Allah Didn't Like to Mention Women in Quran - Junaid Jamshaid's Another Controversial Statement

Bunna

Minister (2k+ posts)
Re: Allah Don't Like to Mention Women in Quran - Junaid Jamshaid's Another Controversial Statement

کیسے کیسے گھٹیا لوگ ہیں

انکو بولنے کی تمیز نہیں ہے مگر قران و سنت پر ہر آدمی سند ہے
 

Res1Pect

Minister (2k+ posts)
میرے بھائی بات کو غلط رنگ مت دیں

الله پاک نے قران میں بہت سی عورتوں کا ذکر فرمایا ہے لیکن مریم علیھا السلام کے علاوہ کسی عورت کا نام سے ذکر نہیں کیا ...ان کا نام بھی اسی لیے لیا کہ لوگوں نے حضرت عیسئ کو الله کا بیٹا کہا تو الله پاک نے فرمایا کہ وہ تو مریم کے بیٹے ہیں ...

تو بات فقط یہ ہے کہ الله نے تقریباً تمام عورتوں کا، سواے مریم علیھا السلام کے، ذکر انکا نام لئے بغیر فرمایا
جس سے استدلال یہ ہے کہ عورت کا نام بھی پردے کی چیز ہے اور یہ عورت کے لیے احترام کا مقام ہے ...

باقی میری گزارش ہے اس بہنوں اور بھائیوں سے جو منہ میں غیبت کا گولہ لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ...ایمان والے دوسروں کے بارے میں اچھا گماں رکھتے ہیں نہ کہ ہر بات پر دوسروں کی عزت دری کرنے کے لیےتیار ....

الله ہم سب کو وہ اخلاق حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی توفیق دے جو ہمارے نبی pbuh نے ہمیں عملی طور پر سکھاے
 
Last edited:

UniFaithDici

Senator (1k+ posts)
کن مسائل میں عوام کو الجھا رہے ہو۔


جو کام کرنے کے ہیں ان پر توجہہ دیں، شر اور فساد پھیلانے میں ہی اگر کامیابی ہے تو اسے جاری رکھیں


پاکستانی عوام سب اکٹھے ہوکر اللہ سے سچی معافی مانگ لے تو آدھے مسائل فورا' حل ہوجائیں مگر یہ صرف انگلی اٹھانہ جانتی ہے اور وہ بھی دوسرے پر۔
 

Cyclops

Minister (2k+ posts)
سورہ القصص ایک گلدستہ ھے جو عورت ھی کی مختلف حیثیتوں کو مختلف رنگوں اور شیڈز میں کچھ اسطرح پیش کرتا ھے کہ فیصلہ کرنا مشکل ھو جاتا ھے کہ ان میں سے عورت کا کونسا روپ زیادہ عظیم اور مقدس ھے، اور کس میں عورت اپنی عقل و فہم کی معراج پر نظر آتی ھۓ ، حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ایک طرف تو گھر میں اتنی غالب اور اور فیصلہ کن حیثییت رکھتی ھیں کہ اللہ موسی علیہ السلام کے والد کی بجائے براہ راست انکی ماں کو وحی فرماتا ھے، جبکہ والد موجود تھے ،مگر پورے قصہِ موسی میں وہ پکچر میں ھی نہیں ھیں ، بات شروع ھی بڑے طمطراق سے ھوئی ھے کہ ،فرعون ایسا تھا ،ویسا تھا ،وہ یہ یہ ستم کر رھا تھا اور ھم نے فیصلہ کیا کہ بہت ھو گیا اب ھم اس قوم کی حالت بدل کر رھیں گے ،کمزوروں کی کمزوری کو قوت سے بدلیں گے اور ان کی اس پستی کو عزت میں تبدیل کر دیں گے ، اب تو ھم ان کو حاکم بنا کر چھوڑیں گے اور آلِ فرعون اور ھامان ان کے لاؤ لشکر کو وہ کچھ کر کے دکھائیں گے جس کے خدشے سے انہوں نے ظلم و ستم کی چکی چلا رکھی ھے ،،، پتہ چلتا ھے کہ اتنی لمبی اسٹیٹمنٹ کے بعد کوئی دھماکہ کیا جائے گا ، کوئی اھم ترین قدم اٹھایا جانے والا ھے جو قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا،،،

وہ اھم اقدام کیا تھا ؟ ھم نے وحی کی ام موسی کی طرف کہ بچے کو تسلی سے دودھ پلاتی رھو اگر خدشہ محسوس ھو تو اس کو تابوت میں رکھ کر دریا میں پھینک دینا ،میں دریا سے کہے دیتا ھوں کہ وہ اس کو امان کے ساتھ کنارے پر لگا دے ،،اوئے دریا اس بچے کے تابوت کو ڈبونا نہیں بلکہ کنارے پر لگانا ھے،امام محمد متولی الشعراوی فرماتے ھیں کہ ام موسی کو تسلی کے لئے دریا سے رب کا خطاب سنوایا گیا ،،

عرض یہ کرنا ھے کہ اللہ پاک نے گھر میں عورت کے اھم کردار کو تسلیم کر کے عورت کو فیصلہ لینے کے لئے کہا ھے، اگر ھم بھی کسی گھر میں شوھر کو کمزور دیکھ کر عورت سے گھر یا گاڑی کا سودا کر لیں تو کوئی حرج نہیں ،، عورت کا فیصلہ اخری ھوتا ھے ،جبکہ شوھر کا فیصلہ بیوی کی منظوری کا محتاج رھتا ھے،پارلیمنٹ کے ووٹ کی طرح،،، ام موسی علیہا السلام کے عمل کے بعد فرعون کی بیوی آسیہ کا کردار بحیثیت ایک حاوی خاتون کے ظاھر ھوتا ھے ،گویا موسی عورت سے عورت کی نگرانی میں عورت کو منتقل ھو رھے ھیں ،،

مرد صرف ساہڈ ھیرو ھے، عورت کی نگرانی سے مراد موسیؑ کی بہن ھے مراد ھے ،بڑا بھائی ھارون دستیاب ھونے کے باوجود ماں کا بیٹی کو جاسوسی کے لئے منتخب کرنا اگر ایک طرف ماں اور بیٹی کے آپس کے تعلقات کے قرب کو اجاگر کرتا ھے تو دوسری طرف ماں کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ ماں اپنے بچوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح آگاہ ھوتی ھے ، پھر بیٹی کا اسطرح نگرانی کرنا کہ وہ بچے سے اپنی کسی دلچسپی یا تعلق کو ظاھر کیے بغیر بچے پر نظر رکھے ،بہت بڑی بات تھی اور اللہ پاک نے اس کی اس ادا کا خاص ذکر فرمایا ھے کہ ماں نے تو بیٹی سے کہا" پیچھے لگ جا اس کے " پھر فرمایا ،پس اس نے نظر رکھی اس پر اجنبی بن کر اور ان کو پتہ بھی نہ چلنے دیا" کہ اس 9 سال کی بچی کا اس تابوت والے بچے کے ساتھ کوئی تعلق ھے ،، بلکہ جب اس بچے کی زندگی اور موت کا فیصلہ ھونے جا رھا تھا اور فرعون اور اسکی بیوی میں بچے کو قتل کرنے ،نہ کرنے پر بحث چل رھی تھی تو اس لڑکی نے اس پورے عرصے میں اپنے کزی جذباتی لگاؤ کو ظاھر نہیں ھونے دیا نہ ھی اتنی بیتابی دکھائی کہ محل والے چونک جاتے اور نہ ھی رونا دھونا شروع کیا ،،بلکہ مناسب وقت کا انتظار کیا اور بچے کو پالنے کا فیصلہ ھو گیا اور بچے کو دودھ پلانے کی بحث شروع ھوئی تو اس نے مشورہ دیا کہ " کیا میں تمہیں بتاؤں وہ گھرانہ جو اس کو خیرخواھی سے دودھ پلائے اور پالے ،کیونکہ بچہ کسی اور کا دودھ نہیں پی رھا تھا،، اور روئے جا رھا تھا اور بھوک سے ھلکان تھا ، اس اضطراری موقعے پر کسی کو سوچنے کی مہلت ھی نہیں ملی کہ 9 سال کی بچی دودھ کے معاملات کو کیا جانے ،یا اس کو کیا پتہ کہ کون بچے کا خیر خواہ ھے،،یہ وقت کے انتخاب کا کمال ھے ،،، دوسری جانب جب صندوق کنارے لگا اور صندوق میں سے بچہ نکلا جو ظاھر بنی اسرائیل کا ھی تھا ، جس کو قتل سے بچانے کے لئے کسی ماں نے دریا میں ڈال دیا تھا،اور وہ قاتلوں کے ھاتھ لگ گیا تھا ، فرعون اس کو فوری قتل کرنے پر اصرار کر رھا تھا ،جبکہ فرعون کی بیوی ڈھال بنی کھڑی تھی کہ ،لا تقتلوہ " مت قتل کرو اس کو ،،

