Someone wrote this about state of affairs in Pakistan.
مدتوں بعد اتوار کو بھی آفس کھولنا پڑا کیونکہ بہت سے ڈاکٹر رات سے ہی فون کررہے تھے کہ حفاظتی لباس تو کجا انکے پاس تو gloves اور ماسک بھی نہیں اور صبح ڈیوٹی پر جانا ھے ۔
میں 30 سال وردی میں ڈاکٹر رہا ہوں ۔ انڈیا کے ساتھ جنگ کی تیاریاں بھی دیکھی ہیں ۔ سیاچین پر ڈیوٹی بھی کی ھے ۔ ایران عراق وار سے لیکر بوسنیا اور صومالیہ وار کو بہت قریب سے دیکھا ھے ۔ کوئی آرمی اس وقت تک جنگ نہیں لڑتی جب تک اس کے سپاہیوں کو یقین نہ ھو کہ زخمی ھوگئے تو انکے ڈاکٹر مدد کو موجود ھونگے ۔
کوئی بھی جنگ میڈیکل ایڈ پلان کے بغیر شروع نہیں ھوتی اور فوج کا کمانڈر انچیف اپنی میڈکل ٹیم کو انکی ضرورت کے اسلحے سے مکمل لیس کرنے کے بعد فوج کو میدان میں اتارتا ھے ۔
جب ہم فوجی جنگ میں جاتے ہیں تو پتہ ہوتا ھے کہ گھر والے محفوظ ہیں ۔ اگر جنگ میں جان گئی تو بچوں کو رہنے کو گھر بھی ملے گا اور فیملی پنشن بھی ۔ یہ بھی ہوسکتا ھے کہ کوئی تمغہ جرات یا تمغہ شجاعت بھی مل جائے اور اسکے ساتھ فیملی کو چار بیگھے زمین بھی ۔
آج ڈاکٹروں کی فوج جنگ لڑ رہی ہے ۔ اس جنگ میں دشمن نظر نہیں آرھا ۔ کہاں سے کس کس پر حملہ کرے گا کچھ پتہ نہیں ۔ اس فوج کا کوئی کمانڈر انچیف نہیں جو انکے اسلحے کا بندونست کرے ۔ انکے کوئی اسلحے کے ڈپو نہیں ۔ یہ فوج اسٹیتھوسکوپ کے زور پر اپنا بجٹ نہیں لے سکتی اور اسکے پیچھے تو لاوڈاسپیکر سے آواز بھی نہیں آرھی کہ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں۔
فوجی صرف خود زخمی ھوتا ھے یا جان سے جاتا ھے مگر اس جنگ میں اس فوج کا جو سپاہی خود زخمی ھوگا و
ہ اپنی فیملی کو بھی زخمی کردیگا ۔ جان سے گیا تو نہ کوئی تمغہ ملے گا نہ گھر ۔ نہ 120 گز تک کا کوئی پلاٹ اور اگر بیوی بچے بچ گئے تو شاید پنشن بھی رشوت دیکر منظور کروانی پڑے۔
ہر وہ ڈاکٹر جو کرونا سے لڑتے مریض کو بچا رہا ھے خود کرونا کے حملے سے زخمی ہو رہا ھے ۔ میں کل بہت سے ایسے ڈاکٹروں سے ملا جنہوں نے اپنے بیوی بچے سسرال یا میکے بھیج دئیے ہیں ۔ میں بہت سی ایسی لیڈی ڈاکٹرز سے ملا جن کے بچے دو سال سے بھی کم عمر ہیں اور وہ ان سے الگ رہ رہی ہیں کہ اگر وہ اس جنگ میں جان سے گئیں تو کم از کم اپنے بچے کو تو بچالیں ۔
فوج میں جنگی محاذ پر یونٹ کا کمانڈر لیڈ کرتا ھے مگر اس نہتی فوج کے سینئرز گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں اور جونئیرز کو گھر سے کنٹرول کر رہے ہیں ۔ میڈیا کو چاہئے کہ معلوم کریں کتنے سینیر ڈاکٹرز ڈیوٹی پرآرہے ہیں ۔ بس اگر کوئی نظر آتا ھے تو ٹی وی پر ماہرانہ رائے دیتے ھوئے ۔
کاش آج ہر گھر سے ایک جونئیر ڈاکٹر ڈیوٹی پر جانے کو نکلتا اور اس قوم کے ہر گھر میں جنگی ماحول ہوتا تاکہ انکو پتہ چلتا کہ یہ مسیحا کس طرح جنگ میں شریک ھے۔
کاش اس فوج کا کوئی کمانڈر انچیف ھوتا اور اسے ضرورت کے اسلحے سے لیس کرتا ۔
کاش اس فوج کا کوئی وزیراعظم ہوتا اور اعلان کرتا کہ ہم انکی ضروت کو پورا کرنے کو ہم بھوکوں جی لیں گے ۔
میرے ہموطنوں یاد رکھو اگر آپ کی یہ فوج ہار گئی تو ہم اپنے محل نما گھروں کے اندر بغیر علاج کے مر جائیں گے کیونکہ کرونا اسٹیٹس دیکھے بغیر حملہ آور ھورہا ھے۔
صاحب اختیار لوگ کچھ نہیں کر رہے سوائے ٹی وی پر باتیں کرنے کے ۔
'خدارا صاحب حیثیت لوگ باہر نکلیں اور مدد کریں ۔ ان ڈاکٹروں کی فوج کے حفاظتی سامان کیلئے عطیات کی بہت ضروت ھے ۔
کوئی میڈم نور جہاں کو بھی آواز دے کہ ایک دفعہ انکے لئے بھی دعا گا جائیں
”میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں“
مدتوں بعد اتوار کو بھی آفس کھولنا پڑا کیونکہ بہت سے ڈاکٹر رات سے ہی فون کررہے تھے کہ حفاظتی لباس تو کجا انکے پاس تو gloves اور ماسک بھی نہیں اور صبح ڈیوٹی پر جانا ھے ۔
میں 30 سال وردی میں ڈاکٹر رہا ہوں ۔ انڈیا کے ساتھ جنگ کی تیاریاں بھی دیکھی ہیں ۔ سیاچین پر ڈیوٹی بھی کی ھے ۔ ایران عراق وار سے لیکر بوسنیا اور صومالیہ وار کو بہت قریب سے دیکھا ھے ۔ کوئی آرمی اس وقت تک جنگ نہیں لڑتی جب تک اس کے سپاہیوں کو یقین نہ ھو کہ زخمی ھوگئے تو انکے ڈاکٹر مدد کو موجود ھونگے ۔
کوئی بھی جنگ میڈیکل ایڈ پلان کے بغیر شروع نہیں ھوتی اور فوج کا کمانڈر انچیف اپنی میڈکل ٹیم کو انکی ضرورت کے اسلحے سے مکمل لیس کرنے کے بعد فوج کو میدان میں اتارتا ھے ۔
جب ہم فوجی جنگ میں جاتے ہیں تو پتہ ہوتا ھے کہ گھر والے محفوظ ہیں ۔ اگر جنگ میں جان گئی تو بچوں کو رہنے کو گھر بھی ملے گا اور فیملی پنشن بھی ۔ یہ بھی ہوسکتا ھے کہ کوئی تمغہ جرات یا تمغہ شجاعت بھی مل جائے اور اسکے ساتھ فیملی کو چار بیگھے زمین بھی ۔
آج ڈاکٹروں کی فوج جنگ لڑ رہی ہے ۔ اس جنگ میں دشمن نظر نہیں آرھا ۔ کہاں سے کس کس پر حملہ کرے گا کچھ پتہ نہیں ۔ اس فوج کا کوئی کمانڈر انچیف نہیں جو انکے اسلحے کا بندونست کرے ۔ انکے کوئی اسلحے کے ڈپو نہیں ۔ یہ فوج اسٹیتھوسکوپ کے زور پر اپنا بجٹ نہیں لے سکتی اور اسکے پیچھے تو لاوڈاسپیکر سے آواز بھی نہیں آرھی کہ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں۔
فوجی صرف خود زخمی ھوتا ھے یا جان سے جاتا ھے مگر اس جنگ میں اس فوج کا جو سپاہی خود زخمی ھوگا و
ہ اپنی فیملی کو بھی زخمی کردیگا ۔ جان سے گیا تو نہ کوئی تمغہ ملے گا نہ گھر ۔ نہ 120 گز تک کا کوئی پلاٹ اور اگر بیوی بچے بچ گئے تو شاید پنشن بھی رشوت دیکر منظور کروانی پڑے۔
ہر وہ ڈاکٹر جو کرونا سے لڑتے مریض کو بچا رہا ھے خود کرونا کے حملے سے زخمی ہو رہا ھے ۔ میں کل بہت سے ایسے ڈاکٹروں سے ملا جنہوں نے اپنے بیوی بچے سسرال یا میکے بھیج دئیے ہیں ۔ میں بہت سی ایسی لیڈی ڈاکٹرز سے ملا جن کے بچے دو سال سے بھی کم عمر ہیں اور وہ ان سے الگ رہ رہی ہیں کہ اگر وہ اس جنگ میں جان سے گئیں تو کم از کم اپنے بچے کو تو بچالیں ۔
فوج میں جنگی محاذ پر یونٹ کا کمانڈر لیڈ کرتا ھے مگر اس نہتی فوج کے سینئرز گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں اور جونئیرز کو گھر سے کنٹرول کر رہے ہیں ۔ میڈیا کو چاہئے کہ معلوم کریں کتنے سینیر ڈاکٹرز ڈیوٹی پرآرہے ہیں ۔ بس اگر کوئی نظر آتا ھے تو ٹی وی پر ماہرانہ رائے دیتے ھوئے ۔
کاش آج ہر گھر سے ایک جونئیر ڈاکٹر ڈیوٹی پر جانے کو نکلتا اور اس قوم کے ہر گھر میں جنگی ماحول ہوتا تاکہ انکو پتہ چلتا کہ یہ مسیحا کس طرح جنگ میں شریک ھے۔
کاش اس فوج کا کوئی کمانڈر انچیف ھوتا اور اسے ضرورت کے اسلحے سے لیس کرتا ۔
کاش اس فوج کا کوئی وزیراعظم ہوتا اور اعلان کرتا کہ ہم انکی ضروت کو پورا کرنے کو ہم بھوکوں جی لیں گے ۔
میرے ہموطنوں یاد رکھو اگر آپ کی یہ فوج ہار گئی تو ہم اپنے محل نما گھروں کے اندر بغیر علاج کے مر جائیں گے کیونکہ کرونا اسٹیٹس دیکھے بغیر حملہ آور ھورہا ھے۔
صاحب اختیار لوگ کچھ نہیں کر رہے سوائے ٹی وی پر باتیں کرنے کے ۔
'خدارا صاحب حیثیت لوگ باہر نکلیں اور مدد کریں ۔ ان ڈاکٹروں کی فوج کے حفاظتی سامان کیلئے عطیات کی بہت ضروت ھے ۔
کوئی میڈم نور جہاں کو بھی آواز دے کہ ایک دفعہ انکے لئے بھی دعا گا جائیں
”میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں“