bisaat
Banned
http://www.pakistani.org/pakistan/constitution/part2.ch1.html
19 Freedom of speech, etc.
Every citizen shall have the right to freedom of speech and expression, and there shall be freedom of the press, subject to any reasonable restrictions imposed by law in the interest of the glory of Islam or the integrity, security or defence of Pakistan or any part thereof, friendly relations with foreign States, public order, decency or morality, or in relation to contempt of court, [SUP] 30[/SUP][commission of][SUP] 30[/SUP] or incitement to an offence.
کیا میڈیا آزاد ہے ، یا بھونڈا مذاق ہے
پاکستان میں اظہار راے کی آزادی , سچ کہنا اور انسانی حقوق کی بات کرنا ایسے عمل ہیں جسے یہاں بالکل پسند نہیں کیا جاتا. گزشتہ چند ماہ قبل انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی خاتون محترمہ سبین محمود کو مزہبی جماعت کے تیار کردہ انتیہا پسند کی جانب سے صرف اس بنیاد پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ انھوں انسانی حقوق کی تنظیم کے رکن کی حیثیت سے لاپتہ بلوچ بھایوں کے لیے آواز اٹھای تھی اور ہوا یہ کہ درندہ صفت دہشت گردوں نے ,انکی ہی آواز بند کردی
اظہار راے کی آزادی .. یہ ایک ایسا جملہ ہے جو اب ہر فرد کی زبان پر عام ہے لیکن آج تک اسکی صحیح معینوں میں تشریح نہ ہوسکی کہ آخر آزادی اظہار کی آزادی ہے کیا جہاں تک پاکستان کی بات ہے یہاں تو سچ کے سوا کسی بھی بات کو اظہار راے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے مگر حقیقت اور تاریخی حادثات کو ٹیلی ویژن پر نشر کرنے کی بالکل اجازت نہیں باوجود اس کے کہ پاکستان کے آرٹیکل 19 میں پاکستان کے ہر شہری کو اظہار راے کی مکمل آزادی دی ہے اس کے باوجود کسی فرد کی آواز کو دبانہ غیرآئینی ہے ، یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو
.
پاکستان ہی نہیں بین الاقوامی فورم انٹرنیشنل لاء آف ہیومن رائٹس کے آئین کے ارٹیکل 19کے مطابق بھی ہر فرد اپنے اظہار راے کی مکمل آزادی رکھتا ہے مگر اس کے باوجود پاکستان میں اظہار راے پر پابندی کا اطلاق سمجھ سے بالاترہے۔ گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں متحدہ کے قائد الطاف حسین کے براہ راست خطابات کی نشریات پر پابندی ہے جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو اپنے قائد کا پیغام صحیح طریقے سے انکے کارکنان تک پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہے ،مگر یہ انکے لیے کوی نئ بات نہیں ۔ الطاف حسین 1992سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں جب سے وہ اپنے کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب کے زریعہ گفتگو کیاکرتےہیں اور ہزاروں کارکنان انکی آواز کو خوب محبت و احترام سے سنتےہیں مگر جب سے انکے خطاب پر پابندی لگی ہے تب سے انکے کارکنان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد آج بھی اپنے کارکنان سے خطاب کرتے ہیں مگر اب صرف وہ ہی شخص یا کارکن انکا خطاب سن سکتا ہے جو یاتو اس خطاب کےسلسلے میں ہونے والے اجتماع میں موجود ہو یا پھر اسکے پاس دور جدید کی انٹرنیٹ جیسی ٹیکنالوجی ہو جو انکی ویب سائٹ پر جاکر خطاب سننے میں مدد دےسکے ، الطاف حسین کے خطابات کی براہ راست نشریات پر پابندی سے ایم کیو ایم کے قائد کے خطاب کو گھر بیٹھے سننا اب غریب آدمی کے بس کی بات نہیں جو انھیں سننا چاہتا ہےاور جس کی نمایندگی بھی الطاف حسین ہی کرتے ہیں ۔
جب ایم کیو ایم کے کارکنان کو یہ پتہ لگا کہ پاکستان کے نجی نیوز چینل پر بدھ 19اگست 2015 کوالطاف حسین صاحب کا ایکسکلوسیو انٹرویو نشر کیا جاے گا دو روز تک اس انٹرویو کی جھلکیاں جیو نیوز پر چلتی رہیں عوام میں تجسس پیدا ہوتا رہا اور خوب تشہیری کی گئ . اس پروگرام / انٹرویو کو سننے کے لیےکارکنان کی جانب سے گھروں میں اہتمام کیا تمام کارکنان اپنے گھروں میں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے قائدکو سننے کے لیے بےتاب تھے انتیظار کی گھڑیاں ختم ہوی پروگرام کےنشر ہونے کاٹائم ہوگیا بدھ کی رات 11بجے جب جیو نیوز لگایا تو بس الطاف حسین صاحب کے کارکنان انتیظار کرتے رہے ۔ ۔ لمبے وقفے میں 15 منٹس گزر گئے مگر وقفےپروقفہ چلتارہا۔ ۔ جب ٹیلی ویژن پر نشر ہوتا نہ دیکھا تو انٹرنیٹ پر دیکھنے کی کوشش کی شائد انٹرنیٹ پر سننے کو مل جاے مگر کچھ نہ ہوا ۔۔۔ ۔ پاکستان کے نجی نیوز چینل نے ایم کیو ایم کے قائد کا انٹرویو تو لیا مگر پیمرا کے دباو کی وجہ سے الطاف حسین کے انٹرویو کو 19اگست 2015 کو سلیم صافی کے پروگرام جرگہ میں الطاف حسین صاحب کا خصوصی انٹرویو پیمرا کی مداخلت کی وجہ سے ٹیلی وِیژن پرنشر نہ کیاجاسکا جس پر بہت سے شہریوں نے بہت شدید غم و غصے کا اظہار کیا ، جس کا عکس ہم سماجی رابطے کی ویب سایئٹس پر دیکھ سکتے ہیں،نجی نیوز چینل کے اس اقدام پر کچھ لوگوں کی راے ہےکہ اس نیوز چینل کو یاتو انٹرویو لینا ہی نہیں تھا اگر انٹرویو لے ہی لیا گیا تھا تو اسےنشر بھی کیا جانا چاہیے تھا ۔
پاکستان کے نجی نیوز چینل کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کے قائد کے لیے گئے انٹرویو کو نشر نہ کرنا اظہار راے آزادی کی خلاف ورزی ہے جس سے میڈیا کے کردار اور پاکستان میں آزاد صحافت پر سوالیہ نشان ہے کیا میڈیا اس عمل کے بعد بھی آزاد تصور کیا جاسکتا
.
بین الاقوامی ہی نہیں بلکہ اسلام بھی ہر شخص کو اظہار راے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ رسول اللہ ؐ اور صحابہ کرام کی زندگی سے ہمیں واضح مثالیں ملتی ہیں کہ اسلام ہمیں ہرطرح کی بات کے اختلاف یا اپنی راے کے اظہار کی اجازت دیتاہے سواے ان احکامات کے جو اللہ اور اسکے رسول نے بیان کیے ہیں۔
رسول اکرمؐ کا فرمان ہےکہ :
جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے ۔
اس زمین میں ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھانا اور حکام کی راے سے اختلاف کرنا۔حکام سے جواب طلب کرنا اور اپنے راے کا برملا اظہار کرنا اصحاب اور سلف کے طریقے سے ثابت ہے ۔
قومی و بین الاقوامی قوانین اور اسلام کے مطابق کسی کی اظہار راے کی آزادی پر پابندی لگانا یا اسکی آواز دبانا اور موقف پیش نہ کرنے دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ٰٰغیر آئینی اور غیرقانونی ہے ۔
پیمرا کے اس عمل نے پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے میڈیا کومتنازع بنادیا ہے ۔ہمیں اختلاف ضرور کرنا چاہیے مگرکسی کے بنیادی حق کو سلب کرنے سے گریز کرنا چاہیے جب پاکستان کے تمام جماعتوں کے لیڈران کی تقاریر اور انٹرویوز نشر کیے جاسکتے ہیں تو الطاف حسین صاحب کے کیوں نہیں ۔ اس عمل نے بہت سے لوگوں کو جھنجوڑدیا اور انکے لیے حقیقت واضح کردی جو اس گمان میں تھے کہ میڈیاآزاد ہے اوراس پر کسی کا دباوء نہیںکسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر کی تقریر پابندی کا اطلاق غیرآئنی عمل ہے اور پاکستان میں ایسی سیاسی جماعت کےقائد کی تقاریر پر پابندی لگادی گئ ہے جس کے قانون ساز اسمبلیز میں 24ایم این ایز ، 51 ایم پی ایز اور 8 سینیٹرز ہیں اور ملک کی چوتھی اور سندھ کی دوسری بڑی جماعت ہے جس کے لاکھوں ووٹرز ،سپوٹرز ہیں ۔ پاکستان کی ہیومن رائٹس کی تنظیموں اور دیگر ان سے منسلک این جی اوز کوبھی اس حوالے سے آواز بلند کرکے اپنی غیرجانبداری کا مظاہرہ کرناچاہیے کہ یہ پاکستان کی کس آئین و قانون کی کتاب میں لکھا کہ کسی بھی فرد کے اظہار راے کی آزادی کے حقوق سلب کیے جائیں ؟

