کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشوں فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوہ بیداد کچھ تو ہو
بولو کے شور حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلو ہو تو سطوت قاتل کا خوف کیا،
اتنا تو ہو کہ باندھنے نہ پائے دست و پا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشن رقص کا
رنگین لہو سے پنجا ٰء صیاد کچھ تو ہو
خون پر گواہ دامن جلاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں بنیاد کچھ تو ہو
گر تن نہیں زباں سہی آزاد کچھ تو ہو
دشنام نالہ ہا ہو فریاد کچھ تو ہو
چیخا ہے دل اے دل برباد کچھ تو ہو
بولو کے شور حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کے روز عدل کی بنیاد کچھ تو ہو