Hunain Khalid
Chief Minister (5k+ posts)
Dramybazi of Showbaz Sharif after Lahore Blast . (Baba Kodda)
کہتے ہیں کہ بعض اوقات شر سے بھی خیر برآمد ہوسکتا ھے۔ سانحہ گلشن اقبال لاہور کے اندوہناک واقعے کے بعد جب ذخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹرز نے انہیں فوری طبی امداد فراہم کرنا شروع کردی۔
ایک نوجوان جو کہ درد سے کراہ رہا تھا، اس کا خون بھی بہت بہہ چکا تھا، اسے ڈاکٹرز نے ایک خون کی بوتل لگا دی۔ حیران کن طور ہر خون لگتے ہی وہ نوجوان اٹھ کر بیٹھ گیا اور ہسپتال کے وارڈ میں بھاگنا شروع کردیا۔ ڈاکٹرز اور نرسیں اسے پکڑنے کی کوشش کرتے رھے لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا اور بندر کی سی ٹبوسیاں مار کر ہسپتال سے باہر مین روڈ پر آگیا۔
مین روڈ پر آتے ہی اس نے اپنے بازو کی آستینیں چڑھائیں اور نہر پر واقع قریبی انڈرپاس کے پل پر چڑھ گیا اور اونچی آواز میں تقریر کے سے انداز میں بے سروپا باتیں شروع کردیں۔ اس دوران اس نے پل پر لگی لائیٹس توڑ ڈالیں، قریبی ٹریفک سگنل کو پتھر مار کر چکنا چور کردیا اور سڑک کے کنارے کھڑی کیلے کی ریڑھی کو انڈرپاس جانے والی سڑک پر الٹا دیا جس سے ٹریفک رک گئی۔
اسی اثنا میں پولیس، ریسکیو 1122 کی ٹیمیں اور ڈاکٹرز اس کے پاس پہنچ گئے۔ بڑی مشکل سے اس پر قابو پایا گیا۔ پولیس کے افسر اسے ڈاکٹرز کے پاس لے کر گئے کہ کہہں دھماکے سے اس کا دماغی توازن تو نہیں بگڑ گیا۔ ڈاکٹرز نے اس کا چیک اپ کیا، رپورٹس دیکھیں اور مسکر کر پولیس آفیسر کو جواب دیا:
"یہ شخص دراصل بالکل ٹھیک تھا اور دھماکے میں ذخمی بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ تو ذخمیوں کا خون کپڑوں پر مل کر حکومت سے مالی امداد کا چیک بٹورنے آگیا تھا۔ ہم نے اسے ذخمی سمجھ کر جو خون کی بوتل لگائی، وہ خون تھوڑی دیر پہلے خادم اعلی دے کر گئے تھے۔ جونہی وہ خون اس کی رگوں میں گیا، اس کے اندر کا شوخا پن اور شوبازی باہر آگئی ۔ ۔ ۔ "
اب وہ شخص پولیس حراست میں ھے جہاں اس کی نقلی بیماری کی وجہ سے اصلی چیخیں نکل رہی ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا
پس تحریر:
کل جب ہسپتالوں میں ایمرجینسی نافذ تھی اور کہیں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، وہاں خادم اعلی کا شیخ زاید ہاسپٹل میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے خون دینا، نرم سے نرم الفاظ میں بھی ڈرامے
بازی اور سفاکی کی بدترین مثال تھی!!!
https://www.facebook.com/babakodda/posts/1005184679549487
کہتے ہیں کہ بعض اوقات شر سے بھی خیر برآمد ہوسکتا ھے۔ سانحہ گلشن اقبال لاہور کے اندوہناک واقعے کے بعد جب ذخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹرز نے انہیں فوری طبی امداد فراہم کرنا شروع کردی۔
ایک نوجوان جو کہ درد سے کراہ رہا تھا، اس کا خون بھی بہت بہہ چکا تھا، اسے ڈاکٹرز نے ایک خون کی بوتل لگا دی۔ حیران کن طور ہر خون لگتے ہی وہ نوجوان اٹھ کر بیٹھ گیا اور ہسپتال کے وارڈ میں بھاگنا شروع کردیا۔ ڈاکٹرز اور نرسیں اسے پکڑنے کی کوشش کرتے رھے لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا اور بندر کی سی ٹبوسیاں مار کر ہسپتال سے باہر مین روڈ پر آگیا۔
مین روڈ پر آتے ہی اس نے اپنے بازو کی آستینیں چڑھائیں اور نہر پر واقع قریبی انڈرپاس کے پل پر چڑھ گیا اور اونچی آواز میں تقریر کے سے انداز میں بے سروپا باتیں شروع کردیں۔ اس دوران اس نے پل پر لگی لائیٹس توڑ ڈالیں، قریبی ٹریفک سگنل کو پتھر مار کر چکنا چور کردیا اور سڑک کے کنارے کھڑی کیلے کی ریڑھی کو انڈرپاس جانے والی سڑک پر الٹا دیا جس سے ٹریفک رک گئی۔
اسی اثنا میں پولیس، ریسکیو 1122 کی ٹیمیں اور ڈاکٹرز اس کے پاس پہنچ گئے۔ بڑی مشکل سے اس پر قابو پایا گیا۔ پولیس کے افسر اسے ڈاکٹرز کے پاس لے کر گئے کہ کہہں دھماکے سے اس کا دماغی توازن تو نہیں بگڑ گیا۔ ڈاکٹرز نے اس کا چیک اپ کیا، رپورٹس دیکھیں اور مسکر کر پولیس آفیسر کو جواب دیا:
"یہ شخص دراصل بالکل ٹھیک تھا اور دھماکے میں ذخمی بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ تو ذخمیوں کا خون کپڑوں پر مل کر حکومت سے مالی امداد کا چیک بٹورنے آگیا تھا۔ ہم نے اسے ذخمی سمجھ کر جو خون کی بوتل لگائی، وہ خون تھوڑی دیر پہلے خادم اعلی دے کر گئے تھے۔ جونہی وہ خون اس کی رگوں میں گیا، اس کے اندر کا شوخا پن اور شوبازی باہر آگئی ۔ ۔ ۔ "
اب وہ شخص پولیس حراست میں ھے جہاں اس کی نقلی بیماری کی وجہ سے اصلی چیخیں نکل رہی ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا
پس تحریر:
کل جب ہسپتالوں میں ایمرجینسی نافذ تھی اور کہیں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، وہاں خادم اعلی کا شیخ زاید ہاسپٹل میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے خون دینا، نرم سے نرم الفاظ میں بھی ڈرامے
بازی اور سفاکی کی بدترین مثال تھی!!!
https://www.facebook.com/babakodda/posts/1005184679549487
Last edited: