لاہور (احمد جمال نظامی/ سپیشل کارسپنڈنٹ) ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کے جاں بحق ہو جانے کی خبر پر دنیا کے ہر ملک میں تبصرے ہو رہے ہیں۔ یہ آپریشن براہ راست امریکیوں نے کیا اور اسامہ بن لادن جو 9/11 حملوں کے بعد سے امریکہ سمیت مغربی دنیا کے لئے چیلنج بنے ہوئے تھے، کو گولی مار کر لقمہ اجل بنا دیا اور اس کے ساتھ ہی امریکی صدر اوباما نے اسامہ کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب دنیا محفوظ ہو گئی ہے۔ اوباما نے تو کہہ دیا کہ اسامہ بن لادن کے اگلے جہان کو سدھار جانے سے دنیا محفوظ ہو گئی ہے لیکن شاید امریکہ کا یہ اندازہ درست نہیں ہے خصوصاً پاکستان مزید غیرمحفوظ ہو گیا ہے۔ صدر آصف زرداری سمجھ دار آدمی ہیں انہوں نے صدر اوباما سے ٹیلی فون پر ایبٹ آباد آپریشن کی تفصیلات اور اسامہ بن لادن کے اس آپریشن میں جاں بحق ہو جانے کی اطلاع کو تحمل کے ساتھ سنا اور اس پر پہلے تو کوئی تبصرہ نہیں کیا اور بعد میں یہ تبصرہ کیا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں پاکستان شامل نہیں تھا۔ لیکن وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسامہ کی موت کو عظیم کارنامہ قرار دے کر القاعدہ کی باقی ماندہ قیادت کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی خبر کو دنیا بھر سے خفیہ رکھا گیا تھا حتیٰ کہ پاکستان کے حکام اور ایجنسیوں کو بھی اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی لیکن پاکستان کے وزیراعظم اس ”عظیم فتح“ کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے اس آپریشن کے لئے ہمارا انٹیلی جنس تعاون حاصل تھا۔ اسامہ کی موت کی خبر پر بڑی تعداد میں امریکی سڑکوں پر نکل آئے اور وہاں جشن کا سماں رہا۔ پاکستان کے بیشتر حلقوں میں اس خبر پر گہرے دکھ اور صدمے سے سنا گیا کہ اسامہ بن لادن اپنی امریکہ دشمنی کی وجہ سے نصف سے زیادہ پاکستانیوں کے نزدیک ہیرو تھے۔ امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے پر پاکستان کے اندر بھی دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب نہایت تسلسل سے ہوتا رہا ہے لیکن پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد دہشت گردی کے واقعات کے ارتکاب میں القاعدہ اور طالبان کا ہاتھ دیکھنے کی بجائے اس قسم کے واقعات کے پس پردہ سی آئی اے، امریکہ کی دہشت گرد تنظیم بلیک واٹر، بھارت کی ”را“ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹوں کے ہاتھ کو کارفرما قرار دیتی رہی ہے اور چند ماہ پہلے لاہور سے دوہرے قتل میں ملوث امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور اس سے ہونے والی تفتیش میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی تھی کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں خود سی آئی اے، بلیک واٹر اور را کے ایجنٹوں کا ہاتھ کارفرما رہا ہے اور تحریک طالبان زیادہ تر انہی ایجنسیوں کی سیاہ کاریوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کا کام کرتی رہی ہے۔ آپریشن ایبٹ آباد نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف سی آئی اے اور بلیک واٹر کے کارندوں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دے کر خود پاکستان کی سالمیت کو دا پر لگا رکھا ہے۔امریکہ کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کی یہ رہائش گاہ اگست 2010ءمیں ان کی نظر میں آ گئی تھی۔ پاکستان کے بعض حلقے یہ تسلیم کرنے کو ابھی بھی تیار نہیں ہیں کہ اسامہ بن لادن کوپاکستان میں مارا گیا۔ اگر اسامہ بن لادن اگست 2010ءسے امریکی ایجنسیوں کی نظر میں تھے تو اسے اتنا عرصہ تک ٹارگٹ کیوں نہ کیا گیا۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ ایبٹ آباد کی اس رہائش گاہ میں اسامہ کبھی کبھار علاج معالجے کے لئے آتے تھے اور مجاہد معالج اس گھر میں جا کر اس کا علاج کرتا تھا جبکہ اسامہ بن لادن کا اصل ٹھکانہ یقینا افغانستان کے پہاڑوں میں ہی تھا اور امریکہ نے اسامہ کو افغانستان میں گولی مار کر ہلاک کیا اور ان کی نعش کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایبٹ آباد کی اس مخصوص رہائش گاہ میں منتقل کر کے اس جگہ آپریشن کا ڈرامہ بعض مخصوص مقاصد کے لئے رچایا ہے اور امریکہ کے یہ مخصوص و مذموم مقاصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہیں کہ پاکستان پر یہ دبا ڈال کر کہ پاکستان القاعدہ کے ایجنٹوں کا گڑھ ہے امریکہ کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو اپنا نیٹ ورک پاکستان میں مزید وسیع تر کرنے کا جواز فراہم کیا جائے۔ سی آئی اے کو برصغیر میں اپنے نیٹ ورک کو وسعت دینے خصوصاً پاکستان کے خلاف تخریب کاری کے واقعات کے ارتکاب کے لئے ”را“ کے ایجنٹوں کا ہمیشہ ہی تعاون رہا ہے۔ امریکہ چین کے خلاف بھارت کو بتدریج تیار کر رہا ہے اور اس کے لئے سی آئی اے کی کوشش ہے کہ بھارت کو نہ صرف پاکستان کے اندر پاں جمانے، پاکستان کے صوبے بلوچستان کو ملک سے الگ کرنے میں زبردست کامیابی حاصل ہو جائے، بھارت اب بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ نے افغانستان میں بھی بھارت کے ایجنٹوں کو اس حد تک سرگرم عمل کر دیا ہے کہ نیٹو افواج پاکستان سے نکل جاتی ہیں تو پاکستان کو افغانستان میں موجود بھارتیوں سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ پاکستان کو افغانستان میں نیٹو افواج سے اصل خطرہ نہیں ہے۔ اصل خطرہ افغانستان میں موجود بھارتی ایجنٹوں اور را کے اہلکاروں سے ہو گا جبکہ بلوچستان میں بھارت کی ریشہ دوانیوں کا اعتراف خود حکمرانوں کو بھی ہے۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو جب موقع ملتا ہے وہ بھارت نوازی کے اظہار میں کھل کر پاکستان کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے لگتے ہیں۔ حامد کرزئی پاکستان کے حوالے سے انتہائی ناقابل اعتبار ہےں۔ بھارت نے بھی حسب عادت پاکستان پر الزام تراشی کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ بھارت نے پاکستان کے دریاں پر 60 کے لگ بھگ ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کے منصوبے کا آغاز کر رکھا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے حکمران کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لے کر دونوں ممالک میں امن کی آشا کے فلسفہ کو اجاگر کرنے میں مصروف ہیں۔بھارتی بلوچستان میں افغانستان کے راستے مداخلت کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے موجودہ امن مذاکرات کو اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے تناظر میں یہ سب کچھ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کے سوا کچھ بھی نہیںہے۔ بھارت کو پاکستان کو دہشت گردوں کا گڑھ قرار دیتے ہوئے شرم آنی چاہئے اور کرزئی کو بھی اپنے بیانات پر شرم کرنی چاہئے۔
usmanjee786
MPA (400+ posts)
Last edited by a moderator: