آفریدی کی دیوانی کشمیری لڑکی
شیئر

سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ میرے قریبی ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگ شاہد خان عرف شاہد آفریدی عرف لالہ کے لیے میرا شرمندگی کی حد تک کا جنون جان گئے ہیں۔
ایک بار ممبئی میں ایک تقریب میں (جس کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں تھا) شاہد آفريدي سے میرا تعارف میزبان نے شاہد آفریدی فین کلب کی صدر کے طور پر کروایا تھا۔
وہ ٹوئٹر پر لالہ کے لیے میری دیوانگی جانتے تھے۔ مجھے لگا کہ ان کی رائے بہت مختلف نہیں تھی تاہم اور لوگ بھی آفريدي کے پرستار ہونے کا اعزاز جیتنے کی دوڑ میں شامل ہوں گے۔
(ان کے لیے میں کہوں گی اور زور دے کر کہتی ہوں کہ گیند روکنے کے لیے دائیں ٹانگ اندر رکھ کر کھڑے ہونے کا آفريدي کا سٹائل انتہائی خوبصورت ہوتا ہے، جو کبھی عجیب سا لگتا تھا۔ اس سے بڑی دلیل ہے کوئی!)میری زندگی میں بہت سے مشکل دور آئے۔ اس دوران میں برسوں سے جمع کیے آفريدي کے پرانے دھندلے ویڈیوز باربار دیکھتی تھی۔ اپنے دکھ اور خوف سے نکلنے میں وہ بہت مددگار تھے۔
میرے لیے 1996 میں سری لنکا کے خلاف ون ڈے میں 37 گیندوں پر آفريدي کی دنیا کی سب سے تیز سنچری بہت بڑی بات تھی۔ (اب یہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے، لیکن مجھے دیکھیے، میں پروا نہیں کرتی) پھر حال میں ایشیا کپ 2014 میں بھارت اور پھر فائنل میں بنگلہ دیش کے خلاف ان کے چکاچوند کر دینے والے فتح دلانے والے چھکے بہترین رہے ہیں۔
مجھے سب سے عمدہ انتخاب میں انتہائی مشکل ہوتی ہے کیونکہ نیٹ پر لالہ اور ان کی کرکٹ پر ہزاروں مونتاژ اور گیتوں کی بنیاد پرتیار کیے ویڈیوز کی بھرمار ہے۔
ایک بار جب آفريدي شاندار طریقے سے چمکنے لگتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ تاریکی کا وقت آپ کو یا کسی کو بھی کیسے مایوس کر سکتا ہے۔ کس طرح کوئی کھیل میں آفريدي کے جادو اور پاگل پن پر شک کر سکتا ہے؟ اور پھر وہی تاریکی والا وقت آ جاتا ہے۔
دیکھیے، میں آفريدي کی بہت بڑی پرستار ہوں، جیسے میری بہن، جیسے میرا خاندان اور کرکٹ کو چاہنے والے بہت سے دیگر کشمیری۔

کہنے کی ضرورت نہیں کہ انھیں پاگل پن کی حد تک چاہنے والے پاکستان میں بھی ہیں، چاہے انھوں نے حال میں یہ بیان ہی کیوں نہ دیا ہو کہ میں پاکستان سے زیادہ محبت بھارت میں پاتا ہوں۔ جب انھوں نے ایک صحافی سے کہا کہ وہ گھٹیا سوال نہ پوچھیں تو اس کا مطلب میں سمجھتی ہوں۔ (میں کئی دن اس پر ہنستی رہی، زیادہ تر ان کے ساتھ متفق ہوتے ہوئے) میں نے اس ستارے کو تب سے دیکھا ہے جب وہ 90 کی دہائی میں کرکٹ کی دنیا میں زبردست طریقے سے ابھرا تھا۔ (اس وقت ایک انتہائی بورنگ مذاق چلتا تھا۔ ابھي وہ 17 سال کا ہی ہے! ہا، ہا!)اب وہ کبھی کبھار ہی مخالفین پر اس طرح جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوتے ہیں، اور جب ایسا ہوتا ہے، تو سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔
لالہ کا بلے باز سے لیگ سپنر اور پھر فتح گر آل راؤنڈر بننے کا سفر میرے بچپن سے جوانی کے سفر کا اہم حصہ رہا ہے۔ کتنا بہترین فيلڈر، کتنا مزیدار آدمی، کتنا باتونی شخص ہے یہ، اسے دیکھا گوتم گمبھیر کو فیلڈ سے رخصت کرتے ہوئے؟
آفريدي کی فارم اتنی غیر یقینی ہے کہ جب بھی وہ بلا تھامتے ہیں تو میرے اور مجھ جیسے لاکھوں لوگ جوش اور جذبے سے شرابور ہو جاتے ہیں۔
یہ بات ان کے کسی بھی میچ کے لیے کہی جا سکتی ہے، ان میچوں کے لیے بھی جن میں وہ کچھ کرنے سے پہلے ہی آؤٹ ہو جاتے ہیں۔
ایک پل میں وہ اپنے ملک کی امیدیں توڑتے ہیں، وہیں کبھی وہ کچھ ایسا شاندار اور ناقابلِ یقین کر ڈالتے ہیں کہ آپ اگلی بار کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔
اصل میں یہی اس کا مزا ہے (پھر وہ دیکھنے میں بھی تو اچھے ہیں!)
Last edited by a moderator: