Agar PM ka Parliament mein Beyan Siasi hai tu Parliament mein jo kuch ho raha hai woh sab Bakwas, Dh

rising_pakistan

Minister (2k+ posts)

[FONT=&quot]گاؤں کے زمیندار کا بیٹا اب جوان ہورہا تھا اور سارا دن آوارہ دوستوں کے ساتھ گاؤں میں مستیاں کرتا رہتا تھا۔ اگلے سیزن کیلئے فصل کی تیاری کا وقت شروع ہوا تو بیج اور کھاد کی ضرورت پڑی۔ جہاندیدہ باپ نے سوچا کہ کیوں نہ اس بار اپنے جوان بیٹے سے بیج اور کھاد منگوائے جائیں، ایک تو اس طرح اسے زمینداری کا تجربہ بھی ہوجائے، برے دوستوں کی صحبت سے چند دن کیلئے چھٹکارا بھی مل جائے گا اور شہر کی سیر بھی کرلے گا۔ زمیندار نے بیٹے کے ہاتھ موٹی رقم تھمائی اور اسے شہر خریداری کیلئے بھیج دیا۔ بیٹا جب شہر پہنچا تو وہاں کی چکاچوند میں سب کچھ بھول گیا۔ اس نے شہر میں اپنے مامے کے گھر ڈیرہ جما لیا جو اس کا ہونے والا سسر بھی تھا، اور جیب میں موجود رقم سے اس نے عیاشیاں شروع کردیں۔ ہر روز سینما میں فلم دیکھتا اور رات کو بازار حسن جا کر گانے سنتا۔ خرچ کرنے پر آئیں تو قارون کا خزانہ بھی کم پڑتا ھے، یہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہوا۔ شہر میں کئی ہفتے قیام کے دوران اس نے ساری رقم عیاشیوں میں اجاڑ دی۔ جب جیب خالی ہوئی تو یاد آیا کہ ابا جی نے اسے بیج اور کھاد لانے بھیجا تھا۔ پریشانی کے عالم میں بھاگا بھاگا اپنے ماموں کے پاس گیا اور رقم ادھار مانگی۔ ماما سمجھدار تھا، ہونے والے داماد کو مٹھی میں کرنا تھا، اس لئے اسے رقم دے دی۔ پیسے ملتے ہی زمیندار کا بیٹا رکشہ کروا کر منڈی گیا، افراتفری کے عالم میں بیج اور کھاد خریدے اور یہ بھی نہ دیکھ سکا کہ ان کی کوالٹی اور قیمت مطلوبہ معیار کی تھی یا نہیں۔ جلدی میں جو بھی ہاتھ لگا، اسے بوری میں ڈال کر گاؤں جانے والی بس میں سوار ہوگیا۔ ڈھائی گھنٹے کا سفر ڈھائی سال کے برابر لگا۔ جب بھی باپ کا خیال آتا تو مارے خوف کے پسینے چھوٹ جاتے کہ دو دن کیلئے شہر بھیجا تھا اور 3 ماہ بعد واپس جارہا ھے۔ اللہ اللہ کرکے گاؤں کا سٹاپ آیا۔ وہ سامان کی بوری سر پر لاد کر بس سے اترا اور سیدھا گاؤں کی طرف منہ کرکے بھاگنا شروع کردیا۔ ایک تو وزنی بوری، اوپر سے باپ کی مار کا ڈر اور پھر تین مہینے شہر میں عیاشی کی وجہ سے جسم کی آرام پسندی، چند منٹ بھاگنے کے بعد اس کا سانس پھول گیا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس نے بھاگنا بند نہ کیا، آگے ایک چھوٹا سا کھل یعنی نالہ آیا، وہ چھلانگ مار کر اسے پھلانگنے لگا تو پیر پھسل گیا اور بوری نالے میں جا گری جس سے سارے بیج اور کھاد وہیں بکھر گئے۔ جب اس نے سامان کو یوں برباد ہوتے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا، بآواز بلند اپنے باپ کو ایک گندی سی گال دے کر کہا: " اک تے ایہنا دی کالیاں مار بیٹھیں " ( یعنی ابے کی 'جلدی' نے مروا ڈالا ۔ ۔ ۔) کچھ یہی حال ہماری سپریم کورٹ کا ھے۔ پورے ایک مہینے سے پانامہ کیس کی سماعت کررہی ھے، نوازشریف اور اس کے بچوں کی طرف سے اب تک جو بیان داخل کروائے گئے ہیں، وہ سیدھے سیدھے اس بات کا اعتراف ہیں کہ منی لانڈرنگ بھی ہوئی، ٹیکس بھی چوری ہوا اور اسمبلی اور عوام سے وزیراعظم نے جھوٹ بھی بولا۔ لیکن سپریم کورٹ بھی اس زمیندار کے بیٹے کی طرح اب سردیوں کی چھٹیوں پر جارہی ھے اور کیس کی ازسر نو سماعت اب جنوری کے پہلے ہفتے میں ہوگی۔ مجھے یقین ھے کہ جب جج حضرات واپس آئیں گے تو جلدی جلدی کیس نمٹانے کے چکر میں کہیں پوری بوری نہ اپنے اوپر گرا لیں اور پھر سارا قصور عمران خان پر ڈالتے ہوئے یہ نہ کہہ دیں کہ، " ایک تو اس کی جلدیوں نے مروا ڈالا ۔ ۔ ۔ " اے نااہل ججو، قوم کے اربوں روپے لوٹ کر شریف فیملی حکمران بنی بیٹھی ھے، تمہاری تو نیندیں حرام ہوجانی چاہئیں، تم الٹا سردیوں کی چھٹیوں پر جا رھے ھو۔ تم جیسے ججوں کی صرف زبانی کلامی توہین نہیں، بلکہ سپریم کورٹ کے احاطے میں ' کمبل کٹ' لگنی چاہیئے
[/FONT]