جسٹس فائز عیسی - ایک تاثر!
جولائی 2017 میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں پانامہ کیس میں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ آیا۔ پانامہ لیکس کے انکشافات ساری دنیا میں تسلیم کئے جاچکے تھے، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ورجن آئی لینڈ اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کی طرف سے نوازشریف فیملی کے چھپائے گئے اثاثوں کی تصدیق ہوچکی تھی، چنانچہ یہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا جس کا فیصلہ نااہلی کی صورت میں ہی سامنے آنا تھا۔
ججوں کے ذریعے مرضی کے فیصلے لینے میں ماہر نوازشریف پہلی مرتبہ مشکلات میں گھر چکا تھا، لیکن اب بھی اس کے پاس کچھ آپشنز موجود تھیں جن پر اس نے اپنے قانونی ماہرین کے مشوروں کی روشنی میں عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے پہلے پنڈی کے شکیل اعوان کے ذریعے اس کے سیاسی مخالف شیخ رشید کی نااہلی کی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی گئی جس میں الزام لگایا گیا کہ شیخ رشید نے اپنے اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز پر مشتمل پینل بنایا گیا جبکہ بعد میں جسٹس فائز عیسی نے بھی اس پینل میں شمولیت اختیار کرلی۔ شیخ رشید کے خلاف مقدمہ یہ تھا کہ اس کی زمین 1081 کنال پر مشتمل تھی لیکن اس نے کاغذات نامزدگی میں 983 کنال ظاہر کی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ زمین کے کاغذات اور تفاصیل جو کاغذات نامزدگی کے ساتھ اٹیچ کی گئیں، ان میں 1081 کنال ہی لکھا تھا چنانچہ اسے صرف ٹوٹل کی غلطی ہی کہا جاسکتا تھا، اور یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے تین میں سے دو ججوں نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر اثاثے چھپانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، کیونکہ اگر چھپانے ہوتے تو مکمل تفصیلات کاغذات نامزدگی کے ساتھ اٹیچ نہ کی جاتیں۔ شیخ رشید کے خلاف پٹیشن منسوخ کردی گئی لیکن جسٹس فائز عیسی نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔
اس اختلافی نوٹ میں جسٹس عیسی نے 9 سوالات اٹھائے جو کہ حرف بہ حرف وہی تھے جو نوازشریف نے اپنی نااہلی کے خلاف اپیل میں شام کئے تھے۔ فائز عیسی کے سوالات کچھ یوں تھے:
1۔ کیا کاغذات نامزدگی میں کوئی اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر تاعمر نااہلی کی سزا دی جاسکتی ہے؟
(اس سوال کا شیخ رشید کی پٹیشن سے کیا تعلق بنتا تھا؟ فائز عیسی تو خود اسے نااہل قرار دینے کے حق میں تھا)
2۔ کیا عدالتی کاروائی میں کی گئی غلط بیانی کی بنا پر نااہلی کی سزا ہوسکتی ہے؟ (یہ نکتہ بھی نوازشریف کے وکلا نے اپیل میں شامل کررکھا تھا اور اس کا بھی شیخ رشید کے کیس سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا)
الغرض، فائز عیسی نے شیخ رشید کے بہانے ایسے تمام سوالات اپنے اختلافی نوٹ میں شامل کردیئے جن کا براہ راست فائدہ نوازشریف کو ہو سکتا تھا، اور آخر میں ایک فل کورٹ بنا کر ان سوالات کا جواب مانگنے کی سفارش بھی کردی۔
جسٹس فائز عیسی کا یہ کنڈکٹ بہت سے قانونی ماہرین کو شک و شبہات میں مبتلا کرگیا۔
بعد میں شریف فیملی کے خلاف حدیبیہ پیپرزمل کا کیس بھی فائز عیسی کے پاس گیا اور اس " ایماندار " جج نے یہ کہہ کر نیب کا ریفرینس ڈانٹ کے بعد منسوخ کردیا کہ یہ ریفرینس " پرانا " ہوچکا ہے اور اب اسے دوبارہ کھولنا عدالتی روایت کے خلاف ہے۔ یعنی اربوں کی کرپشن اگر کسی وجہ سے موقع پر نہ پکڑی جائے تو پھراسے دوبارہ کھولنا عدالتی روایت اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو جاتا ہے۔ یہ تاریخی چول بھی جسٹس فائز عیسی کے ذریعے ہی ماری گئی۔
تیسرا اور اہم ترین فیصلہ مولوی خادم حسین دھرنے کے خلاف فائز عیسی کے سوموٹو نوٹس کا تھا جس میں بغیر کسی وجہ کے، فائز عیسی نے باقاعدہ نام لے کر آرمی، آرمی چیف، آئی ایس پی آر، آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف وہی باتیں دھرائیں جو بھارتی میڈیا اور را والے کرتے آئے ہیں ۔ ۔ ۔ اس پر بھی بہت سے قانونی حلقوں میں سوالات کھڑے ہوئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حق کی شناخت کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ شریف اور زرداری فیملی کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ جس کو وہ سپورٹ کریں، سمجھ جائیں کہ وہ سب کچھ ہے، لیکن حق نہیں۔
آج شریف فیملی اور زرداری جسٹس فائز عیسی کے خلاف مبینہ طور پر حکومتی ریفرینس پر چیخ و پکار کررہے ہیں۔
حق کی ایک دوسری پہچان یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی والے کس کو سپورٹ کررہے ہیں؟ آج یہ دونوں مذہب فروش جماعتیں بھی فائز عیسی کے حق میں ہیں جس سے فائز عیسی کا باطل ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال الیکشن کے دنوں میں ایک بدنام اور کرپٹ جماعتی جج شوکت صدیقی نے بھی آئی ایس آئی کے خلاف تقریر کردی تھی۔ جب سپریم جوڈیشل کونسل نے اس سے الزامات کے ثبوت مانگے تو کہہ دیا کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ جب ایک جج بغیر ثبوت کے ملک کے ادارے پر الزام عائد کرے تو اسے جج تو دور، بھنگی کے عہدے پر بھی نہیں رکھنا چاہیئے۔
جسٹس فائز عیسی نوازشریف کی پے رول پر ہے۔ اس پر مبینہ طور پرغیرملکی جائیدادوں کا الزام ہے اور ریفرینس صرف فائز عیسی ہی نہیں بلکہ دو دوسرے ججوں کے خلاف بھی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے ججز تو پہلے ہی نوازشریف کی جیب میں ہوتے ہیں، سپریم کورٹ میں فائز عیسی نوازشریف کا سب سے بڑا نمائیندہ ہے، اگر اس کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو یقینناً چیخیں کوٹ لکھپت جیل سے ہی نکلیں گی۔
جسٹس فائز عیسی کو اس کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے نشان عبرت بنایا جائے، یہ ہمارا سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ ہے!!!
جولائی 2017 میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں پانامہ کیس میں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ آیا۔ پانامہ لیکس کے انکشافات ساری دنیا میں تسلیم کئے جاچکے تھے، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ورجن آئی لینڈ اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کی طرف سے نوازشریف فیملی کے چھپائے گئے اثاثوں کی تصدیق ہوچکی تھی، چنانچہ یہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا جس کا فیصلہ نااہلی کی صورت میں ہی سامنے آنا تھا۔
ججوں کے ذریعے مرضی کے فیصلے لینے میں ماہر نوازشریف پہلی مرتبہ مشکلات میں گھر چکا تھا، لیکن اب بھی اس کے پاس کچھ آپشنز موجود تھیں جن پر اس نے اپنے قانونی ماہرین کے مشوروں کی روشنی میں عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے پہلے پنڈی کے شکیل اعوان کے ذریعے اس کے سیاسی مخالف شیخ رشید کی نااہلی کی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی گئی جس میں الزام لگایا گیا کہ شیخ رشید نے اپنے اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز پر مشتمل پینل بنایا گیا جبکہ بعد میں جسٹس فائز عیسی نے بھی اس پینل میں شمولیت اختیار کرلی۔ شیخ رشید کے خلاف مقدمہ یہ تھا کہ اس کی زمین 1081 کنال پر مشتمل تھی لیکن اس نے کاغذات نامزدگی میں 983 کنال ظاہر کی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ زمین کے کاغذات اور تفاصیل جو کاغذات نامزدگی کے ساتھ اٹیچ کی گئیں، ان میں 1081 کنال ہی لکھا تھا چنانچہ اسے صرف ٹوٹل کی غلطی ہی کہا جاسکتا تھا، اور یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے تین میں سے دو ججوں نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر اثاثے چھپانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، کیونکہ اگر چھپانے ہوتے تو مکمل تفصیلات کاغذات نامزدگی کے ساتھ اٹیچ نہ کی جاتیں۔ شیخ رشید کے خلاف پٹیشن منسوخ کردی گئی لیکن جسٹس فائز عیسی نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔
اس اختلافی نوٹ میں جسٹس عیسی نے 9 سوالات اٹھائے جو کہ حرف بہ حرف وہی تھے جو نوازشریف نے اپنی نااہلی کے خلاف اپیل میں شام کئے تھے۔ فائز عیسی کے سوالات کچھ یوں تھے:
1۔ کیا کاغذات نامزدگی میں کوئی اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر تاعمر نااہلی کی سزا دی جاسکتی ہے؟
(اس سوال کا شیخ رشید کی پٹیشن سے کیا تعلق بنتا تھا؟ فائز عیسی تو خود اسے نااہل قرار دینے کے حق میں تھا)
2۔ کیا عدالتی کاروائی میں کی گئی غلط بیانی کی بنا پر نااہلی کی سزا ہوسکتی ہے؟ (یہ نکتہ بھی نوازشریف کے وکلا نے اپیل میں شامل کررکھا تھا اور اس کا بھی شیخ رشید کے کیس سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا)
الغرض، فائز عیسی نے شیخ رشید کے بہانے ایسے تمام سوالات اپنے اختلافی نوٹ میں شامل کردیئے جن کا براہ راست فائدہ نوازشریف کو ہو سکتا تھا، اور آخر میں ایک فل کورٹ بنا کر ان سوالات کا جواب مانگنے کی سفارش بھی کردی۔
جسٹس فائز عیسی کا یہ کنڈکٹ بہت سے قانونی ماہرین کو شک و شبہات میں مبتلا کرگیا۔
بعد میں شریف فیملی کے خلاف حدیبیہ پیپرزمل کا کیس بھی فائز عیسی کے پاس گیا اور اس " ایماندار " جج نے یہ کہہ کر نیب کا ریفرینس ڈانٹ کے بعد منسوخ کردیا کہ یہ ریفرینس " پرانا " ہوچکا ہے اور اب اسے دوبارہ کھولنا عدالتی روایت کے خلاف ہے۔ یعنی اربوں کی کرپشن اگر کسی وجہ سے موقع پر نہ پکڑی جائے تو پھراسے دوبارہ کھولنا عدالتی روایت اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو جاتا ہے۔ یہ تاریخی چول بھی جسٹس فائز عیسی کے ذریعے ہی ماری گئی۔
تیسرا اور اہم ترین فیصلہ مولوی خادم حسین دھرنے کے خلاف فائز عیسی کے سوموٹو نوٹس کا تھا جس میں بغیر کسی وجہ کے، فائز عیسی نے باقاعدہ نام لے کر آرمی، آرمی چیف، آئی ایس پی آر، آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف وہی باتیں دھرائیں جو بھارتی میڈیا اور را والے کرتے آئے ہیں ۔ ۔ ۔ اس پر بھی بہت سے قانونی حلقوں میں سوالات کھڑے ہوئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حق کی شناخت کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ شریف اور زرداری فیملی کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ جس کو وہ سپورٹ کریں، سمجھ جائیں کہ وہ سب کچھ ہے، لیکن حق نہیں۔
آج شریف فیملی اور زرداری جسٹس فائز عیسی کے خلاف مبینہ طور پر حکومتی ریفرینس پر چیخ و پکار کررہے ہیں۔
حق کی ایک دوسری پہچان یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی والے کس کو سپورٹ کررہے ہیں؟ آج یہ دونوں مذہب فروش جماعتیں بھی فائز عیسی کے حق میں ہیں جس سے فائز عیسی کا باطل ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال الیکشن کے دنوں میں ایک بدنام اور کرپٹ جماعتی جج شوکت صدیقی نے بھی آئی ایس آئی کے خلاف تقریر کردی تھی۔ جب سپریم جوڈیشل کونسل نے اس سے الزامات کے ثبوت مانگے تو کہہ دیا کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ جب ایک جج بغیر ثبوت کے ملک کے ادارے پر الزام عائد کرے تو اسے جج تو دور، بھنگی کے عہدے پر بھی نہیں رکھنا چاہیئے۔
جسٹس فائز عیسی نوازشریف کی پے رول پر ہے۔ اس پر مبینہ طور پرغیرملکی جائیدادوں کا الزام ہے اور ریفرینس صرف فائز عیسی ہی نہیں بلکہ دو دوسرے ججوں کے خلاف بھی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے ججز تو پہلے ہی نوازشریف کی جیب میں ہوتے ہیں، سپریم کورٹ میں فائز عیسی نوازشریف کا سب سے بڑا نمائیندہ ہے، اگر اس کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو یقینناً چیخیں کوٹ لکھپت جیل سے ہی نکلیں گی۔
جسٹس فائز عیسی کو اس کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے نشان عبرت بنایا جائے، یہ ہمارا سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ ہے!!!
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2018/10/5bc0074747866.jpg