Aandhy Muashray May Insaf Dhonta Andha- Javed Chaudhry | Aaj Ke Column - 15th July 2010

Psycho

MPA (400+ posts)
925c76b793cd095682808736f5cfa0ab.jpg

68d88c97f143e0a8a45f63f7b2af9bc0.gif
 
Last edited by a moderator:

Psycho

MPA (400+ posts)
Kahen Se Suraj Nikal paray Ga- Amjad Islam Amjad

1100998500-1.jpg

1100998500-2.gif
 
Last edited by a moderator:

Psycho

MPA (400+ posts)
(بھٹو ہوتا تھا تم ہوتی ہو (ڈاکٹر محمد اجمل ن&#174

عظم ہوتی کے حوالے سے ہم نے وہ نعرہ سنا ہے جو سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے بھٹو صاحب نے شیخ مجیب الرحمن کو للکارتے ہوئے لگایا تھا اُدھر تم اِدھر ہم۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تو بہت پہلے آغاز ہو گئی تھی مگر اس کا انجام اس صورت میں ہوا کہ اِدھر بھٹو صاحب تھے اور اُدھر شیخ مجیب الرحمن تھا۔ ہتھیار تو جنرل نیازی نے ڈالے اور تب آرمی چیف اور صدر جنرل یحیٰی خان تھے۔ سیاست اور فوج گڈمڈ ہو جائیں تو گڑبڑ ہوتی ہے۔ یہ سوال بہت پیچیدہ اور متنازعہ ہے۔ پاکستان کو دولخت کرتے ہیں صرف جرنیل نہیں صرف سیاستدان نہیں صرف بیوروکریٹ نہیں صرف میڈیا نہیں، اس میں ہم سب شامل ہیں۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ اس میں بھٹو صاحب کا کردار کتنا ہے تو میں نے کہا تھا کہ اس سوال کا براہِ راست جواب دینا مشکل ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ اس کے بغیر بھٹو صاحب اِدھر کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ اُدھر شیخ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنوانے کے لئے اسے بھٹو صاحب نے رہا کیا اور خود بنگلہ دیش رخصت کیا۔ اُدھر تم اِدھر ہم۔
اعظم ہوتی کی کیا حیثیت ہے۔ خیبر پختون خوا صوبے کا نام ہے۔ اگر یہ واقعی پختون خوا بن جائے تو بھی اعظم ہوتی وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ کسی بستی میں نمبردار مر گیا تو نئے نئے امیر ہونے والے ٹھیکیدار کے بیٹے نے اپنے والد سے کہا کہ اب نمبردار کون بنے گا۔ باپ نے کہا کہ نمبردار کا بیٹا۔ بیٹے نے پوچھا کہ وہ مر گیا تو۔؟ تو اس کا بیٹا۔ وہ بھی مر جائے تو۔ باپ نے تنگ آ کے کہا کہ بیٹا سارا شہر مر جائے تو پھر بھی تم نمبردار نہیں بن سکتے۔ شیخ مجیب الرحمن جیسا آدمی نہ سندھ میں ہے نہ بلوچستان میں اور نہ خیبر پی کے میں۔ یہ نام نوائے وقت نے خیبر پختون خوا کا رکھا ہے جو ہم نے قبول کیا ہے۔ اس کے بعد صوبے میں ہڑتالیں اور مظاہرے ہوئے اور ایک دن میں دس آدمی شہید ہو گئے۔ اسفند یار ولی ایک دھماکے کے بعد اسلام آباد بھاگ گیا اور پھر امریکہ چلا گیا۔ بزدل آدمی کے لئے کوئی موقع نہیں کہ وہ عزت پا سکے خواہ جھوٹی عزت ہی کیوں نہ ہو اور اعظم ہوتی اتنا امیر آدمی ہے کہ وہ کوئی قربانی دے ہی نہیں سکتا۔ یہ کہانی ہمیشہ نامکمل ہی رہے گی۔ اعظم ہوتی نے کوئی مطالبہ پیش کیا ہے اور کہتا ہے ورنہ دریائے سندھ کے کنارے کھڑے ہو کر میں کہوں گا اُدھر تم اِدھر ہم دریائے سندھ پنجاب سے بھی گزرتا ہے مگر صوبہ سندھ کی طرح صوبہ سرحد بھی جب پنجاب کو گالی دیتا ہے تو اس شیر دریا کو درمیان میں لے آتا ہے۔ شیر دریا کے کنارے بکریوں کو گھاس چرنے اور ممیانے کی اجازت ہے مگر کالاباغ ڈیم بن کے رہے گا۔ اس سے صوبہ خیبر پی کے کو بہت فائدہ ہو گا مگر پنجاب کو بھی فائدہ ہو گا۔ پورے پاکستان کو فائدہ ہو گا اس لئے اے این پی والے خلاف ہیں۔ یہ سبز باغ دکھانے والے کالا باغ کے خلاف ہیں کہ وہ پنجاب یعنی پاکستان کے خلاف ہیں۔ جس علاقے کو اعظم ہوتی پاکستان سے الگ کرنے کی سازش کے بعد ہمارا کہہ رہے ہیں اس کے بارے سرحدی گاندھی باچا خان کو یقین ہوتا کہ یہ ہمارا ہے تو یہاں دفن ہونے کو اعزاز سمجھتے۔ وہ جہاں دفن ہوئے ہیں وہ بھی ان کا علاقہ نہیں۔ وہاں فاتحہ پڑھنے بھی کوئی نہیں جاتا۔ باچا خان کو فاتحہ کی ضرورت بھی نہیں۔
