Amir Khan's Great Discussion on Women's place in our society

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

اسلام نے عورت کو عزت اور برابری کا مقام دیا ، غیر مسلم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ، یہ سب جہالت کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں ابھی تک اس قسم کا تصور پایا جاتا ہے کہ عورت کمزور یا اس کا رتبہ کم ہے ، مغربی نظام نے عورت کی جس آزادی کا درس دیا ہے اس کے خوفناک نتائج آج ساری دنیا بھگت رہی ہے ، مردوں پر بھی فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق عورتوں کے حقوق کا خیال رکھیں
 

mrk123

Chief Minister (5k+ posts)
Since when did Indian society become "our" society?

The lady is impressive and agree with the overall message she is delivering. Most of what she is saying would apply to even western societies which claim to be the leaders in women's right but more specifically it applies to the Indian society.
 

Muhammad Ikhlaq Siddiqui

Minister (2k+ posts)

اسلام نے عورت کو عزت اور برابری کا مقام دیا ، غیر مسلم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ، یہ سب جہالت کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں ابھی تک اس قسم کا تصور پایا جاتا ہے کہ عورت کمزور یا اس کا رتبہ کم ہے ، مغربی نظام نے عورت کی جس آزادی کا درس دیا ہے اس کے خوفناک نتائج آج ساری دنیا بھگت رہی ہے ، مردوں پر بھی فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق عورتوں کے حقوق کا خیال رکھیں


ایک سوال۔

اسلام میں مرد کا حصہ وراثت میں عورت سے دوگنا ہے۔ برابری نہ ہونے کی توجیع؟
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)


ایک سوال۔

اسلام میں مرد کا حصہ وراثت میں عورت سے دوگنا ہے۔ برابری نہ ہونے کی توجیع؟


عورت کی میراث مردوں کے مقابلہ میں نصف کیوں ہے ؟
--------------------------------------------------------
اجمالی جواب
عورت کی بہ نسبت مرد کی وراثت زیادہ ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ عورت کا نفقہ مرد کے ذمہ ہے، یعنی مرد پر اپنے ذاتی اخراجات پورے کرنے کے علاوہ، فرض ہے کہ اپنی بیوی اور بچوں کی زندگی کے اخراجات بھی پورے کرےـ دوسری جانب سے مرد مہریہ دینے والا ہے، اور عورت مہریہ لینے والی ہےـ
حقیقت میں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ عورت کو جو کچھـ وراثت اور مہریہ کے طور پر ملتا ہے، وہ اس کی بچت ہوتی ہے، جبکہ مرد کی وراثت کا حصہ اس کی اپنی زندگی کے اخراجات اور بیوی بچوں کے اخراجات کے طور پر خرچ ہوتا ہےـ اس کے علاوہ دین اسلام میں مرد پر کچھـ فرائض بھی عائد کئے گئے ہیں، کہ جن کو انجام دینے میں ضروری ہے کہ مال خرچ کیا جائے، جیسے، مرد کو راہ جہاد میں کچھـ خرچ کرنا ضروری ہے یا اگر کوئی رشتہ دار خطا کی صورت میں کسی کو قتل یا زخمی کرنے کا مرتکب ہوجائے، تو مرد، مقتول کا دیہ ادا کرنے کا ذمہ دار ہے، جبکہ عورت پر اس سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نہیں ہےـ اگر چہ بظاہر مرد کی وراثت کا حصہ عورت کے حصہ کی بہ نسبت دوگنا ہے، لیکن عملی طور پر معاشرہ کی ثروت میں اس کا حقیقی حصہ عورت سے کئی گنا کم ہےـ چونکہ مرد وراثت میں زیادہ حصہ لیتا ہے، اس کے ذمہ سنگین مالی ذمہ داریاں بھی ہیںـ خلاصہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ: مرد اور عورت کی وراثت میں تفاوت کی علت، ان دونوں کے حقوق و فرائض میں توازن و تعادل برقرار کرنے کی دلیل ہےـ

تفصیلی جواب
مذکورہ سوال کا جواب دینے سے پہلے، اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ، مرد کا حصہ، عورت کی بہ نسبت دو برابر ہونا کوئی قاعدہ کلی نہیں ہے، بلکہ شرع و قانون میں ایسے مواقع بھی پائے جاتے ہیں کہ وراثت پانے میں، مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے، جیسے میت کے ماں باپ، دونوں مساوی صورت میں وراثت پاتے ہیں اور ان کے در میان کوئی فرق نہیں ہےـ
قدیم زمانہ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ عورت کی وراثت کیوں مرد کی بہ نسبت نصف ہے اور کیا یہ مرد کے حق میں ایک قسم کا امتیاز نہیں ہے؟ ایک سوال کیا جاتا ہے کہ عورت ضعیف اور کمزور اور زیادہ حمایت کی محتاج ہونے کے باوجود کیوں ایک حصہ کی مالک ہے اور مرد جسمانی طور پر قوی ہونے کے باوجود میت کی میراث کے دو حصے لیتا ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر زیادہ فرائض ہیں اور اس کے زمہ سنگین مسئولیتیں ہوتی ہیںـ مرد کو جہاد پر جانا پڑتا ہے اور اس سلسلہ میں مخارج کو مرد اپنے اخراجات اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے علاوہ ادا کرتا ہےـ مرد عاقلہ کی فہرست میں ہے اس لئے اسے اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کی خطا کے سلسلہ میں، مال ادا کرکے اس کی مدد کرنی چاہئے جبکہ عورت پر اس قسم کے فرائض نہیں ہیں
اسلام میں، وراثت کے باب میں جو بیان کیا گیا ہے، حقیقت میں وہ عورتوں کے حق میں ایک انقلاب ہے جاہلیت کے زمانہ میں، متوفی کی بیوی اور بیٹیاں وراثت سے محروم ہوتی تھیں اور متوفی کی پوری وراثت اس کے بیٹوں کو ملتی تھی، لیکن اسلام نے جاہلیت کے قوانین کو باطل قرار دیا
اور عورت کو متوفی کی وراثت کے زمرے میں قرار دیا اور اسی دن سے عورت کو، اموال میں مالکیت اور تصرف میں آزادی بخشی، یہ وہ کام ہے جسے، یورپی ممالک میں حالیہ دو صدیوں کے دوران رفتہ رفتہ قوانین میں داخل کیا گیا ہےـ
با وجودیکہ بظار وراثت میں مرد، عورت کی بہ نسبت دوبرابر لیتا ہے، لیکن سنجیدگی کے ساتھغور کرنے کے بعد واضح ہوتا ہے کہ ایک لحاظ سے عورتوں کی وراثت مردوں کی بہ نسبت دوبرابر ہے اور یہ اس حمایت کی وجہ سے ہے جس کی اسلام نے عورت کے حق میں کی ہےـمردوں پر جو فرائض عائد کئے گئے ہیں، وہ اس امر کے سبب بنتے ہیں کہ ان کی آمدنی نصف حصہ عورتوں پر خرچ ہوجائے ـ مرد کو اپنی بیوی کی زندگی کے اخراجات کو اس کی ضرورتوں کے مطابق، رہائش، لباس، خوراک اور دوسرے لوازمات کی صورت میں ادا کرنا ضروری ہے اور اس کے علاوہ اس کی اپنی زندگی کے اخراجات اور اس کی اولاد کے اخراجات بھی اس کے ذمہ ہیں ـ یہاں تک کہ اگر بیوی کی شان اور ضرورت کاتقاضا ہوتو اس کے لئے نوکر کا بھی اہتمام کرنا ہے، اگر عورت نوکر کی نتخواہ خود بھی ادا کرسکتی ہو، پھر بھی اس کی تنخواہ مرد کے ذمہ ہےان وضاحتوں کے پیش نظر، معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی وراثت عورت کی بہ نسبت زیادہ ہونا، مرد اور عورت کے درمیان ثروت میں توازن و تعادل پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے اور اگر اس سلسلہ میں کوئی اعتراض ہے تو وہ مردوں کی طرف سے ہونا چاہئے نہ عورتوں کی طرف سےمرد پر عائد فرائض کے مقابل میں، عورت، ہر قسم کا خرچہ برداشت کرنے سے مستثنی ہے اور یہاں تک کہ اپنے ذاتی اخراجات مانند، لباس اور خوراک و غیرہ کا خرچہ برداشت کرنے کے سلسلہ میں کسی قسم کی ذمہ داری نہیں رکھتی ہے، اس لئے، عملاً، یہ عورت ہے جو اموال میں سے زیادہ حصہ حاصل کرتی ہےـ

