبقنچی حکومت صرف ۴۲ گھنٹوں میں پورے افغانستان کے فی ملی میٹر پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ دیتی اور آج ہر افغانی کہسار پر ، بھارت کے ہندووں، امریکہ کے ز ائینسٹوں، جاپان کے ٹیکنالوجی دانوں، برطانیہ کے شرلاک ہوموں، جرمنی کے ہٹلروں ، پاکستان کے میر جعفروں اور ماں فروشوں ، ایران کے رافضیوں، سعودی عرب و اردن کے تخت پجاریوںاور باقی دنیا کے طورماخانوں کی کامیاب شرارتوں کے چم چم کرتے سائن بورڈ نظر آتے۔امریکی کاغذوں پر دجالی آنکھیں چھاپ چھاپ کر خود کنگال ہو گئے ، امریکی جہاز بہترین امریکی لوہا افغانستان کے پہاڑوں اور ڈائمنڈ سے سخت افغانی مومنوں پر برسا برسا کر ا ب خود بھی گرنے لگے ۔بھارت کے بنییوں نے شودروں، مسلمانوں اور دوسری قوموں کا خون چوس چوس کر اور خود پاک صاف پانی کے بجائے گائے کے غلیظ پیشاب پر گزارا کر کے جو دولت کے انبار اکٹھے کیے تھے افغانستان کی بھٹی میں جھونک دیے ۔ جاپانیوں نے اپنی نیندیں حرام کر کے سولہ سولہ اور بیس بیس گھنٹے دن رات محنت کی اپنی دس اور گیارہ سال کی ننھی منھی معصوم بیٹیوں اور بیٹوں کی عزتیں نیلام کیں اور اسطرح سے حاصل ہونے والے ین امریکیوں اور کرزئی کو افغانستان میں صرف ایک جاپانی ترنگا لہرانے کیلیے امداد اور قرض کے نام پر دیے۔ مگر افسوس یہ ترنگا بھی نہ توآج تک ٹھیک طرح سے لہرا سکا اور نہ ہی مستقبل میں اِس کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ دنیا کا کونسا ایسا ملک ہے اور کونسی ایسی قوم ہے جس نے کرزئی کیلیے اپنی جانیں اور مال و زر نہ لوٹایا ہو، مگر افسوس کرزئی آج تک کابل سے باہر کسی ایک بھی باطلی قوت کا ترنگا عزت و وقار کے ساتھ نہ اونچا کر سکا۔ تمام پڑوسی ملکوں کی اخلاقی، سیاسی اور عسکری امداد، دنیا کے سب سے خوفناک اور دہشتناک ہتھیاروں کی بالکل مفت سپلائی ، دنیا کی انتہائی تربیت یافتہ اور بہادرچالیس ممالک کی افواج کی فراوانی، دنیا میں مانی جانے والی انٹیلیجنس ایجنسیوں (CIA, MOSAD, RAW,ISI) کے چلاک، مکار اور ذہین ترین افراد کی چوبیس گھنٹے مکمل اطاعت کے ساتھ خدمات بھی آج تک کرزئی کوفتح نہ دلا سکیں۔ خود تو کرزئی انھیں پڑوسی ملکوں کے دورے کرتا ہے، ان کامال و زر کھاتا ہے، ان کے ہاں سفارت خانے اور قونصل خانے کھولتا ہے اور اپنے ہاں ان کی ضیافتیں کرتا ہے، ان کے مکار لوگوں اور اپنے احمق لوگوں کی کانفرنسیں منعقد کرواتا ہے اور ہم پر یہ الزام کہ ہم ان ممالک میں بیٹھ کر مقدس جہادی فریضے کی پلاننگ کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی ناکامیوں اور نااہلیت پر پردہ ڈالنے کیلیے اکثر ایسا شوروغل کرتا رہتا ہے اور یہ بات اْس کے مالکوں یعنی امریکی زائنسٹوں کو بھی پتہ ہے۔
جہاں تک غیر افغان مجاہدین کی ہمارے ہاں موجودگی کا تعلق ہے تو ہمارا اْن کے بارے میں یہ بیان ہے۔ سرحدی علاقوں میں کچھ تہذیب یافتہ اور دینی شعور و ذمہ داری سے آشنا نوجوانوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ اسلام کی سب سے بڑی عبادت، ابراہیم اور محمد رسول اللہ () کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی جا ن کی قربانی پیش کریں اور جہاد جیسی عظیم عبادت کا ثواب حاصل کریں۔ ان نوجوانوں کو یہ شوق اور جذبہ اپنے آباؤاجداد سے وراثت میں ملا ہے اور اگر ہم اس علاقے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ وراثت کئی صدیوں سے نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ انہی کے آباؤاجداد نے برطانوی سامراج کے خلاف افغان جہاد میں بھر پور حصہ لیا تھا اور دو دہائیوں پہلے انہی لوگوں نے روسی استعمار کے خلاف بھی یہ مقدس فریضہ انجام دیا تھا۔انھوں نے قابضین کے خلاف پورے جوش اور جذبے سے جنگیں لڑی ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں میں جہادی جوش اور ولولہ آج بھی اْسی طرح پایا جاتا ہے اور وہ اِس کام کیلیے دن رات بیتاب رہتے ہیں کہ کب انھیں مجاہدین کی مدد کرنے کا موقع ملے گا اور اسطرح وہ اللہ کی آیتوں کو بلند کر سکیں گے۔ ہم اپنے طور پر جہاد میں ان کی شمولیت کی حمایت کرتے ہیں اور اِس کو ایک مذہبی ڈیوٹی سمجھ کر پوری دل جمعی اور خشوع و خضوع سے ادا کر تے ہیں۔
سوال:۔ ماشاءاللہ، بہت بہت خوب شیخ حقانی صاحب! کچھ عرصے سے سرحدی علاقوں میں وحشیانہ امریکی بمباری کی وجہ سے سینکڑوں معصوم مسلمانوں کی شہادتیں واقع ہوئی ہیں اور ان کے گھر اور املاک بھی تباہ ہوئی ہیں۔آپ کے خیال میں اِس کا بنیادی سبب کیا ہے؟
جواب:۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ امریکی جاحیت کی وجہ سے پوری دنیا کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اِس نے افغانستان پر حملہ کیا ہے اور عراق کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ اسی طرح فلسطین اور صومالیہ کے لوگ اس کے ظلم اور ناانصافی کا شکار ہیں۔ درحقیقت دنیا کے لوگ کہیں نہ کہیں اکثر امریکی ظلم و استحصال کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود امریکی عوام بھی اپنی حکومت اورلیڈروں کی ناکام عیارانہ سازشوں اور منصوبوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اور دوسرے ملکوں میں تجارت، سیاحت یا کھیلوں کے مقابلوںمیں حصہ لینے کیلیے، سفر کے دوران بھی امریکی عوام کو اپنی جان کا خطرہ رہتا ہے اور اسکی واحد وجہ اِن کے حکمرانوں کی جانب سے مظلوم اقوام کے خلاف کیے جانے والے گھنائونے جرائم اور استحصالی پالیسیاں ہیں۔امریکی سیاستدانوں کی خود امریکہ کے اندر لاگو کی جانے والی ڈریکونی پالیسیوں کی وجہ سے بھی امریکی عوام کا جینا دو بھر ہو گیا ہے اور وہ خود امریکہ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔
اِس وقت دنیا میں پیدا ہونے والے عالمی معاشی بحران کے پیچھے بھی انھی لالچی امریکی حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔لہذا وہ تمام لوگ جنھوں نے امریکی پالیسیاں اپنائیں اور امریکیوں کے پیچھے چلے اس بحران کا مزہ چکھیں گے۔ شکست خوردہ امریکی پالیسی پر عمل کرنے کی وجہ سے آج افغانستان سے باہر بھی جگہ جگہ مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ ہمیں اس بارے میں کافی تشویش لاحق ہے کہ اگر امریکہ کی شیطانی پالیسیوں اور منصوبوں پر یونہی عمل ہوتا رہا تو بہت جلد دنیا کا ایک بڑا حصہ آگ اور خون کی لپیٹ میں آ جائیگا۔ یہی انتشار، بدامنی اور آگ و خون کا وہ کھیل ہے جو امریکہ مسلم علاقوں میں کھیلنا چاہتا ہے۔
سوال:۔ امریکہ میں منعقد ہونے والے الیکشن اور اِن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اوباما کی زیرِ قیادت فتح کو آپ کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، اور اس کے افغانستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب:۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں دراصل کفر ایک ہی ذات ہے اور کفار مسلمانوں کے خلاف اپنی پالیسی کبھی تبدیل نہیں کرتے، ان میں صرف شخصیات تبدیل ہوتی ہیں۔ لہذا اوباما کی افغانستان پالیسی بھی بش کی افغان پالیسی ہی کا تسلسل ہے۔ جہاں تک مستقبل میں پیش آنے والے حالات کا تعلق ہے تو ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا امریکی بش کی شکست خوردہ پا لیسیوں سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں یا احمقوں کی طرح اْسی پرانی لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ امریکی عوام نے اوباما پر اعتماد کیا ہے اور اسے اپنے ملک کا صدر منتخب کیاہے تو اْسے چاہیے کہ امریکی عوام کو اْس منافقت، جھوٹ ، اندھیرے اور تباہی کی طرف جانے والے راستے سے نکالے جس پر شیطان بش نے اْن کو دھکیل دیا ہے۔
سوال:۔ ایک وقت تھا جب مسلم امہ دنیا کی قیادت کر رہی تھی اور اس امت کو سپر پاور کی حثییت حاصل تھی۔ آج امت غلامی، مظلومیت اور تنگدستی کا شکار ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ماضی جیسی شان و شوکت اور عزت حاصل کرنے کیلیے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:۔ اللہ تعالیٰ کے آفاقی قوانین کی روشنی میں امت کی سربلندی کا واحد ذریعہ جہاد فی سبیلِ اللہ ہے اور اس کام کیلیے خلوصِ دل سے کوشش اور عمل کرنا ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہیے اور قرآن و سنت پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ اگر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شان وشوکت اور عزت واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں جہاد فی سبیل اللہ کرنا پڑے گا۔ اْن کی عزت، عظمت اور آزادی جہاد ہی سے وابستہ ہے۔ اور جہاد کی کامیابی کا راز آپس کی تقسیم اور جھگڑوں سے بچنا اور اپنی صفحوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔
السمود: اختتامی کلمات میں ہم شیخ قائد مولوی جلالدین حقانی کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اْن کی حفاظت فرمائے، انھوں نے ملاقات کیلیے ہمیں یہ موقع عطا فرمایا۔ ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اللہ سے دعاگو ہیں کہ اللہ انھیں کافروں کے شر سے اور مشرق و مغرب میں موجود مرتدین کے شرسے محفوظ رکھے۔
کیونکہ ہمیں کافی جہادی تجربہ حاصل ہے لہذا ہم کفار کی تمام چالوں اور سازشوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔تمام مسلمان، اور خاص طور سے افغان، دشمن کی ان مکارانا چالوں سے بڑے اچھے طریقے سے واقف ہیں، لہذا ہمیں یقین ہے کہ دشمن کی یہ چالیں بھی بڑی بری طرح ناکامی کا منہ دیکھیں گی۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ موجودہ چودہویں صدی میں ملا محمد عمرمجاہد جیسا بہادر، خودداراور سرگرم لیڈر کوئی نہیں ہے۔یہ امیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ تمام مجاہدین کو اس رحمت کا احساس ہے اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اس رحمت کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ ہم بہت سارے امیروں کے ہاتھ سے گزر چکے ہیں، اور روسیوں کے خلاف جہاد میں تنظیمی ڈھانچے میں ہونے والی رنجشوں سے بھی واقف ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ روسیوں کے خلاف جہاد سے حاصل ہونے والے فوائد کو کسطرح امیروں کے جتھے نے ضائع کر دیا تھا۔ وہ تمام کامیابیاں جو ہم نے جہاد کے ذریعے حاصل کی تھیں آپس کی رنجش کی وجہ سے ضائع ہو گئیں۔ لہٰذا افغان مسلمان اِس کڑوے تجربے کو دوبارہ نہیں دہرانے دیں گے۔ آج ہم متحد ہیں اور ہم کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں تقسیم کرے یا ہمارے درمیان رنجشیں ڈالے۔
