Hunain Khalid
Chief Minister (5k+ posts)
پانامہ لیکس کے زریعے سیاستدان اتنے ایکسپوز نہیں ہوئے جتنے میڈیا گروپس اور ان کے اندر صحافیوں کے بھیس میں چھپی طوائفیں۔ شاہزیب خانزادہ سے لے کر جاوید چوہدری تک، سب کے سب ن لیگ سے مراعات لے کر اس کے حق میں لکھتے اور بولتے ہیں۔ سب سے افسوسناک کردار طلعت حسین کا سامنے آیا ھے جو بظاہر ایک سلجھا ہوا صحافی سمجھا جاتا تھا لیکن عمران دشمنی میں وہ بھی اپنے آپ کو چوک میں ننگا کرچکا ھے۔
کل عمران خان کی ایک آف شور کمپنی کی خبر آئی جس کی عمران خان نے تصدیق کردی۔ اب اگر اس کمپنی کو یہ صحافی نوازشریف کی فیملی کی کمپنیوں جیسا ہی معاملہ سمجھتے ہیں تو اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ یا تو یہ صحافی پرلے درجے کے جاہل اور احمق ہیں، یا پھر یہ صحافی ن لیگ سے لفافے لیتے ہیں۔
عمران خان 80 کی دہائی کا انگش کاؤنٹی کھیلنے والے مہنگے ترین غیرملکی کھلاڑیوں میں سے ایک تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ان دنوں خان صاحب پیپسی کے آفیشل برانڈ ایمبیسیڈر بھی ہوا کرتے تھے۔ بیرون ملک خان صاحب کو ایک برطانوی میگیزین نے شرٹ کے بغیر تصویر بنانے کے لاکھوں پاؤنڈ آفر کئے۔
مقصد بتانے کا یہ ھے کہ 80 کی دہائی کے اوائل میں خان صاحب پر قسمت کی دیوی ہر طرح سے مہربان ہوا کرتی تھی۔ خان صاحب کی زیادہ تر کمائی انگلینڈ میں کاؤنٹی اور کمرشلز کے زریعے ہوتی تھی۔ اس وقت اس کمائی کا سب سے اچھا مصرف لندن میں پراپرٹی خریدنا ہوا کرتا تھا۔ خان صاحب نے اس وقت تک کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی پاکستان کی سیاست میں حصہ لیں گے، ہر سال انگلینڈ میں چار مہینے گزارنے والے خان صاحب نے سوچا کہ لندن میں ایک فلیٹ خریدا جائے۔
برطانوی قانون کے مطابق لندن میں اگر آپ ذاتی نام سے پراپرٹی خریدتے ہیں تو آپ پر کیپٹل گین ٹیکس لاگو ہوتا ھے۔ اس وقت کی ایک بہت کامن پریکٹس یہ ہوا کرتی تھی کہ آپ اپنے نام سے ایک آف شور کمپنی رجسٹرڈ کروائیں اور پھر اس کمپنی کے نام پر پراپرٹی خریدیں جس سے آپ کو کیپٹل گین ٹیکس نہیں پڑتا۔
خان صاحب نے 1983 میں اپنی ڈیکلئیرڈ انکم سے ایک کمپنی رجسٹرڈ کروائی اور اس کے زریعے اپنا وہ واحد لندن کا فلیٹ خریدا جو انہوں نے اپنے اثاثوں میں ڈیکلئر کیا تھا۔
اب شاہزیب خانزادہ سے لے کر جاوید چوہدری اور طلعت حسین تک، سب کے سب لفافہ خور اس معاملے کو نوازشریف کے ساتھ جوڑ کر اس کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
باٹم لائن پھر وہی ھے:
١۔ عمران خان نے کمپنی اپنی اس انکم کے زریعے بنائی جو مکمل طور پر ڈیکلئیرڈ، ٹیکس اور تصدیق شدہ ھے۔
٢۔ نوازشریف کی فیملی کے نام جو اربوں ڈالر کی پراپرٹیز ہیں، وہ رقم کہاں سے آئی، اس پر کتنا ٹیکس دیا گیا، وہ کب بیرون ملک ٹرانسفر ہوئی، اور کس طرح ٹرانسفر ہوئی؟
٣۔ جب عمران خان ایک پیپسی کا کمرشل کرنے کا لاکھوں پاؤنڈ لیا کرتا تھا، اس وقت نوازشریف پاکستانی بنکوں سے قرضے لے کر اپنی کمپنیوں کو دیوالیہ قرار دے کر قرضے معاف کروایا کروایا کرتا تھا۔
٤۔ عمران خان نے 2004 میں لندن والا فلیٹ بیچ کر سارا پیسہ پاکستان لے آیا۔ نوازشریف فیملی نے پاکستان میں خسارے کا بزنس کرتے کرتے اچانک اربوں ڈالر بیرون ممالک میں کیسے بنا لئے؟
سوال بہت سادہ اور ڈائریکٹ ہیں جو کسی بھی کمیشن کی پہلے ایک گھنٹے کی کاروائی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیں گے۔
کیا نوازشریف اس کمیشن کا سامنا کرسکتا ھے؟ دیونے کا خواب ھے یہ!!! بقلم خود باباکوڈا
(yapping)