ایک اتفاق ضرور اعظم ہوتی کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ خبر اس طرح شائع ہوئی ہے وفاقی وزیر اعظم ہوتی نے کہا اُدھر تم اِدھر ہم وفاقی وزیر تو وہ ہیں اور اعظم ان کا نام ہے۔ صرف نام سے جیسے کسی اندھے کا نام روشن خان ہو۔ وفاقی وزیر اعظم ہے تو پھر صوبائی وزیر اعظم بھی ہو گا جیسے مخدوم گیلانی ہیں۔ وفاقی وزیر اعظم ہیں اور لگتے صوبائی وزیر اعظم ہیں۔ صدر زرداری کو اسلام آباد میں ملنے کے بعد لاہور میں شہباز شریف سے ملتے ہیں۔ ہمارے کچھ وزیر اعلیٰ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھتے ہیں مگر یہ اعظم ہوتی کی بھول ہے بلکہ بھول بھلیاں ہیں کہ وہ بھٹو صاحب جیسا بھی بن جائے گا۔ یہ بات ایسے نہیں ہوتی جناب ہوتی صاحب۔ بھٹو ہوتا تھا اور تم ہوتی ہو۔
صدر زرداری نے انہیں وہ نام دے دیا جس کے لئے وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کام کر رہے تھے۔ اس نام کے بعد جو کام انہوں نے شروع کیا ہے اس سے روکنا بھی صدر زرداری کی ذمہ داری ہے۔ امید ہے کہ وہ یہ ذمہ داری پوری کریں گے۔ وہ یہ بھی پوچھیں گے کہ تمہیں جرات کیوں ہوئی کہ تم بھٹو کا یہ نعرہ بلند کرو۔ وہ پاکستان کے صدر ہیں اور خیبر پی کے پاکستان کا ایک صوبہ ہے۔ صدر زرداری نے اعظم ہوتی کو وفاقی وزیر بنایا۔ وہ وفاقی وزیراعظم بن گیا ہے یہ کہیں مخدوم گیلانی کو پریشان کرنے کی واردات تو نہیں۔
اعظم ہوتی جس طرح وزیراعظم بنے ہیں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔ ایک خاتون کا نام وزیر بی بی تھا۔ اس کی شادی اعظم نامی کسی شخص کے ساتھ ہوئی تو وہ خود کو وزیراعظم کہلانے لگی۔ آج کل وزیراعظم ایسے ہی ہیں جیسے گھر میں بیوی ہوتی ہے۔ بظاہر اور کہنے کو گھر میں حکومت بیوی کی ہوتی ہے مگر حاکمیت شوہر صاحب کی ہوتی ہے۔ گھر کا سربراہ تو شوہر ہی ہوتا ہے۔ ملک بھی گھر کی طرح ہوتا ہے۔ ملک کے سربراہ صدر زرداری ہیں۔ صدر زرداری کو وزیراعظم بیوی کا ذاتی اور گھریلو تجربہ ہے۔ تب وہ صرف شوہر تھے اب وہ صرف صدر ہیں۔ ان دنوں مخدوم گیلانی کو گمان ہے کہ اختیارات میرے پاس ہیں۔ یہ بی بی سی نے کہا ہے کہ اختیارات وزیراعظم کو ملنے کے باوجود ابھی طاقت صدر زرداری کے پاس ہے۔ اب اختیارات ملے ہیں جبکہ مخدوم گیلانی کو بے اختیار رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔
مخدوم گیلانی نے کہا ہے کہ میری ریاضی کمزور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مخدوم صاحب کا ماضی کمزور ہے۔ ہم نے تو سوچا ہوا تھا کہ ان کی انگریزی کمزور ہے، ان کی تو اردو بھی کمزور ہے۔ مخدوم گیلانی کو پتہ نہیں کہ زور تو کمزور میں بھی ہوتا ہے۔ یہ بات کمزوروں کو پتہ نہیں نہ پتہ چلنے دی جاتی۔ صدر زرداری بڑے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کر مخدوم گیلانی کو وزیراعظم بنایا ہے۔ وعدہ مخدوم امین فہیم سے بھی کیا تھا۔ اب وہ مخدوم گیلانی کی کابینہ میں وزیر ہے۔ اس نے سوچا ہو گا کہ وزیر اور وزیراعظم میں فرق تو ہے نہیں تو تفرقہ پیدا کرنے کا فائدہ؟ صدر زرداری نے اب سپریم کورٹ اپنے سر سے ہٹا کے مخدوم گیلانی کے دل میں ڈال دیا ہے۔ وہ اتنے کنفیوژ ہیں کہ شام کو چیف جسٹس کے خلاف بات کرتے ہیں اور رات کو بغیر دعوت کے ان کی دعوت میں چلے جاتے ہیں۔ دعوت اور عداوت میں فرق مٹ گیا ہے۔ وفاقی وزیر اعظم ہوتی اس طرح ٹھیک ہے کہ پختون مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر کہتے ہیں۔ ہمارا سپیکر فہمیدہ مرزا ہے اور ہماری وزیراعظم مخدوم گیلانی ہوتی ہے۔ یہاں بھی ہوتی موجود ہے۔ بھٹو ہوتا تھا، تم ہوتی ہو ۔
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے​
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)
Good Article Bro,
I have changed the font, just to make it easy to read.


عظم ہوتی کے حوالے سے ہم نے وہ نعرہ سنا ہے جو سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے بھٹو صاحب نے شیخ مجیب الرحمن کو للکارتے ہوئے لگایا تھا اُدھر تم اِدھر ہم۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تو بہت پہلے آغاز ہو گئی تھی مگر اس کا انجام اس صورت میں ہوا کہ اِدھر بھٹو صاحب تھے اور اُدھر شیخ مجیب الرحمن تھا۔ ہتھیار تو جنرل نیازی نے ڈالے اور تب آرمی چیف اور صدر جنرل یحیٰی خان تھے۔ سیاست اور فوج گڈمڈ ہو جائیں تو گڑبڑ ہوتی ہے۔ یہ سوال بہت پیچیدہ اور متنازعہ ہے۔ پاکستان کو دولخت کرتے ہیں صرف جرنیل نہیں صرف سیاستدان نہیں صرف بیوروکریٹ نہیں صرف میڈیا نہیں، اس میں ہم سب شامل ہیں۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ اس میں بھٹو صاحب کا کردار کتنا ہے تو میں نے کہا تھا کہ اس سوال کا براہِ راست جواب دینا مشکل ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ اس کے بغیر بھٹو صاحب اِدھر کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ اُدھر شیخ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنوانے کے لئے اسے بھٹو صاحب نے رہا کیا اور خود بنگلہ دیش رخصت کیا۔ اُدھر تم اِدھر ہم۔


اعظم ہوتی کی کیا حیثیت ہے۔ خیبر پختون خوا صوبے کا نام ہے۔ اگر یہ واقعی پختون خوا بن جائے تو بھی اعظم ہوتی وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ کسی بستی میں نمبردار مر گیا تو نئے نئے امیر ہونے والے ٹھیکیدار کے بیٹے نے اپنے والد سے کہا کہ اب نمبردار کون بنے گا۔ باپ نے کہا کہ نمبردار کا بیٹا۔ بیٹے نے پوچھا کہ وہ مر گیا تو۔؟ تو اس کا بیٹا۔ وہ بھی مر جائے تو۔ باپ نے تنگ آ کے کہا کہ بیٹا سارا شہر مر جائے تو پھر بھی تم نمبردار نہیں بن سکتے۔ شیخ مجیب الرحمن جیسا آدمی نہ سندھ میں ہے نہ بلوچستان میں اور نہ خیبر پی کے میں۔ یہ نام نوائے وقت نے خیبر پختون خوا کا رکھا ہے جو ہم نے قبول کیا ہے۔ اس کے بعد صوبے میں ہڑتالیں اور مظاہرے ہوئے اور ایک دن میں دس آدمی شہید ہو گئے۔ اسفند یار ولی ایک دھماکے کے بعد اسلام آباد بھاگ گیا اور پھر امریکہ چلا گیا۔ بزدل آدمی کے لئے کوئی موقع نہیں کہ وہ عزت پا سکے خواہ جھوٹی عزت ہی کیوں نہ ہو اور اعظم ہوتی اتنا امیر آدمی ہے کہ وہ کوئی قربانی دے ہی نہیں سکتا۔ یہ کہانی ہمیشہ نامکمل ہی رہے گی۔ اعظم ہوتی نے کوئی مطالبہ پیش کیا ہے اور کہتا ہے ورنہ دریائے سندھ کے کنارے کھڑے ہو کر میں کہوں گا اُدھر تم اِدھر ہم دریائے سندھ پنجاب سے بھی گزرتا ہے مگر صوبہ سندھ کی طرح صوبہ سرحد بھی جب پنجاب کو گالی دیتا ہے تو اس شیر دریا کو درمیان میں لے آتا ہے۔ شیر دریا کے کنارے بکریوں کو گھاس چرنے اور ممیانے کی اجازت ہے مگر کالاباغ ڈیم بن کے رہے گا۔ اس سے صوبہ خیبر پی کے کو بہت فائدہ ہو گا مگر پنجاب کو بھی فائدہ ہو گا۔ پورے پاکستان کو فائدہ ہو گا اس لئے اے این پی والے خلاف ہیں۔ یہ سبز باغ دکھانے والے کالا باغ کے خلاف ہیں کہ وہ پنجاب یعنی پاکستان کے خلاف ہیں۔ جس علاقے کو اعظم ہوتی پاکستان سے الگ کرنے کی سازش کے بعد ہمارا کہہ رہے ہیں اس کے بارے سرحدی گاندھی باچا خان کو یقین ہوتا کہ یہ ہمارا ہے تو یہاں دفن ہونے کو اعزاز سمجھتے۔ وہ جہاں دفن ہوئے ہیں وہ بھی ان کا علاقہ نہیں۔ وہاں فاتحہ پڑھنے بھی کوئی نہیں جاتا۔ باچا خان کو فاتحہ کی ضرورت بھی نہیں۔
ایک اتفاق ضرور اعظم ہوتی کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ خبر اس طرح شائع ہوئی ہے وفاقی وزیر اعظم ہوتی نے کہا اُدھر تم اِدھر ہم وفاقی وزیر تو وہ ہیں اور اعظم ان کا نام ہے۔ صرف نام سے جیسے کسی اندھے کا نام روشن خان ہو۔ وفاقی وزیر اعظم ہے تو پھر صوبائی وزیر اعظم بھی ہو گا جیسے مخدوم گیلانی ہیں۔ وفاقی وزیر اعظم ہیں اور لگتے صوبائی وزیر اعظم ہیں۔ صدر زرداری کو اسلام آباد میں ملنے کے بعد لاہور میں شہباز شریف سے ملتے ہیں۔ ہمارے کچھ وزیر اعلیٰ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھتے ہیں مگر یہ اعظم ہوتی کی بھول ہے بلکہ بھول بھلیاں ہیں کہ وہ بھٹو صاحب جیسا بھی بن جائے گا۔ یہ بات ایسے نہیں ہوتی جناب ہوتی صاحب۔ بھٹو ہوتا تھا اور تم ہوتی ہو۔
