ریاض مسرور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
فوجی محاصرے کے باوجود وادی میں احتجاج ہوا ہے
بھارت کے زیر انتظام وادی کشمیر میں دوروز سے جاری سخت ترین فوجی محاصرے کے دوران مختلف مقامات پر لوگوں نے کرفیو توڑنے کی کوشش کی تاہم پولیس اور فوج نے انہیں منتشر کردیا ہے۔
سکیورٹی فورسز کاروائیوں میں دو نوجوان شدید طور پر زخمی ہوگئے ہیں۔ محاصرہ توڑنے کی بیشتر کوششیں شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جنوبی ضلع اننت ناگ میں ہوئی ہیں۔
اس دوران سوپور میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک پچاس سالہ خاتون نے اُسوقت دم توڑ دیا جب ایک ایمبولینس جس میں اسے ہسپتال لے جایا جارہا تھا، کو نیم فوجی دستوں نے ماڈل ٹاؤن کے قریب چاروں طرف سے گھیر لیا۔ تاہم سرکاری ترجمان نے محکمہ صحت کے اہلکاروں کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ خاتون پہلے سے ہی مردہ تھیں۔
بارہمولہ کے ہی پٹن قصبہ میں بدھوار کی شام لوگوں کی بڑی تعداد نے فوجی محاصرہ کے خلاف سرینگر، مظفرآباد شاہراہ پر دھرنا دیا۔ مقامی باشندہ تصدق احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ جب فوج اور نیم فوجی دستوں کا ایک مشترکہ کارواں وہاں سے گزرا تو فوجی اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جس پر لوگوں نے مزاحمت کی۔
فوج کشت کے دوران جدید اسلحوں کی نمائش کر رہی ہے
اس کے بعد فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور دو کلومیٹر تک ان کا تعاقب کیا۔ تصدق کا کہنا ہے کہ فورسز نے کئی مکانوں کے شیشے توڑ دئے اور درجنوں باشندوں کو زدکوب کیا۔ زخمیوں میں سے گوشہ بگ کے رہنے والے شوکت احمدیتو اور محمد شفیع صوفی کو نیم مردہ حالت میں سرینگر کے صدر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
دریں اثنا جمعرات صبح کو بارہمولہ کے ہی رفیع آباد علاقہ میں سینکڑوں لوگوں نے فوجی محاصرہ کے خلاف ایک جلوس نکالا اور شاہراہ پر دھرنا دیا۔ مقامی انتظامیہ انہیں منتشر ہونے کے لئے آمادہ کررہی ہے۔ بارہمولہ کے شہری اشفاق احمد نے بتایا کہ بدھ کو دیر رات قصبہ سے جارہی ایک بارات کو فوج نے روکا اور دولہا دلہن سمیت درجنوں افراد کو رات کے دو بجے تک حراست میں رکھا۔ بعد میں انہیں جانے دیا گیا۔
اُدھر بانڈی پورہ ضلع میں بھی لوگوں نے فوجی محاصرہ کے خلاف مظاہرے کئے تاہم پولیس نے شدید شیلنگ کرکے انہیں منتشر کردیا۔ اس واقعہ میں دو شہری اور مقامی پولیس افسر شمشیر سنگھ کو چوٹیں آئی ہیں۔
جنوبی کشمیر کے اننت ناگ، پلوامہ، کولگام اور شوپیان میں سخت کرفیو اور مسلسل فوجی گشت کی وجہ سے عام زندگی معطل ہے۔ اننت ناگ کے مٹن، دیالگام اور سنگم میں لوگوں نے محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تاہم انہیں منتشر کیا گیا۔ ان کوششوں کے بعد محاصرہ مزید سخت کردیا گیا۔
اِدھر سرینگر میں جنگ کے لئے مخصوص فوجی گاڑیاں (آرمرڑ وہیکلز) شہر کی شاہراہوں کا گشت کررہی ہیں۔ ان گاڑیوں پر جدید ہتھیار نصب ہیں اور فوجی اہلکاروں نے سروں پر سیاہ نقاب اور آنکھوں پر خاص قسم کے کالے چشمے پہن رکھے ہیں۔ حکام نے بدھ کو ہی میڈیا سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی تھی جس کے باعث سرینگر سے کوئی بھی اخبار شائع نہیں ہوسکا۔
کشمیری صحافی اور فوٹوگرافر گھروں تک محدود ہوکر رہے گئے ہیں۔ حالیہ پولیس کاروائیوں میں گیارہ فوٹو جرنلسٹ زخمی ہوگئے ہیں۔
اس دوران وکلا کی انجمن کشمیر بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کو پولیس نے شبانہ چھاپے کے دوران گرفتار کرلیا جس کے بعد انتظامیہ نے انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیجنے کا حکم جاری کردیا۔ وکلا نے مسٹر قیوم کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے اور عدالتوں میں غیرمعینہ عرصہ تک بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
کشمیر ڈاکڑوں اور میڈیکل کالج کے طلبا نے جمعرات کی صبح شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے احاطے میں حالیہ ہلاکتوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ فوجی محاصرہ کی وجہ سے صحت عامہ کا شعبہ متاثر ہوا ہے اور ہنگامی صورتحال میں ایمبولینس کی نقل و حمل بھی مشکل ہوگئی ہے۔
واضح رہے حکومت ہند میں نائب وزیر دفاع ایم ایم پلّم راجو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیر کے شاہراہوں پر امن قائم ہوجانے تک فوج موجود رہے گی۔ سرینگر میں تعینات فوج کی پندرہویں کور کے ترجمان لیفٹنٹ کرنل ایچ ایس برار نے بی بی سی کو بتایا: '' ہم لوگ پولیس اور نیم فوجی دستوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں، اگر کہیں مظاہرے ہونگے تو ان کا مقابلہ پولیس یا نیم فوجی دستے کریں گے۔''
واضح رہے گیارہ جون سے چھہ جولائی تک کا بیشتر عرصہ کرفیو اور ہڑتالوں کی نذر ہوگیا اور چھہ جولائی کو حالات بے قابو ہوجانے پر فوج طلب کرلی گئی ۔ اس عرصہ میں مظاہرین کے خلاف پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مختلف کاروائیوں میں پچیس سالہ خاتون اور نوسالہ بچے سمیت پندرہ نوجوان ہلاک ہوچکے ہیں۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر

بھارت کے زیر انتظام وادی کشمیر میں دوروز سے جاری سخت ترین فوجی محاصرے کے دوران مختلف مقامات پر لوگوں نے کرفیو توڑنے کی کوشش کی تاہم پولیس اور فوج نے انہیں منتشر کردیا ہے۔
سکیورٹی فورسز کاروائیوں میں دو نوجوان شدید طور پر زخمی ہوگئے ہیں۔ محاصرہ توڑنے کی بیشتر کوششیں شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جنوبی ضلع اننت ناگ میں ہوئی ہیں۔
یہ قبضہ ہے۔۔۔
ارون دھتی رائے
- انٹرویو سنیں سنئیےدورانیہ: 09:33
اس دوران سوپور میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک پچاس سالہ خاتون نے اُسوقت دم توڑ دیا جب ایک ایمبولینس جس میں اسے ہسپتال لے جایا جارہا تھا، کو نیم فوجی دستوں نے ماڈل ٹاؤن کے قریب چاروں طرف سے گھیر لیا۔ تاہم سرکاری ترجمان نے محکمہ صحت کے اہلکاروں کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ خاتون پہلے سے ہی مردہ تھیں۔
بارہمولہ کے ہی پٹن قصبہ میں بدھوار کی شام لوگوں کی بڑی تعداد نے فوجی محاصرہ کے خلاف سرینگر، مظفرآباد شاہراہ پر دھرنا دیا۔ مقامی باشندہ تصدق احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ جب فوج اور نیم فوجی دستوں کا ایک مشترکہ کارواں وہاں سے گزرا تو فوجی اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جس پر لوگوں نے مزاحمت کی۔

اس کے بعد فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور دو کلومیٹر تک ان کا تعاقب کیا۔ تصدق کا کہنا ہے کہ فورسز نے کئی مکانوں کے شیشے توڑ دئے اور درجنوں باشندوں کو زدکوب کیا۔ زخمیوں میں سے گوشہ بگ کے رہنے والے شوکت احمدیتو اور محمد شفیع صوفی کو نیم مردہ حالت میں سرینگر کے صدر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