ھم اس کو اپنا بیٹا بنا لیتے ھیں ،چار دن کھیلیں گے ،گھر کی رونق رھے گا،، اگر کوئی ایسی ویسی بات دیکھی تو قتل کر دیں گے ،،اتنی افراتفری کی ضرورت کیا ھے ؟ کیا یہ ابھی سے تلوار اٹھا لے گا؟ گھر میں اداسی ھے اپ دربار چلے جاتے ھو اور میں گھر میں اکیلی مکھیاں مارتی رھتی ھوں ،ذرا ماحول میں چینجنگ ھو جائے گی ،، اسطرح ھامان جیسے خرانٹ مشیر کے مشوروں کےمقابلے اپنی بات منوا کر ایک عورت کی جیت ھوئی اور اس گھر میں بھی اللہ نے موسی حفاظت کے لئے ایک عورت پر بھروسہ کیا جس نے اس اعتماد پر پورا اتر کر دکھایا اور جو ٹاسک اس کو سونپا گیا تھا،وہ اس نے پورا کر دکھایا،یعنی تینوں جگہ اللہ نے عورتوں پر بھروسہ کیا تینوں جگہ عورتیں کامیاب ھوئیں،پہلے ام موسی ،پھر اُختِ موسی ، پھر فرعون کی بیوی ،گویا تینوں عورتوں کا ریزلٹ 100٪ رھا ،جبکہ آگے چل کے آپ ھاروں علیہ السلام کے بارے میں پڑھیں گے کہ موسی علیہ السلام نے ان کو جو ذمہ داری سونپی تھی وہ اس میں فیل ھوگئے اور سامری اینڈ کمپنی کی ایکٹیویٹیز کو ٹھیک طرح سے مانیٹر نہ کر پائے اور سامری نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اور حضرت ھارون اپنی نماز روزے میں لگے رھے، مگر جب ان لوگوں نے بچھڑے کو خدا بنا لیا تو اس وقت وہ متحرک ھوئے مگر وقت ھاتھ سے نکل چکا تھا اور قوم کچھ اس طرح سامری کی معتقد ھو چکی تھی کہ وہ ان کو قتل کرنے پر بھی تیا ر ھو گئی ،،،

موسی علیہ السلام فرعون کے محل میں پلتے رھے پھر جب وھاں سے انکو نبوت کی تربیت کے لئے اکیڈیمی منتقل کرنے کا مرحلہ آیا اور آپ سے ایک قتلِ خطا سرزد کروا کے اس کو افشاء کیا گیا اور موسی علیہ السلام کو مدین کی بستی میں داخل کر دیا گیا ،جہاں پھر عورت ھی انکا استقبال کرنے کے لئے موجود تھی ،، شیخ مدین کی دو بیٹیاں پانی پلانے کو کھڑی تھیں، وہ حیا کی وجہ سے مردوں میں گھلتی ملتی نہیں تھیں اور بچہ کھچا پانی ھی اپنے جانوروں کو پلا پاتی تھیں ،، مگر اس سارے عرصے میں پیاس سے بےتاب جانوروں کو روک روک کے رکھنا بڑا مشکل اور اذیتناک مرحلہ ھوتا ھے ،اس کا اندازہ مویشی چرانے والوں کو ھی ھو سکتا ھے ،، آپ نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تمہیں مسئلہ کیا ھے؟ چھوڑ دو جانوروں کو جا کر پانی پینے دو! انہوں نے بتایا کہ ھماری بستی کا دستور یہ ھے کہ جو ادمی پانی کھینچ رھا ھو اسی کے جانور پانی کے ٹب کے پاس جا سکتے ھیں ،، آپ نے ڈول پکڑا اور جھٹ پٹ پانی کھینچ کر پلا دیا ،، اور خود جا کر درخت کے نیچے کھڑے ھو گئے اور دعا کی پروردگا میں آج اتنا مجبور و بے کس ھوں کہ جو بھی جتنی بھی خیر تو بھیج دے میں فقیر ھوں ،، پس ان میں سے ایک حیا سے ،حیا پر چلتی ھوئی آئی ،،گویا وہ عورت موسی علیہ السلام کی دعا کا جواب" خیر " تھی اب ساری خیریں اس خیر سے نکلنی تھیں،،وہ لڑکی جناب موسیؑ کو بہترین اور بامقصد الفاظ سے مخطب کرتی ھے اور ایسی معقول وجہ بیان کرتی ھے کہ موسیؑ جیسے حساس شخص کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر ساتھ جانے پر آمادہ کر لیتی ھے ،، گھر میں وھی لڑکی باپ کی مشیر ھے اور کہتی ھے ابا ھمیں اب گھر میں کسی مرد کی سخت ضروت ھے ،اور یہ بندہ بڑا دیندار،قوی اور دیانتدار ھے ،اس سے اچھا بندہ ملنا مشکل ھے اسے ھاتھ سے نکلنے مت دینا ،لیں جناب لڑکی کا مشورہ مان لیا گیا ،گھر میں جوان کو اسی صورت رکھا جا سکتا تھا کہ کوئی محرم رشتہ قائم ھو جائے ،، موسیؑ کو رشتے کی پیش کش کی گئی اور آپ نے قدرتاً اسی لڑکی کی طرف میلان ظاھر فرمایا جو خیر بن کر آئی تھی ، اس پورے قصے میں آپ نے عورت کی عقل و فہم ،کمٹمنٹ، ڈیڈیکیشن اور اپنے کام کو بہترین انداز میں پایا ئے تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت نوٹ کی ھوگی ،،یہ ھے عورت کا وہ قرآنی پہلو جس کو پڑھ کر یورپ کی عورت ششدر رہ جاتی ھے، اور اپنے کو مسلم بنانے میں فخر محسوس کرتی ھے
 

Cyclops

Minister (2k+ posts)
قرآن کی بیان کردہ مدبر اور کامیاب حکمران " ملکہ سبا بلقیس " ! قرآنِ حکیم نے جہاں انبیاء پر لگائے گئے الزامات سے ان کا دامن صاف کیا ھے وھیں ملکہ سبا بلقیس کے بارے میں بھی یہود کی ھرزہ سرائیوں کا منہ توڑ جواب دیا اور انہیں ایک مدبر اور اپنے عوام سے محبت کرنے والی ایک ذھین مسلمان ملکہ کے طور پر پیش کیا ھے !

جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے خط لکھا تو اس نے اپنی شوری کا اجلاس بلایا ،،جبکہ وہ مشرک اور سورج کی پوجا کرنے والی تھی ،،مگر قرآنی خبر " و امرھم شوری بینھم " کہ مسلمانوں کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ھوتے ھیں کا مصداق تھی ! شوری کے دوران سرداروں نے جنگ کی طرف میلان ظاھر کیا اور اپنی قوت اور تجربے کا حوالہ دیا مگر آخری فیصلہ ملکہ پر ھی چھوڑ دیا !

