پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بلوچستان میں قلات کے علاقے جوہان اور مستونگ کے علاقے اِسپلنگی میں مبینہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان علاقوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث ان خبروں کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں، تاہم شہریوں کا کہنا ہے کہ سول ہسپتال کوئٹہ میں 27 لاشیں لائی گئی ہیں جہاں اطلاعات کے مطابق لاشیں کی شناخت کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایچ آر سی پی نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ طاقت کا اندھا دھند اور حد سے زیادہ استعمال نہ کیا جائے، جس کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔
کمیشن نے مزید کہا کہ اس سے بلوچستان کے لوگوں میں بیگانگی کا احساس بڑھے گا اور اس سے حکومت اور سکیورٹی فورسز کو کسی قسم کی حمایت ملنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ مارے جانے والے عسکریت پسند تھے جو کہ سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں جوہان کے علاقے میں مارے گئے۔
دوسری جانب ایدھی کے ایک اہلکار علی احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ قلات کی تحصیل جوہان سے 15 افراد کی لاشیں ایک دن اور آٹھ لاشیں دوسرے دن سول ہسپتال لائی گئی ہیں۔
کوئٹہ سول ہپستال کے حکام کا کہنا ہے کہ تین لاشوں کی شناخت ہوچکی ہے، انھیں کہا گیا ہے کہ جب تک بھائی یا والد نہیں آتے لاشیں ورثا کے حوالے نہ کی جائیں لیکن قریبی رشتے دار شناخت کے لیے آنے سے گھبراتے ہیں۔
بلوچ تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ لاشیں جوہان میں ہلاک ہونے والوں کی ہیں۔
جوہان آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ورثا کے حوالے نہیں کی جارہی ہیں۔ لاپتہ افراد یا عام لوگوں کو مار کر ان کو عسکریت پسند ظاہر کیا جاتا ہے اور اداروں کو بدنامی سے بچانے کے لیے لاشوں کی جلد بازی میں تدفین کی جاتی ہے۔نصر اللہ بلوچ
ایدھی کے ایک اہلکار علی احمد نے بتایا کہ 15 لاوارث لاشوں کی اتوار کی صبح 11 بجے تدفین کی گئی جبکہ آٹھ لاشوں کو غسل اور کفن دے دیا گیا ہے لیکن تدفین پولیس سرجن کے کہنے پر روک دی گئی ہے۔
یہ تمام افراد فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ جن میں تین عمر رسیدہ افراد، ایک 14 سالہ لڑکا جبکہ دیگر کی عمریں 25 سے 30 سال کے درمیان ہے۔
ایدھی کے رضاکار نے بتایا کہ لاوارث لاشوں کو کوئٹہ میں مشرقی بائی پاس کے قریب سرکاری قبرستان میں دفنایا جاتا ہے۔
ادھر بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ جوہان آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ورثا کے حوالے نہیں کی جارہی ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ لاپتہ افراد یا عام لوگوں کو مارکر ان کو عسکریت پسند ظاہر کیا جاتا ہے اور اداروں کو بدنامی سے بچانے کے لیے لاشوں کی جلد بازی میں تدفین کی جاتی ہے۔http://http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/04/160412_balochistan_killing_hrcp_rh