PappuChikna
Chief Minister (5k+ posts)
brutal society.
hum ko nasmoos e risalat aur dawn leaks se time milay tou in khanma barbadoo kaa bhi sochein.
Children like flowers are trafficked inside the country to bigger cities where they are made to work as a domestic help in baray baray banglay of karachi lahore and where they are paid peanuts.
mein sochta hoon, woh kon log hotay hein, who employ these young children to take care of their own children. Patthar dill. How can they sleep in the nights?
I remember we used to have a siraiki maasi. She had little kids too. My mother used to teach them english urdu, maths and when they were good enough they were sent to a sarkari school near by. However, after some time maasi took them off from school and left at another house in our neighborhood. Maasi told us the other baji has said your kids will help us with her kids and her kid (who was in class 1 or something) will teach maasi who were 9-10 years old.
yaqeen manoo, these heat waves, this load shedding, soaring food prices, these shareefs, this insult we get from other countries of the world every other day is a direct azaaab of allah for our sins like these.
allah said he gave azaab to bani israel by imposing over them a brutal ruler.
پاکستان میں بچوں کی اندرون ملک سمگلنگ یا انٹرنل ٹریفکنگ کو روکنے کے لیے کسی قسم کا قانون موجود نہیں ہے۔
بچوں کے حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو استحصال کا سامنا ہے جس میں گھریلو ملازمین کے طور پر جبری مشقت سر فہرست ہے۔
’فیصل آباد کے رہائشی محمد اشرف اور ان کے بچے ایسے ہی ایک گروہ کے ہتھے چڑھے اور انھیں اب یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے بچے کس کے پاس اور کس شہر میں کام کرتے ہیں۔
محمد اشرف کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا گذشتہ آٹھ ماہ سے غائب ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ایک باجی ہمارے گھر آئیں اور کہا کہ بیٹے کو کام کے لیے انھیں دے دوں۔ انھوں نے ہمیں بدلے میں 20 ہزار روپے پکڑائے اور اس کے بعد آج تک میری بیٹے سے بات نہیں ہوئی۔'
انسانی حقوقی کی کارکن قدسیہ محمود کہتی ہیں کہ چائلڈ ٹریفکنگ کے بچوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیںان کا کہنا تھا کہ 'بیٹی بھی لاپتہ ہے۔ مجھے میرے دونوں بچوں کا نہیں پتہ کہ وہ کہاں پر ہیں، کس شہر یا کس کے گھر میں ہیں۔ باجی کو فون کرتا ہوں وہ فون نہیں اٹھاتی جو شحص انہوں ہمارے گھر لے کر آیا تھا وہ بھی فون نہیں اٹھا رہا۔'
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکن بچوں کو کام کی غرض سے اپنے گھر، اہل خانہ اور ماحول سے دور منتقل کرنے کو بچوں کی اندرون ملک سمگلنگ یا انٹرنل چائلڈ ٹریفکنگ قرار دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں کارکن قدسیہ محمود کہتی ہیں: 'حال ہی میں جو کیس سامنے آئے ہیں ان میں ہم نے یہی دیکھا کہ پہلے ایسے بچوں کو ان کے قریبی علاقے میں کام کے لیے بیچا گیا تھا۔ جس کے بعد پھر انھیں بڑے شہروں میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ سب ٹریفکنگ میں آتا ہے اور اس کے بچوں پر گہرے اثرات ہوتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا 'بچے کو کام کے لیے دوسرے شہر بھیجنے کا فیصلہ والدین کا ہوتا ہے اور بچے اکثر نہیں جانا چاہتے۔ پھر اس کے بعد بچوں سے کام کروانے کے لیے جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے اس سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ بچے کو محض اس کے گھر سے نکالنا بھی تو اس کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔'
محمد اشرف اکیلے نہیں ہیں جن کے بچے انٹرنل ٹریفکنگ کا شکار ہوئے۔ چند ماہ قبل ایک کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر اسلام آباد کی عدلیہ کے ایک رکن کے گھر میں تشدد کے واقعے نے ملک بھر میں سنسنی پھیلا دی تھی۔
طیبہ کے والدین نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ انھوں نے ایک ایجنٹ کے ذریعے اپنی بیٹی کو اپنے شہر فیصل آباد میں ایک گھر میں کام کے لیے بھیجا تھا۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ طیبہ اسلام آباد میں کسی جج کے گھر میں کام کر رہی ہے۔
بچوں سے مشقت پاکستانی آئین اور قانون کے تحت جرم ہے لیکن اس مقصد کے لیے ان کی اندرونِ ملک سمگلنگ کے حوالے سے پاکستان میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے جو بچوں کے خلاف اس جرم کا احاطہ کرتا ہو۔
جنت بی بیرحیم یار خان سے ایک گھنٹے کی مسافت پر جنت بی بی کا گھر ہے۔ وہ غربت کے مارے اس گاؤں کے لوگوں کے لیے کمائی کا ذریعہ بنتی ہیں۔
کراچی کے عالی شان گھروں میں صفائی ستھرائی یا ان کے مالکان کے بچے سنبھالنے کے لیے جنت اپنے گاؤں سے بچے کراچی لے جاتی ہیں اور اسی کام سے ان کے اپنے گھر کا چولھا بھی جلتا ہے۔
جنت بی بی نے بی بی سی کو بتایا: 'جو بچے چھوٹے بچوں کو سنبھالنے کا کام کرتے ہیں انھیں تو بہت کم پیسے ملتے ہیں کیونکہ مالک کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ کھیلنا کوئی کام تو نہیں۔ میں اپنے جان پہچان والے لوگوں کو کام کے لیے بچے دیتی ہوں۔ مالکان اکثر مجھے کرایہ دے دیتے ہیں یا کبھی مجھے ہزار، دو ہزار مل جاتے ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں، ’’مجبوری ہے تو ہمارے پاس آتے ہو نا۔‘‘ ہم غریب لوگ ہیں کیا کریں؟'
Source:http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39691158
hum ko nasmoos e risalat aur dawn leaks se time milay tou in khanma barbadoo kaa bhi sochein.
Children like flowers are trafficked inside the country to bigger cities where they are made to work as a domestic help in baray baray banglay of karachi lahore and where they are paid peanuts.
mein sochta hoon, woh kon log hotay hein, who employ these young children to take care of their own children. Patthar dill. How can they sleep in the nights?
I remember we used to have a siraiki maasi. She had little kids too. My mother used to teach them english urdu, maths and when they were good enough they were sent to a sarkari school near by. However, after some time maasi took them off from school and left at another house in our neighborhood. Maasi told us the other baji has said your kids will help us with her kids and her kid (who was in class 1 or something) will teach maasi who were 9-10 years old.
yaqeen manoo, these heat waves, this load shedding, soaring food prices, these shareefs, this insult we get from other countries of the world every other day is a direct azaaab of allah for our sins like these.
allah said he gave azaab to bani israel by imposing over them a brutal ruler.