صدر زرداری نے انہیں وہ نام دے دیا جس کے لئے وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کام کر رہے تھے۔ اس نام کے بعد جو کام انہوں نے شروع کیا ہے اس سے روکنا بھی صدر زرداری کی ذمہ داری ہے۔ امید ہے کہ وہ یہ ذمہ داری پوری کریں گے۔ وہ یہ بھی پوچھیں گے کہ تمہیں جرات کیوں ہوئی کہ تم بھٹو کا یہ نعرہ بلند کرو۔ وہ پاکستان کے صدر ہیں اور خیبر پی کے پاکستان کا ایک صوبہ ہے۔ صدر زرداری نے اعظم ہوتی کو وفاقی وزیر بنایا۔ وہ وفاقی وزیراعظم بن گیا ہے یہ کہیں مخدوم گیلانی کو پریشان کرنے کی واردات تو نہیں۔
اعظم ہوتی جس طرح وزیراعظم بنے ہیں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔ ایک خاتون کا نام وزیر بی بی تھا۔ اس کی شادی اعظم نامی کسی شخص کے ساتھ ہوئی تو وہ خود کو وزیراعظم کہلانے لگی۔ آج کل وزیراعظم ایسے ہی ہیں جیسے گھر میں بیوی ہوتی ہے۔ بظاہر اور کہنے کو گھر میں حکومت بیوی کی ہوتی ہے مگر حاکمیت شوہر صاحب کی ہوتی ہے۔ گھر کا سربراہ تو شوہر ہی ہوتا ہے۔ ملک بھی گھر کی طرح ہوتا ہے۔ ملک کے سربراہ صدر زرداری ہیں۔ صدر زرداری کو وزیراعظم بیوی کا ذاتی اور گھریلو تجربہ ہے۔ تب وہ صرف شوہر تھے اب وہ صرف صدر ہیں۔ ان دنوں مخدوم گیلانی کو گمان ہے کہ اختیارات میرے پاس ہیں۔ یہ بی بی سی نے کہا ہے کہ اختیارات وزیراعظم کو ملنے کے باوجود ابھی طاقت صدر زرداری کے پاس ہے۔ اب اختیارات ملے ہیں جبکہ مخدوم گیلانی کو بے اختیار رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔
مخدوم گیلانی نے کہا ہے کہ میری ریاضی کمزور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مخدوم صاحب کا ماضی کمزور ہے۔ ہم نے تو سوچا ہوا تھا کہ ان کی انگریزی کمزور ہے، ان کی تو اردو بھی کمزور ہے۔ مخدوم گیلانی کو پتہ نہیں کہ زور تو کمزور میں بھی ہوتا ہے۔ یہ بات کمزوروں کو پتہ نہیں نہ پتہ چلنے دی جاتی۔ صدر زرداری بڑے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کر مخدوم گیلانی کو وزیراعظم بنایا ہے۔ وعدہ مخدوم امین فہیم سے بھی کیا تھا۔ اب وہ مخدوم گیلانی کی کابینہ میں وزیر ہے۔ اس نے سوچا ہو گا کہ وزیر اور وزیراعظم میں فرق تو ہے نہیں تو تفرقہ پیدا کرنے کا فائدہ؟ صدر زرداری نے اب سپریم کورٹ اپنے سر سے ہٹا کے مخدوم گیلانی کے دل میں ڈال دیا ہے۔ وہ اتنے کنفیوژ ہیں کہ شام کو چیف جسٹس کے خلاف بات کرتے ہیں اور رات کو بغیر دعوت کے ان کی دعوت میں چلے جاتے ہیں۔ دعوت اور عداوت میں فرق مٹ گیا ہے۔ وفاقی وزیر اعظم ہوتی اس طرح ٹھیک ہے کہ پختون مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر کہتے ہیں۔ ہمارا سپیکر فہمیدہ مرزا ہے اور ہماری وزیراعظم مخدوم گیلانی ہوتی ہے۔ یہاں بھی ہوتی موجود ہے۔ بھٹو ہوتا تھا، تم ہوتی ہو ۔
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے

مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے