نیب آرڈینینس کا سیکشن نائن (۹) حکومتی عہدیدار کی کرپشن سے متعلق ہے اور نیب کی طرف سے عدالت میں نوازشریف اور اس کے اہل خانہ پر جو ریفیرنس قائم کئے گئے وہ اسی سیکشن کی دفعہ چار اور دفعہ پانچ کے حوالے سے تھے۔
سیکشن ۹ دفعہ چار کے مطابق:
حکومتی عہدہ رکھنے والا یا اس کا کوئی رشتے دارکرپشن میں ملوث تصور ہوگا اگر وہ غیرقانونی طریقے سے کوئی جائیداد یا قیمتی شے اپنی ملکیت میں رکھتا ہو
سیکشن ۹ دفعہ پانچ کے مطابق:
حکومتی عہدہ رکھنے والا یا اس کا کوئی رشتے دار کرپشن میں ملوث تصور ہوگا اگر وہ غیرقانونی طریقے سے کوئی بے نامیدار پراپرٹی یا ٹائٹل رکھتا ہو اور اس کے اثاثوں کی قیمت اس کی ظاہر کردہ آمدن سے زائد ہو۔
نیب نے نوازشریف کو جو سزا سنائی وہ سیکشن ۹ کی دفعہ پانچ کے تحت تھی کیونکہ جو اثاثے اس کے خاندان کے پاس تھے، وہ اس کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اپنی آمدن دکھانے کی بجائے اس نے صرف قطری خط دکھایا اور آخری دنوں اس سے بھی مکر گیا۔
سیکشن ۹ کی دفعہ چار کے تحت الزام معطل کردیا گیا کیونکہ لندن پراپرٹیز نوازشریف کی بجائے آفشور کمپنی کے نام تھیں، اس لئے جب تک برطانیہ اور بی وی آئی کی حکومتیں آفشور کمپنی کی ۱۹۹۳ کی ملکیت نہ بتادیں، اس سیکشن کو اپلائی کرنا مشکل ہے۔
آمدن سے زائد اثاثے بہرحال ثابت ہوگئے کیونکہ نوازشریف کی اولاد نے لدنن فلیٹس پر ملکیت تسلیم کرلی تھی، یوں نیب کے سیکشن ۹ کی دفعہ ۵ کے تحت نوازشریف پر کرپشن ثابت ہوگئی۔ اگر سیکشن چار بھی لگ جاتا تو اس کی سزا کم سے کم چودہ برس یا اس سے بھی زیادہ ہوتی۔
جو جاہل کھوتی کا بچہ یہ کہے کہ نوازشریف کو کرپشن پر سزا نہیں ہوئی، اس کے منہ پر یہ پوسٹ دے ماریں!!! بقلم خود باباکوڈا