۔ ہیروز کیوں نہیں ہیں . حکیم اللہ محسود (شہید بقول اوریا مقبول) کو اپنا قومی ہیرو بنایا جا سکتا ہے . ہزاروں پاکستانی شہری مرد عورتوں، بچوں کو بازاروں، مارکیٹوں، مساجد، امام بارگاہوں، مزارات پر خود کش بم دھما کوں کے ذریعے زبحہ کرنے والا حکیم اللہ محسود اوریا مقبول جان اور ہمارا قومی ہیرو کیوں نہیں ہو سکتا؟؟؟؟
اسی طرح امت مسلمہ کا ایک ہیرو امیر المومنین ملا عمر مجاہد ( بقول اوریا )ہو سکتا ہے. وہی ملا عمر جس نے القاعدہ ، ازبکستان موومنٹ ، ایسٹ ترکستان موومنٹ اور لشکر جھنگوی سمیت دنیا کے تمام ممالک میں دہشت گرد انہ کاروائیوں میں مصروف 'مجاہدین' کو افغانستان میں پناہ دی ہوئی تھی اور جن مجاہدین کے ہاتھ اسلامی ممالک میں ہزاروں مسلمان شہریوں کے ناحق خون سے رنگے ہوے تھے . جو اپنے ملک میں ہزارہ کے شیعوں کے قتل عام کا مسٹر مائنڈ تھا . جو امریکہ سمیت ان سب ممالک میں دہشت گردانہ کاروائیوں سے انہیں زچ کرتا رہا لیکن جب وہ ملا عمر کی سرکوبی کیلیے افغانستان پر حملہ آور ہوے تو اپنے ہم وطن شہری مردوں عورتوں بچوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ نکلا
امت مسلمہ کا دوسرا ہیرو اسامہ بن لادن شہید رحمہ اللہ (بقول اوریا ) کو بنایا جا سکتا ہے، جس کی کہانی اوپر ملا عمر سے تقریبا ملتی جلتی ہے
اوریا کے تینوں ہیروز میں مشترکہ بات ہزاروں معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہاتھ ہیں. لہٰذا اس خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوے ابوبکر البغدادی، بوکو حرام کا ابوبکر شیخو، ٹی ٹی پی کا ملا فضل اللہ سمیت درجنوں خونخوار بھیڑیوں کو ہیروز بنایا جا سکتا ہے.لہٰذا، ہیروں کی کوئی کمی نہیں، بشرطیکہ ڈھونڈنے والا اوریا کی طرح کا جو ہر شناس ہو