Aik Aur Judicial Commission Orya Maqbool Jan

airbender

Councller (250+ posts)
1102979658-2.gif


SourceUrl: http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1102979658&Issue=NP_ISB&Date=20150727
 

rahat

Senator (1k+ posts)
Judicial Commission
Please read carefully the most important part of findings of Commission in the following Paragraph 534:
534. However on account of the potential serious...
consequences which its findings may have on the Governing of the
State and potential criminal consequences for individuals the
Commission did not deem it appropriate to adopt a standard of
proof lower than the balance of probabilities.
Is this not enough that commission acted beyond its jurisdiction and adopted their own standard's of proof and avoided to investigation under the power given to the commission through the ordinance of its formation.
It is clear violation of law and must be challenged as the members of the commission violate the decision of Supreme Court against "Law of necessitate"
Let's demand for the trail of these members of the commission for the volition of their oath and constitution.
 

araein

Chief Minister (5k+ posts)
Judicial Commission
Please read carefully the most important part of findings of Commission in the following Paragraph 534:
534. However on account of the potential serious...
consequences which its findings may have on the Governing of the
State and potential criminal consequences for individuals the
Commission did not deem it appropriate to adopt a standard of
proof lower than the balance of probabilities.
Is this not enough that commission acted beyond its jurisdiction and adopted their own standard's of proof and avoided to investigation under the power given to the commission through the ordinance of its formation.
It is clear violation of law and must be challenged as the members of the commission violate the decision of Supreme Court against "Law of necessitate"
Let's demand for the trail of these members of the commission for the volition of their oath and constitution.

Dear Can you elaborate it in simple words??? OR Can you describe it further?
 

zeshaan

Chief Minister (5k+ posts)
ایسے قانون کا کیا فائدہ اسکو بدلنا ہی ہوگا . کب تک سابقہ حکمرانوں یعنی انگریزوں کےگند سے بھرے کپڑے دھوتے رہو گے ?
 

M javed

Banned
Doctrine of necessity is being brought in as a conspiracy to dispute the findings of the Judicial Commission (JC) and to exhonerate Imran Khan.

The JC gave its findings within the parameters of the Terms of Reference (TORs).

The inquiry was neither of criminal nor of civil but of inquisitorial nature ie, based on the questions asked and answers given on all the sides and in the case of seriou odds on the evidence produced,

Answers or replies given by the parties, in the of case of the discerning dissatisfaction, were to be adjudicated based on evidence.

The PTI failed to prove their accusations by failing to produce any evidence.

The PTI and the PPP had the joint pretext that the evidence was in the bags..

They might possibly have failed to understand the nature of inquiry and wanted to make it adversersorial with an expected opportunity that something somewhere will come out in their favour. The minimum goal could be lingering on the matter and use it as a source for adverse and poisonous propaganda against the opponents and the state institutions.

The relevant rules do not allow adversarial proceedings for a so formed commission and the Constitution entrusts this task to be performed by Election Tribunals.

It is dangerously wrong to say the doctrine of necessity was applied as it was beyond the jurisdiction, the imposed limitations of TORs and the nature of inquiry that the JC could have applied it.

As usual, the anchor person is trying to become more than clever in an attempt to be a jack of all but master of none.

The other serious aspect is the confused understanding between the "illegal snatching of polls" and the "designed snatching of polls" in Urdu "dhandli" and "Munazzm dhandli".

The TOR facing the JC was not dhandli but munazzam dhandli.

Scattered incidents of "dhandli" can not be ruled out but can not constitute a "Munazzm dhandli" which according to the Khan's allegations, the beneficiary (Nawaz Shrif) snatched away the mandate of all the 21 political parties through the nook and corner of the country.


As per the findings of the JC, this allegation could not be proved due to the lack of evidence.

Not to speak of producing the supportive evidence before the JC, Mr. Khan who was so much vocal in the allegations dared not to appear before the JC as a witness..

In these circumstance, it is highly unjust to shed misgivings on the findings of the JC.
 