پاکستان میں اظہار راے کی آزادی , سچ کہنا اور انسانی حقوق کی بات کرنا ایسے عمل ہیں جسے یہاں بالکل پسند نہیں کیا جاتا. گزشتہ چند ماہ قبل انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی خاتون محترمہ سبین محمود کو مزہبی جماعت کے تیار کردہ انتیہا پسند کی جانب سے صرف اس بنیاد پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ انھوں انسانی حقوق کی تنظیم کے رکن کی حیثیت سے لاپتہ بلوچ بھایوں کے لیے آواز اٹھای تھی اور ہوا یہ کہ درندہ صفت دہشت گردوں نے ,انکی ہی آواز بند کردی
اظہار راے کی آزادی .. یہ ایک ایسا جملہ ہے جو اب ہر فرد کی زبان پر عام ہے لیکن آج تک اسکی صحیح معینوں میں تشریح نہ ہوسکی کہ آخر آزادی اظہار کی آزادی ہے کیا جہاں تک پاکستان کی بات ہے یہاں تو سچ کے سوا کسی بھی بات کو اظہار راے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے مگر حقیقت اور تاریخی حادثات کو ٹیلی ویژن پر نشر کرنے کی بالکل اجازت نہیں باوجود اس کے کہ پاکستان کے آرٹیکل 19 میں پاکستان کے ہر شہری کو اظہار راے کی مکمل آزادی دی ہے اس کے باوجود کسی فرد کی آواز کو دبانہ غیرآئینی ہے ، یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو

پاکستان ہی نہیں بین الاقوامی فورم انٹرنیشنل لاء آف ہیومن رائٹس کے آئین کے ارٹیکل 19کے مطابق بھی ہر فرد اپنے اظہار راے کی مکمل آزادی رکھتا ہے مگر اس کے باوجود پاکستان میں اظہار راے پر پابندی کا اطلاق سمجھ سے بالاترہے۔ گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں متحدہ کے قائد الطاف حسین کے براہ راست خطابات کی نشریات پر پابندی ہے جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو اپنے قائد کا پیغام صحیح طریقے سے انکے کارکنان تک پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہے ،مگر یہ انکے لیے کوی نئ بات نہیں ۔ الطاف حسین 1992سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں جب سے وہ اپنے کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب کے زریعہ گفتگو کیاکرتےہیں اور ہزاروں کارکنان انکی آواز کو خوب محبت و احترام سے سنتےہیں مگر جب سے انکے خطاب پر پابندی لگی ہے تب سے انکے کارکنان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد آج بھی اپنے کارکنان سے خطاب کرتے ہیں مگر اب صرف وہ ہی شخص یا کارکن انکا خطاب سن سکتا ہے جو یاتو اس خطاب کےسلسلے میں ہونے والے اجتماع میں موجود ہو یا پھر اسکے پاس دور جدید کی انٹرنیٹ جیسی ٹیکنالوجی ہو جو انکی ویب سائٹ پر جاکر خطاب سننے میں مدد دےسکے ، الطاف حسین کے خطابات کی براہ راست نشریات پر پابندی سے ایم کیو ایم کے قائد کے خطاب کو گھر بیٹھے سننا اب غریب آدمی کے بس کی بات نہیں جو انھیں سننا چاہتا ہےاور جس کی نمایندگی بھی الطاف حسین ہی کرتے ہیں ۔
جب ایم کیو ایم کے کارکنان کو یہ پتہ لگا کہ پاکستان کے نجی نیوز چینل پر بدھ 19اگست 2015 کوالطاف حسین صاحب کا ایکسکلوسیو انٹرویو نشر کیا جاے گا دو روز تک اس انٹرویو کی جھلکیاں جیو نیوز پر چلتی رہیں عوام میں تجسس پیدا ہوتا رہا اور خوب تشہیری کی گئ . اس پروگرام / انٹرویو کو سننے کے لیےکارکنان کی جانب سے گھروں میں اہتمام کیا تمام کارکنان اپنے گھروں میں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے قائدکو سننے کے لیے بےتاب تھے انتیظار کی گھڑیاں ختم ہوی پروگرام کےنشر ہونے کاٹائم ہوگیا بدھ کی رات 11بجے جب جیو نیوز لگایا تو بس الطاف حسین صاحب کے کارکنان انتیظار کرتے رہے ۔ ۔ لمبے وقفے میں 15 منٹس گزر گئے مگر وقفےپروقفہ چلتارہا۔ ۔ جب ٹیلی ویژن پر نشر ہوتا نہ دیکھا تو انٹرنیٹ پر دیکھنے کی کوشش کی شائد انٹرنیٹ پر سننے کو مل جاے مگر کچھ نہ ہوا ۔۔۔ ۔ پاکستان کے نجی نیوز چینل نے ایم کیو ایم کے قائد کا انٹرویو تو لیا مگر پیمرا کے دباو کی وجہ سے الطاف حسین کے انٹرویو کو 19اگست 2015 کو سلیم صافی کے پروگرام جرگہ میں الطاف حسین صاحب کا خصوصی انٹرویو پیمرا کی مداخلت کی وجہ سے ٹیلی وِیژن پرنشر نہ کیاجاسکا جس پر بہت سے شہریوں نے بہت شدید غم و غصے کا اظہار کیا ، جس کا عکس ہم سماجی رابطے کی ویب سایئٹس پر دیکھ سکتے ہیں،نجی نیوز چینل کے اس اقدام پر کچھ لوگوں کی راے ہےکہ اس نیوز چینل کو یاتو انٹرویو لینا ہی نہیں تھا اگر انٹرویو لے ہی لیا گیا تھا تو اسےنشر بھی کیا جانا چاہیے تھا ۔
پاکستان کے نجی نیوز چینل کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کے قائد کے لیے گئے انٹرویو کو نشر نہ کرنا اظہار راے آزادی کی خلاف ورزی ہے جس سے میڈیا کے کردار اور پاکستان میں آزاد صحافت پر سوالیہ نشان ہے کیا میڈیا اس عمل کے بعد بھی آزاد تصور کیا جاسکتا

بین الاقوامی ہی نہیں بلکہ اسلام بھی ہر شخص کو اظہار راے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ رسول اللہ ؐ اور صحابہ کرام کی زندگی سے ہمیں واضح مثالیں ملتی ہیں کہ اسلام ہمیں ہرطرح کی بات کے اختلاف یا اپنی راے کے اظہار کی اجازت دیتاہے سواے ان احکامات کے جو اللہ اور اسکے رسول نے بیان کیے ہیں۔
رسول اکرمؐ کا فرمان ہےکہ :
جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے ۔
اس زمین میں ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھانا اور حکام کی راے سے اختلاف کرنا۔حکام سے جواب طلب کرنا اور اپنے راے کا برملا اظہار کرنا اصحاب اور سلف کے طریقے سے ثابت ہے ۔
قومی و بین الاقوامی قوانین اور اسلام کے مطابق کسی کی اظہار راے کی آزادی پر پابندی لگانا یا اسکی آواز دبانا اور موقف پیش نہ کرنے دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ٰٰغیر آئینی اور غیرقانونی ہے ۔
پیمرا کے اس عمل نے پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے میڈیا کومتنازع بنادیا ہے ۔ہمیں اختلاف ضرور کرنا چاہیے مگرکسی کے بنیادی حق کو سلب کرنے سے گریز کرنا چاہیے جب پاکستان کے تمام جماعتوں کے لیڈران کی تقاریر اور انٹرویوز نشر کیے جاسکتے ہیں تو الطاف حسین صاحب کے کیوں نہیں ۔ اس عمل نے بہت سے لوگوں کو جھنجوڑدیا اور انکے لیے حقیقت واضح کردی جو اس گمان میں تھے کہ میڈیاآزاد ہے اوراس پر کسی کا دباوء نہیںکسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر کی تقریر پابندی کا اطلاق غیرآئنی عمل ہے اور پاکستان میں ایسی سیاسی جماعت کےقائد کی تقاریر پر پابندی لگادی گئ ہے جس کے قانون ساز اسمبلیز میں 24ایم این ایز ، 51 ایم پی ایز اور 8 سینیٹرز ہیں اور ملک کی چوتھی اور سندھ کی دوسری بڑی جماعت ہے جس کے لاکھوں ووٹرز ،سپوٹرز ہیں ۔ پاکستان کی ہیومن رائٹس کی تنظیموں اور دیگر ان سے منسلک این جی اوز کوبھی اس حوالے سے آواز بلند کرکے اپنی غیرجانبداری کا مظاہرہ کرناچاہیے کہ یہ پاکستان کی کس آئین و قانون کی کتاب میں لکھا کہ کسی بھی فرد کے اظہار راے کی آزادی کے حقوق سلب کیے جائیں ؟

Last edited by a moderator: