عاطف میاں قادیانی کو اقتصادی مشیر بنانے پر اس قدر واویلا کیوں ؟
تحریر :مفتی رضوان اللہ حقانی
فیس بک کے کچھ ساتھی تعجب کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ اگر عمران خان نے عاطف میاں (مشہور قادیانی مبلغ اور مرزا مسرور کے مالیاتی مشیر) کو پاکستان کی اقتصادیات کا مشیر بنا لیا تو کیا ہوا؟
کیا وہ پاکستانی نہیں؟ اور کیا پاکستان میں کوئی غیرمسلم عہدیدار نہیں بن سکتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قادیانیوں کے علاوہ دیگر غیر مسلم اقلیت مثلا ہندو سیکھ عیسائی وغیرہ, پاکستان کے چند اہم عہدوں ( صدر وزیراعظم ارمی چیف وغیرہ )کے علاوہ دیگر عہدوں پر تعینات ہوسکتا ہے ۔لیکن قادیانیوں کامعاملہ دیگر اقلیتوں سے جدا ہے
آپ لوگوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک ہندو جج رانا بھگوان داس کو دیکھا کہ قائم مقام چیف جسٹس بنے، اور پورا پاکستانی معاشرہ ان کا احترام کرتا تھا۔
مشہور کرکٹرز دانش کنیریا اور یوسف یوحنا جو کہ پہلے عیسائی تھے(اور بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) کرکٹ ٹیم میں کھیلے، کسی نے اعتراض نہیں کیا، بلکہ عزت و احترام دیا۔ اس طرح کی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔
لیکن قادیانیت کا ایشو ذرا مختلف ہے، ایک تو یہ کہ دوسرے غیر مسلم خاتم النبیین ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ نہیں مارتے اسی لیے کوئی خود کو ہندو کہتا ہے کوئی عیسائی کہلاتا ہے اور کوئی سیکھ۔ اور وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی نہیں کہتے۔
جبکہ قادیانیوں کا اصرار ہے کہ وہ نبی تو مرزا قادیانی کو مانیں گے مگر کہلوائیں گے مسلمان
اس لحاظ سے وہ پاکستان کے دستور کو بھی نہیں مانتے۔ جس میں ختم نبوت کے منکر اور مرزا قادیانی ملعون کو نبی ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ اگر عمران خان عاطف میاں قادیانی کو مشیر لگاتا ہے تو پہلے اس سے اقرار کروانا چاہیے کہ وہ پاکستانی آئین کو مانتا ہے یا نہیں۔ اگر اقرار کر لے تو بڑا اعتراض ختم ہو جائے گا۔ اگر وہ پاکستانی آئین سے انکار کرے تو پھر آئین کو تسلیم نہ کرنے والے شخص کو کیسے مشیر لگایا جا سکتا ہے۔
عاطف میاں قادیانی کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ مرزا مسرور کا مالیاتی مشیر ہے۔
لندن میں مرکز قادیان کا انچارج برائے مالیاتی امورہے اور افریقہ میں قادیانی تبلیغی مشن کا انچارج بھی ہے۔
اتنی اہم ذمہ داریوں پر فائز شخص ایک ایسی اسلامی ریاست کے ساتھ جو اس کو کافر سمجھتی ہے، کیسے وفادار ہوسکتا ہے۔
جبکہ اس کے ہم مذہب دیگر قادیانی اس ریاست کو ظالم سمجھتے ہیں۔
ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ قادیانیوں کے اتنے اہم فرد کی وفاداریاں پہلے نمبر پر اپنے جھوٹے نبی، اور اس کے جھوٹے خلیفہ سے ہوگی، یا اسلامی جمہوریہ پاکستان سے، جو اس کے من گھڑت نبی کو جھوٹا اور اس کو ماننے والوں کو کافر قرار دیتا ہے۔
اس سے پہلے بھی صدر ایوب خان کے دور ایک قادیانی ایم ایم احمد منصوبہ کمیشن کا ڈپٹی چیئرمین رہ چکا ہے جس نے ایوب خان کو رپورٹ بنا کر دی تھی کہ اگر مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا جائے تو پاکستان تیزی سے ترقی کر سکتا ہے، اور پھر 1971ء میں ایسا ہی ہوا۔
ایک اور قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کو پاکستان نے عزت دی مگر ملک عزیز پاکستان میں قادیانیت کی آئینی ترمیم کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور مرتے دم تک پاکستان پر لعنت بھیجتے رہے۔
تحریک انصاف کے دوستوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ روز محشر آنحضورﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ سیاسی پارٹی کا لیڈر تو بس ایک دنیاوی لیڈر ہے،
مگر آنحضورﷺ سے جب تک اپنی ذات سے بھی زیادہ محبت نہ کی جائے، اس وقت تک ایمان ہی مکمل نہیں ہو سکتا۔
عمران خان صاحب سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ پہلے اپنے ایمان قبر اور آخرت کی فکر کریں۔حکومت آنی جانی چیز ہے۔ اور عمران خان سے محبت کرنے والوں سے گزارش کرتا ہوں کہ فقط سیاسی پارٹی کی حمایت میں ہر بات کی تاویل نہ کریں ۔
آج کل سیاسی پارٹیوں کے ورکروں میں یہ بیماری بہت زیادہ پھیل گئی ہے کہ چاہے پارٹی لیڈر کچھ بھی کریں ورکر نے لیڈر کے ہر کام کو ضرور درست قرار دینا ہے۔
شعور نام کی کوئی چیز نہ رہی ۔ اللہ ﷻ کا خوف
بالکل ختم ہوگیا ہے۔ انتہائی نازک مسائل پر بھی ہر کس و ناکس دینی تبصرے کررہا ہوتا ہے حالانکہ اس کے دینی علم کا حال یہ ہوتا ہے کہ دعاء قنوت (الہم انانستعینک) کا ترجمہ بھی صحیح طرح نہیں آتا۔
یاد رکھیں بغیر علم دینی امور پر بحث کرنا ایمان کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔
عزیز بھائیوں قادیانیوں کا حکم دوسرے کافروں کی طرح نہیں۔ دوسرے کافر اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے جیسے سکھ ھندو یھودی عیسائی وغیرہ انکے ساتھ دلی دوستی رکھے بغیر کاروبار اور کھانا پینا اور دیگر دنیاوی معاملات جائز ہے جب کہ قادیانی کافر ہونے کے باوجود خود کو مسلمان کہتے ہیں ۔اس لئے ان کا حکم عام کافروں کی طرح نہیں بلکہ ان کا حکم زندیق اور مرتد کا ہے اس لئے ان کے ساتھ ہر طرح کے معاملات ناجائز ہے۔