ملکہ نے ان سے تاریخ کا نچوڑ صرف ایک جملے میں بیان کر دیا ،، اور اللہ پاک نے ملکہ کے قول کی تائید فرمائی ! اس نے کہا " دیکھو یہ بادشاہ لوگ جب فاتح ھو کر کسی بستی میں گھستے ھیں تو وھاں فساد بپا کر دیتے ھیں اور اس بستی کے عزیز ترین لوگوں کو ذلیل ترین بنا دیتے ھیں ،، اللہ پاک نے فرمایا ،، و کذالک یفعلون "بالکل اسی طرح کرتے ھیں !

آج بھی ھم دیکھتے ھیں کہ ملکہ بلقیس کا قول کتنا ٹو دا پؤائنٹ ھے،، عراق اور لیبیا کو دیکھ لیں،،کل تک جو عہدوں اور طاقت کے لحاظ سے ٹاپ ٹین تھے وہ اگلے دن موسٹ وانٹیڈ لسٹ میں ٹاپ ٹین پر تھے ! پھر اس نے جنگ کے آپشن کو رد کر کے کہا کہ میں ایک وفد بھیج رھی ھوں جو وھاں جا کر صورتحال کا جائزہ لے گا اور اس کی رپورٹ پر ھی اگلا قدم طے کیا جائے گا ! اپنے سفراء کی رپورٹ سے غیر مطمئن ملکہ نے خود دورہ کرنے کا ارادہ کر لیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنے دورے کی اطلاع دے دی ،،

حضرت سلیمان نے ملکہ کا تخت منگوا لیا اور جب وہ دربار مین حاضر ھوئی
تو اس کا "' تــراہ " نکالنے کے لئے اک دم اسی کا تخت بیٹھنے کے لئے پیش کر دیا ،، اور سوال کیا " أھٰکذا عرشکِ؟ کیا آپ کا عرش بھی اسی جیسا ھے ؟ ملکہ نے نہایت وقار سے تخت پر قدم رنجہ فرماتے ھوئے بڑا ڈپلومیٹک جواب دیا ،، جس سے اس کی ذھانت کا اندازہ ھوتا ھے،، اس نے نہ تو تعجب کا اظہار کیا ،، اور نہ ھاں یا نہ میں جواب دیا ،،بلکہ کہا " کأنہ ھو !! لگتا تو اسی جیسا ھے ! مگر اس نے اس بات کو اپنے حساب میں جوڑ ضرور لیا !

پھر جب سلیمان علیہ السلام نے اپنا دربار اس ھال میں سجایا جہاں نہایت شفاف شیشے کا فرش تھا جس کے پانی میں نیچے چلتی پھرتی مچھلیاں بھی نظر آرھی تھیں اور ملکہ کو دربار میں دعوت دی گئ تو ملکہ نے سمجھا کہ دربار تک جانے والے رستے مین پانی ھے تو اس نے اپنی شلوار تھوڑی سی اوپر اٹھائی ،جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے آواز دی کہ تشریف لائیے یہ شیشہ ھے پانی اس کے نیچے ھے،، اس بات سےملکہ حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئ کہ یہ نفیس آدمی عام دنیا دار بادشاہ نہیں بلکہ واقعتاً کسی عظیم آسمانی ھستی کا نمائندہ ھے،، یوں اس نے سابقہ زندگی سے توبہ کر کے سلیمان علیہ السلام کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا !

جس کے نتیجے میں اس کے اندازِ حکومت کو دیکھتے ھوئے سبا کی حکومت ملکہ ھی کے پاس رھنے دی گئ ،یوں ملکہ اپنی پوری قوم سمیت مسلمان ھو گئ،،خود بھی دونوں جہانوں میں کامیاب ھوئی اور اپنی قوم کو بھی سرخرو کر دیا ! اس کا تقابل اگر کرنا ھے تو مرد بادشاہ سے کر کے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں کہ مرد بادشاہ کامیاب ھوا یا عورت ملکہ ؟؟ نیز کس کی قوم برباد ھوئی ،مرد بادشاہ کی یا عورت حکمران کی ؟؟

1-پہلے نمبر پر فرعون کو دیکھ لیں ایک نہیں دو رسول تشریف لائے تھے،ایک ملاقات نہیں بلکہ 30 سال انہوں نے محنت کی اور 9 معجزے اس نے دیکھے ! مگر خود بھی ڈوبا اور قوم بھی ڈبو دی ! قرآن اس کی بربادی اور کم عقلی کا ذکر کچھ یوں کرتا ھے " و اضل فرعون قومہ وما ھدی،، فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا ،انہیں سیدھی راہ نہ سجھائی ! اور فیصلہ سنایا یقدم قومہ یوم القیامہ فاوردھم علی النار، و بئس ورد المورد ! اور وہ اپنی قوم کے اگے آگے چلے گا قیامت کے دن اور انہیں آگ میں جا اتارے گا اور برا ٹھکانہ ھے اترنے کے لئے !

2- قیصر کو اللہ کے رسول ﷺ نے خط لکھا اور اسے لکھا کہ اگر تم مسلمان ھو جاؤ گے تو تمہاری قوم بھی مسلمان ھو جائے گی اور تمہیں ان کے اسلام کا اجر بھی ملے گا،،اور تمہاری بادشاھی بھی تمہارے پاس رھے گی ! اور اگر تم پہلے کافر بنے تو تمہاری قوم بھی تمہارے اتباع میں کافر رھے گی ، یوں تمہیں ان کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھانا ھو گا ! ابوسفیان کی گواھی کے نتیجے میں حق کچھ اس طرح قیصر پر واضح ھوا تھا کہ اس نے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ اس رسول کا حکم ٹھیک اس جگہ پہنچ کر رھے گا جہاں اس وقت میرے یہ قدم ھیں،،مگر وہ اپنی قوم کے سرداروں کے دباؤ کا سامنا نہ کر سکا اور ان کے دباؤ میں اور بادشاھی جانے کے ڈر سے اسلام قبول نہ کر سکا یوں خود بھی برباد ھوا اور اپنی قوم کو بھی برباد کیا، جبکہ ملکہ بلقیس نے حق واضح ھو جانے کے بعد ایک لمحے کی دیر بھی نہیں کی اور اسلام کو قبول کرنے کا بولڈ قدم اٹھایا اور سرداروں کے دباؤ کو مسترد کر کے اپنے عوام کو دونوں جہانوں کی بربادی سے بھی بچا لیا اور اپنی بادشاھی اور حکمرانی بھی بچا لے گئ !
 

Username

Senator (1k+ posts)
میرے بھائی بات کو غلط رنگ مت دیں

الله پاک نے قران میں بہت سی عورتوں کا ذکر فرمایا ہے لیکن مریم علیھا السلام کے علاوہ کسی عورت کا نام سے ذکر نہیں کیا ...ان کا نام بھی اسی لیے لیا کہ لوگوں نے حضرت عیسئ کو الله کا بیٹا کہا تو الله پاک نے فرمایا کہ وہ تو مریم کے بیٹے ہیں ...

تو بات فقط یہ ہے کہ الله نے تقریباً تمام عورتوں کا، سواے مریم علیھا السلام کے، ذکر انکا نام لئے بغیر فرمایا
جس سے استدلال یہ ہے کہ عورت کا نام بھی پردے کی چیز ہے اور یہ عورت کے لیے احترام کا مقام ہے ...

باقی میری گزارش ہے اس بہنوں اور بھائیوں سے جو منہ میں غیبت کا گولہ لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ...ایمان والے دوسروں کے بارے میں اچھا گماں رکھتے ہیں نہ کہ ہر بات پر دوسروں کی عزت دری کرنے کے لیےتیار ....

الله ہم سب کو وہ اخلاق حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی توفیق دے جو ہمارے نبی pbuh نے ہمیں عملی طور پر سکھاے

سورہ القصص ایک گلدستہ ھے جو عورت ھی کی مختلف حیثیتوں کو مختلف رنگوں اور شیڈز میں کچھ اسطرح پیش کرتا ھے کہ فیصلہ کرنا مشکل ھو جاتا ھے کہ ان میں سے عورت کا کونسا روپ زیادہ عظیم اور مقدس ھے، اور کس میں عورت اپنی عقل و فہم کی معراج پر نظر آتی ھۓ ، حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ایک طرف تو گھر میں اتنی غالب اور اور فیصلہ کن حیثییت رکھتی ھیں کہ اللہ موسی علیہ السلام کے والد کی بجائے براہ راست انکی ماں کو وحی فرماتا ھے، جبکہ والد موجود تھے ،مگر پورے قصہِ موسی میں وہ پکچر میں ھی نہیں ھیں ، بات شروع ھی بڑے طمطراق سے ھوئی ھے کہ ،فرعون ایسا تھا ،ویسا تھا ،وہ یہ یہ ستم کر رھا تھا اور ھم نے فیصلہ کیا کہ بہت ھو گیا اب ھم اس قوم کی حالت بدل کر رھیں گے ،کمزوروں کی کمزوری کو قوت سے بدلیں گے اور ان کی اس پستی کو عزت میں تبدیل کر دیں گے ، اب تو ھم ان کو حاکم بنا کر چھوڑیں گے اور آلِ فرعون اور ھامان ان کے لاؤ لشکر کو وہ کچھ کر کے دکھائیں گے جس کے خدشے سے انہوں نے ظلم و ستم کی چکی چلا رکھی ھے ،،، پتہ چلتا ھے کہ اتنی لمبی اسٹیٹمنٹ کے بعد کوئی دھماکہ کیا جائے گا ، کوئی اھم ترین قدم اٹھایا جانے والا ھے جو قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا،،،

وہ اھم اقدام کیا تھا ؟ ھم نے وحی کی ام موسی کی طرف کہ بچے کو تسلی سے دودھ پلاتی رھو اگر خدشہ محسوس ھو تو اس کو تابوت میں رکھ کر دریا میں پھینک دینا ،میں دریا سے کہے دیتا ھوں کہ وہ اس کو امان کے ساتھ کنارے پر لگا دے ،،اوئے دریا اس بچے کے تابوت کو ڈبونا نہیں بلکہ کنارے پر لگانا ھے،امام محمد متولی الشعراوی فرماتے ھیں کہ ام موسی کو تسلی کے لئے دریا سے رب کا خطاب سنوایا گیا ،،

عرض یہ کرنا ھے کہ اللہ پاک نے گھر میں عورت کے اھم کردار کو تسلیم کر کے عورت کو فیصلہ لینے کے لئے کہا ھے، اگر ھم بھی کسی گھر میں شوھر کو کمزور دیکھ کر عورت سے گھر یا گاڑی کا سودا کر لیں تو کوئی حرج نہیں ،، عورت کا فیصلہ اخری ھوتا ھے ،جبکہ شوھر کا فیصلہ بیوی کی منظوری کا محتاج رھتا ھے،پارلیمنٹ کے ووٹ کی طرح،،، ام موسی علیہا السلام کے عمل کے بعد فرعون کی بیوی آسیہ کا کردار بحیثیت ایک حاوی خاتون کے ظاھر ھوتا ھے ،گویا موسی عورت سے عورت کی نگرانی میں عورت کو منتقل ھو رھے ھیں ،،

مرد صرف ساہڈ ھیرو ھے، عورت کی نگرانی سے مراد موسیؑ کی بہن ھے مراد ھے ،بڑا بھائی ھارون دستیاب ھونے کے باوجود ماں کا بیٹی کو جاسوسی کے لئے منتخب کرنا اگر ایک طرف ماں اور بیٹی کے آپس کے تعلقات کے قرب کو اجاگر کرتا ھے تو دوسری طرف ماں کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ ماں اپنے بچوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح آگاہ ھوتی ھے ، پھر بیٹی کا اسطرح نگرانی کرنا کہ وہ بچے سے اپنی کسی دلچسپی یا تعلق کو ظاھر کیے بغیر بچے پر نظر رکھے ،بہت بڑی بات تھی اور اللہ پاک نے اس کی اس ادا کا خاص ذکر فرمایا ھے کہ ماں نے تو بیٹی سے کہا" پیچھے لگ جا اس کے " پھر فرمایا ،پس اس نے نظر رکھی اس پر اجنبی بن کر اور ان کو پتہ بھی نہ چلنے دیا" کہ اس 9 سال کی بچی کا اس تابوت والے بچے کے ساتھ کوئی تعلق ھے ،، بلکہ جب اس بچے کی زندگی اور موت کا فیصلہ ھونے جا رھا تھا اور فرعون اور اسکی بیوی میں بچے کو قتل کرنے ،نہ کرنے پر بحث چل رھی تھی تو اس لڑکی نے اس پورے عرصے میں اپنے کزی جذباتی لگاؤ کو ظاھر نہیں ھونے دیا نہ ھی اتنی بیتابی دکھائی کہ محل والے چونک جاتے اور نہ ھی رونا دھونا شروع کیا ،،بلکہ مناسب وقت کا انتظار کیا اور بچے کو پالنے کا فیصلہ ھو گیا اور بچے کو دودھ پلانے کی بحث شروع ھوئی تو اس نے مشورہ دیا کہ " کیا میں تمہیں بتاؤں وہ گھرانہ جو اس کو خیرخواھی سے دودھ پلائے اور پالے ،کیونکہ بچہ کسی اور کا دودھ نہیں پی رھا تھا،، اور روئے جا رھا تھا اور بھوک سے ھلکان تھا ، اس اضطراری موقعے پر کسی کو سوچنے کی مہلت ھی نہیں ملی کہ 9 سال کی بچی دودھ کے معاملات کو کیا جانے ،یا اس کو کیا پتہ کہ کون بچے کا خیر خواہ ھے،،یہ وقت کے انتخاب کا کمال ھے ،،، دوسری جانب جب صندوق کنارے لگا اور صندوق میں سے بچہ نکلا جو ظاھر بنی اسرائیل کا ھی تھا ، جس کو قتل سے بچانے کے لئے کسی ماں نے دریا میں ڈال دیا تھا،اور وہ قاتلوں کے ھاتھ لگ گیا تھا ، فرعون اس کو فوری قتل کرنے پر اصرار کر رھا تھا ،جبکہ فرعون کی بیوی ڈھال بنی کھڑی تھی کہ ،لا تقتلوہ " مت قتل کرو اس کو ،،

ھم اس کو اپنا بیٹا بنا لیتے ھیں ،چار دن کھیلیں گے ،گھر کی رونق رھے گا،، اگر کوئی ایسی ویسی بات دیکھی تو قتل کر دیں گے ،،اتنی افراتفری کی ضرورت کیا ھے ؟ کیا یہ ابھی سے تلوار اٹھا لے گا؟ گھر میں اداسی ھے اپ دربار چلے جاتے ھو اور میں گھر میں اکیلی مکھیاں مارتی رھتی ھوں ،ذرا ماحول میں چینجنگ ھو جائے گی ،، اسطرح ھامان جیسے خرانٹ مشیر کے مشوروں کےمقابلے اپنی بات منوا کر ایک عورت کی جیت ھوئی اور اس گھر میں بھی اللہ نے موسی حفاظت کے لئے ایک عورت پر بھروسہ کیا جس نے اس اعتماد پر پورا اتر کر دکھایا اور جو ٹاسک اس کو سونپا گیا تھا،وہ اس نے پورا کر دکھایا،یعنی تینوں جگہ اللہ نے عورتوں پر بھروسہ کیا تینوں جگہ عورتیں کامیاب ھوئیں،پہلے ام موسی ،پھر اُختِ موسی ، پھر فرعون کی بیوی ،گویا تینوں عورتوں کا ریزلٹ 100٪ رھا ،جبکہ آگے چل کے آپ ھاروں علیہ السلام کے بارے میں پڑھیں گے کہ موسی علیہ السلام نے ان کو جو ذمہ داری سونپی تھی وہ اس میں فیل ھوگئے اور سامری اینڈ کمپنی کی ایکٹیویٹیز کو ٹھیک طرح سے مانیٹر نہ کر پائے اور سامری نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اور حضرت ھارون اپنی نماز روزے میں لگے رھے، مگر جب ان لوگوں نے بچھڑے کو خدا بنا لیا تو اس وقت وہ متحرک ھوئے مگر وقت ھاتھ سے نکل چکا تھا اور قوم کچھ اس طرح سامری کی معتقد ھو چکی تھی کہ وہ ان کو قتل کرنے پر بھی تیا ر ھو گئی ،،،

موسی علیہ السلام فرعون کے محل میں پلتے رھے پھر جب وھاں سے انکو نبوت کی تربیت کے لئے اکیڈیمی منتقل کرنے کا مرحلہ آیا اور آپ سے ایک قتلِ خطا سرزد کروا کے اس کو افشاء کیا گیا اور موسی علیہ السلام کو مدین کی بستی میں داخل کر دیا گیا ،جہاں پھر عورت ھی انکا استقبال کرنے کے لئے موجود تھی ،، شیخ مدین کی دو بیٹیاں پانی پلانے کو کھڑی تھیں، وہ حیا کی وجہ سے مردوں میں گھلتی ملتی نہیں تھیں اور بچہ کھچا پانی ھی اپنے جانوروں کو پلا پاتی تھیں ،، مگر اس سارے عرصے میں پیاس سے بےتاب جانوروں کو روک روک کے رکھنا بڑا مشکل اور اذیتناک مرحلہ ھوتا ھے ،اس کا اندازہ مویشی چرانے والوں کو ھی ھو سکتا ھے ،، آپ نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تمہیں مسئلہ کیا ھے؟ چھوڑ دو جانوروں کو جا کر پانی پینے دو! انہوں نے بتایا کہ ھماری بستی کا دستور یہ ھے کہ جو ادمی پانی کھینچ رھا ھو اسی کے جانور پانی کے ٹب کے پاس جا سکتے ھیں ،، آپ نے ڈول پکڑا اور جھٹ پٹ پانی کھینچ کر پلا دیا ،، اور خود جا کر درخت کے نیچے کھڑے ھو گئے اور دعا کی پروردگا میں آج اتنا مجبور و بے کس ھوں کہ جو بھی جتنی بھی خیر تو بھیج دے میں فقیر ھوں ،، پس ان میں سے ایک حیا سے ،حیا پر چلتی ھوئی آئی ،،گویا وہ عورت موسی علیہ السلام کی دعا کا جواب" خیر " تھی اب ساری خیریں اس خیر سے نکلنی تھیں،،وہ لڑکی جناب موسیؑ کو بہترین اور بامقصد الفاظ سے مخطب کرتی ھے اور ایسی معقول وجہ بیان کرتی ھے کہ موسیؑ جیسے حساس شخص کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر ساتھ جانے پر آمادہ کر لیتی ھے ،، گھر میں وھی لڑکی باپ کی مشیر ھے اور کہتی ھے ابا ھمیں اب گھر میں کسی مرد کی سخت ضروت ھے ،اور یہ بندہ بڑا دیندار،قوی اور دیانتدار ھے ،اس سے اچھا بندہ ملنا مشکل ھے اسے ھاتھ سے نکلنے مت دینا ،لیں جناب لڑکی کا مشورہ مان لیا گیا ،گھر میں جوان کو اسی صورت رکھا جا سکتا تھا کہ کوئی محرم رشتہ قائم ھو جائے ،، موسیؑ کو رشتے کی پیش کش کی گئی اور آپ نے قدرتاً اسی لڑکی کی طرف میلان ظاھر فرمایا جو خیر بن کر آئی تھی ، اس پورے قصے میں آپ نے عورت کی عقل و فہم ،کمٹمنٹ، ڈیڈیکیشن اور اپنے کام کو بہترین انداز میں پایا ئے تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت نوٹ کی ھوگی ،،یہ ھے عورت کا وہ قرآنی پہلو جس کو پڑھ کر یورپ کی عورت ششدر رہ جاتی ھے، اور اپنے کو مسلم بنانے میں فخر محسوس کرتی ھے

یہ کیسا احترام ہے کہ اے عورت ہم تیرا احترام کرتے ہیں اس لئے


١. ہم تیرا نام قرآن میں نہیں لکھیں گے
٢. ہم تجھے گھر کے اندر چھپا کر رکھیں گے
٣. ہم تجھ جیسی چار چار سے شادی کریں گے پر کیوں کے تیرا احترام ہے اس لئے توبس ایک پہ ہی گزارا کر
٤. کیوں کے تیرا احترام ہے اس لئے خدا ہمیشہ اے میرے بندے کہے گا کبھی اے میری عورت نہیں کہے گا
٥. کیوں کے تیرا بھہت احترام ہے اس لئے تیری گواہی بھی قبول نہیں - احترام کی وجہ سے تجھ جیسی دو ہوں تو جنکا احترام نہیں (مرد حضرات ) انکے ایک کے برابر ہو گی
٦. احترام کی وجہ سے ہی تجھے اے عورت باندی بنایا گیا ہے- تجھ جیسی بیشمار ایک مرد کے زیر نگوں رہیں گی - تجھ سے بچے بھی ہونگے پر تو بیوی نہیں ہو گی نہ ہی تیرے بچون کو جائداد کا حق دیا جائے گا-


لکھنے کو تو بہت کچھ ہے پر مذہب کے اندھوں کو ہری ہری ہی سوجھتی ہے - مان کے نہیں دیں گے
 

Username

Senator (1k+ posts)
سورہ القصص ایک گلدستہ ھے جو عورت ھی کی مختلف حیثیتوں کو مختلف رنگوں اور شیڈز میں کچھ اسطرح پیش کرتا ھے کہ فیصلہ کرنا مشکل ھو جاتا ھے کہ ان میں سے عورت کا کونسا روپ زیادہ عظیم اور مقدس ھے، اور کس میں عورت اپنی عقل و فہم کی معراج پر نظر آتی ھۓ ، حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ایک طرف تو گھر میں اتنی غالب اور اور فیصلہ کن حیثییت رکھتی ھیں کہ اللہ موسی علیہ السلام کے والد کی بجائے براہ راست انکی ماں کو وحی فرماتا ھے، جبکہ والد موجود تھے ،مگر پورے قصہِ موسی میں وہ پکچر میں ھی نہیں ھیں ، بات شروع ھی بڑے طمطراق سے ھوئی ھے کہ ،فرعون ایسا تھا ،ویسا تھا ،وہ یہ یہ ستم کر رھا تھا اور ھم نے فیصلہ کیا کہ بہت ھو گیا اب ھم اس قوم کی حالت بدل کر رھیں گے ،کمزوروں کی کمزوری کو قوت سے بدلیں گے اور ان کی اس پستی کو عزت میں تبدیل کر دیں گے ، اب تو ھم ان کو حاکم بنا کر چھوڑیں گے اور آلِ فرعون اور ھامان ان کے لاؤ لشکر کو وہ کچھ کر کے دکھائیں گے جس کے خدشے سے انہوں نے ظلم و ستم کی چکی چلا رکھی ھے ،،، پتہ چلتا ھے کہ اتنی لمبی اسٹیٹمنٹ کے بعد کوئی دھماکہ کیا جائے گا ، کوئی اھم ترین قدم اٹھایا جانے والا ھے جو قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا،،،

وہ اھم اقدام کیا تھا ؟ ھم نے وحی کی ام موسی کی طرف کہ بچے کو تسلی سے دودھ پلاتی رھو اگر خدشہ محسوس ھو تو اس کو تابوت میں رکھ کر دریا میں پھینک دینا ،میں دریا سے کہے دیتا ھوں کہ وہ اس کو امان کے ساتھ کنارے پر لگا دے ،،اوئے دریا اس بچے کے تابوت کو ڈبونا نہیں بلکہ کنارے پر لگانا ھے،امام محمد متولی الشعراوی فرماتے ھیں کہ ام موسی کو تسلی کے لئے دریا سے رب کا خطاب سنوایا گیا ،،