Last edited:

Zafar Malik

Chief Minister (5k+ posts)
ایک اور جوڈیشل کمیشن


378578-harfaraz-1437928294-387-640x480.JPG


انگریز سے ورثے میں ملے ہوئے پاکستان کے اینگلو سیکسن عدالتی نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ پورے ملک، صوبے، شہر، قصبے یا گاؤں میں جرم اور مجرم دونوں کی اس قدر واضح پہچان موجود ہوتی ہے، بچے بچے کی زبان پر مجرم کا نام اور گلی گلی میں اس جرم کے قصے سنائی دیتے ہیں، لوگ مجرم کے خوف سے تھر تھر کانپ بھی رہے ہوتے ہیں، انھیں اس مکان، عمارت یا پناہ گاہ کا بھی ٹھیک ٹھیک پتہ ہوتا ہے جہاں سے جرم پروان چڑھتا ہے، لیکن لوگوں کا یہ تاثر، ان کی آنکھوں کے سامنے موجود یہ حقیقت اکثر اوقات عدالتی فیصلوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ اکثر فیصلے اس موہوم سے فقرے پر آکر ختم ہوجاتے ہیں کہ مجرم کے خلاف صفحۂ مثل پر ثبوت ناکافی ہیں یا پھر یہ کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

.اس عدالتی نظام کے حامیوں اور وکیلوں سے سوال کرو کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وہ شخص جسے پوری دنیا بددیانت، چور، ڈاکو، قاتل، اسمگلر، منشیات فروش، بھتہ خور یا بدمعاش کے طور پر ایک مسلّم حقیقت کے طورپر جانتی ہو بلکہ اس کے مقدمے کے فیصلے کرنے والے جج کو بھی ایمان کی حد تک یقین ہو کہ یہ شخص ایسا ہی خوفناک مجرم ہے مگر جج اسے چھوڑنے یا بری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ جج کے سامنے جو ثبوت اور جو گواہی پیش کی جائے گی وہ اسی کے مطابق فیصلہ کرے گا، اپنے ذاتی علم اور ذاتی گواہی کی بنیاد پر تو نہیں کرے گا۔ یعنی کسی تھانے کا تفتیشی آفیسر، یا کسی ادارے کا وکیل مجرم یا جرم کے بارے میں جیسا کیس پہلے دن بناکر ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں لائے گا، جو چالان، گواہوں کی جو فہرست، فرد جرم کی جو نوعیت آغاز میں موجود ہوگی، سپریم کورٹ تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یعنی مجرم اور استغاثہ اگر پہلے دن گٹھ جوڑ کرلیں تو اس عدالتی نظام میں انصاف کا اور کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ پھر جب کوئی مجرم حکومت کی سرپرستی میں آجاتا ہے تو اس سے زیادہ خوفناک اور ہیبت ناک عفریت کوئی نہیں ہوتی۔
اس کے مقابل کھڑے ہونا، اسے مجرم کہنا، اس کے خلاف گواہ بننا یہ سب ایک خواب بن جاتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر مجرم خود حکومت بن جائے، منتخب نمایندہ کہلانے لگے، اقتدار کے ایوانوں میں بسیرا کرلے تو اس کے خلاف صفحۂ مثل پر ثبوت فراہم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایان علی سے پانچ لاکھ ڈالر برآمد کرنے والا کسٹم کا اہلکار دن دہاڑے قتل کردیا جاتا ہے اور عدالت بے بسی سے اس بات کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے کہ چالان نہیں آیا، فرد جرم نہیں عائد ہوسکتی اور باہر جرم اور مجرم کی خوبصورت کیٹ واک میڈیا کے ہوس زدہ ماحول کو رنگین بنارہی ہوتی ہے۔
اسی اینگلو سکیسن عدالتی نظام کا ایک روپ جوڈیشل کمیشن ہیں۔ ان کی رپورٹوں سے پاکستان کے دفاتر اور لائبریریوں کی الماریاں بھری پڑی ہیں۔ ان کمیشنوں کی ایک عجیب و غریب تاریخ ہے۔ یہ ہمیشہ اس وقت قائم کیے گئے جب عوام کی اکثریت کسی خاص مسئلے پر جذباتی سطح پر پہنچ چکی ہو، معاشرہ ایک ہیجان کا شکار ہو، لوگ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچتا دیکھنا چاہتے ہوں، حالات دن بدن قابو سے باہر اور لوگوں کا غصہ اپنے عروج پر ہو تو پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک عدالتی کمیشن قائم کردیا جاتا ہے اور پھر وہاں عدالتی نظام کی وہ ازلی ابدی بحث شروع کردی جاتی ہے، ثبوت لاؤ، صفحۂ مثل پر کچھ نہیں ہے اور آخر میں کئی سو صفحات پر طویل ایک فیصلہ یا ایسی رپورٹ تحریر کردی جاتی ہے جس میں نہ جرم کا تعین ہو اور نہ ہی مجرم کا پتہ چلے۔ بس ایک تحقیقاتی مضمون مرتب ہوجائے اور اگلے کئی سالوں کے لیے لکھنے والوں کو موضوع ملتا رہے۔
جوڈیشل کمیشن بنانے کا آغاز 1953ء میں ہوا جب یکم فروری کو پنجاب اور خصوصاً لاہور میں قادیانیوں کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے شہروں، قصبوں اور گلیوں محلوں میں پھیل گئی۔ تشدد اور انتظامی ناکامی نے مارشل لاء کو راہ دکھائی اور بالآخر 19 جون 1953ء کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس منیر کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن بنا جس نے یکم جولائی 1953ء سے 23 جنوری 1954ء تک سماعت کی اور دس اپریل کو اس کی رپورٹ جاری کردی گئی۔ یہ واحد رپورٹ ہے جو انگریزی، اردو اور بنگالی میں شایع ہوئی اور اس قدر کثیر تعداد میں شایع ہوئی کہ آج بھی فٹ پاتھ پر موجود کباڑیوں کے پاس مل جاتی ہے۔ اس رپورٹ اور اس کمیشن کا بظاہر مقصد لوگوں کی توجہ اصل معاملے سے ہٹا کر انھیں اسلام اور تصور پاکستان کے بارے میں مشکوک کرنا تھا۔ مدتوں اس رپورٹ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا، صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پاکستان تو ایک سیکولر بنیادوں پر تیار ہوا ملک تھا اور قائداعظم کا تصور بھی ایسا تھا۔
لوگ کمیشن سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ وہ اس سطح پر اپنی رپورٹ میں مبالغہ شامل کریں گے اور دانستہ طور پر مواد کواپنے حق میں بدلیں گے، لیکن بھلا ہو سیلنہ کریم کا کہ وہ برطانوی آرکائیوز میں موجود قائداعظم کے مغربی پریس کو دیے گئے انٹرویو کے اصل متن تک جاپہنچی تو حیران رہ گئی کہ کوئی اعلیٰ سطح کا عدالتی کمیشن بھی قائد اعظم کے انٹرویو کی عبارت کو توڑ مڑوڑ نہیں بلکہ بدل کر اپنی رپورٹ میں شامل کرسکتا ہے تاکہ ثابت ہوسکے کہ قائداعظم ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ اس کی یہ تحقیق Secular Jinnah and Pakistan (What Nation dont know) کے نام سے چھپ چکی ہے اور پاکستان کے اس پہلے جوڈیشل کمیشن کا جھوٹ اور فریب واضح ہوچکا ہے لیکن دکھ کی بات یہ کہ اسے ظاہر ہونے میں 50 سال لگ گئے۔ اتنی دیر تک لوگ منیر رپورٹ پر سچ کی حد تک یقین کرتے رہے۔ اس کے بعد 1971ء کا سانحہ ہوا، ملک دو لخت ہوگیا۔ پورا ملک رنجیدہ اور غمزدہ تھا۔ عوام دھڑوں میں تقسیم تھے، ایک حصہ سمجھتا تھا کہ ملک فوجی قیادت کی نااہلی کی وجہ سے ٹوٹا، جب کہ دوسرا سیاسی قیادت کو بھی برابر کا ذمے دار ٹھہرتا تھا۔ اس بحث کے طوفان میں جوڈیشل کمیشن ہی واحد راستہ تھا۔
حمود الرحمن کمیشن بنا لیکن چونکہ کمیشن کا مقصد صرف وقتی ابال کو ٹھنڈا کرنا تھا، اس لیے اس کمیشن کی رپورٹ کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا جو تیس سال بعد برآمد ہوئی تو وہی تاریخی حقائق کی بحث، محرومیوں کے رونے، نہ جرم کی نوعیت کا اتہ پتہ اور نہ مجرم کی واضح نشاندہی۔ اس کے بعد یہ دستور چل نکلا کہ جب بھی عوامی غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنا ہو، کسی واضح حقیقت اور جرم کو شک کی قبا پہنانا ہو تو جوڈیشل کمیشن بنا دو، مرضی کے مطابق ہو تو رپورٹ جاری کردو ورنہ سرد خانے تو سجتے ہی ایسی رپورٹوں سے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سانحات سے لے کر اسامہ بن لادن تک عدالتوں کے ججوں نے لاتعداد رپورٹیں جمع کروائیں۔ اس ملک کے انتظامی ڈھانچے اور عدالتی نظام کو درست کرنے کے لیے بھی کمیشن بنے، ان کی موٹی موٹی رپورٹیں آج بھی الماریوں میں مل جائیں گی۔ کارنیلس رپورٹ بہت مشہور ہے لیکن وہی تاریخی دستاویز، وہی گول مول جوابات، آفیسر اچھے کیوں نہیں آتے کیونکہ مراعات بہت کم ہیں، مراعات کم کیوں ہیں کیونکہ آفیسر اچھے نہیں آرہے۔
اخباروں کے مضامین اور یونیورسٹیوں میں جمع کرائے جانے والے تحقیقی مقالوں کی طرح لکھی جانے والی جوڈیشل کمیشنوں کی ان رپورٹوں کے بعد حکومتیں اور مقتدر قوتیں مطمئن ہوجاتی ہیں کہ ہم نے طوفان کا راستہ روک دیا ہے۔ ہم نے غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے لیکن انھیں اس بات کا اندازہ تک نہیں ہوتا کہ جب تک جرم اور مجرم ایک حقیقت کی طرح موجود رہیں گے غبارے میں ہوا بھرتی رہتی ہے۔ جسٹس منیر نے 1954ء میں لوگوں کو مسلمان کی تعریف اور نظریہ پاکستان کے تصور میں الجھا کر یہ سمجھ لیا تھا کہ طوفان ختم ہوگیا لیکن ٹھیک بیس سال بعد 1974ء میں وہ طوفان پاکستان کی اسمبلی تک جاپہنچا اور جو تعریف جسٹس منیر نہ کرسکا تھا اسے اسمبلی کے ارکان نے کر دکھایا ۔ جو ثبوت عدالتی کمیشن کے سامنے نہ آسکا وہ ایک گونجتے ہوئے سچ کی طرح اسمبلی کی راہداریوں میں نظر آگیا۔
پاکستان کی تاریخ کا ایک اور جوڈیشل کمیشن ایک رپورٹ مرتب کرکے ابھی ابھی رخصت ہوگیا اور اپنی رخصتی سے پہلے یہ تحریر کرگیا کہ ہم تک جو ثبوت پہنچے ہم نے ان کے مطابق فیصلہ کیا۔ لیکن گوادر سے گلگت تک ہر آنکھ گواہ ہے کہ کیسے قصبوں، دیہاتوں اور گوٹھوں پر قابض بندوق بردار، خاندانی اثر و رسوخ اور جرم کے بادشاہ لوگوں کو ہانکتے ہوئے پولنگ اسٹیشنوں تک لاتے ہیں۔ کس طرح معمولی استاد جو پریزائیڈنگ آفیسر ہوتا ہے وہ خوف کے سائے میں ہوتا ہے، کیسے بیورو کریسی آیندہ مستقبل کے لیے اپنے منظور نظر سیاستدانوں کے الیکشن کی راہ ہموار کرتی ہے، سرمایہ کیا کرشمے دکھاتا ہے۔ کیسے الیکشن مکمل ہونے کے بعد ایک اجتماعی جھوٹ بولا جاتا ہے ہر جیتنے والا حلفاً کہتا ہے کہ اس نے صرف چند لاکھ روپے خرچ کیے۔
لوگ سب جانتے ہیں اور حقیقت ان کے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہے لیکن جیسے نامی گرامی چور، ڈاکو، بھتہ خور، دہشت گرد اور اسمگلر عدالت سے عدم ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری ہوکر باہر نکلتا ہے ویسے ہی ہماری جمہوریت بھی آج باعزت طور پر بری ہوگئی۔ طوفان تھم چکا ہے لیکن طوفان تھما نہیں کرتے ایک ایسے خول میں بند ہوجاتے ہیں جہاں ان کی چاپ تک سنائی نہیں دیتی اور پھر وہ ایک دن دھماکے سے خول توڑ کر باہر نکل آتے ہیں۔ جیسے جسٹس منیر کے عدالتی کمیشن کی رپورٹ دھری کی دھری رہ گئی تھی اور لوگوں نے 1974ء میں خود فیصلہ نافذ کروا دیا تھا۔
 