دریں اثنا جمعرات صبح کو بارہمولہ کے ہی رفیع آباد علاقہ میں سینکڑوں لوگوں نے فوجی محاصرہ کے خلاف ایک جلوس نکالا اور شاہراہ پر دھرنا دیا۔ مقامی انتظامیہ انہیں منتشر ہونے کے لئے آمادہ کررہی ہے۔ بارہمولہ کے شہری اشفاق احمد نے بتایا کہ بدھ کو دیر رات قصبہ سے جارہی ایک بارات کو فوج نے روکا اور دولہا دلہن سمیت درجنوں افراد کو رات کے دو بجے تک حراست میں رکھا۔ بعد میں انہیں جانے دیا گیا۔
اُدھر بانڈی پورہ ضلع میں بھی لوگوں نے فوجی محاصرہ کے خلاف مظاہرے کئے تاہم پولیس نے شدید شیلنگ کرکے انہیں منتشر کردیا۔ اس واقعہ میں دو شہری اور مقامی پولیس افسر شمشیر سنگھ کو چوٹیں آئی ہیں۔
سرینگر میں جنگ کے لئے مخصوص فوجی گاڑیاں (آرمرڑ وہیکلز) شہر کی شاہراہوں کا گشت کررہی ہیں۔ ان گاڑیوں پر جدید ہتھیار نصب ہیں اور فوجی اہلکاروں نے سروں پر سیاہ نقاب اور آنکھوں پر خاص قسم کے کالے چشمے پہن رکھے ہیں۔ حکام نے بدھوار کو ہی میڈیا سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی تھی جس کے باعث سرینگر سے کوئی بھی اخبار شایع نہیں ہوسکا۔
جنوبی کشمیر کے اننت ناگ، پلوامہ، کولگام اور شوپیان میں سخت کرفیو اور مسلسل فوجی گشت کی وجہ سے عام زندگی معطل ہے۔ اننت ناگ کے مٹن، دیالگام اور سنگم میں لوگوں نے محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تاہم انہیں منتشر کیا گیا۔ ان کوششوں کے بعد محاصرہ مزید سخت کردیا گیا۔
اِدھر سرینگر میں جنگ کے لئے مخصوص فوجی گاڑیاں (آرمرڑ وہیکلز) شہر کی شاہراہوں کا گشت کررہی ہیں۔ ان گاڑیوں پر جدید ہتھیار نصب ہیں اور فوجی اہلکاروں نے سروں پر سیاہ نقاب اور آنکھوں پر خاص قسم کے کالے چشمے پہن رکھے ہیں۔ حکام نے بدھ کو ہی میڈیا سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی تھی جس کے باعث سرینگر سے کوئی بھی اخبار شائع نہیں ہوسکا۔
کشمیری صحافی اور فوٹوگرافر گھروں تک محدود ہوکر رہے گئے ہیں۔ حالیہ پولیس کاروائیوں میں گیارہ فوٹو جرنلسٹ زخمی ہوگئے ہیں۔
اس دوران وکلا کی انجمن کشمیر بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کو پولیس نے شبانہ چھاپے کے دوران گرفتار کرلیا جس کے بعد انتظامیہ نے انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیجنے کا حکم جاری کردیا۔ وکلا نے مسٹر قیوم کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے اور عدالتوں میں غیرمعینہ عرصہ تک بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
کشمیر ڈاکڑوں اور میڈیکل کالج کے طلبا نے جمعرات کی صبح شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے احاطے میں حالیہ ہلاکتوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ فوجی محاصرہ کی وجہ سے صحت عامہ کا شعبہ متاثر ہوا ہے اور ہنگامی صورتحال میں ایمبولینس کی نقل و حمل بھی مشکل ہوگئی ہے۔
واضح رہے حکومت ہند میں نائب وزیر دفاع ایم ایم پلّم راجو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیر کے شاہراہوں پر امن قائم ہوجانے تک فوج موجود رہے گی۔ سرینگر میں تعینات فوج کی پندرہویں کور کے ترجمان لیفٹنٹ کرنل ایچ ایس برار نے بی بی سی کو بتایا: '' ہم لوگ پولیس اور نیم فوجی دستوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں، اگر کہیں مظاہرے ہونگے تو ان کا مقابلہ پولیس یا نیم فوجی دستے کریں گے۔''
واضح رہے گیارہ جون سے چھہ جولائی تک کا بیشتر عرصہ کرفیو اور ہڑتالوں کی نذر ہوگیا اور چھہ جولائی کو حالات بے قابو ہوجانے پر فوج طلب کرلی گئی ۔ اس عرصہ میں مظاہرین کے خلاف پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مختلف کاروائیوں میں پچیس سالہ خاتون اور نوسالہ بچے سمیت پندرہ نوجوان ہلاک ہوچکے ہیں۔