پچھلے کچھ دنوں سے لوگوں کے ماسک اترنے شروع ہوئے
ابھی پچھلے بم دھماکے پر کئی روشن خیال احباب نے رولا ڈال دیا کہ مذہب کو نکال باہر کرو، اس نے فساد ڈالا ہوا ہے
اور اب وہی قرآن سے حوالے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے تھے کہ جب تک قوم خود اپنی انفرادی اور مجموعی، اخلاقی حالت، نہیں بدلے گی تب تک حکمرانوں سے سوال کرنے کا حق نہیں بنتا
اور جو مولوی تھے، وہ اس پانامہ والے کیس کو یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دے کر فارغ ہو گئے
جب بات اپنے فائدے (اس کیس میں ن لیگ پر آئی آفت دفع کرنے) کی آئی تو دین بیزار بھی دین کا ہی سہارا لینے لگے
اور تو اور وہ ج چوہدری کا کالم تو گویا آسمانی صحیفہ بن کے گردش کرنا شروع ہو گیا
اس سب میں مجھے سکول کے زمانے کی کتاب کا وہ واقعہ یاد آ گیا جب ایک بندے نے حضرت عمر :razi:کو سب کے سامنے کہا کہ آج ہم آپ کی کوئی بات نہیں مانیں گے جب تک آپ:razi: یہ نہ بتائیں کہ آپ نے کرتہ سلوانے کے لیے (مالِ غنیمت میں ملنے والا) کپڑا باقی سب کے حصوں سے زیادہ کیوں لیا
جواب میں حضرت عمر :razi:نے اپنی دین اورغزوات میں اپنی خدمات نہیں گنوانی شروع کر دیں ، نہ ہی سوال پوچھنے والے سے یہ پوچھا کہ تم نے زکواۃ دے دی ہے، تم خود کتنے نیک ہو، اپنی دین داری کا ثبوت پیش کرو ۔ ۔ بلکہ آپ نے سیدھا سیدھا بتا دیا کہ میرے بیٹے اپنے حصے میں سے کپڑا مجھے دیا
اور آج کے حکمران اور ان کے لیے عذر اور حجتیں گھڑنے والوں کو دیکھیں
اس سڑاند کو دیکھ کر گھن آتی ہے