is is the Way Nation is cheated and made fool on every occasion when KARNAMAY of any DAKOO are about to reveal.
Juduges, DAKOOS and so called nobels come forward to protect each other.
This TRICA is succeeded every time.
Nation is being fooled every time.
Imran says rightly,"Nawaz Sharif ! ap haray kab ho?
 

jaanmark

Chief Minister (5k+ posts)
نامی گرامی چور، ڈاکو، بھتہ خور، دہشت گرد اور اسمگلر عدالت سے عدم ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری ہوکر باہر نکلتا ہے ویسے ہی ہماری جمہوریت بھی آج باعزت طور پر بری ہوگئی

well said
 

Whaat

MPA (400+ posts)
Doctrine of necessity is being brought in as a conspiracy to dispute the findings of the Judicial Commission (JC) and to exhonerate Imran Khan.

The JC gave its findings within the parameters of the Terms of Reference (TORs).

The inquiry was neither of criminal nor of civil but of inquisitorial nature ie, based on the questions asked and answers given on all the sides and in the case of seriou odds on the evidence produced,

Answers or replies given by the parties, in the of case of the discerning dissatisfaction, were to be adjudicated based on evidence.

The PTI failed to prove their accusations by failing to produce any evidence.

The PTI and the PPP had the joint pretext that the evidence was in the bags..

They might possibly have failed to understand the nature of inquiry and wanted to make it adversersorial with an expected opportunity that something somewhere will come out in their favour. The minimum goal could be lingering on the matter and use it as a source for adverse and poisonous propaganda against the opponents and the state institutions.

The relevant rules do not allow adversarial proceedings for a so formed commission and the Constitution entrusts this task to be performed by Election Tribunals.

It is dangerously wrong to say the doctrine of necessity was applied as it was beyond the jurisdiction, the imposed limitations of TORs and the nature of inquiry that the JC could have applied it.

As usual, the anchor person is trying to become more than clever in an attempt to be a jack of all but master of none.

The other serious aspect is the confused understanding between the "illegal snatching of polls" and the "designed snatching of polls" in Urdu "dhandli" and "Munazzm dhandli".

The TOR facing the JC was not dhandli but munazzam dhandli.

Scattered incidents of "dhandli" can not be ruled out but can not constitute a "Munazzm dhandli" which according to the Khan's allegations, the beneficiary (Nawaz Shrif) snatched away the mandate of all the 21 political parties through the nook and corner of the country.


As per the findings of the JC, this allegation could not be proved due to the lack of evidence.

Not to speak of producing the supportive evidence before the JC, Mr. Khan who was so much vocal in the allegations dared not to appear before the JC as a witness..

In these circumstance, it is highly unjust to shed misgivings on the findings of the JC.

All IK and we feel that JC could have used his mandate to investigate further on the so called "short comings" of EC before declaring them "minor lapses" etc......