مذکورہ مطالب کے پیش نظر، وراثت ہیں عورت کا حصہ نصف ہونے کی وجہ کو تین حصوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:الف مہریہ: عقد ازدواج منعقد ہوتے وقت مرد کا فرض بنتا ہے کہ عورت کے لئے ایک مناسب مہریہ مد نظر رکھے کہ جب بھی عورت اس کا مطالبہ کرے، اسے مہریہ ادا کرنا چاہئےـ اگر ایسا نہ کیا تو بیوی کو اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہےـ لہذا، ازدواجی زندگی کے آغاز سے ہی مرد پر شرعاً فرض ہے کہ عورت کے لئے مہریہ مقرر کرے اور یہی ایک علت ہےب ـ نفقہ: ازدواجی زندگی میں، مرد پر فرض ہے کہ، اپنی زندگی کے اخراجات پورے کرنے کے علاوہ اپنی بیوی بچوں کے اخراجات بھی پورے کرے بیوی کی شان کے مطابق، خوراک، لباس اور رہائش و غیرہ کے اخراجات کا اہتمام کرنا مرد کے فرائض میں شامل ہے ـ عورت اگر دولت مند بھی ہو، پھر بھی اپنے اور اپنے بال بچوں کے اخراجات پورے کرنے کی کسی قسم کی ذمہ داری نہیں رکھتی ہے ـ عورت اپنی ازدواجی زندگی کے دوران نہ صرف کسی قسم کی مالی ذمہ داری نہیں رکھتی ہے، بلکہ اگر چاہے تو اسے حق ہے، اپنے گھر میں معمول کے روزمرہ کام، جیسے: بچے کو دودھ پلانے اور کھانا پکانے و غیرہ کے لئے اپنے شوہر سے اجرت حاصل کرےـج ـ مرد کی خاص ذمہ داریاں: مرد کے کاندھوں پر سنگین ذمہ داریاں ہیں کہ عورت ان سے مستثنی ہے، جیسے: راہ خدا میں جہاد کرنا و غیرہ ـ مرد کو اپنے مال و جان سے راہ خدا میں جہاد کرنا چاہئے ـ چنانچہ قرآن مجید کی آیات میں مال سے جہاد کرنا جان سے جہاد کرنے پر مقدم ہےـ مرد کو جہاد کے اخراجات خود ادا کرنے چاہئےمعلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے نہیں چاہا ہے کہ عورت کے حق میں اور مرد کے خلاف یا مرد کے حق میں اور عورت کے خلاف کوئی قانون وضع کرےـ اسلام نہ مرد کی طرفداری کرتا ہے اور نہ عورت کی ـ اسلام نے اپنے قوانین میں، مرد اور عورت اور ان کے دامن میں پرورش پانے والے فرزندوں کی بھلائی اور انسانی معاشرہ کی سعادت کو مدنظر رکھا ہے بہر حال، اسلام نے مرد کے لئے مد نظر اقتصادی و مالی فرائض اور تعہدات کی بنیاد پر، مختلف مواقع پر، من جملہ وراثت کے سلسلہ میں اقدام کیا ہے اور اس سلسلہ میں اسلام پر کسی قسم کے امتیازی سلوک کا الزام نہیں لگایا جا سکتا ہےـ دوسری جانب سے اسلام میں، مرد اور عورت کے بارے میں پائے جانے والے قواعد و ضوابط کا مجموعہ، تقاضا کرتا ہے کہ وراثت و غیرہ کے بارے میں اس کے قوانین ایک خاص صورت میں ہونے چاہئے اور یہ امر اسلام کے شہری قوانین کے اعتراض کا سبب نہیں بن سکتا ہےـ

بالاخرہ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اگرعورت کے اخراجات مرد کے ذمہ ہیں، تو عورت کو مال و دولت کی اور اسے بچت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ: عورت کا مہریہ اور اس کی وراثت آئندہ کے لئے بچت کے عنوان سے ہے، اگر اتفاق سے اپنے شوہر سے جدا ہوئی اور یا اس کا شوہر مرگیا، تو اپنی زندگی کو چلانے کے لئے کوئی پونجی اس کے پاس ہو اور پورے آرام و عزت کے ساتھـ زندگی بسر کر سکےـلیکن یہ کہ عورت کا نفقہ مرد کے ذمہ ہے، یہ اس لئے ہے کہ عورت کسی فکر و پریشانی کی بغیر اپنے فرزندوں کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالے اور لائق، قابل اور تربیت یافتہ فرزندوں کو معاشرہ کے حوالے کرے اور خاندان کے مرکز کی حرارت و گرمی کو محفوظ رکھے جو معاشرہ کا اصلی اور مرکزی نقطہ ہےـ

https://www.facebook.com/pages/Dr-Farhat-Hashmi/221323044582590?fref=nf
 
Last edited:

Back
Top