[FONT="]نواز شریف کے کیسز کی فائل سامنے دیکھ کر ہی ہیجڑے ججوں کے گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ محلول خارج ہونے کیلئے اوپر حلق میں کھٹی ڈکار کی طرح چڑھنے لگتا ہے۔ [FONT="]ماں صدقے! مدعی اور ملزم سے مشورے کیے جا رہے، تجاویز مانگی جا رہی ہیں کہ فرمایئے حضور آپ ہم سے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں یا کمیشن کی سہولت سے فائدہ اٹھانا پسند فرمائیں گے؟[/FONT]
[FONT="]کیا یہ سہولت دیگر ملزمان کو بھی دی جاتی ان سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ جناب فرمائیں آپ فیصلہ ہم (ججز) سے کروائیں گے یا آپکے لیے کوئی کمیشن تشکیل دے کر آپ کا مقدر بگاڑا، سنوارا جائے؟[/FONT] [FONT="]بات کتابی سہی لیکن ہے صحیح کہ عدالتیں قوانین کے مطابق فیصے کرتی ہیں، ملزم اور مدعی کی منشا کے مطابق نہیں۔ یاد رکھیے کہ بنچ کا فیصلہ بذات خود ایک نظیر (پریزڈنس) ہوتا ہے اور ایک درجے میں قانون کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اب ایک لمحے کیلئے سوچیے کہ آپ کیا نظیر قائم کرنے جا رہے ہیں کہ ملزم اگر وزیر اعظم اور بارسوخ شاہی خاندان کا فرد ہے تو فیصلہ فریقین کی رضامندی سے ہوں گے لیکن جس مری، مکی عوام کے خون سے ٹیکس نچوڑ کر تمہاری موٹی موٹی چربیلی تنخواہیں دی جاتی ہیں ان کے فیصلے جنبش قلم سے؟[/FONT]
[FONT="]اب کہا جائے گا کہ یہ ایک وزیر اعظم اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہے سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔[/FONT] [FONT="]جناب والا، وہ دو انسان جنہیں آپ کی عدالت سے اپنی بیگناہی سننے کا موقع میسر ہونے سے پہلے ہی عجلت میں پھانسی پر جھلا دیا گیا وہ بھی اپنے ماں باپ اور بھائی، بہنوں بچوں کیلئے کسی وزیر اعظم سے کم تھے نہ انکا گھر انکے لیے کسی ریاست سے کم تھا لہذا ہمیں ریاست کی وسعت اور وزیر اعظم کے عہدے کے رعب نہ دکھائیں۔ اپنی اپنی سلطنت میں ہر انسان کسی نہ کسی کیلئے وزیر اعظم ہوتا ہے۔[/FONT] [FONT="]ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اگر وزیر اعظم کسی چوری، ہیرا پھیری میں ملوث ہے تو اُس پر قانون کی ہر ہر تعزیر لگا کر سزا دی جائے۔ گردن کو ہاتھ کی طرح کاٹیں کہ آئندہ مالِ عوام پر بری نگاہ ڈالنے والے حاکم کا ہاتھ نہیں سر کانپے۔[/FONT][/FONT]