’پاکستان میں بچوں کی اندرونِ ملک سمگلنگ کے لیے کوئی قانون ہی نہیں‘
ارم عباسیبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
ارم عباسیبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
- 24 اپريل 2017ل

پاکستان میں بچوں کی اندرون ملک سمگلنگ یا انٹرنل ٹریفکنگ کو روکنے کے لیے کسی قسم کا قانون موجود نہیں ہے۔
بچوں کے حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو استحصال کا سامنا ہے جس میں گھریلو ملازمین کے طور پر جبری مشقت سر فہرست ہے۔
’فیصل آباد کے رہائشی محمد اشرف اور ان کے بچے ایسے ہی ایک گروہ کے ہتھے چڑھے اور انھیں اب یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے بچے کس کے پاس اور کس شہر میں کام کرتے ہیں۔
محمد اشرف کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا گذشتہ آٹھ ماہ سے غائب ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ایک باجی ہمارے گھر آئیں اور کہا کہ بیٹے کو کام کے لیے انھیں دے دوں۔ انھوں نے ہمیں بدلے میں 20 ہزار روپے پکڑائے اور اس کے بعد آج تک میری بیٹے سے بات نہیں ہوئی۔'

انسانی حقوقی کی کارکن قدسیہ محمود کہتی ہیں کہ چائلڈ ٹریفکنگ کے بچوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیںان کا کہنا تھا کہ 'بیٹی بھی لاپتہ ہے۔ مجھے میرے دونوں بچوں کا نہیں پتہ کہ وہ کہاں پر ہیں، کس شہر یا کس کے گھر میں ہیں۔ باجی کو فون کرتا ہوں وہ فون نہیں اٹھاتی جو شحص انہوں ہمارے گھر لے کر آیا تھا وہ بھی فون نہیں اٹھا رہا۔'
بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکن بچوں کو کام کی غرض سے اپنے گھر، اہل خانہ اور ماحول سے دور منتقل کرنے کو بچوں کی اندرون ملک سمگلنگ یا انٹرنل چائلڈ ٹریفکنگ قرار دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں کارکن قدسیہ محمود کہتی ہیں: 'حال ہی میں جو کیس سامنے آئے ہیں ان میں ہم نے یہی دیکھا کہ پہلے ایسے بچوں کو ان کے قریبی علاقے میں کام کے لیے بیچا گیا تھا۔ جس کے بعد پھر انھیں بڑے شہروں میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ سب ٹریفکنگ میں آتا ہے اور اس کے بچوں پر گہرے اثرات ہوتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا 'بچے کو کام کے لیے دوسرے شہر بھیجنے کا فیصلہ والدین کا ہوتا ہے اور بچے اکثر نہیں جانا چاہتے۔ پھر اس کے بعد بچوں سے کام کروانے کے لیے جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے اس سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ بچے کو محض اس کے گھر سے نکالنا بھی تو اس کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔'
محمد اشرف اکیلے نہیں ہیں جن کے بچے انٹرنل ٹریفکنگ کا شکار ہوئے۔ چند ماہ قبل ایک کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر اسلام آباد کی عدلیہ کے ایک رکن کے گھر میں تشدد کے واقعے نے ملک بھر میں سنسنی پھیلا دی تھی۔
طیبہ کے والدین نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ انھوں نے ایک ایجنٹ کے ذریعے اپنی بیٹی کو اپنے شہر فیصل آباد میں ایک گھر میں کام کے لیے بھیجا تھا۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ طیبہ اسلام آباد میں کسی جج کے گھر میں کام کر رہی ہے۔
بچوں سے مشقت پاکستانی آئین اور قانون کے تحت جرم ہے لیکن اس مقصد کے لیے ان کی اندرونِ ملک سمگلنگ کے حوالے سے پاکستان میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے جو بچوں کے خلاف اس جرم کا احاطہ کرتا ہو۔

جنت بی بیرحیم یار خان سے ایک گھنٹے کی مسافت پر جنت بی بی کا گھر ہے۔ وہ غربت کے مارے اس گاؤں کے لوگوں کے لیے کمائی کا ذریعہ بنتی ہیں۔
کراچی کے عالی شان گھروں میں صفائی ستھرائی یا ان کے مالکان کے بچے سنبھالنے کے لیے جنت اپنے گاؤں سے بچے کراچی لے جاتی ہیں اور اسی کام سے ان کے اپنے گھر کا چولھا بھی جلتا ہے۔
جنت بی بی نے بی بی سی کو بتایا: 'جو بچے چھوٹے بچوں کو سنبھالنے کا کام کرتے ہیں انھیں تو بہت کم پیسے ملتے ہیں کیونکہ مالک کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ کھیلنا کوئی کام تو نہیں۔ میں اپنے جان پہچان والے لوگوں کو کام کے لیے بچے دیتی ہوں۔ مالکان اکثر مجھے کرایہ دے دیتے ہیں یا کبھی مجھے ہزار، دو ہزار مل جاتے ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں، ’’مجبوری ہے تو ہمارے پاس آتے ہو نا۔‘‘ ہم غریب لوگ ہیں کیا کریں؟'
Source:http://www.bbc.com/urdu/pakistan-39691158
Last edited: