insaan
MPA (400+ posts)
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قلب میں ضیاء دور میں امریکی سی آئی اے کی ایماء پر بننے والی لال مسجد (جس کا مقصد جہاد افغانستان کیلئے مجاہدین اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی دہشتگرد تنظیموں کو اسلام آباد میں مستقل ٹھکانہ دینا تھا) اب بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے مشکوک اور کرپٹ کردار کی وجہ سے یہی مسجد ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے دے کر چیف جسٹس کے گھر والوں کو لندن کے پرتعیش ہوٹلوں میں سیر کی خاطر کئی مہینوں تک ٹہرانے کے اسیکنڈل کے بعد ملک ریاض کے کالے کرتوت ایک ایک کرکے سامنے آرہے ہیں۔
اس سلسلے میں وفاقی حکومت میں لال مسجد آپریشن کے بعد ملک ریاض کی طرف سے عالیشان طور پر ازسرنو تعمیر اور لال مسجد پر بحریہ ٹاؤن کی تختی لگانے پر بھی مختلف سماجی، ادبی، صحافتی اور دینی حلقوں میں بحث جاری ہے۔ اور عقل و خرد پر مبنی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جن میں سے سرفہرست یہ کہ ملک ریاض کی کمائی میں فراڈ، کرپشن، دھوکہ دہی، زمینوں پر قبضہ گروپ یا لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کی سرپرستی سے حاصل ہونے والی رقم شامل ہے، لیکن اس کے باوجود کیا اس حرام کی کمائی اور غصب شدہ جگہ(کیونکہ لال مسجد کی زمین چلڈرن لائبریری سے جبری چھین لی گئی تھی) پر مسجد کی تعمیر اور نماز پڑھنا جائز ہے۔؟؟
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ جو مسجد اور نماز پڑھنے کے لئے بھی اصول معین کر چکا ہے اور یہاں تک کہ اگر مسجد کسی راستے یا چوراہے میں تجاوزات کی شکل میں تعمیر ہے تو اس کی جگہ عوام کی سہولت کے لئے راستے کو ترجیح دیتا ہے، چہ جائیکہ مسجد غصبی جگہ اور حرام کی کمائی سے بنی ہو۔ ملک کے ممتاز اسکالرز اور علماء کا بھی یہی بیان ہے کہ اگر مسجد حرام کی دولت اور غصب کی جگہ یا کسی فساد کے نظریے پر بنی ہو تو وہ مسجد برائے نام مسجد تو ہو سکتی ہے لیکن اصل میں اس کی حثیت اوائل اسلام میں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے تعمیر شدہ مسجد ضرار جیسی ہی ہے۔
بہرحال اب جب کہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کی کرپشن، دھوکہ دہی اور رشوت و حرام کی کمائی کے قصے زبان زدعام ہے تو ایسے میں ملک ریاض کی طرف سے ازسرنو تعمیر کی جانے والی لال مسجد کی شرعی حثیت کا فیصلہ تو لال مسجد سے وابستہ افراد اور ادارے ہی کرسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں وفاقی حکومت میں لال مسجد آپریشن کے بعد ملک ریاض کی طرف سے عالیشان طور پر ازسرنو تعمیر اور لال مسجد پر بحریہ ٹاؤن کی تختی لگانے پر بھی مختلف سماجی، ادبی، صحافتی اور دینی حلقوں میں بحث جاری ہے۔ اور عقل و خرد پر مبنی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جن میں سے سرفہرست یہ کہ ملک ریاض کی کمائی میں فراڈ، کرپشن، دھوکہ دہی، زمینوں پر قبضہ گروپ یا لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کی سرپرستی سے حاصل ہونے والی رقم شامل ہے، لیکن اس کے باوجود کیا اس حرام کی کمائی اور غصب شدہ جگہ(کیونکہ لال مسجد کی زمین چلڈرن لائبریری سے جبری چھین لی گئی تھی) پر مسجد کی تعمیر اور نماز پڑھنا جائز ہے۔؟؟
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ جو مسجد اور نماز پڑھنے کے لئے بھی اصول معین کر چکا ہے اور یہاں تک کہ اگر مسجد کسی راستے یا چوراہے میں تجاوزات کی شکل میں تعمیر ہے تو اس کی جگہ عوام کی سہولت کے لئے راستے کو ترجیح دیتا ہے، چہ جائیکہ مسجد غصبی جگہ اور حرام کی کمائی سے بنی ہو۔ ملک کے ممتاز اسکالرز اور علماء کا بھی یہی بیان ہے کہ اگر مسجد حرام کی دولت اور غصب کی جگہ یا کسی فساد کے نظریے پر بنی ہو تو وہ مسجد برائے نام مسجد تو ہو سکتی ہے لیکن اصل میں اس کی حثیت اوائل اسلام میں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے تعمیر شدہ مسجد ضرار جیسی ہی ہے۔
بہرحال اب جب کہ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کی کرپشن، دھوکہ دہی اور رشوت و حرام کی کمائی کے قصے زبان زدعام ہے تو ایسے میں ملک ریاض کی طرف سے ازسرنو تعمیر کی جانے والی لال مسجد کی شرعی حثیت کا فیصلہ تو لال مسجد سے وابستہ افراد اور ادارے ہی کرسکتے ہیں۔
Last edited: