بنیا کی دوستی سے اس کی دشمنی بہتر ہے
رفیق ڈوگر
امن لازم مگر کس شرط پر؟ وجود نظریہ اور بقاءو فلاح کے باہمی احترام پر یا غلامانہ فرمانبرداری کے ذریعے؟ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں اور ہندوﺅں کے باہمی طرز روابط کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس تاریخی تجربہ کا کیا سبق ہے؟ کیا ہم اس تجربہ اور سبق کو بھول کر اپنے کو دھوکہ تو نہیں دے رہے؟ مزید دھوکہ تو نہیں دیں گے؟ اس کسی کا اس کے اپنے سے بڑا دشمن کون ہو گا جو اپنے ماضی کے تجربہ اور سبق کو بھول جائے؟ دور نہ جائیں صدیوں کے تاریخی تجربہ کے حوالے سے نہیں قیام پاکستان کے اعلان کے بعد کے تجربہ کو دیکھ لیں۔ ہے کوئی ایک بھی معاملہ جس کو طے کرنے میں بھارت کی حکمران بنیا ذہنیت نے انصاف سے کام لیا ہو؟ ہے تو بتا دیں اہل پیٹ پوجا۔ پاکستان کے قیام کے وقت جو اثاثے پاکستان کے حصہ میں آئے تھے وہ مل گئے تھے پاکستان کو؟ کیوں دبا لئے گئے تھے وہ سب ہمارے اثاثے؟ اسی لئے نہیں کہ پاکستان قوت سے وہ سب کچھ حاصل نہیں کر سکتا تھا؟ حیدر آباد اور جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو مان لیا تھا بنیا سرکار نے ان ریاستوں کا وہ فیصلہ؟ کیسے قبضہ کیا تھا ان ریاستوں پر بھارت نے لنگوٹی گاندھی اور پنڈت نہرو کی قیادت میں؟ قوت سے فوج کے ذریعے۔ کشمیر کے راجا اور مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہا تو کیسے قبضہ کر لیا تھا بھارت نے اس مسلم اکثریتی ریاست پر؟ کس اصول اور قانون کے تحت؟ طاقت کے قانون سے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے اہل سیاست کے درمیان جھگڑے میں بھارتی بنیا نے اندرا کی قیادت میں جو نہرو اور گاندھی دونوں سے ذاتی سیاسی اور نظریاتی تعلق رکھتی تھی کیوں مداخلت کی تھی اور کیسے مداخلت کر کے ہمارے ملک کے مشرقی حصہ پر قبضہ کر لیا تھا؟ طاقت سے۔ ہے کوئی ایک بھی چھوٹا موٹا باہمی معاملہ یا جھگڑا جو بنیا ذہنیت نے اصول و انصاف کے مطابق حل کیا ہو؟ کبھی وہ سب مسائل طاقت کے ذریعے حل کرتا رہا ہے اعلان قیام پاکستان کے بعد سے اور اب طاقت کے ذریعے ہم پر اپنی مرضی کا امن بھی مسلط کرنا چاہتا ہے امریکہ اور اس کے صلیبی اتحادیوں کی مدد سے۔ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف سب غیرمسلم ایک ہیں نہیں ہیں؟ 9/11 کا حملہ کہاں ہوا تھا؟ ساری دنیا کے عیسائی ممالک کی فوجیں نہیں برباد کر چکیں عراق کو؟ کس جرم میں؟ بتا سکے ہیں آج تک وہ سب مل کر بھی عراق اور صدام حسین کا اس کے سوا کوئی جرم کہ وہ مسلمانوں کا ملک ہے اور صدام حسین مسلمانوں کے دشمن اسرائیل اور امریکہ کو پسند نہیں رہا تھا۔ ہے افغانستان کے معصوم مسلمانوں کا کوئی جرم اس کے سوا کہ وہ مسلمان ہیں اور ہم؟ کیا جرم ہے ہمارا اس کے سوا کہ ہم بھی اپنے کو مسلمان بتاتے اور جتاتے ہیں یہ وہ جرم ہے جو کسی بھی غیرمسلم سے برداشت نہیں ہو رہا۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ اس کے علاوہ ہمارا ایک اور بھی جرم ہے کہ مسلم دنیا میں ہمارے پاس ایٹم بم ہے جو ان سب کو ہضم نہیں ہو رہا۔ وہ جو امریکہ کی قومی سلامتی کے کوئی مشیر ہیں وہی ملعون جہاں جیمز جونز نے کیا فتویٰ جاری فرمایا تھا انہوں نے روز رفتہ دہلی میں؟ یہ کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا دہرا معیار ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان بھارت کے خلاف برسرپیکار دہشت گردوں کے خلاف ویسی کارروائی نہیں کرتا جیسی دوسروں کے خلاف کر رہا ہے۔ کون ہیں وہ دہشت گرد جو بھارت کے خلاف برسرپیکار ہیں؟ ہے وہ کوئی اور بھارتی بنیا ذہنیت اور حکمرانوں کے علاوہ ؟ وہی جنہیں اہل صلیب پاکستان کے خلاف ہر قسم کی دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور مسلح کر رہے ہیں اور تمہارا سام شہنشاہی والوں کا معیار ؟ کوئی بھی ریاستی اخلاقی قانونی انسانی کوئی بھی معیار ہے تمہارا؟ تمہارے تو ضمیر اور تہذیب کا معیار بھی دہرا تہرا ہے۔ کی ہے تم صلیب برداروں نے معصوم کشمیریوں کے خلاف بھارتی کی ریاستی دہشت گردی کی کبھی مخالفت؟ یہودیوں کی معصوم فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی کبھی مذمت؟ اس دہشت گردی کو روکنے رکوانے کے لئے کبھی کوئی اقدام؟ کیوں نہیں؟ اسی لئے کہ مسلمانوں کے خلاف تم سب ایک ہو۔ معلوم نہیں مسلمان عوام اور حکمرانوں کو اپنے ان سب دشمنوں کی مشترکہ دہشت گردی کیوں نظر نہیں آتی؟ کیا ان ساروں کا ہی تو چچا سام نے کوئی این آر او نہیں کرایا ہوا؟ بھارت کی بنیا ذہنیت کا ایک ذہنی مسئلہ بھی ہے وجوہ جو بھی ہوئیں بنیا کو کئی صدیوں سے حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں۔ تھا 1947ءسے پہلے۔ ان میں وہ ذہنی اور قلبی وسعت و رواداری موجود ہی نہیں جو اچھی حکمرانی کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ دی ہے کبھی کہیں ان میں وہ فراست و فراخدلی اور رواداری دکھائی جو حکمران قوموں میں ہوا کرتی ہے؟ وہ کیوں ہر کمزور کے خلاف فوجیں چڑھا لاتے رہے ہیں۔ ہر مسئلہ قوت سے حل کرنے کی ریاستی اور قومی ذہنیت کے مالک ہیں؟ سبب یہی ہے کہ انہیں کبھی حکمرانی ملی ہی نہیں تھی کئی صدیاں ۔ ان کی یہ تاریخی محرومی ان کی ذہنی تنگ دستی بن گئی ہوئی ہے۔ وہ بیچارے کریں بھی تو کیا اپنی ہی ذہنی غلامی سے نجات حاصل کریں تو کیسے؟ کرشنا آیا نہیں تھا بھیجا گیا تھا ان این آر او کرانے والوں نے وہ آ تو گیا تھا مگر اپنی قوم اور حکمرانی کی وہ ذہنیت بھی تو ساتھ لے کر آیا تھا جس سے نجات ان کے لئے ممکن ہی نہیں۔ جو بھی کوئی ایسی ملاقاتوں کی گھاتوں سے کوئی اچھی امید لگا لے گا وہ اپنے کو بھی اور اپنی قوم کو بھی دھوکہ دے گا۔ امن اور دوستی کون احمق پسند نہیں کرتا؟ مگر کس سے؟ اس سے جس نے کبھی کوئی تنازعہ پرامن طریقہ سے انصاف کے اصولوں کے تحت طے کیا ہی نہیں جو ہر مسئلہ طاقت کے ذریعے حل کرتا آیا ہے اور کرنا چاہتا ہے۔ ایسوں سے دوستی ان کی دشمنی سے بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہے برصغیر کے مسلمانوں کے صدیوں کے تجربہ کے لبوں پر کون سی آواز ہے؟ یہی کہ بنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ دوسری کوئی زبان اس نے کبھی سمجھی ہے تو بتا دیں اہل صلیب ہی۔ جیمز جونز اور ہالبروک بنیا پرست صلیبی ہیں۔ ویسے ہی جیسی ایسٹ انڈیا کمپنی ہوتی تھی۔
سب سے بڑے سیاستدان
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ 1الطاف حسین نے میرے دل کی بات کی جو پہلے بھی کالم میں لکھ چکا ہوں۔ سیاستدان اصول پسند ہوتے تو بی اے کی شرط کی خلاف الیکشن نہ لڑتے۔ جعلی ڈگری والے قوم کی کیا خدمت کریں گے۔ یہ بات الطاف بھائی کو زیب دیتی ہے کہ اسمبلی میں ایک بھی ایم کیو ایم کا سیاستدان جعلی ڈگری والا نہیں جبکہ حضرت مولانا کی جماعت کے کئی مولوی بھی جعلی ڈگری والے ہیں۔ ساری پارٹیوں کے بڑے بڑے لوگ حتیٰ کہ وزراء بھی جعلی ہیں۔ مسلم لیگ ن پہلے نمبر پر ہے۔ نجانے پیپلز پارٹی والے کیوں اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تمام تر باتوں کے باوجود فوزیہ وہاب پر تنقید کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ مگر وہ جعلی ڈگری والوں کا دفاع کرتی ہے بلکہ حمایت کرتی ہے جبکہ اس کی اپنی ڈگری اصلی ہے۔ فوزیہ کہتی ہے کہ یہ غیرمتعلق مسئلہ ہے تو کیا جھوٹ بولنا اپنے لیڈر کے سامنے جھوٹ بولنا بھی غیرمتعلق ہے۔ جمشید دستی نے جیت کر ثابت کر دیا کہ لوگوں کے لئے ڈگری کوئی مسئلہ نہیں مگر یہ تو مسئلہ ہے کہ کسی غریب آدمی کے خلاف غلط ڈگری (مقدمہ) جاری کر دی جائے۔ جعلی ڈگری والا اس غلط ڈگری کو بھی صحیح سمجھتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا ہی غیر متعلق تھا تو آصف زرداری نے صدر کا انتخاب لڑنے سے پہلے سپریم کورٹ سے ڈگری کی شرط کیوں ختم کرائی۔ صدر کے لئے شرط ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کی اہلیت رکھتا ہو۔ فوزیہ سے گزارش ہے کہ سسٹم کو اتنا کمزور نہ سمجھے کہ ع
جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
بھٹو صاحب کی حکومت ٹوٹی تو اس وقت ڈگری کتنی متعلق تھی۔ بی بی اور میاں کی حکومت تو دو دو بار ٹوٹی۔ ڈگری کی شرط لگانے والے کی حکومت بھی گئی۔ فریال تالپور کی ڈگری مشکوک ہوئی تو شرمیلا فاروقی نے کیوں مظاہرہ کیا۔ کیا اسے شرمانے اور شرمندہ ہونے میں فرق کا پتہ نہیں۔ کیا اس طرح فریال تالپور کی حمایت کی گئی ہے؟ اگر یہ ڈگری جعلی نہیں ہے تو پتہ چل جائے گا۔ ایچ ای سی نے اپنی طرف سے تو یہ اعلان نہیں کیا۔ جس یونیورسٹی کی ڈگری ہے اس کے خلاف مظاہرہ بھی ہو اور ایسی یونیورسٹیوں میں اس مافیا کو سزا دی جائے جو جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرتا ہے۔ فریال تالپور کی عمر 50برس ہے اور ان کی ڈگری 2006ء کی ہے۔ ان کی عزت دل میں ہے۔ وہ ایک صدر کی بہن ہیں کبھی وہ ایک قیدی کی بہن تھیں۔ مجھے کسی نے فون کیا کہ وہ ملنے تشریف لا رہی ہیں۔ میں نے تب آصف زرداری کے لئے کالم لکھے تھے۔ تب تقریباً ہر کالم نگار نے لکھے تھے۔ یہ ان کا حق تھا۔ ہم صحافی مظلوم کے ساتھی ہیں۔ وہ نہ آئی تھیں اس لئے مجھے معلوم نہیں کہ ان میں کوئی تبدیلی آئی کہ نہیں۔ بہرحال صدر زرداری کے لئے ہماری یہ خواہش ضرور ہے کہ ان میں تبدیلی ضرور آتی تاکہ پاکستان میں بھی کوئی تبدیلی آتی۔ جیل جانے والا اور آدمی تھا۔ جیل سے آنے والا کوئی اور ہے۔ تبدیلی تو آئے گی۔ صدر زرداری لاتے تو خوشی ہوتی۔ آدمی جو اندر سے تبدیل ہو گا وہ باہر تبدیلی لے کے آئے گا۔
جیالے، صدر فاروق لغاری کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکے۔ اس نے تو اب بھی پورے زور سے کہا ہے کہ صدر زرداری کرپٹ ہے۔ اس کی بچت ہو گئی کہ اس نے نواز شریف کا نام بھی لیا ہے۔ فاروق لغاری کو کرپشن میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عدالت نے ضمانت لی تو کسی اور دفعہ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ صدر زرداری اور مخدوم گیلانی کو بھی کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ فاروق لغاری تو جاوید لغاری کا بھائی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو دو سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ کیا اب اس کا قصور ہے کہ وہ ایچ ای سی کے چیئرمین جاوید لغاری کا بھائی ہے اور وہ جعلی ڈگریوں کے معاملے میں کوئی جعلی کام نہیں کرنا چاہتا۔ جاوید لغاری کے آبائی گاﺅں پر بھی پولیس کا حملہ کرا دیا گیا ہے۔ آٹھ نو آدمی گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ ان میں گھر کے ملازم بھی شامل ہیں۔ ایک پولیس والا کہہ رہاتھا انہیں اصل ڈگریوں کا مزہ چکھاﺅ۔
جعلی ڈگریاں ن لیگ والوں کی زیادہ ہیں اور وہ اس میں اپنے نمبر بنا رہے ہیں۔ بلکہ اس سے مڈ ٹرم الیکشن یعنی اپنی باری کی امید لگا رہے ہیں۔ یہ کام خود انہوں نے شروع کیا ہے۔ پیپلز پارٹی والے خواہ مخواہ آ بیل مجھے مار کے تحت ایک غلط اور کمزور مقدمے میں وکالت اور سیاست میں فرق مٹا چکے ہیں۔ ان کا ارادہ یہ ہے کہ آ بیل میں تجھے ماروں۔ اس کے بعد بیل کی باری ہے۔ ہر حکمران سمجھتا ہے کہ میری باری کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اور دوسرا اپنی باری لینے کے لئے ہر کام کو آئینی اور سیاسی طور پر جائز سمجھتا ہے اور حکمران بن کر وہی کرتا ہے جو پہلا کر رہا تھا۔ پہلے کر کے چلے گئے۔ ہر سیاستدان پر اچھا اور برا وقت آتا ہے مگر وہ اپنا وقت دوسروں پر مسلط کرتا ہے۔
جاوید لغاری نے کہا کہ بھاگنے والا نہیں ہوں۔ اس نے مخدوم گیلانی سے وقت مانگ لیا ہے۔ جاوید لغاری پر برا وقت ہے اور مخدوم گیلانی کے پاس اچھا وقت ہے۔ لغاری صاحب نے نجانے کونسا وقت مانگا ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں مخدوم گیلانی ان سے استعفی ہی نہ مانگ لیں۔ لغاری صاحب صدر زرداری سے ملیں تو زیادہ اچھا ہے۔ جاوید لغاری ہمیشہ بے نظیر بھٹو کے اعتماد پر پورے اترے۔ یہ ایک ایشو بن جائے گا۔ فوزیہ وہاب اس حوالے سے کیا کہتی ہیں۔ کیا یہ بھی غیرمتعلق معاملہ ہے۔ کیا اس طرح جعلی ڈگریوں کا مسئلہ دب جائے گا۔ مخدوم گیلانی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے میرا تعلق بڑا اچھا ہے۔ یقین نہیں ہے تو چیف جسٹس سے پوچھ لیں۔ فوج مجھ پہ بڑا اعتماد کرتی ہے۔ اعتبار نہیں ہے تو آرمی چیف سے پوچھ لیں۔ میں چیف ایگزیکٹو ہوں۔ کوئی شک ہے تو بے شک مخدوم گیلانی سے پوچھ لیں۔ صدر زرداری کو میری بڑی ضرورت ہے۔ ضرورت پڑے تو صدر زرداری سے پوچھ لیں۔ ضروری ہے کہ یہ بات میری موجودگی میں پوچھی جائے۔
کچھ سیاستدان زیادہ ہی فنکار یعنی سیاستدان نکلے۔ ن لیگ کے طارق محمود باجوہ پی پی 170ننکانہ صاحب سے ایم پی اے ہیں۔ انہوں نے پہلے ایم اے کیا 2002ء میں پھر بی اے کیا 2006ء میں اور پھر میٹرک کیا 2007ء میں۔ انہوں نے الٹی گنتی چلا دی۔ لگتا ہے الٹی گنتی چل پڑی ہے میں ایک بار گنگا سنگھ ڈھلوں برادر عزیز ابوبکر اور علینہ ٹوانہ کے ساتھ ننکانہ صاحب گیا۔ ایک سردار صاحب نے اپنے بارے میں لطیفے سنا سنا کے ہمیں الٹا دیا۔ ہمارے یہ سردار صاحب محمود باجوہ کا لطیفہ سن لیں تو ان کی بھی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی۔ کسی محفل میں امریکی نے کہا کہ ہم چاند پر پہنچ گئے۔ روسی بولا ہم مریخ پر جائیں گے۔ سردار صاحب کہنے لگے آپاں سورج تے جاواں گے۔ کہا گیا کہ وہاں تو گرمی ہو گی۔ سردار صاجب نے جعلی ڈگری والے ممبر اسمبلی جیسے اعتماد سے کہا آپاں رات نوں سورج تے جاواں گے۔ ایک ممبر صاحب نے دو ڈگریاں خرید لیں۔ ایک 2002ء کے الیکشن کے لئے اور دوسری 2008ء کے الیکشن کے لئے۔ لوگ یہ نہ کہیں اس نے پرانی باسی ڈگری پیش کر دی ہے۔ احتیاطاً تیسری ڈگری بھی اس کے پاس ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا پتہ نہیں ہوتا۔ کب پابندی لگا دیں کب پابندی اٹھا لیں۔
عابد شیر علی کہتا ہے کہ ذوالفقار مرزا چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پر دباﺅ ڈال رہے ہیں۔ دبایا اس کے گھر والوں کو اور دباﺅ جاوید لغاری پر۔ مگر مجھے عابد شیر علی پر اعتبار نہیں۔ اس نے اپنے مخالف کو سبق سکھانے کے لئے اپنے طور پہ معاملہ شروع کیا۔ قیادت نے اسے اپنا معاملہ بنا لیا کہ شاید اس طرح مڈ ٹرم الیکشن ہو اور ہماری باری آ جائے۔ ذوالفقار مرزا نے جاوید لغاری کے آبائی گھر پر حملہ کر ا یا۔ وہ لغاری صاحب کو روکنا چاہتے ہیں۔ مخدوم گیلانی کہتے ہیں جعلی ڈگریاں معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس طرح وہ وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے حصے دار نکلے۔ ان کے خیال میں ڈگری ڈگری ہوتی ہے۔ اصلی ہو یا جعلی۔ مخدوم گیلانی کی ڈگری اصلی ہے مگر انہیں وہم ہے کہ لوگ نہیں مانیں گے۔ سب سے بڑے سیاستدان صدر زرداری ہیں کہ صدارتی الیکشن سے پہلے ڈگری کی شرط ہی ختم کروا دی۔