عرض یہ کرنا ھے کہ اللہ پاک نے گھر میں عورت کے اھم کردار کو تسلیم کر کے عورت کو فیصلہ لینے کے لئے کہا ھے، اگر ھم بھی کسی گھر میں شوھر کو کمزور دیکھ کر عورت سے گھر یا گاڑی کا سودا کر لیں تو کوئی حرج نہیں ،، عورت کا فیصلہ اخری ھوتا ھے ،جبکہ شوھر کا فیصلہ بیوی کی منظوری کا محتاج رھتا ھے،پارلیمنٹ کے ووٹ کی طرح،،، ام موسی علیہا السلام کے عمل کے بعد فرعون کی بیوی آسیہ کا کردار بحیثیت ایک حاوی خاتون کے ظاھر ھوتا ھے ،گویا موسی عورت سے عورت کی نگرانی میں عورت کو منتقل ھو رھے ھیں ،،

مرد صرف ساہڈ ھیرو ھے، عورت کی نگرانی سے مراد موسیؑ کی بہن ھے مراد ھے ،بڑا بھائی ھارون دستیاب ھونے کے باوجود ماں کا بیٹی کو جاسوسی کے لئے منتخب کرنا اگر ایک طرف ماں اور بیٹی کے آپس کے تعلقات کے قرب کو اجاگر کرتا ھے تو دوسری طرف ماں کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ ماں اپنے بچوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح آگاہ ھوتی ھے ، پھر بیٹی کا اسطرح نگرانی کرنا کہ وہ بچے سے اپنی کسی دلچسپی یا تعلق کو ظاھر کیے بغیر بچے پر نظر رکھے ،بہت بڑی بات تھی اور اللہ پاک نے اس کی اس ادا کا خاص ذکر فرمایا ھے کہ ماں نے تو بیٹی سے کہا" پیچھے لگ جا اس کے " پھر فرمایا ،پس اس نے نظر رکھی اس پر اجنبی بن کر اور ان کو پتہ بھی نہ چلنے دیا" کہ اس 9 سال کی بچی کا اس تابوت والے بچے کے ساتھ کوئی تعلق ھے ،، بلکہ جب اس بچے کی زندگی اور موت کا فیصلہ ھونے جا رھا تھا اور فرعون اور اسکی بیوی میں بچے کو قتل کرنے ،نہ کرنے پر بحث چل رھی تھی تو اس لڑکی نے اس پورے عرصے میں اپنے کزی جذباتی لگاؤ کو ظاھر نہیں ھونے دیا نہ ھی اتنی بیتابی دکھائی کہ محل والے چونک جاتے اور نہ ھی رونا دھونا شروع کیا ،،بلکہ مناسب وقت کا انتظار کیا اور بچے کو پالنے کا فیصلہ ھو گیا اور بچے کو دودھ پلانے کی بحث شروع ھوئی تو اس نے مشورہ دیا کہ " کیا میں تمہیں بتاؤں وہ گھرانہ جو اس کو خیرخواھی سے دودھ پلائے اور پالے ،کیونکہ بچہ کسی اور کا دودھ نہیں پی رھا تھا،، اور روئے جا رھا تھا اور بھوک سے ھلکان تھا ، اس اضطراری موقعے پر کسی کو سوچنے کی مہلت ھی نہیں ملی کہ 9 سال کی بچی دودھ کے معاملات کو کیا جانے ،یا اس کو کیا پتہ کہ کون بچے کا خیر خواہ ھے،،یہ وقت کے انتخاب کا کمال ھے ،،، دوسری جانب جب صندوق کنارے لگا اور صندوق میں سے بچہ نکلا جو ظاھر بنی اسرائیل کا ھی تھا ، جس کو قتل سے بچانے کے لئے کسی ماں نے دریا میں ڈال دیا تھا،اور وہ قاتلوں کے ھاتھ لگ گیا تھا ، فرعون اس کو فوری قتل کرنے پر اصرار کر رھا تھا ،جبکہ فرعون کی بیوی ڈھال بنی کھڑی تھی کہ ،لا تقتلوہ " مت قتل کرو اس کو ،،

ھم اس کو اپنا بیٹا بنا لیتے ھیں ،چار دن کھیلیں گے ،گھر کی رونق رھے گا،، اگر کوئی ایسی ویسی بات دیکھی تو قتل کر دیں گے ،،اتنی افراتفری کی ضرورت کیا ھے ؟ کیا یہ ابھی سے تلوار اٹھا لے گا؟ گھر میں اداسی ھے اپ دربار چلے جاتے ھو اور میں گھر میں اکیلی مکھیاں مارتی رھتی ھوں ،ذرا ماحول میں چینجنگ ھو جائے گی ،، اسطرح ھامان جیسے خرانٹ مشیر کے مشوروں کےمقابلے اپنی بات منوا کر ایک عورت کی جیت ھوئی اور اس گھر میں بھی اللہ نے موسی حفاظت کے لئے ایک عورت پر بھروسہ کیا جس نے اس اعتماد پر پورا اتر کر دکھایا اور جو ٹاسک اس کو سونپا گیا تھا،وہ اس نے پورا کر دکھایا،یعنی تینوں جگہ اللہ نے عورتوں پر بھروسہ کیا تینوں جگہ عورتیں کامیاب ھوئیں،پہلے ام موسی ،پھر اُختِ موسی ، پھر فرعون کی بیوی ،گویا تینوں عورتوں کا ریزلٹ 100٪ رھا ،جبکہ آگے چل کے آپ ھاروں علیہ السلام کے بارے میں پڑھیں گے کہ موسی علیہ السلام نے ان کو جو ذمہ داری سونپی تھی وہ اس میں فیل ھوگئے اور سامری اینڈ کمپنی کی ایکٹیویٹیز کو ٹھیک طرح سے مانیٹر نہ کر پائے اور سامری نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا اور حضرت ھارون اپنی نماز روزے میں لگے رھے، مگر جب ان لوگوں نے بچھڑے کو خدا بنا لیا تو اس وقت وہ متحرک ھوئے مگر وقت ھاتھ سے نکل چکا تھا اور قوم کچھ اس طرح سامری کی معتقد ھو چکی تھی کہ وہ ان کو قتل کرنے پر بھی تیا ر ھو گئی ،،،

