آج پھر الیکشن کمیشن نے نواز شریف کو نااہل نہیں کیا
خبر آئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے شہریوں کی جانب سے دائر کی گئی وزیراعظم کی نااہلی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ درخواست گزار منظور بھٹی کا کہنا تھا کہ غریب افراد کو علاج کی سہولت نہیں تو وزیراعظم کیسے لندن علاج کرانے چلے گئے، وزیراعظم کے علاج پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے لہذا ان سے پوچھا جائے کس قانون کے تحت لندن سے علاج کرایا۔
ہماری رائے میں تو یہ ایک درست دعوی تھا۔ علاج کے علاوہ ہمارے ملک میں غریب آدمی کو نہ ذاتی گاڑی میسر ہے، نہ ہی اس کا اپنا گھر ہے، نہ ہی وہ ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے، جبکہ وزیراعظم کو یہ سب سہولتیں سرکاری خرچ پر میسر ہیں۔ اس لئے ہر وزیراعظم، وزیر اور ممبر پارلیمنٹ کو نااہل قرار دے دینا چاہیے۔ بلکہ ایسا کیا جائے کہ ہوائی اڈے پر الیکشن کمیشن والے ناکہ لگا کر کھڑے ہو جایا کریں۔ جیسے ہی کوئی رکن پارلیمنٹ یا وزیر وغیرہ جہاز سے اترتا دکھائی دے، فوراً پکڑ کر اسے موقعے پر ہی نااہل کر دیں۔
اگر وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ وہ یہ سب عیاشیاں اپنی جیب سے کرتے ہیں تو پھر ہمارے انصاف پسند خیال میں اس سے بھی یہی ثابت ہو حانا چاہیے کہ وہ پاناما میں ملوث ہیں اور ان کو نااہل کر دینا چاہیے۔ ان کا بیان ہے کہ ان کا بیٹا ان کو کئی کروڑ سالانہ بینکنگ چینل سے بھیجتا ہے۔ ہمیں یہ بیان قطعی غلط اور خلاف حقیقت لگتا ہے۔ ملک میں بھلا کتنے غریب ہیں جن کے بیٹے ان کو کروڑوں روپے اندرون ملک یا بیرون ملک سے بھِیجتے ہیں؟ نواز شریف کو نااہل کیا جانا چاہیے تھا۔
اس الیکشن کمیشن سے تو ہمیں انصاف کی توقع ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اس نے انصاف کرنا ہوتا تو پہلے دن ہی نواز شریف کو نااہل قرار دے دیتا۔ کیسی سادگی سے الیکشن کمیشن نے کہہ دیا ہے کہ وزیراعظم کے علاج سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، اس معاملے پر عدالت سے رجوع کریں۔ محض معاملے کو دبانے کے لئے الیکشن کمیشن نے درخواست کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ثبوت کی عدم موجودگی میں وہ نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے قاصر ہے۔
ہر صاحب فہم اور انصاف پسند شخص جانتا ہے کہ ثبوت تلاش کرنا الزام لگانے والے کی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن ایک مکمل طور پر بااختیار ادارہ ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ مکمل تحقیقات کرتا۔ ہمیں یقین ہے کہ اسے نواز شریف کے خلاف کوئی نہ کوئی ثبوت مل جاتا۔ ہمارا دل کہتا ہے کہ نواز شریف کرپٹ ہے اور کہیں نہ کہیں اس کے خلاف ایسے ثبوت موجود ہوں گے جو کہ عدالت میں اسے مجرم ثابت کر سکیں۔
دوسری طرف ایک شریر شخص نے، جو کہ ہمیں نواز شریف کا حامی، جمہوریت کا دشمن اور ملکی ترقی کا مخالف دکھائی دے رہا ہے، عمران خان صاحب جیسے عظیم اور پاک صاف لیڈر کے متعلق دعوی دائر کر دیا کہ شوکت خانم اسپتال کے لئے زکوة دی لیکن پیسے آف شور کمپنی میں لگا دیے گئے، عمران خان نے بہن کے نام پر آف شور کمپنی بنا رکھی ہے اور شوکت خانم کے لئے جمع ہونے والا پیسہ آف شور کمپنی میں خرچ ہوتا ہے لہذا زکوٰة کا پیسہ آف شور کمپنی میں لگانے پر عمران خان کو نااہل کیا جائے۔
اس پر الیکشن کمیشن نے اس سے پوچھ لیا کہ میاں، تم ایسے ہی ہوا میں دعوے کرتے پھر رہے ہو یا تمہارے پاس کوئی ثبوت بھی ہے؟ درخواست گزار سے کوئی جواب بن نہ پایا۔ عمران خان جیسے صاف شفاف شخص کے خلاف کوئی ثبوت ہو گا تو پیش کیا جائے گا۔ بغیر ثبوت کے تو عدالتیں کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ثبوت نہ ہونے پر عمران خان کے خلاف دائر کردہ درخواست کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ہمارا لیڈر ہے ہی ایسا کہ الیکشن کمیشن کو بھی اس کے خلاف ثبوت نہیں ملتا ہے۔ اب تو الیکشن کمیشن نے بھی عمران خان کو صاف قرار دے دیا ہے۔ امید ہے کہ مسلم لیگ نواز کے لوگ اب خوب شرمندہ ہوں گے کہ جس باکردار شخص کے خلاف ثبوت ہی نہیں ہے، اسے کیوں اس طرح بدنام کر رہے ہیں۔
Dost na udaas kiya karen dilon ko aisay insaan dushman tasawir share ker k. sab ko maloom hai k aisa ho raha hai par aisi taswereen bilkul us namak k jaise hoti hain jo zkhmon par dala jata hai!
عمران خان کو نہ ا ہل کرنے کو دل تو بہت للچایا ہو گا پر ہاتھی کو نہ اہل کرنے کی جرات نہ ہوئی اس لیے عمران خان کو بھی نہیں کیا لکھ دی لعنت غلاموں پر نواز شریف کا کوئی گراونڈ بنتا ہے نہ اہل نہ ہونے کا؟