سوال:۔ یہ بات بھی اچھی طرح سب کو معلوم ہے کہ افغانستان کا جنوب مشرقی حصہ پاکستان سے ملتا ہے۔ اسی وجہ سے کرزئی کا ٹولہ اکثر بھنبھناتا ہے کہ جہادی سرگرمیاں پڑوسی ملک (پاکستان)میں ترتیب دی جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ آپ کی کمانڈ سے تعلق رکھنے والے بہت سے مجاہدین دوسرے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ان دعووں میں کتنا سچ ہے؟
جواب:۔ ساری دنیا کے سامنے یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ طبقنچی حکومت میں ۷۳ صلیبی ممالک کے نجس لوگ شامل ہیں، تاہم وہ بے بنیاد افواہوں پر بھنبھناتے ہیں۔ میں یہ بات پو چھنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر جنوب مشرق میں ہونے والے جہادی آپریشن پڑوسی ملک میں ترتیب دیے جاتے ہیں تو، شمالی اور وسطی حصوں میں ہونے والے جہادی آپریشن کہاں ترتیب دیے جاتے ہیں؟
بغیر کسی شک و شبے کے میں یہ بات آپکو بتاتا ہوں کہ ایسے تمام کامیاب جہادی آپریشن جن میں صلیبی سپاہی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں، وسطی صوبوں میں ترتیب اور وہیں سے لانچ کیے جاتے ہیں۔ اور ان صوبوں کی تو کسی بھی پڑوسی ملک سے سرحد نہیں لگتی۔ اور یہی بات میں شمالی صوبوں کندوز، بغلان، بلخ،بدخشاں ، جوزجان اور دوسرے صوبوں کے بارے میں کہوں گا، جن کی سرحد سوال میں بیان کیے گئے ملک (پاکستان) کے ساتھ نہیں لگتی۔ یہاں پر کیے گئے جہادی آپریشنز کی ترتیب کہاں دی گئی ہے؟ اگر ملکوں اور حکومتوں کی مدد سے فتح و شکست مل سکتی تو کرزئی کی طبقنچی حکومت صرف ۴۲ گھنٹوں میں پورے افغانستان کے فی ملی میٹر پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ دیتی اور آج ہر افغانی کہسار پر ، بھارت کے ہندووں، امریکہ کے ز ائینسٹوں، جاپان کے ٹیکنالوجی دانوں، برطانیہ کے شرلاک ہوموں، جرمنی کے ہٹلروں ، پاکستان کے میر جعفروں اور ماں فروشوں ، ایران کے رافضیوں، سعودی عرب و اردن کے تخت پجاریوںاور باقی دنیا کے طورماخانوں کی کامیاب شرارتوں کے چم چم کرتے سائن بورڈ نظر آتے۔امریکی کاغذوں پر دجالی آنکھیں چھاپ چھاپ کر خود کنگال ہو گئے ، امریکی جہاز بہترین امریکی لوہا افغانستان کے پہاڑوں اور ڈائمنڈ سے سخت افغانی مومنوں پر برسا برسا کر ا ب خود بھی گرنے لگے ۔بھارت کے بنییوں نے شودروں، مسلمانوں اور دوسری قوموں کا خون چوس چوس کر اور خود پاک صاف پانی کے بجائے گائے کے غلیظ پیشاب پر گزارا کر کے جو دولت کے انبار اکٹھے کیے تھے افغانستان کی بھٹی میں جھونک دیے ۔ جاپانیوں نے اپنی نیندیں حرام کر کے سولہ سولہ اور بیس بیس گھنٹے دن رات محنت کی اپنی دس اور گیارہ سال کی ننھی منھی معصوم بیٹیوں اور بیٹوں کی عزتیں نیلام کیں اور اسطرح سے حاصل ہونے والے ین امریکیوں اور کرزئی کو افغانستان میں صرف ایک جاپانی ترنگا لہرانے کیلیے امداد اور قرض کے نام پر دیے۔ مگر افسوس یہ ترنگا بھی نہ توآج تک ٹھیک طرح سے لہرا سکا اور نہ ہی مستقبل میں اِس کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ دنیا کا کونسا ایسا ملک ہے اور کونسی ایسی قوم ہے جس نے کرزئی کیلیے اپنی جانیں اور مال و زر نہ لوٹایا ہو، مگر افسوس کرزئی آج تک کابل سے باہر کسی ایک بھی باطلی قوت کا ترنگا عزت و وقار کے ساتھ نہ اونچا کر سکا۔ تمام پڑوسی ملکوں کی اخلاقی، سیاسی اور عسکری امداد، دنیا کے سب سے خوفناک اور دہشتناک ہتھیاروں کی بالکل مفت سپلائی ، دنیا کی انتہائی تربیت یافتہ اور بہادرچالیس ممالک کی افواج کی فراوانی، دنیا میں مانی جانے والی انٹیلیجنس ایجنسیوں (CIA, MOSAD, RAW,ISI) کے چلاک، مکار اور ذہین ترین افراد کی چوبیس گھنٹے مکمل اطاعت کے ساتھ خدمات بھی آج تک کرزئی کوفتح نہ دلا سکیں۔ خود تو کرزئی انھیں پڑوسی ملکوں کے دورے کرتا ہے، ان کامال و زر کھاتا ہے، ان کے ہاں سفارت خانے اور قونصل خانے کھولتا ہے اور اپنے ہاں ان کی ضیافتیں کرتا ہے، ان کے مکار لوگوں اور اپنے احمق لوگوں کی کانفرنسیں منعقد کرواتا ہے اور ہم پر یہ الزام کہ ہم ان ممالک میں بیٹھ کر مقدس جہادی فریضے کی پلاننگ کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی ناکامیوں اور نااہلیت پر پردہ ڈالنے کیلیے اکثر ایسا شوروغل کرتا رہتا ہے اور یہ بات اْس کے مالکوں یعنی امریکی زائنسٹوں کو بھی پتہ ہے۔
جہاں تک غیر افغان مجاہدین کی ہمارے ہاں موجودگی کا تعلق ہے تو ہمارا اْن کے بارے میں یہ بیان ہے۔ سرحدی علاقوں میں کچھ تہذیب یافتہ اور دینی شعور و ذمہ داری سے آشنا نوجوانوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ اسلام کی سب سے بڑی عبادت، ابراہیم اور محمد رسول اللہ () کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی جا ن کی قربانی پیش کریں اور جہاد جیسی عظیم عبادت کا ثواب حاصل کریں۔ ان نوجوانوں کو یہ شوق اور جذبہ اپنے آباؤاجداد سے وراثت میں ملا ہے اور اگر ہم اس علاقے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ وراثت کئی صدیوں سے نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ انہی کے آباؤاجداد نے برطانوی سامراج کے خلاف افغان جہاد میں بھر پور حصہ لیا تھا اور دو دہائیوں پہلے انہی لوگوں نے روسی استعمار کے خلاف بھی یہ مقدس فریضہ انجام دیا تھا۔انھوں نے قابضین کے خلاف پورے جوش اور جذبے سے جنگیں لڑی ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں میں جہادی جوش اور ولولہ آج بھی اْسی طرح پایا جاتا ہے اور وہ اِس کام کیلیے دن رات بیتاب رہتے ہیں کہ کب انھیں مجاہدین کی مدد کرنے کا موقع ملے گا اور اسطرح وہ اللہ کی آیتوں کو بلند کر سکیں گے۔ ہم اپنے طور پر جہاد میں ان کی شمولیت کی حمایت کرتے ہیں اور اِس کو ایک مذہبی ڈیوٹی سمجھ کر پوری دل جمعی اور خشوع و خضوع سے ادا کر تے ہیں۔
سوال:۔ ماشاءاللہ، بہت بہت خوب شیخ حقانی صاحب! کچھ عرصے سے سرحدی علاقوں میں وحشیانہ امریکی بمباری کی وجہ سے سینکڑوں معصوم مسلمانوں کی شہادتیں واقع ہوئی ہیں اور ان کے گھر اور املاک بھی تباہ ہوئی ہیں۔آپ کے خیال میں اِس کا بنیادی سبب کیا ہے؟
جواب:۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ امریکی جاحیت کی وجہ سے پوری دنیا کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ اِس نے افغانستان پر حملہ کیا ہے اور عراق کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ اسی طرح فلسطین اور صومالیہ کے لوگ اس کے ظلم اور ناانصافی کا شکار ہیں۔ درحقیقت دنیا کے لوگ کہیں نہ کہیں اکثر امریکی ظلم و استحصال کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود امریکی عوام بھی اپنی حکومت اورلیڈروں کی ناکام عیارانہ سازشوں اور منصوبوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اور دوسرے ملکوں میں تجارت، سیاحت یا کھیلوں کے مقابلوںمیں حصہ لینے کیلیے، سفر کے دوران بھی امریکی عوام کو اپنی جان کا خطرہ رہتا ہے اور اسکی واحد وجہ اِن کے حکمرانوں کی جانب سے مظلوم اقوام کے خلاف کیے جانے والے گھنائونے جرائم اور استحصالی پالیسیاں ہیں۔امریکی سیاستدانوں کی خود امریکہ کے اندر لاگو کی جانے والی ڈریکونی پالیسیوں کی وجہ سے بھی امریکی عوام کا جینا دو بھر ہو گیا ہے اور وہ خود امریکہ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔
اِس وقت دنیا میں پیدا ہونے والے عالمی معاشی بحران کے پیچھے بھی انھی لالچی امریکی حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔لہذا وہ تمام لوگ جنھوں نے امریکی پالیسیاں اپنائیں اور امریکیوں کے پیچھے چلے اس بحران کا مزہ چکھیں گے۔ شکست خوردہ امریکی پالیسی پر عمل کرنے کی وجہ سے آج افغانستان سے باہر بھی جگہ جگہ مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ ہمیں اس بارے میں کافی تشویش لاحق ہے کہ اگر امریکہ کی شیطانی پالیسیوں اور منصوبوں پر یونہی عمل ہوتا رہا تو بہت جلد دنیا کا ایک بڑا حصہ آگ اور خون کی لپیٹ میں آ جائیگا۔ یہی انتشار، بدامنی اور آگ و خون کا وہ کھیل ہے جو امریکہ مسلم علاقوں میں کھیلنا چاہتا ہے۔
سوال:۔ امریکہ میں منعقد ہونے والے الیکشن اور اِن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اوباما کی زیرِ قیادت فتح کو آپ کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، اور اس کے افغانستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب:۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں دراصل کفر ایک ہی ذات ہے اور کفار مسلمانوں کے خلاف اپنی پالیسی کبھی تبدیل نہیں کرتے، ان میں صرف شخصیات تبدیل ہوتی ہیں۔ لہذا اوباما کی افغانستان پالیسی بھی بش کی افغان پالیسی ہی کا تسلسل ہے۔ جہاں تک مستقبل میں پیش آنے والے حالات کا تعلق ہے تو ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا امریکی بش کی شکست خوردہ پا لیسیوں سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں یا احمقوں کی طرح اْسی پرانی لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ امریکی عوام نے اوباما پر اعتماد کیا ہے اور اسے اپنے ملک کا صدر منتخب کیاہے تو اْسے چاہیے کہ امریکی عوام کو اْس منافقت، جھوٹ ، اندھیرے اور تباہی کی طرف جانے والے راستے سے نکالے جس پر شیطان بش نے اْن کو دھکیل دیا ہے۔
سوال:۔ ایک وقت تھا جب مسلم امہ دنیا کی قیادت کر رہی تھی اور اس امت کو سپر پاور کی حثییت حاصل تھی۔ آج امت غلامی، مظلومیت اور تنگدستی کا شکار ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ماضی جیسی شان و شوکت اور عزت حاصل کرنے کیلیے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:۔ اللہ تعالیٰ کے آفاقی قوانین کی روشنی میں امت کی سربلندی کا واحد ذریعہ جہاد فی سبیلِ اللہ ہے اور اس کام کیلیے خلوصِ دل سے کوشش اور عمل کرنا ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہیے اور قرآن و سنت پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ اگر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شان وشوکت اور عزت واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں جہاد فی سبیل اللہ کرنا پڑے گا۔ اْن کی عزت، عظمت اور آزادی جہاد ہی سے وابستہ ہے۔ اور جہاد کی کامیابی کا راز آپس کی تقسیم اور جھگڑوں سے بچنا اور اپنی صفحوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔
السمود: اختتامی کلمات میں ہم شیخ قائد مولوی جلالدین حقانی کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اْن کی حفاظت فرمائے، انھوں نے ملاقات کیلیے ہمیں یہ موقع عطا فرمایا۔ ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اللہ سے دعاگو ہیں کہ اللہ انھیں کافروں کے شر سے اور مشرق و مغرب میں موجود مرتدین کے شرسے محفوظ رکھے۔