موسی علیہ السلام فرعون کے محل میں پلتے رھے پھر جب وھاں سے انکو نبوت کی تربیت کے لئے اکیڈیمی منتقل کرنے کا مرحلہ آیا اور آپ سے ایک قتلِ خطا سرزد کروا کے اس کو افشاء کیا گیا اور موسی علیہ السلام کو مدین کی بستی میں داخل کر دیا گیا ،جہاں پھر عورت ھی انکا استقبال کرنے کے لئے موجود تھی ،، شیخ مدین کی دو بیٹیاں پانی پلانے کو کھڑی تھیں، وہ حیا کی وجہ سے مردوں میں گھلتی ملتی نہیں تھیں اور بچہ کھچا پانی ھی اپنے جانوروں کو پلا پاتی تھیں ،، مگر اس سارے عرصے میں پیاس سے بےتاب جانوروں کو روک روک کے رکھنا بڑا مشکل اور اذیتناک مرحلہ ھوتا ھے ،اس کا اندازہ مویشی چرانے والوں کو ھی ھو سکتا ھے ،، آپ نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تمہیں مسئلہ کیا ھے؟ چھوڑ دو جانوروں کو جا کر پانی پینے دو! انہوں نے بتایا کہ ھماری بستی کا دستور یہ ھے کہ جو ادمی پانی کھینچ رھا ھو اسی کے جانور پانی کے ٹب کے پاس جا سکتے ھیں ،، آپ نے ڈول پکڑا اور جھٹ پٹ پانی کھینچ کر پلا دیا ،، اور خود جا کر درخت کے نیچے کھڑے ھو گئے اور دعا کی پروردگا میں آج اتنا مجبور و بے کس ھوں کہ جو بھی جتنی بھی خیر تو بھیج دے میں فقیر ھوں ،، پس ان میں سے ایک حیا سے ،حیا پر چلتی ھوئی آئی ،،گویا وہ عورت موسی علیہ السلام کی دعا کا جواب" خیر " تھی اب ساری خیریں اس خیر سے نکلنی تھیں،،وہ لڑکی جناب موسیؑ کو بہترین اور بامقصد الفاظ سے مخطب کرتی ھے اور ایسی معقول وجہ بیان کرتی ھے کہ موسیؑ جیسے حساس شخص کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر ساتھ جانے پر آمادہ کر لیتی ھے ،، گھر میں وھی لڑکی باپ کی مشیر ھے اور کہتی ھے ابا ھمیں اب گھر میں کسی مرد کی سخت ضروت ھے ،اور یہ بندہ بڑا دیندار،قوی اور دیانتدار ھے ،اس سے اچھا بندہ ملنا مشکل ھے اسے ھاتھ سے نکلنے مت دینا ،لیں جناب لڑکی کا مشورہ مان لیا گیا ،گھر میں جوان کو اسی صورت رکھا جا سکتا تھا کہ کوئی محرم رشتہ قائم ھو جائے ،، موسیؑ کو رشتے کی پیش کش کی گئی اور آپ نے قدرتاً اسی لڑکی کی طرف میلان ظاھر فرمایا جو خیر بن کر آئی تھی ، اس پورے قصے میں آپ نے عورت کی عقل و فہم ،کمٹمنٹ، ڈیڈیکیشن اور اپنے کام کو بہترین انداز میں پایا ئے تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت نوٹ کی ھوگی ،،یہ ھے عورت کا وہ قرآنی پہلو جس کو پڑھ کر یورپ کی عورت ششدر رہ جاتی ھے، اور اپنے کو مسلم بنانے میں فخر محسوس کرتی ھے


آپ ایک علیحدہ قرآن لکھ لیں کیوں کے آپ نے اپنی پوسٹ میں سرف سٹوریاں لکھی ہیں
مثال کے طور پہ یہ پیرا ملاخظ فرمائیے


"جبکہ فرعون کی بیوی ڈھال بنی کھڑی تھی کہ ،لا تقتلوہ " مت قتل کرو اس کو ،،
ھم اس کو اپنا بیٹا بنا لیتے ھیں ،چار دن کھیلیں گے ،گھر کی رونق رھے گا،، اگر کوئی ایسی ویسی بات دیکھی تو قتل کر دیں گے ،،اتنی افراتفری کی ضرورت کیا ھے ؟ کیا یہ ابھی سے تلوار اٹھا لے گا؟ گھر میں اداسی ھے اپ دربار چلے جاتے ھو اور میں گھر میں اکیلی مکھیاں مارتی رھتی ھوں ،ذرا ماحول میں چینجنگ ھو جائے گی ،، اسطرح ھامان جیسے خرانٹ مشیر کے مشوروں کےمقابلے اپنی بات منوا کر ایک عورت کی جیت ھوئی اور اس گھر میں بھی اللہ نے موسی حفاظت کے لئے ایک عورت پر بھروسہ کیا جس نے اس اعتماد پر پورا اتر کر دکھایا اور جو ٹاسک اس کو سونپا گیا تھا،وہ اس نے پورا کر دکھایا"


یہ سب قرآن میں کہاں لکھا ہے؟ آپ ایک علمی مسلے پربحث کر رہے ہیں کے بچو ں کو کہانیاں سنا رہیں ہیں
 

Sher_ka_Shakari

Senator (1k+ posts)
You need to change the thread title. A small mistake at your part has changed the whole meaning of what he is trying to say.

He said "Allah did not like to mention women by NAME in Quran".

Your title says "Allah didn't like to mention Women in Quran".

Listen carefully
 
Last edited:

ali-raj

Chief Minister (5k+ posts)
@Geek yaar apney gumrah kun thread title banaya hai,plz change karain. Aisi koi baat JJ ney nahin kahi.
[MENTION=10205]Waseem[/MENTION] [MENTION=4902]RashidAhmed[/MENTION] zara saza u dain Geek ko ghalat thread title bananey ki.
 

Username

Senator (1k+ posts)
قرآن کی بیان کردہ مدبر اور کامیاب حکمران " ملکہ سبا بلقیس " ! قرآنِ حکیم نے جہاں انبیاء پر لگائے گئے الزامات سے ان کا دامن صاف کیا ھے وھیں ملکہ سبا بلقیس کے بارے میں بھی یہود کی ھرزہ سرائیوں کا منہ توڑ جواب دیا اور انہیں ایک مدبر اور اپنے عوام سے محبت کرنے والی ایک ذھین مسلمان ملکہ کے طور پر پیش کیا ھے !

جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے خط لکھا تو اس نے اپنی شوری کا اجلاس بلایا ،،جبکہ وہ مشرک اور سورج کی پوجا کرنے والی تھی ،،مگر قرآنی خبر " و امرھم شوری بینھم " کہ مسلمانوں کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ھوتے ھیں کا مصداق تھی ! شوری کے دوران سرداروں نے جنگ کی طرف میلان ظاھر کیا اور اپنی قوت اور تجربے کا حوالہ دیا مگر آخری فیصلہ ملکہ پر ھی چھوڑ دیا !

ملکہ نے ان سے تاریخ کا نچوڑ صرف ایک جملے میں بیان کر دیا ،، اور اللہ پاک نے ملکہ کے قول کی تائید فرمائی ! اس نے کہا " دیکھو یہ بادشاہ لوگ جب فاتح ھو کر کسی بستی میں گھستے ھیں تو وھاں فساد بپا کر دیتے ھیں اور اس بستی کے عزیز ترین لوگوں کو ذلیل ترین بنا دیتے ھیں ،، اللہ پاک نے فرمایا ،، و کذالک یفعلون "بالکل اسی طرح کرتے ھیں !

آج بھی ھم دیکھتے ھیں کہ ملکہ بلقیس کا قول کتنا ٹو دا پؤائنٹ ھے،، عراق اور لیبیا کو دیکھ لیں،،کل تک جو عہدوں اور طاقت کے لحاظ سے ٹاپ ٹین تھے وہ اگلے دن موسٹ وانٹیڈ لسٹ میں ٹاپ ٹین پر تھے ! پھر اس نے جنگ کے آپشن کو رد کر کے کہا کہ میں ایک وفد بھیج رھی ھوں جو وھاں جا کر صورتحال کا جائزہ لے گا اور اس کی رپورٹ پر ھی اگلا قدم طے کیا جائے گا ! اپنے سفراء کی رپورٹ سے غیر مطمئن ملکہ نے خود دورہ کرنے کا ارادہ کر لیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنے دورے کی اطلاع دے دی ،،

حضرت سلیمان نے ملکہ کا تخت منگوا لیا اور جب وہ دربار مین حاضر ھوئی
تو اس کا "' تــراہ " نکالنے کے لئے اک دم اسی کا تخت بیٹھنے کے لئے پیش کر دیا ،، اور سوال کیا " أھٰکذا عرشکِ؟ کیا آپ کا عرش بھی اسی جیسا ھے ؟ ملکہ نے نہایت وقار سے تخت پر قدم رنجہ فرماتے ھوئے بڑا ڈپلومیٹک جواب دیا ،، جس سے اس کی ذھانت کا اندازہ ھوتا ھے،، اس نے نہ تو تعجب کا اظہار کیا ،، اور نہ ھاں یا نہ میں جواب دیا ،،بلکہ کہا " کأنہ ھو !! لگتا تو اسی جیسا ھے ! مگر اس نے اس بات کو اپنے حساب میں جوڑ ضرور لیا !

پھر جب سلیمان علیہ السلام نے اپنا دربار اس ھال میں سجایا جہاں نہایت شفاف شیشے کا فرش تھا جس کے پانی میں نیچے چلتی پھرتی مچھلیاں بھی نظر آرھی تھیں اور ملکہ کو دربار میں دعوت دی گئ تو ملکہ نے سمجھا کہ دربار تک جانے والے رستے مین پانی ھے تو اس نے اپنی شلوار تھوڑی سی اوپر اٹھائی ،جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے آواز دی کہ تشریف لائیے یہ شیشہ ھے پانی اس کے نیچے ھے،، اس بات سےملکہ حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئ کہ یہ نفیس آدمی عام دنیا دار بادشاہ نہیں بلکہ واقعتاً کسی عظیم آسمانی ھستی کا نمائندہ ھے،، یوں اس نے سابقہ زندگی سے توبہ کر کے سلیمان علیہ السلام کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا !

جس کے نتیجے میں اس کے اندازِ حکومت کو دیکھتے ھوئے سبا کی حکومت ملکہ ھی کے پاس رھنے دی گئ ،یوں ملکہ اپنی پوری قوم سمیت مسلمان ھو گئ،،خود بھی دونوں جہانوں میں کامیاب ھوئی اور اپنی قوم کو بھی سرخرو کر دیا ! اس کا تقابل اگر کرنا ھے تو مرد بادشاہ سے کر کے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں کہ مرد بادشاہ کامیاب ھوا یا عورت ملکہ ؟؟ نیز کس کی قوم برباد ھوئی ،مرد بادشاہ کی یا عورت حکمران کی ؟؟

1-پہلے نمبر پر فرعون کو دیکھ لیں ایک نہیں دو رسول تشریف لائے تھے،ایک ملاقات نہیں بلکہ 30 سال انہوں نے محنت کی اور 9 معجزے اس نے دیکھے ! مگر خود بھی ڈوبا اور قوم بھی ڈبو دی ! قرآن اس کی بربادی اور کم عقلی کا ذکر کچھ یوں کرتا ھے " و اضل فرعون قومہ وما ھدی،، فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا ،انہیں سیدھی راہ نہ سجھائی ! اور فیصلہ سنایا یقدم قومہ یوم القیامہ فاوردھم علی النار، و بئس ورد المورد ! اور وہ اپنی قوم کے اگے آگے چلے گا قیامت کے دن اور انہیں آگ میں جا اتارے گا اور برا ٹھکانہ ھے اترنے کے لئے !

2- قیصر کو اللہ کے رسول ﷺ نے خط لکھا اور اسے لکھا کہ اگر تم مسلمان ھو جاؤ گے تو تمہاری قوم بھی مسلمان ھو جائے گی اور تمہیں ان کے اسلام کا اجر بھی ملے گا،،اور تمہاری بادشاھی بھی تمہارے پاس رھے گی ! اور اگر تم پہلے کافر بنے تو تمہاری قوم بھی تمہارے اتباع میں کافر رھے گی ، یوں تمہیں ان کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھانا ھو گا ! ابوسفیان کی گواھی کے نتیجے میں حق کچھ اس طرح قیصر پر واضح ھوا تھا کہ اس نے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ اس رسول کا حکم ٹھیک اس جگہ پہنچ کر رھے گا جہاں اس وقت میرے یہ قدم ھیں،،مگر وہ اپنی قوم کے سرداروں کے دباؤ کا سامنا نہ کر سکا اور ان کے دباؤ میں اور بادشاھی جانے کے ڈر سے اسلام قبول نہ کر سکا یوں خود بھی برباد ھوا اور اپنی قوم کو بھی برباد کیا، جبکہ ملکہ بلقیس نے حق واضح ھو جانے کے بعد ایک لمحے کی دیر بھی نہیں کی اور اسلام کو قبول کرنے کا بولڈ قدم اٹھایا اور سرداروں کے دباؤ کو مسترد کر کے اپنے عوام کو دونوں جہانوں کی بربادی سے بھی بچا لیا اور اپنی بادشاھی اور حکمرانی بھی بچا لے گئ !

اگر اپکا استدلال یہ ہے کہ ملکہ صبا نے اپنے وقت کے نبی پہ ایمان لا کے ساری دنیا کی خواتین کی معاملہ فہمی اور ذہانت و فطانت کو منوا لیا ہے تو آپ اپنے تاریخ کے علم پہ نظر ثانی کریں کیوں کہ
١. اسپین سے مسلمانوں کو نکلنے والی ایک خاتون تھیں ملکہ ازابیلا-
٢. جہاں نبییو ں کو خواتین نے سہارا تھا وہی پہ خواتین نے انہیں اکیلا بھی چھوڑا جیسا کے لوط کی بیوی نے - جیسا کے نوح کی بیوی نے (روایتاً)


آپ کی دلیل کیا ہے اور اس پوسٹ سے اسکا تعلق کیا ہے ؟
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
یہ کیسا احترام ہے کہ اے عورت ہم تیرا احترام کرتے ہیں اس لئے


١. ہم تیرا نام قرآن میں نہیں لکھیں گے
٢. ہم تجھے گھر کے اندر چھپا کر رکھیں گے
٣. ہم تجھ جیسی چار چار سے شادی کریں گے پر کیوں کے تیرا احترام ہے اس لئے توبس ایک پہ ہی گزارا کر
٤. کیوں کے تیرا احترام ہے اس لئے خدا ہمیشہ اے میرے بندے کہے گا کبھی اے میری عورت نہیں کہے گا
٥. کیوں کے تیرا بھہت احترام ہے اس لئے تیری گواہی بھی قبول نہیں - احترام کی وجہ سے تجھ جیسی دو ہوں تو جنکا احترام نہیں (مرد حضرات ) انکے ایک کے برابر ہو گی
٦. احترام کی وجہ سے ہی تجھے اے عورت باندی بنایا گیا ہے- تجھ جیسی بیشمار ایک مرد کے زیر نگوں رہیں گی - تجھ سے بچے بھی ہونگے پر تو بیوی نہیں ہو گی نہ ہی تیرے بچون کو جائداد کا حق دیا جائے گا-


لکھنے کو تو بہت کچھ ہے پر مذہب کے اندھوں کو ہری ہری ہی سوجھتی ہے - مان کے نہیں دیں گے
عورت کا احترام یہ ہے کے اس کا نام چوراہوں چوباروں پر لکھا جائے
اسے سجا سنوار کر بازاروں کی زینت بنایا جائے
چار سے شادی نہیں کریں لیکن دس بارہ سے خفیہ تعلقات بنائیں گے
عام فہم کی بات ہے خواتین مردوں کے تذکرے میں شامل ہوتی ہے، جہاں ضرورت ہے وہاں صرف اور صرف خواتین کو مخاطب کیا گیا ہے
دو عورتوں کی گواہی کی وجہ خواتین میں بھول جانے خدشہ (مردوں کی نسبت زیادہ) بتایا گیا ہے
باندی بنانا ایک محدود اور مخصوص صورت حال کا محتاج ہے. جسیے ختم کرنے کے دلائل بھی موجود ہیں. لیکن اس کا علاج یہ نکالا گیا کے عورت کو باندی بنا دیا جائے جس مرضی چاہے مرد سے منہ کالا کرے اور اکیلی ماں بن کر رہے

لادنیت کے مقلدین نے جو بھی علاج نکالا وہ پہلی صورت (جو ان کے نزدیک توہین آمیز ہے) سے زیادہ توہین آمیز ہے
 
Last edited:

pcdoc24x7

Minister (2k+ posts)
Ek to saare social media per aalim-e-deen fatwa dene ke liye betaab nazar aate hain ... Bhaiyon yeh bakwas kaam chodo aur Allah se tauba karo aur namaz qaim karo. pehle apne amaal durast karo phir baqion ki fiqr karna. Also this is out of context just to create sensation .... I guess this is what this nation has now become. A nation who loves controversies and sensationalism. Sorry but this post should be deleted as it's really stupid and unnecessary.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
صاف ظاہر ہو رہا ہے محظ لچ تلنے کے لئے آدھا سچ بتایا جا رہا ہے